السلام علیکم،

ماں پھر بہن، دوست اس کے بعد بیوی اور پھر بیٹی۔
یہ وہ روپ ہیں عورت کے جن سے میں آشنا ہوا۔ ان تمام رشتوں کی صورت وہ اللہ کی رحمت ہی نظر آئی ہے، سرچشمہ رحمت۔
میں نے جتنا پڑھا دیکھا اور پرکھا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ کم از کم ہمارے معاشرے میں عورت کو انتہائی آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ اور وہ جتنی بھی ماڈرن ہو جائے پر اب بھی استحصال کا شکار ہے۔
اور کس کس طرح اس کا استحصال ہوتا رہتا ہے اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ یا اندازہ ہوتا بھی ہے تو اس کے پاس اس سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اور یہاں تک کہ وہ پابندیوں کے اندیشوں سے اپنے اوپر بِیتے اکثر مظالم چپ چاپ سہہ جاتی ہے اور کسی ہمدرد کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو پاتی۔

اسکول کالج میں رویے۔ بسوں، ویگنوں اور دوسرے پبلک مقامات پر ہونے والے سلوک، اور کتنے ہی ایسے واقعات پڑھنے اور سننے کو ملے جن میں گھر سے ہی کوئی عزیز تر رشتہ استحصال کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے خواہ وہ جنسی استحصال ہو یا معاشی یا معاشرتی۔

بحثیتِ بھائی میں نے دیکھا کہ بہن ڈرتی ہے شکایت لگاتے کہ بھائی اور ابو ایک دم سے غصہ میں آجاتے ہیں اگر بہن یا بیٹی کسی کے رویے کی شکایت ان سے کریں۔ اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ وہ غلط برتاؤ کرنے والے کو تو کچھ نہیں کہہ سکتے اس وقت بس بدلے میں بیچاری بہن یا بیٹی کو ہی سننی پڑتی ہیں اور پھر پابندیاں بھی کبھی کبھی لگ جاتی ہیں کہ اب کیا کر سکتے ہیں کمینگی بڑھتی جا رہی ہے معاشرے میں بس چھوڑ دو ٹیوشن، کالج یا اکیڈمی وغیرہ۔

یہی حال بیچاری کے ساتھ ٹرانسپورٹ یا بازار میں پیش آنے والے واقعات میں ہوتا ہے اکثر بیویاں بھی اپنے شوہروں سے ایسے واقعات چھپا لیتی ہیں۔ وجہ صرف یہی کہ قصور وار تو سامنے ہوتا نہیں بے عزتی ان کی ہی ہونی ہے۔

پھر کچھ ایسے واقعات بھی سننے اور پڑھنے کو ملے جس میں کسی کزن، عزیز یہاں تک کہ بھائیوں، چچاؤں اور ماموؤں تک نے بیحرمتی کی ہوتی ہے پر وہ کسی سے کہہ نہیں پاتی کچھ نا سمجھی کی وجہ سے اور کچھ ڈر کی وجہ سے اور کچھ یقین نہ کیئے جانے کی وجہ سے۔

وجہ صرف اور صرف عدم تحفظ ہے، کہ بہت طاقت ہے تو اس کے لیئے اسٹینڈ لیا جائے گا ورنہ چپ اور پابندیاں۔

میرے ذہن میں ایک سوال گونجا کہ مرد اگر جاگیر سمجھ کر اونر شپ رکھے گا تو یہ مسئلے کبھی حل نہیں ہوں گے اور یہ خلیج رہے گی۔

اس کا آغاز میں نے کچھ اس طرح کیا کہ سب سے پہلے اپنی بیوی کی ہمت بندھائی کہ وہ اپنے پرابلمز مجھ سے بحثیتِ دوست کے بھی شئیر کر سکے۔ اور پھر میں نے اسے کچھ اختیارات بھی سونپے اور ان کا نتیجہ میں نے ایک دن اپنے سامنے دیکھا جب ایک وین میں اسے لگا کہ کسی نے پچھلی سیٹ سے اسے چھیڑا اور وہ عورت جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنسو بہاتی تھی گھومی اور اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے ایک زناٹے دار تھپڑ رکھ کر دیا پچھلی سیٹ پر بیٹھے واحد لڑکے کو۔ اور میرے منہ سے نکلا زبردست۔ (عزت داروں سے معذرت، اگر اسے بے عزتی سمجھیں تو) اور میں نے گھر آکر بھی اسے داد دی۔

