طارق شاہ
محفلین

فانی بدایونی
بیداد کے خُوگر تھے، فریاد تو کیا کرتے !
کرتے، تو ہم اپنا ہی، کچھ تم سے گلہ کرتے
تقدیرِ محبّت تھی، مر مر کے جئے جانا
جینا ہی مُقدّر تھا، ہم مر کے بھی کیا کرتے
مُہلت نہ مِلی غم سے، اتنی بھی کہ حال اپنا !
ہم آپ کہا کرتے، ہم آپ سُنا کرتے
نادم اُسے چاہا تھا ، جاں اُس پہ فِدا کرکے
تدبیر تو اچھّی تھی تقدیر کا کیا کرتے
احباب سے کیا کہیے، اِتنا نہ ہُوا فانی
جب ذکر مِرا آتا مرنے کی دُعا کرتے
شوکت علی خان فانی بدایونی