بھارت کے شہروں میں ماہ رمضان کے شب و روز۔ازابوظفر عادل اعظمی

ابوظفر عادل اعظمی
پورے ایکسال بعد پھر جب مخصوص سائرن کی آواز کان میں پڑی تو لوگوں نے کھانا پینا بند کردیااور پہلے روزے کی نیت کرنے لگے اورجیسے ہی محلے کی مسجد سےمؤذن نے فجر کی اذان دی لوگ جوق در جوق والہانہ انداز میں مسجد کی طرف چل پڑے ۔چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے والد کی انگلیاں پکڑ کر مسجد میں آئے ہیں ۔گھر کے سارے لوگوں کے ساتھ آج وہ بھی معمول سے چار گھنٹے پہلے ہی اٹھ گئے تھے۔امی نے لاکھ سمجھایا کہ ابھی چھوٹے ہو بڑے ہوکر روزہ رکھنا لیکن منے میاں نے ایک نہ سنی اور سب کے ساتھ سحری کھاکر پہلے روزے کی نیت کرہی لی۔

رمضان المبارک کا مہینہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے اللہ رب العزت کی طرف سے ایک بیش بہا نعمت ہے ۔صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک جو روحانی اور نورانی ماحول رہتا ہے اس میں نیکیوں کو بڑھانے اور ایمان کو پروان چڑھانے کے خوب مواقع ہوتے ہیں۔حدیث کے مطابق اس مہینے میں شیطان قید کردیا جاتا ہے اور فرض کا ثواب بڑھاکر ستر گنا اور سنت کا ثواب فرض کے برابر کر دیا جاتاہے۔مسلم محلوں میں گھروں سے تلاوت قرآن کی آوازیں ،نمازیوںسے بھری مساجد،دن بھر بند چائے اور کھانے کے ہوٹل اور شام میں افطاری کا بازار۔۔۔۔سب ایک عجیب سا سماں پیدا کرتا ہے۔

ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں سائرن کی آواز ہوتی ہے جسے سن کر لوگ افطار کرتے ہیں ۔کہیں کہیں گولے بھی داغے جاتے ہیںاور بعض مقامات پر اذان کی آواز ہی وقت ہونے کا اعلان ہوتی ہے۔پرانی دہلی اور جامع مسجد کے علاقے میں یہ سماں کچھ زیادہ ہی رہتاہے جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا پتہ دیتا ہے۔80سالہ بزرگ اور ریٹائرڈ ٹیچر ماسٹرمحمد انیس صدیقی اپنی یادداشت پر زور ڈالتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دہلی میں وہ 1955سے مسلسل سائرن کی آواز سنتے آرہے ہیں ۔اس سے پہلے وہ اترپردیش کے ایک ضلع میں رہتے تھے۔یہ سائرن افطار اوار سحری دونوں وقت بجایا جاتاہے۔لیکن پھر بھی سحری میں کبھی کبھی لوگ نیند کی شدت سے نہیں اٹھ پاتے اس کیلئے دہلی ہی نہیں پورے ملک میں عرصہ دراز سے مختلف طریقے رائج ہیں ۔

بعض جگہوں میں مساجد سے مسلسل اعلان ہوتا ہے کہ سحری کا وقت ہوگیا ہے یا وقت ختم ہونے میں صرف اتنی دیر باقی ہے۔بعض مقامات پر مسجد کے ہی لاوڈاسپیکر سے نعت اورحمد کا سلسلہ سحری کے اوقات میںمسلسل جاری رہتاہے لہذٰا جولوگ اعلان سے نہیں جاگ پاتے اس کو غنیمت سمجھتے ہیں۔لیکن ایک طریقہ جو اب صرف دیہاتوں اور قصبوں تک محدود رہ گیاہے اور لاوڈاسپیکر کی ایجاد سے پہلے ہی سے معروف ہے وہ یہ کہ گاؤں یا محلے کے چند افراد کی ایک ٹیم سحری کے مقررہ وقت سے پہلے گھروں پر جاکر لوگوں کو جگاتی ہے اور راستے بھر نعت حمد اور ترانے گاتی جاتی ہے۔