میں آج کل ان خطوط پر سوچ رہا ہوں کہ استحصالی خطرات کی آگاہی کا کون سا طریقہ اختیار کروں یا رائج کروں۔
میری ایک بیٹی 5 سال کی اور ایک 4 سال کی ہے، اور میں سوچ میں ہوں کہ کیا طریقہ اختیار کروں کہ بیٹیوں کو یہ شعور اور تعلیم دے سکوں کہ ہر پیار کرنے والا باپ، نانا یا دادا ایسی سوچ نہیں رکھتا۔

گھر کے اندر اگر اسے کسی سے خطرہ ہو تو وہ بے خطر کسی سے کہہ سکیں۔
باہر ہو کوئی مسئلہ تو وہ خود کو قصور وار سمجھے بغیر مدد کے لیئے کہہ سکیں۔
وہ کوئی بات چھپائیں نہ بلکہ شئیر کرنے میں بہتری محسوس کریں۔
وہ فخر سے بتائیں کہ ان کے کون کون سے دوست ہیں۔ اور اپنا حلقہ احباب بتانے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہو۔
اب وقت یہ نہیں رہا کہ ایسا کہا جائے کہ بیٹیاں آج یا کل دوست نہیں رکھ سکتں اور اجازت نہیں۔ ان کو فون نہیں آ سکتے اور یہ اور وہ۔ یہ سب کچھ نہیں ہوتا ہو گا پر صرف آپ کے سامنے ۔
ضرورت اس امر کی محسوس کر رہا ہوں کہ وہ چھپ چھپا کر دوستیاں کرنے کے بجائے ہمیں شامل حال رکھیں اپنی خوشی سے ایسا رویہ اپنانا ہو گا۔

میں سوچ رہا تھا کہ مینا کی کہانی جیسی کچھ کہانیاں ترتیب دوں کچھ انیمیٹڈ مویز بناؤں تاکہ استحصالی خطرات سے آگاہی اور تحفظ کی تعلیم بھی عام کی جا سکے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس سلسلے میں مرحومہ انیقہ ناز صاحبہ نے اپنے بلاگ پر بہت اچھی تحریر لکھی تھی۔ ہو سکے تو گوگل کر لیجئے گا یا پھر عثمان لنک بتا سکیں شاید کہ وہ عثمان بھائی کی استانی بھی تھیں
 
بالکل یہی سوچ میری ہے اس معاملے میں اور مین ابھی تک کامیاب ہوں :notworthy:
بہت زبردست۔
میرا تصور ہے کہ میری بیٹی کالج میں پڑھتی ہے اور اس کا سیل فون بجتا ہے اور وہ بِزی ہونے کی وجہ سے کہتی ہے بابا کس کا فون ہے آپ دیکھ لیں میں فلاں کام کر رہی ہوں۔ بجائے اس کے کہ وہ سائلِنٹ پہ لگا کر رکھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ۔کوئی میسج نا پڑھ لے وغیرہ وغیرہ۔
 

عسکری

معطل
بہت زبردست۔
میرا تصور ہے کہ میری بیٹی کالج میں پڑھتی ہے اور اس کا سیل فون بجتا ہے اور وہ بِزی ہونے کی وجہ سے کہتی ہے بابا کس کا فون ہے آپ دیکھ لیں میں فلاں کام کر رہی ہوں۔ بجائے اس کے کہ وہ سائلِنٹ پہ لگا کر رکھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ۔کوئی میسج نا پڑھ لے وغیرہ وغیرہ۔
جی یہ خول توڑ کر انہیں ہم نے ہی باہر لانا ہے اگر ہم ان کے ساتھ ہوں ان پر رعب جھارنے پابندیاں لگانے کی بجائے ان کے مسائل میں ساتھ بنیں ان کو کونفیڈنس دیں تو یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں بات صرف اپنی انا اور مردانگی شو کرنے سے باہر نکلنے کی ہے جناب ۔

