سید عمران

محفلین
اس وقت ہم کسی بھی رُخ سے ایک مہذب قوم نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ منفی تبدیلی کے اس مرحلے میں ہے جس میں ہم تین میں ہیں نہ تیرہ میں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً مفید سرگرمیاں مفقود ہوگئیں جیسے صحتمندانہ کھیلوں کا انعقاد، لائبریریوں کا وجود، ادبی اور علمی محافل، دینی مجالس، آپس میں مل بیٹھ کر اچھے موضوعات پر تبادلۂ خیالات وغیرہ۔ چند برس قبل تک محلے کے بزرگ نوجوانوں کی تربیت پر گہری نگاہ رکھتے تھے، ان کے دلوں میں گھر کے افراد کے ساتھ ساتھ محلے کے بزرگوں کا ڈر بھی رہتا تھا، کوئی محفل ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں بزرگ اور نوجوان ایک ساتھ بیٹھ کر تعمیری گفتگو نہ کرتے ہوں۔اس کے علاوہ اساتذہ کا کردار بھی تربیت میں مددگار ثابت ہوتا تھا۔

آج ہماری اخلاقیات کی ابتری کا یہ حال ہے کہ بلامقصد اونچی آواز میں غیر مہذبانہ گفتگو کرتے ہیں یہاں تک کہ سڑک پر موٹر سائیکل اور کار سوار بھی اسی طرح گفتگو کرتے ہیں جو سنگین حادثات کا باعث بنتی ہے۔ یہ شور شرابا انسانی اعصاب کو متاثر کرکے چڑچڑے پن اور عدم برداشت کا سبب بنتا ہے۔ہر سال اس شور شرابے اور عدم برداشت کا گراف بڑھ رہا ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس بے ہنگم شور کو ’’ماحولیاتی آلودگی“قرار دے کر اس کے خلاف باقاعدہ مہم چلاتے ہیں۔ اسی لیے ان ممالک کے ہسپتالوں، درس گاہوں اور رہائشی علاقوں کے قریب بلاوجہ ہارن بجانے پر پابندی ہے، جبکہ ہمارے یہاں جن جگہوں پر ہارن بجانے کی پابندی ہے سب سے زیادہ ہارن ان ہی علاقوں میں بجتے ہیں، اسی طرح جہاں تھوکنا منع ہے وہیں زیادہ تھوکتے ہیں،جہاں کوڑا پھینکنے پر پابندی ہو وہاں کوڑے کاڈھیر لگا ہوتا ہے، کچرے کے ڈبے اندر سے خالی ہوتے ہیں اور اُن کے باہر کوڑے کا ڈھیر لگا ہوتا ہے۔یہ ہے ہماری معاشرتی زندگی کی تربیت کا فقدان کہ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے منع کیا جائے۔

کسی بھی معاشرے کی بہترین عکاس وہاں کی سڑکیں ہوتی ہیں۔ چوں کہ معاشرہ کا ہر فرد سٹرک پر آتا ہے چناں چہ اُس معاشرے کا مزاج اور رویہ بھی سڑکوں پر نظر آتا ہے۔تہذیب یافتہ معاشرہ کی سٹرکوں پر گاڑیاں اپنی اپنی لین میں نظر آتی ہیں، ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا، دوسروں کو عزت دینا، بزرگ شہریوں کو اوّلیت دینا، سڑک پار کرنے والے پیدل افراد اور ایمبولینس کو راستہ دینا فرض تصور کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس ہمارے یہاں سڑکوں پر لوگ سائلینسر نکال کر ایک پہیے پر یا آڑی ترچھی موٹر سائیکل چلائیں گے،گاڑی کا ہارن زور زور سے بجائیں گے، دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں ٹریفک جام کریں گے،سرعام دوسروں سے بدتمیزی کریں گے، کبھی اپنی غلطی نہیں مانیں گے، بزرگوں کا احترام نہیں کریں گے، ایمبولینس لاکھ سائرن دے ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔

دنیا بھر میں دیانت داری کو خاص اہمیت حاصل ہے جبکہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کاروبار کی بات کریں تو ملاوٹ ، دھوکہ، فریب اور جعل سازی ہماری پہچان بن چکی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اہم قومی مواقع پر اشیاء کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں اور ہمارے یہاں رمضان سے قبل ذخیرہ اندوزی شروع ہو جاتی ہے تاکہ رمضان میں ناجائز منافع خوری کی جاسکے۔طبی میدان کی بات کریں تو معالج مسیحا نہیں پیشہ ور قصاب ہیں جو اذیت میں مبتلا شخص کا خون تک نچوڑ لیتے ہیں اور مریضوں کو تڑپتا چھوڑ کر احتجاج میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