بعض علاقوں میں یہ خدمت گاؤں یا آس پاس کے علاقے کے غرباانجام دیتے ہیں ۔سحری کے روحانی وقت میں عموماان کی حمدو نعت دلوں میں اترتی محسوس ہوتی ہے اور ’’اٹھو روزے دارو! سحری کھالو ‘‘کا نعرہ بڑا ہی زوردار معلوم ہوتا ہے جس سے نیند یکلخت غائب ہوجاتی ہے ۔دن کو مائیں جب بچوں کو بتاتی ہیں کہ آج جگانے والے نے کتنی اچھی نعت پڑھی تو بچے ماؤں سے ضد کرکے اس وقت اٹھانے کے لئے کہتے ہیں تاکہ وہ بھی اس کو سن سکیں۔رمضان کے آخری ایام میں اس ٹیم کا ’’الوداع ماہ رمضان۔۔‘‘ کا پرسوزترانہ عموما ہر خاص وعام کے لئے ایک کسک چھوڑ جاتاہے۔

ہندوستان کاپھیلاو شمالا جنوبا زیادہ ہے لیکن مشرق تا مغرب بھی اس کا فاصلہ کم نہیں ہے لہذا سحر و افطار کے اوقات میں یہاں کافی فرق ہے۔مغربی بنگال اور آسام کے مشرقی حصے کے سحر وافطار کے اوقات سے راجستھان ،گجرات اورمہاراشٹر کے مغربی اضلاع کے اوقات میں تقریبا ایک گھنٹے سے زائد کا فرق پایا جاتاہے۔

ماضی میں دہلی سمیت پورے ہندوستان میں گھر کی بنائی ہوئی موٹی موٹی سوئیاں گڑ میں ڈال کر کھانے کا عام رواج تھا لیکن اب یہ روایت ختم ہوگئی اب نہ تو گھریلو سوئیاں ہی ہیں اور نہ گڑ آسانی سے دستیاب ہے۔اس کی جگہ اب کھجلا ،فینی وغیرہ نے لے لی ہے۔دودھ کے علاوہ سبزی بھی سحری کے وقت ہندوستان میں کھانے کا عام رواج ہے۔رات میں زیادہ دیر تک جاگنے کی لت تو شہر کے لوگوں میں پہلے ہی سے ہے لیکن رمضان میں اس میں کچھ اور اضافہ ہو جاتا ہے اس لئے بعض بد نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو سحری کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں اور وہ رات ہی میں کھا کر سوجاتے ہیں گویا انھیں امت مسلمہ پر بنی اسرائیل کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کا خاص کرم راس نہیں آرہاہے۔

شمالی ہند کے دیگر علاقوں مثلا اعظم گڑھ الہ آباد وغیرہ میں ناریل کی گری ،کاجو،بادام اور دگر میوہ جات سے تیار شدہ مسالا پینے کا عام رواج ہے ۔بعض مقامات پر چپاتی اور پاو سے اس کو کھاتے بھی ہیں۔لیکن مہاراشٹر کے کچھ علاقوں میں دودھ اور کیلا بھی سحری میں کھایا جاتاہے۔جب کہ جنوبی ہند کی ریاست کیرلہ اور تمل ناڈو میں چاول اور کھجور زیادہ کھائی جاتی ہیں ۔اکثر جگہوں میں رمضان میں پاو کی مانگ بڑھ جاتی ہے لیکن اترپردیش کے کچھ علاقوں میں دودھ پاو ہی سحری کی مرغوب غذا ہے۔لہذا بیکریاں نت نئی ڈیزائن اور سائز کے پاو بنانے میں ایک دوسے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہیں ۔

