بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

جاسم محمد

محفلین
پاکستانی سنیما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد
203450_4131465_updates.jpg

فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان نے سنیما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کردی۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ سول وعسکری قیادت نے کشمیریوں کی آوازسے آواز ملائی، ملکی قیادت نے کشمیریوں سے مکمل اظہار یکجہتی کیا، ملکی قیادت نے دنیا کو پیغام دیا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، قائداعظم کے دوقومی نظریے سے اختلاف کرنے والے آج سمجھ چکے ہوں گے، قائداعظم محمد علی جناح نے ہندو ذہنیت کو پڑھ لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج بھارت اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو کررہا ہے وہ سامنے آرہا ہے، بھارت نے کشمیریوں کے حقوق سلب کر رکھے ہیں، بھارت نے کشمیر میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے، بھارت تمام منفی حربے استعمال کرکے کشمیریوں کی آواز دبانا چاہتا ہے اور کشمیریوں پر مظالم دنیا کے سامنے لانے نہیں دے رہا، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی تحریک بن کر سامنے آئی ہے، بھارت جہاں جہاں کشمیریوں کا استحصال کرے گا پاکستان وہاں سامنے کھڑا ہوگا۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی حمایت کیلئے ہر آپشن استعمال کرےگا، پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد میں عوام کے جذبات کی ترجمانی کی گئی، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے فیصلے کشمیریوں کے ساتھ رشتے کے عکاس ہیں۔

فردوس عاشق اعوان نے اعلان کیا کہ کسی بھارتی فلم کی پاکستانی سنیما میں نمائش کی اجازت نہیں ہو گی۔
 
کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ انڈیا نے یہ قدٓم خود اپنی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اٹھایا ہے، بناء کشمیریوں کی ایماء پر اٹھایا ہے ، کیآ وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں کوئی جمہوریت نہیں پائی جاتی ۔ شرم ہندو کو مگر نہیں آتی

اس لئے کہ ہندو بنیادی طور پر نازیوں کی طرح ذات و پات پر یقین رکھتا ہے اور اپنے علاوہ ہر ایک کو حقیر گردانتا ہے۔ مساوات کی یہی کمی ، وہ وجہ ہے ، جو ہندوستان کے ساتھ مسلم دنیا کے فلیش پوائنٹ کا سبب ہے،

گو کہ مسلمان انڈیا میں 30 فی صد ہیں ، لیکن اعداد وشمار میں بھانجی مار کر ہندو، مسلمانوں کو محض 20 فی صد قرار دیتا ہے، یہ 20 فیصد بھی 200 ملین سے زائید یعنی پاکستان یا بنگلہ دیش کی آبادی کے برابر ہیں۔ ان مسلمانوں کا استحصال ، ہندو اپنا جائز حق سمجھتا ہے۔ آپ کو انڈیا سے بہت ہی کم مسلمان ڈاکٹر، انجینئر ، دوسرے ممالک میں کام کرتے ملیں گے۔ اس کی وجہ ہے مساوات کی کمی ، نازی ازم اور ذات پات کی تخصیص۔

میں عرض کروں گا کہ یہ وقتی بات ہے، آخر کار ایسا ہونا ہے کہ حق و مساوات کی جیت ہوگی ۔ یہ ذات پات کا نازی ازم ختم ہونے کےلئے ہے اور ختم ہو کر رہے گا۔ باطل مٹنے کے لئے ہے۔

براہمن، شودر، کھتری ہو یا ہو کوئی گندہ
سب کی سمجھ میں آجائے گا ،ٓ مساوات کا فنڈا
کراچی سے کلکتے تک ، سب ایک ہوجائے ٓ
اس ہندو ندی کے آر پار ، مسلم ہر ایک ہو جائے گا
سولہ روپ نہا کر راوی سے ملنے آئے گی گنگا
اسلام آباد کی چھاتی سے لہرائے گا بھارت پر جھنڈا