معاملہ بالکل ویلائنٹائن ڈے کی طرح ہے
اگر کسی لڑکے سے پوچھو اپنی گرل فرینڈ کو کیا گفٹ دیا تو ایک گھنٹہ تک بتائے گا پوری سٹوری
پر اگر کہو تمھاری سسٹر کو کیا گفٹ ملا تو غصہ ہو جائے گا :grin:
 

نایاب

لائبریرین
بلا شک درست لکھا کہ محترم امجد بھائی
یہ " باپ بھائیوں " کی ہی ذمہداری ہے کہ وہ بہن بیٹیوں کو زمانے کے سرد و گرم سے آگاہ کرتے ان میں اعتماد پیدا کریں ۔
تاکہ بہن بیٹیوں کو " باپ اور بھائی " کے بےجا رعب کے باعث اپنے مسائل کے حل و بیان کے لیئے کوئی غیر تلاشنا ہی نہ پڑے ۔
بہترین دوستی بھی " ادب و احترام " کے ہمراہ اعتماد پر استوار ہوتی ہے ۔
 

عثمان

محفلین
اس سلسلے میں مرحومہ انیقہ ناز صاحبہ نے اپنے بلاگ پر بہت اچھی تحریر لکھی تھی۔ ہو سکے تو گوگل کر لیجئے گا یا پھر عثمان لنک بتا سکیں شاید کہ وہ عثمان بھائی کی استانی بھی تھیں
مرحومہ عنیقہ ناز کے بلاگ پر حقوق نسواں کے ضمن میں بہت سی تحاریر دستیاب ہیں۔ :)
 
بلا شک درست لکھا کہ محترم امجد بھائی
یہ " باپ بھائیوں " کی ہی ذمہداری ہے کہ وہ بہن بیٹیوں کو زمانے کے سرد و گرم سے آگاہ کرتے ان میں اعتماد پیدا کریں ۔
تاکہ بہن بیٹیوں کو " باپ اور بھائی " کے بےجا رعب کے باعث اپنے مسائل کے حل و بیان کے لیئے کوئی غیر تلاشنا ہی نہ پڑے ۔
بہترین دوستی بھی " ادب و احترام " کے ہمراہ اعتماد پر استوار ہوتی ہے ۔
ماشاء اللہ آپ کی رائے اچھی لگی۔۔
 
جی یہ خول توڑ کر انہیں ہم نے ہی باہر لانا ہے اگر ہم ان کے ساتھ ہوں ان پر رعب جھارنے پابندیاں لگانے کی بجائے ان کے مسائل میں ساتھ بنیں ان کو کونفیڈنس دیں تو یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں بات صرف اپنی انا اور مردانگی شو کرنے سے باہر نکلنے کی ہے جناب ۔

معاملہ بالکل ویلائنٹائن ڈے کی طرح ہے
اگر کسی لڑکے سے پوچھو اپنی گرل فرینڈ کو کیا گفٹ دیا تو ایک گھنٹہ تک بتائے گا پوری سٹوری
پر اگر کہو تمھاری سسٹر کو کیا گفٹ ملا تو غصہ ہو جائے گا :grin:
بلا شک درست لکھا کہ محترم امجد بھائی
یہ " باپ بھائیوں " کی ہی ذمہداری ہے کہ وہ بہن بیٹیوں کو زمانے کے سرد و گرم سے آگاہ کرتے ان میں اعتماد پیدا کریں ۔
تاکہ بہن بیٹیوں کو " باپ اور بھائی " کے بےجا رعب کے باعث اپنے مسائل کے حل و بیان کے لیئے کوئی غیر تلاشنا ہی نہ پڑے ۔
بہترین دوستی بھی " ادب و احترام " کے ہمراہ اعتماد پر استوار ہوتی ہے ۔

میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں، پر مشکل یہ ہے کہ اکثریت ایک تو ایسا نہیں سمجھتی، وہ بہنوں بیٹیوں سے محبت تو کرتے ہیں لیکن قریب نہیں۔ اور اگر قریب بھی ہیں تو ایسی باتیں کہ بچیاں سمجھ سکیں خاص طور پر چھوٹی عمر میں وہ ان سے نہیں کرسکتے۔ میں نے بھی ابھی سوچا ہے کوئی لائحہ عمل نہیں میرے پاس ، اس لیئے کہہ رہا تھا کہ انیمیٹڈ کہانیوں اور کتابی اور تصویری کہانیوں کے ذریعے بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی انہیں۔
آپ نے "بول" فلم میں بچے کے ٹیوٹر کا کردار دیکھا؟ اور جس طرح اس بچے کی بہن اسے سمجھا رہی ہوتی ہے، بس ویسے ہی کسی طرح ایسا شعور اور آگاہی دی جا سکے بچیوں کو۔
 
میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں، پر مشکل یہ ہے کہ اکثریت ایک تو ایسا نہیں سمجھتی، وہ بہنوں بیٹیوں سے محبت تو کرتے ہیں لیکن قریب نہیں۔ اور اگر قریب بھی ہیں تو ایسی باتیں کہ بچیاں سمجھ سکیں خاص طور پر چھوٹی عمر میں وہ ان سے نہیں کرسکتے۔ میں نے بھی ابھی سوچا ہے کوئی لائحہ عمل نہیں میرے پاس ، اس لیئے کہہ رہا تھا کہ انیمیٹڈ کہانیوں اور کتابی اور تصویری کہانیوں کے ذریعے بات آسانی سے سمجھ آ جائے گی انہیں۔
آپ نے "بول" فلم میں بچے کے ٹیوٹر کا کردار دیکھا؟ اور جس طرح اس بچے کی بہن اسے سمجھا رہی ہوتی ہے، بس ویسے ہی کسی طرح ایسا شعور اور آگاہی دی جا سکے بچیوں کو۔
ماشاء اللہ آپ نے کسی حد تک اچھا لکھا۔ ایک بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ کہ ہم مسلمان ہیں ہمارے پاس تمام تہذیب عالم سے بہتر بلکہ بہترین تہذیب ہے۔ ہمیں کچھ اچھا حاصل کرنے کے لیے فلموں کا سہارا لینے کی قطعا ضرورت نہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اور احادیث میں سب کچھ ہے۔ راہنمائی کے لیے کسی مستند عالم دین سے رجوع بھی کیا جاسکتا ہے۔
 
ماشاء اللہ آپ نے کسی حد تک اچھا لکھا۔ ایک بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ کہ ہم مسلمان ہیں ہمارے پاس تمام تہذیب عالم سے بہتر بلکہ بہترین تہذیب ہے۔ ہمیں کچھ اچھا حاصل کرنے کے لیے فلموں کا سہارا لینے کی قطعا ضرورت نہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں اور احادیث میں سب کچھ ہے۔ راہنمائی کے لیے کسی مستند عالم دین سے رجوع بھی کیا جاسکتا ہے۔
بہت شکریہ جناب، ویڈیو اور تصویری کہانیوں کے ذریعے اس لیئے کہا کہ آج کل بچوں کے ذہنوں میں کوئی چیز بٹھانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہیں یہ۔
 
بہت شکریہ جناب، ویڈیو اور تصویری کہانیوں کے ذریعے اس لیئے کہا کہ آج کل بچوں کے ذہنوں میں کوئی چیز بٹھانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہیں یہ۔
آپ کا یہ مقصد اسلامی تعلیمات کی حدود کے اندر رہتے ہوئے پورا ہو سکتا ہے۔ ایم۔آئی۔ایس ایک کراچی کا ادارہ ہے یہ بچوں کے لیے اسلامی آداب پر مشتمل بڑی دلچسپ کیسٹ کہانیاں بناتا ہے۔ شاید یہ بہترین معاون ہو سکے
 