رمضان میں مسلمانوں کے زیر انتظام اسکولوں،کالجوں اور اداروں میں نظام الاوقات تبدیل ہوجاتاہے ۔بعد نماز فجر مسلم محلوں میں خاموشی اور سناٹے کا راج ہوتاہے اور صبح دیر سے ہوتی ہے لیکن طلبا اور محنت کش طبقے کو پھر بھی جلدی اٹھنا پڑتاہے۔دوپہر تک بازار اور سڑکیں پھیکی پھیکی سی محسوس ہوتی ہیں ۔اور پھر دن ڈھلنے کے آغازہی سے رونق لوٹ آتی ہی ،ٹریفک جام ہونے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔افطاری بازارمیں رنگ برنگ کی کھانے پینے کی چیزیں پھل اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔۔ایسا لگتاہے کہ گویا رمضان روزہ رکھنے کا نہیں بلکہ کھانے پینے ہی کا مہینہ ہو ۔پہلے بھی افطارہوتی تھی اور افطار کی دعوتیں بھی ۔۔لیکن نہ توکھانے کی اتنی قسمیں نہیں ہوتی تھیںاور نہ ہی اتنی افطار پارٹیاں۔اب تو افطار پارٹیوں کا چلن اتنا بڑھ گیا ہے کہ بعض لوگ تو ایک ہی دن میں کئی کئی جگہ مدعو ہوتے ہیں۔

شاید اہل سیاست بھی اس مہینے میں اپنے ظرف کے مطابق استفادہ کرنے میں پیچھے نہیں ہٹنے کی قسم کھاچکے ہیں۔سحری کے بر خلاف ہر طرح کے کھانے کی چیز تھوڑی سی مشقت پر ملک میں کہیں بھی مل سکتی ہے۔ہمارے ایک دوست جو پیشے سے ڈاکٹر ہیں مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ کئی پھل جو سال بھر عام آدمی کو سونگھنے کو نہیں ملتے رمضان میں روز کھائے جاتے ہیں۔اور بعض دفعہ آدمی اوسطا اس مہینے میں دوسرے مہینے کی بہ نسبت زیادہ وٹامن حاصل کرلیتاہے۔

مساجد میں بھی افطار کا معقول نظم ہوتاہے۔محلے کے لوگ آپس میں بھی پکی ہوئی خاص یزوں کا لین دین کرتے ہیں لیکن مساجد میں بھی افطاری بھیجنا نہیں بھولتے تاکہ مسافر ،فقراء اور مساکین افطار کرسکیں۔جنوبی ہند کی ریاست کیرلہ اور تمل ناڈو میں اکثر مقامات پر مقامی لوگ بھی مسجدہی میں افطار کرتے ہیں ۔اس کا نظم باری باری محلے ہی کے اصحاب خیر کرتے ہیں کیرلہ کے رہنے والے عبد الجلیل بتاتے ہیں کہ لوگ انتظا ر کرتے ہیں کہ کب ان کی باری آئے لیکن یہ سعادت کم ہی لوگوں کو مل پاتی ہے۔

کیوں کہ رمضان کے روزے صرف 29یا30دن ہی ہوتے ہیں ۔ افطار کے وقت اگر کوئی مسلم شکل وشباہت والا آدمی نظر آجائے تو لوگ اس کو فوراً آواز دیتے ہیں اور افطارکرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ایسا تو عموما ہر جگہ ہی ہوتاہے لیکن ممبئی ،کولکاتہ،حیدرآباداور پرانی دہلی میں یہ منظر کچھ زیادہ ہی دیکھنے کو ملتاہے۔لیکن نو آباد محلے اور کالونیاں اس تہذیبی ورثے سے عاری نظر آتی ہیں۔

یہاں تراویح کا بھی خاص اہتمام ہوتاہے۔گذشتہ ایک دہائی سے حفاظ قرآن کی تعدا د میں کافی اضافہ ہواہے۔لہذا تراویح میں مکمل قرآن سننے کا اہتما م بھی قابل دید ہے۔لیکن حالیہ چند برسوں سے یہ بدعت ایجاد ہوئی ہے کہ دین کی بنیادی تعلیمات سے عاری ایک طبقہ تسلسل کے ساتھ تراویح میں قرآن کو سننے کوہی کافی سمجھ بیٹھا ہے نتیجے کے طورپر وہ ایک بارقرآن پورا سننے کے بعد تراویح کے وجوب کو اپنے اوپر سے ساقط سمجھنے لگتاہے۔

ماخوز از:عالمی اخبار
 
Top