ہم اپنی غلطیوں کی ذمہ داری دوسروں کے سر ڈالتے ہیں۔ معاشرتی اور اخلاقی بدحالی کی ذمہ داری بزرگ نئی نسل پرڈال دیتے ہیں،اُن کے بقول نئی نسل اخلاقیات اور تہذیب سے عاری ہے۔ حالاں کہ اس بگاڑ کے اصل ذمہ دار یہی بڑے ہیں۔ اگر والدین اپنی اولاد کو اخلاقیات کی تربیت دیں اور انہیں برے لوگوں کی صحبت سے بچا کر رکھیں تو ان کے بگڑنے کے امکانات نہایت کم ہوجائیں گے۔ بد قسمتی سے آج کی مائیں بچے کی تربیت پر توجہ دینے کے بجائے ٹی وی ڈراموں، سوشل میڈیا اور سوشل پارٹیز پر زیادہ توجہ دیتی ہیں جبکہ باپ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے بچوں سے دور ہوگئے۔

محض چند برس قبل ہمیں جو تہذیبی روایات نظر آتی تھیں وہ اب دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں۔ اساتذہ جو اپنے طلباء پر انفرادی توجہ دیتےتھے اب ان کی کردار سازی سے بے زار ہیں۔ اس وقت تعلیم کا مقصد کردار سازی کی بجائے صرف ڈگری اور اعلیٰ ملازمت کا حصول رہ گیا ہے اور اس شعبے میں بھی کمرشل ازم آگیا ہے۔ اب اساتذہ کردار سازی کی بجائے دولت کمانے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کرتے ہیں۔

ہمارے نوجوانوں کے پاس تعلیمی ڈگری تو ہے مگر اعلیٰ کردار نہیں۔ جب ہم بچے کے ذہن میں یہ بٹھائیں گے کہ عہدے والے کی عزت ہے، پیسے والے کی عزت ہے، بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والے کی عزت ہے تو اس نسل سے یہ امید کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ باکردار ہوگی؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے کردار والوں کو سامنے لایا جائے۔ جب تک ہم یہ نہیں سمجھیں گے کہ اعلیٰ کردار والا کتنی عزت والا ہوتا ہے ہم کبھی اعلیٰ کردار والے نہیں بنیں گے۔اس کے لیے سب سے پہلے ہم خود کو مثالی کردار بنائیں اور اچھے کردار والوں کی عزت کریں، ان کے کثرت سے تذکرے کریں۔ نوجوان نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاق اور کردار کی تربیت دینے کی بھی بھرپور کوشش کریں تبھی معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لیے نوجوانوں کی نفسیات کو مدنظر رکھا جائے، طالب علموں کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مفید غیر نصابی سرگرمیوں میں اتنا مشغول رکھیں کہ وہ منفی سرگرمیوں یا وقت کے ضیاع سے بچیں اور ان کے اخلاق و کردار کی بہتر انداز میں تشکیل ہو۔اس کے لیے علاوہ انہیں اسلام کی صحیح روح سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ انہیں دنیا کے موجودہ تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اگر شروع ہی سے نوجوانوں کی اخلاقی سوچ کو بہتر بنایا جائے تو بڑے ہوکر یہی اچھا معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں گے۔

ہر قوم کی اصل قوت اس کا اخلاق اور کردار ہے اسی لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کے بارے میں فرمایا کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔قرآن و حدیث کی روشنی میں آپ مجموعی اور انفرادی دونوں سطح پر اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم کیسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں اور مستقبل میں اس کے کیسے خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس جائزے کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی اپنی جگہ پر اپنا کرادر ادا کرے اور پاکستان کی تعمیر وترقی کے لیے متحرک ہو۔

اس وقت ہمارے اندر وہ تمام عادات پائی جاتی ہیں جو غیر مہذہب اقوام کی پہچان ہوتی ہیں۔ ہم تہذیب یافتہ اقوام سے کچھ بھی نہیں سیکھ سکے۔دیکھا جائے تو اسلام نے ہمیں جو طرز زندگی سکھایا ہے وہ مہذب اقوام اپنا چکی ہیں۔ اگر ہم بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزاریں اور دوسروں سے ویسا ہی برتاوٴ کریں جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا کی بہترین تہذیب یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔

اصل تربیت وہی ہے جو اپنے عمل سے اپنے چھوٹوں کو سِکھائی جائے اور وہ تب ہی ممکن ہوگا جب آپ کا اپنا کردار اچھا ہوگا!!!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس کے برعکس ہمارے یہاں سڑکوں پر لوگ سائلینسر نکال کر ایک پہیے پر یا آڑی ترچھی موٹر سائیکل چلائیں گے،گاڑی کا ہارن زور زور سے بجائیں گے، دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں ٹریفک جام کریں گے،سرعام دوسروں سے بدتمیزی کریں گے، کبھی اپنی غلطی نہیں مانیں گے، بزرگوں کا احترام نہیں کریں گے، ایمبولینس لاکھ سائرن دے ٹس سے مس نہیں ہوں گے۔
اکثریت کا ایمان ہے کہ اگر آپ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں تو زور زور سے ہارن مارنے سے آگے ساری گاڑیاں غائب ہوجائیں گی اور راستہ کھل جائے گا۔

مثلاً مفید سرگرمیاں مفقود ہوگئیں جیسے صحتمندانہ کھیلوں کا انعقاد، لائبریریوں کا وجود، ادبی اور علمی محافل، دینی مجالس، آپس میں مل بیٹھ کر اچھے موضوعات پر تبادلۂ خیالات وغیرہ۔
صحتمندانہ کھیلوں کے انعقاد سے کیا مراد ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ میرے بچپن میں بھی باقاعدہ کھیلوں کا انعقاد تو شاذ ہی ہوا کرتا تھا۔ ہاں ہم لڑکے مل جل کر کھیلا کرتے تھے۔ تو اب نئے زمانے کے کھیل ہی زیادہ تر موبائل پر محدود ہوگئے ہیں۔ اس میں ایک بڑا قصور ان والدین کا بھی ہے جو اپنے بچوں کو بہلانے کی خاطر موبائل تھما دیتے ہیں۔ باقی رہی لائبریریز اور کتب بینی کا مشغلہ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اپنے انجام کی طرف جاتا نظر آرہا تھا۔ لیکن ایسا نہیں کہ لوگ کتابیں پڑھنا چھوڑ گئے۔ پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کنڈل اور اس جیسے دوسرے متبادل پر منقتل ہوگئی ہے۔ علمی و دینی مجالس سے تو سوشل میڈیا نے بیزار کر دیا ہے۔ ہاں باقی اس بات سے متفق ہوں کہ بڑوں اور چھوٹوں کی جو باہمی مجالس تھیں وہ نایاب ہوگئی ہیں۔

ہمارے نوجوانوں کے پاس تعلیمی ڈگری تو ہے مگر اعلیٰ کردار نہیں۔ جب ہم بچے کے ذہن میں یہ بٹھائیں گے کہ عہدے والے کی عزت ہے، پیسے والے کی عزت ہے، بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والے کی عزت ہے تو اس نسل سے یہ امید کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ باکردار ہوگی؟
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تربیت کی ضرورت آنے والی نسل کو نہیں موجودہ نسل کو ہے۔ اور اگر موجودہ نسل میں تربیتی کے نقائص ہیں تو اس کا سہرا ہمارے اسلاف کے سر جاتا ہے جن کے متعلق بات کرنا احترام سے خارج تصور ہوگا۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کے لیے نوجوانوں کی نفسیات کو مدنظر رکھا جائے، طالب علموں کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مفید غیر نصابی سرگرمیوں میں اتنا مشغول رکھیں کہ وہ منفی سرگرمیوں یا وقت کے ضیاع سے بچیں اور ان کے اخلاق و کردار کی بہتر انداز میں تشکیل ہو۔
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ فقط باتیں تو ہم مدتوں سے کر رہے ہیں۔ بہترین اخلاق و کردار کی تشکیل کے لیے کیا آسمان سے کوئی اترے گا؟ یہ تو انفرادی سطح پر سمجھے جانے کی چیز ہے جس کا پرچار عمل سے تو کیا جا سکتا ہے لیکن لفاظی سے نہیں۔