گندہ: ہندو مسلمان کو ملیچھ یا گندا قرار دیتے ہیں
فنڈا : ٓبنیادیات
ہندو ندی : انڈس دریا
سولہ روپ : سولہ نہریں گنگا سے راوی تک
بھارت میں کوئی غیر مسلم نہیں رہے گا، اس پر اسلام آباد کی حکومت ہوگی

والسلام۔
 

محمداحمد

لائبریرین
پاکستانی سنیما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد
203450_4131465_updates.jpg

فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان نے سنیما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کردی۔

پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ سول وعسکری قیادت نے کشمیریوں کی آوازسے آواز ملائی، ملکی قیادت نے کشمیریوں سے مکمل اظہار یکجہتی کیا، ملکی قیادت نے دنیا کو پیغام دیا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، قائداعظم کے دوقومی نظریے سے اختلاف کرنے والے آج سمجھ چکے ہوں گے، قائداعظم محمد علی جناح نے ہندو ذہنیت کو پڑھ لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج بھارت اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو کررہا ہے وہ سامنے آرہا ہے، بھارت نے کشمیریوں کے حقوق سلب کر رکھے ہیں، بھارت نے کشمیر میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے، بھارت تمام منفی حربے استعمال کرکے کشمیریوں کی آواز دبانا چاہتا ہے اور کشمیریوں پر مظالم دنیا کے سامنے لانے نہیں دے رہا، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی تحریک بن کر سامنے آئی ہے، بھارت جہاں جہاں کشمیریوں کا استحصال کرے گا پاکستان وہاں سامنے کھڑا ہوگا۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیریوں کی حمایت کیلئے ہر آپشن استعمال کرےگا، پاکستانی پارلیمنٹ کی قرارداد میں عوام کے جذبات کی ترجمانی کی گئی، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے فیصلے کشمیریوں کے ساتھ رشتے کے عکاس ہیں۔

فردوس عاشق اعوان نے اعلان کیا کہ کسی بھارتی فلم کی پاکستانی سنیما میں نمائش کی اجازت نہیں ہو گی۔

یہ پابندی تو غالباً پہلے سے ہی تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا 27 فروری سے زیادہ سخت جواب دیاجائیگا، ترجمان پاک فوج
ویب ڈیسک جمع۔ء 9 اگست 2019
1772693-asif-1565324015-370-640x480.jpg

بھارت دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر سے ہٹانے کے لیے بہانے تراش رہا ہے، ترجمان پاک فوج فوٹوفائل

راولپنڈی: ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا 27 فروری سے زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔

بھارتی فوجی جنرل نے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی فوج لائن آف کنٹرول سے دراندازی کروا رہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ بھارتی جنرل کا بیان ہمیشہ کی طرح جھوٹ کا پلندہ ہے اور بھارت دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر سے ہٹانے کے لیے جنگ کے بہانے تراش رہا ہے۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ہندوستان ایسے جھوٹ سے لائن آف کنٹرول پر کارروائی کا بہانہ تراش رہا ہے، لیکن اگر بھارتی فوج نے ایسی کوئی مہم جوئی کی تو پاکستان اسے 27 فروری سے بھی زیادہ سخت جواب دے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انڈیا مقبوضہ کشمیر کی مخدوش صورتحال اور مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے، مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر مکمل پابندی ہے جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں ایسا نہیں ہے، عالمی میڈیا اور اقوام متحدہ کے مبصرین حقائق دیکھنے کے لیے آزاد کشمیر کا دورہ کر سکتے ہیں، لیکن کیا بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں میڈیا اور اقوام متحدہ کے مبصرین کو دورے کی اجازت دے سکتی ہے؟۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ہزاروں انڈین فوجی کئی دہائی سے جاری بہادر کشمیریوں کی جائز جدوجہد کو دبا نہیں سکے اور اب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی مزید نفری کی تعیناتی بھی ناکام ہوگی۔