آپ کا یہ مقصد اسلامی تعلیمات کی حدود کے اندر رہتے ہوئے پورا ہو سکتا ہے۔ ایم۔آئی۔ایس ایک کراچی کا ادارہ ہے یہ بچوں کے لیے اسلامی آداب پر مشتمل بڑی دلچسپ کیسٹ کہانیاں بناتا ہے۔ شاید یہ بہترین معاون ہو سکے
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمارے مذہب کو ایک اور لحاظ سے بھی بالکل الگ کر دیا گیا ہے کہ اس میں نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی شروع میں حرام، شیطان کے آلات اور پھر 8 ، 10 سال بعد بلحاظِ ضرورت، مجبوری اور پھر حلال ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی کو باقی دنیا کے ساتھ مل کر جب پرکھنے اور سمجھنے کا دور ہوتا ہے وہ ہم سے محض مولوی کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے دور ہوتی ہے، اور جب پرکھنے کے بعد اور اس کی افادیت کھل کر سامنے آنے کے بعد زمانہ اس میں مہارت حاصل کرنے لگتاہے تو ہمارے ہاں کچھ مولوی ہی چھپ چھپ کر وہ شیطانی چرخے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کے عادی ہونے کے بعد امرِ مجبوری کے تحت اس کے استعمال کا سرٹیفیکیٹ ملتا ہے۔
میں نے کچھ اجتہاد اجتہاد پڑھا تھاکبھی، مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ کون سی نئی اختراع ، فن، ٹیکنالوجی، ایجاد یا مسئلہ پر اس اہم فریضہ سے استفادہ کیا گیا؟

عسکری ، قیصرانی ، نایاب عثمان، نبیل شمشاد بھائی آپ حضرات سے بھی رائے کی درخواست ہے۔
 

عسکری

معطل
کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ہمارے مذہب کو ایک اور لحاظ سے بھی بالکل الگ کر دیا گیا ہے کہ اس میں نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی شروع میں حرام، شیطان کے آلات اور پھر 8 ، 10 سال بعد بلحاظِ ضرورت، مجبوری اور پھر حلال ہو جاتی ہیں۔ کسی بھی نئی ایجاد یا ٹیکنالوجی کو باقی دنیا کے ساتھ مل کر جب پرکھنے اور سمجھنے کا دور ہوتا ہے وہ ہم سے محض مولوی کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے دور ہوتی ہے، اور جب پرکھنے کے بعد اور اس کی افادیت کھل کر سامنے آنے کے بعد زمانہ اس میں مہارت حاصل کرنے لگتاہے تو ہمارے ہاں کچھ مولوی ہی چھپ چھپ کر وہ شیطانی چرخے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کے عادی ہونے کے بعد امرِ مجبوری کے تحت اس کے استعمال کا سرٹیفیکیٹ ملتا ہے۔
میں نے کچھ اجتہاد اجتہاد پڑھا تھاکبھی، مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ کون سی نئی اختراع ، فن، ٹیکنالوجی، ایجاد یا مسئلہ پر اس اہم فریضہ سے استفادہ کیا گیا؟

عسکری ، قیصرانی ، نایاب عثمان، نبیل شمشاد بھائی آپ حضرات سے بھی رائے کی درخواست ہے۔
ہم نے تو مذہب سے ہاتھ دھو لیے ہم سے کیسی رائے یار :grin: ہمارا نعرہ تو وہی ہے دین ملا فی سبیل اللہ فساد :mrgreen: اور اجتہاد کے دروازے بند کر کے ہی مسلمانوں کا یہ حال ہوا ہے اب صرف اماموں کو مانا جا سکتا ہے تقلید کے طور پر اجتہاد کا دروازہ بند ہے ۔ حنفی شافعی حنبلی مالکی ایک راستا چن لیں
 
Top