ہم تہذیب یافتہ اقوام سے کچھ بھی نہیں سیکھ سکے۔دیکھا جائے تو اسلام نے ہمیں جو طرز زندگی سکھایا ہے وہ مہذب اقوام اپنا چکی ہیں۔
میں اس سطر سے کلی طور پر غیر متفق ہوں۔ معاشرت ادھار نہیں لی جا سکتی۔ اور سماجی و معاشرتی اقدار صدیوں سفر کرتی ہیں۔ لہذا نظام حیات اسلامی بھی رہے تو اس میں مقامی اقدار کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہے گی۔ یہ بذات خود ایک طویل موضوع ہے۔ جس پر مجھ جیسا کم علم لکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔

اصل تربیت وہی ہے جو اپنے عمل سے اپنے چھوٹوں کو سِکھائی جائے اور وہ تب ہی ممکن ہوگا جب آپ کا اپنا کردار اچھا ہوگا!!!
خوبصورت بات۔۔۔۔ صد ہزار متفق

بہت عمدہ تحریر ہے سید عمران صاحب۔ معاشرتی رویوں کے قریباً تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہوئی۔ بہت نوازش۔
 

سید عمران

محفلین
اکثریت کا ایمان ہے کہ اگر آپ ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں تو زور زور سے ہارن مارنے سے آگے ساری گاڑیاں غائب ہوجائیں گی اور راستہ کھل جائے گا۔
آپ نے جس انداز سے بات کہی اسے پڑھ کر بےساختہ ہنسی آگئی۔۔۔
لیکن حقیقت میں غصہ آتا ہے جب کوئی ٹریفک جام میں ہارن بجاتا ہے۔۔۔
کبھی اس سے پوچھ بھی لیتے ہیں کہ آپ کے ہارن بجانے سے کیا ٹریفک کھل جائے گی؟؟؟
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
۱) صحتمندانہ کھیلوں کے انعقاد سے کیا مراد ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ میرے بچپن میں بھی باقاعدہ کھیلوں کا انعقاد تو شاذ ہی ہوا کرتا تھا۔
۲) ہاں ہم لڑکے مل جل کر کھیلا کرتے تھے۔
۳)تو اب نئے زمانے کے کھیل ہی زیادہ تر موبائل پر محدود ہوگئے ہیں۔
اس میں ایک بڑا قصور ان والدین کا بھی ہے جو اپنے بچوں کو بہلانے کی خاطر موبائل تھما دیتے ہیں۔
باقی رہی لائبریریز اور کتب بینی کا مشغلہ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اپنے انجام کی طرف جاتا نظر آرہا تھا۔ لیکن ایسا نہیں کہ لوگ کتابیں پڑھنا چھوڑ گئے۔ پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کنڈل اور اس جیسے دوسرے متبادل پر منقتل ہوگئی ہے۔ علمی و دینی مجالس سے تو سوشل میڈیا نے بیزار کر دیا ہے۔ ہاں باقی اس بات سے متفق ہوں کہ بڑوں اور چھوٹوں کی جو باہمی مجالس تھیں وہ نایاب ہوگئی ہیں۔
۱) ہمارے اسکول میں زیادہ اور کالج میں کم ،اکثر و بیشتر مختلف کھیلوں، بیت بازی، تقاریر، اسکاؤٹنگ وغیرہ کا انعقاد ہوتا رہتا تھا۔۔۔
تقریباً ہر مہینے دو مہینے بعد کوئی نہ کوئی سرگرمی رہتی تھی۔۔۔
اس کے زیر اثر ہم نے جس دفتر میں بھی کام کیا، کچھ نہ کچھ مساعی کرکے انتظامیہ سے اس طرح کی سرگرمیاں کروالیتے تھے۔۔۔
۲) شام کے اوقات میں روزانہ محلے کے دوستوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھیل کود ہو جاتا تھا۔۔۔
۳) حقیقی صورتِ حال بیان کی ہے آپ نے!!!
 
آخری تدوین:
میں اس سطر سے کلی طور پر غیر متفق ہوں۔ معاشرت ادھار نہیں لی جا سکتی۔ اور سماجی و معاشرتی اقدار صدیوں سفر کرتی ہیں۔ لہذا نظام حیات اسلامی بھی رہے تو اس میں مقامی اقدار کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہے گی۔ یہ بذات خود ایک طویل موضوع ہے۔ جس پر مجھ جیسا کم علم لکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔
آپ کی اور سید عمران بھائی کی بات کو یوں اکٹھا کیا جاسکتا ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ معاشروں نے رفتہ رفتہ تہذیب کی ان باتوں کو اپنا لیا جس کی تعلیم کئی سو سال پہلے ہمیں اسلام نے دی تھی ۔
 

سید عمران

محفلین
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تربیت کی ضرورت آنے والی نسل کو نہیں موجودہ نسل کو ہے۔ اور اگر موجودہ نسل میں تربیتی کے نقائص ہیں تو اس کا سہرا ہمارے اسلاف کے سر جاتا ہے جن کے متعلق بات کرنا احترام سے خارج تصور ہوگا۔
ہمیں جہاں موقع ملتا ہے یہی رونا روتے ہیں۔۔۔
ہر نسل کی تربیت کی خرابی کی ذمہ دار اس سے پہلے والی نسل پر ہوتی ہے۔۔۔
ہمارے بچپن میں محلے کے بزرگ یا خاندان کے بڑے ہر وقت ہماری ’’خدمت‘‘ کے لیے تیار بیٹھے رہتے تھے۔۔۔
جبکہ آج کے بچوں کو ان کے سگے رشتے دار چاچا خالہ وغیرہ ہی کچھ سمجھادیں تو ماں باپ کو ’’انسلٹ فیل‘‘ ہوجاتی ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ فقط باتیں تو ہم مدتوں سے کر رہے ہیں۔ بہترین اخلاق و کردار کی تشکیل کے لیے کیا آسمان سے کوئی اترے گا؟ یہ تو انفرادی سطح پر سمجھے جانے کی چیز ہے جس کا پرچار عمل سے تو کیا جا سکتا ہے لیکن لفاظی سے نہیں۔
ہمیں تو جس پلیٹ فارم پر موقع ملتا ہے کردار سازی اور اخلاق کی بہتری کی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
بے شک عملی طور پر آپ کے کردار کا کردار بہت اہم ہے لیکن۔۔۔
ذہن سازی کے لیے الفاظ بھی استعمال کرنے پڑتے ہیں۔۔۔
نتائج کی پروا کیے بغیر ہم جو کرسکتے ہیں وہ تو ضرور کرتے رہنا چاہیے!!!
 

سید عمران

محفلین
میں اس سطر سے کلی طور پر غیر متفق ہوں۔ معاشرت ادھار نہیں لی جا سکتی۔ اور سماجی و معاشرتی اقدار صدیوں سفر کرتی ہیں۔ لہذا نظام حیات اسلامی بھی رہے تو اس میں مقامی اقدار کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہے گی۔ یہ بذات خود ایک طویل موضوع ہے۔ جس پر مجھ جیسا کم علم لکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس رنگا رنگ معاشرت بھری دنیا کو یک رنگی معاشرت کرنا تو محال ہے۔۔۔
اسی لیے یہاں ہماری مراد کسی بھی معاشرے سے اس کی ایسی مفید باتوں کو لینا ہے جو بحیثیت انسان ہمارے لیے کارآمد ہو۔۔۔
جیسے بلاوجہ ہارن نہ بجانا۔۔۔
زیبر کراسنگ پر سڑک کراس کرنے والوں کو مہلت دینا۔۔۔
ایمبولینس کو راستہ دینا۔۔۔
کچرا باہر سڑک پر یا دوسروں کے گھر کے آگے نہ پھینکنا وغیرہ!!!
 

سید عمران

محفلین

فاخر رضا

محفلین
آپ کی اس تحریر سے بہت متاثر ہوا. اسی سے related ایک مضمون ترجمہ کرکے ایک لڑی میں شامل کیا ہے اسے دیکھیے گا.
 

سین خے

محفلین
ہم اپنی غلطیوں کی ذمہ داری دوسروں کے سر ڈالتے ہیں۔ معاشرتی اور اخلاقی بدحالی کی ذمہ داری بزرگ نئی نسل پرڈال دیتے ہیں،اُن کے بقول نئی نسل اخلاقیات اور تہذیب سے عاری ہے۔ حالاں کہ اس بگاڑ کے اصل ذمہ دار یہی بڑے ہیں۔ اگر والدین اپنی اولاد کو اخلاقیات کی تربیت دیں اور انہیں برے لوگوں کی صحبت سے بچا کر رکھیں تو ان کے بگڑنے کے امکانات نہایت کم ہوجائیں گے۔ بد قسمتی سے آج کی مائیں بچے کی تربیت پر توجہ دینے کے بجائے ٹی وی ڈراموں، سوشل میڈیا اور سوشل پارٹیز پر زیادہ توجہ دیتی ہیں جبکہ باپ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے لیے بچوں سے دور ہوگئے۔

اصل تربیت وہی ہے جو اپنے عمل سے اپنے چھوٹوں کو سِکھائی جائے اور وہ تب ہی ممکن ہوگا جب آپ کا اپنا کردار اچھا ہوگا!!!

جزاک اللہ سید عمران بھائی، آپ وقت نکال کر یہ تحریریں ہم سب سے شئیر کر رہے ہیں۔ آپکی یہ بات پوری تحریر میں سب سے زیادہ جاندار ہے۔

میرے پاس دو ہفتے سے ایک او لیول کا طالبعلم آنا شروع ہوا ہے۔ یہ لوگ ہمارے دور کے رشتے دار ہیں۔ بچے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تعلیم پاکستان میں نہیں ہوئی ہے۔ یہ لوگ ایک عربی ملک میں مقیم تھے۔

وہاں یہ پڑھنے میں اچھا تھا پر یہاں جب سے آیا ہے، مسلسل فیل ہو رہا ہے۔ اس کے ماں باپ اتنے پریشان تھے تو میں نے ٹیوشن کے لئے لے لیا۔ دن میں آٹھ گھنٹے پڑھاتی ہوں۔ صبح چار گھنٹے پڑھ کر جاتا ہے۔ پھر کھانے کے بعد آتا ہے تو شام تک چار پانچ گھنٹے اور پڑھتا ہے۔

پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ بچہ پڑھ کیوں نہیں پا رہا ہے۔ ایک دو دن بعد میں نے نوٹ کیا کہ جیسے ہی میں کچھ کام دے کر ادھر ادھر ہوتی ہوں تو یہ فوراً موبائل اٹھا لیتا ہے۔ میں نے ایک دو بار تو اسے ٹوکا پھر ایک دن تو میں نے اس سے کہا کہ تم مجھے دکھاوَ کیا کر رہے ہو۔ یہ کافی غیر اخلاقی حرکت ہے کہ کسی سے کہا جائے کہ اپنا موبائل دکھاوَ پر میں مجبور ہو گئی تھی۔ میں نے دیکھا تو وال پیپر دیکھ رہا تھا۔ خیر میں نے اسے کافی لمبا لیکچر دیا اور اس کو منع کر دیا کہ آئندہ تم موبائل نہیں لاوَ گے۔ کال کرنی ہو میرے موبائل سے والدین کو کال کر لو۔

اس بچے کا اور اس کے بہن بھائیوں کا مسئلہ جو مجھے اب تک سمجھ آیا ہے اور بعد میں پھر میں نے والدین سے بھی کنفرم کیا اور اس بچے سے بھی کیا وہ یہ ہے کہ یہ بچے موبائل، کمپیوٹر گیمز، ٹیبلٹ وغیرہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ہیں۔ آٹھ آٹھ نو نو گھنٹے گیمز کھیلتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پڑھنے میں بالکل صفر ہو چکے ہیں۔ او لیول کے ایگزام سر پر ہیں اور بچے کو کچھ آتا نہیں ہے۔

والدین نے یہ سب چیزیں خود بچوں کو لے کر دی ہیں اور پہلے ان کو روکا ٹوکا نہیں کہ اتنا وقت ان چیزوں کو نہیں دو۔ اب پریشان ہیں اور میرے پاس آئے تھے تو دونوں اپنے بچوں کو ہی برا کہہ رہے تھے۔

جیسا گھر کا ماحول ہوتا ہے، بچے ویسی ہی عادات اپناتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
جی بالکل مرض کی صحیح نشان دہی کی...
موبائل اور سینکڑوں ٹی وی چینلز نے ہمارے لیے اچھائی دو تین فیصد ہی نکالی ہوگی اور بربادی پچانوے فیصد!!!
 
آج کل کے دور میں والدین بچوں کے لیے اچھی,بہترین تعلیمی اور تفریحی سہولیات فراہم کرے کے یہ سوچتے ہیں کہ ان کے فرائض پورے ہوگئے , والدین اپنی مصروفیات کی وجہ سے اکثر بچوں کی سرگرمیوں سے لا علم رہتے ہیں ,پتہ جب چلتا ہے تو اس وقت تک بچہ مکمل طور پر غیر نصابی سرگرمیوں کا عادی ہو چکا ہوتا ہے ,غافل والدین اپنی اور بچے کی نااہلی کو چھپا کر قصور وار اسکول اور ٹیوشن سینٹر کو قرار دیتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:
Top