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور35 اے کو ختم کرتے ہوئے ریاست کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ بھارتی فوج نےکشمیریوں کے احتجاج کو کچلنے اور ان کی آواز دبانے کے لیے مظلوم کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے اوراب تک سیکڑوں حریت رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیاجاچکاہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وفاقی کابینہ نے بھارت سے دوطرفہ تجارت معطل کرنے کی منظوری دیدی
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1773323-cabinet-1565354776-253-640x480.jpg

بھارت سے درآمدات اور برآمدات پر مکمل پابندی عائد کردی گئی، فوٹو: فائل

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت معطل کرنے کی منظوری دے دی جس کے بعد وزارت تجارت نے معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے ردعمل میں بھارت سے درآمدات اور برآمدات پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہےتاہم اس پابندی سے افغانستان کے ساتھ ہونے والی تجارت متاثر نہیں ہوگی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیرریلوے شیخ رشید نے سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس بند کرنے کا معاملہ کابینہ اجلاس میں رکھ دیا، کابینہ نے سمجھوتہ ایکسپریس اور تھر ایکسپریس بند کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی۔

بعدازاں وزارت تجارت نے وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق بھارت سے دوطرفہ تجارت کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت سے دوطرفہ تجارت غیر معینہ مدت کے لیے معطل کی گئی ہے جب کہ بھارت اور اسرائیل سے اشیاء کی درآمدت پر مکمل پابندی ہوگی۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت سے دوطرفہ تجارت معطل کرنے اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


48489815097_3933b8d079_b.jpg




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

48489809047_de342cb4ed_b.jpg


"ہميں جموں و کشمير کے باشندوں کی نظربندی اور ان پر جاری پابنديوں کے بارے ميں تشويش ہے۔ ہم انفرادی حقوق، قانونی طريقہ کار کی تعميل، اور متاثرہ افراد کے ساتھ جامع مذاکرات کے احترام کرنے کی اپيل کرتے ہيں" امريکی وزارت خارجہ


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

جاسم محمد

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


48489815097_3933b8d079_b.jpg




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ٹرمپ کی ثالثی کی ”بڑھک“ نے کام خراب کیا
09/08/2019 نصرت جاوید
عمران خان کا دفاع میری ذمہ داری نہیں۔ ذاتی طورپر وہ مجھے پسند کرتے ہیں۔ کئی بار ان سے 2008 تک تفصیلی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ان کے اندازِ سیاست سے مگر متاثر نہ ہوا۔ اکثر تنقید کی زد میں رکھا اور اس باعث ”لفافہ“ ہونے کے طعنے بھی برداشت کیے۔ ان کے وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے کے بعد ”شاہ سے زیادہ وفادار“ مارکہ مصاحبین نے چند اقدامات سے مجھے ”سبق سکھانے“ کی کوششیں بھی کیں۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کا ذاتی اعتبار سے ان کوششوں سے ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان سے گلہ کی گنجائش ہی نہیں۔

مذکورہ بالا تمہید کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ منگل اور بدھ کے روز جب پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہورہا تھا، میری اپوزیشن کے چند رہ نماؤں سے پارلیمانی راہداریوں میں سرگوشیوں میں گفتگو ہوئی، ان رہ نماؤں میں سے تین ا فراد ماضی کی حکومتوں میں چند ایسے عہدوں پر فائز رہے ہیں جہاں ”حساس معاملات“ تک بھی کافی رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔

ان رہ نماؤں کا اصرار تھا کہ وزیر اعظم کو ”فروری۔ مارچ“ کے مہینوں میں چند ”غیر ملکی سربراہوں“ کے ذریعے بتادیا گیا تھا کہ اپریل۔ مئی میں ہوئے انتخابات جیتنے کے بعد نریندرمودی بھارتی وزیر اعظم کے منصب پر لوٹتے ہی مقبوضہ کشمیر کی ”خصوصی خود مختاری“ کا وعدہ کرتے آرٹیکل 370 کو ختم کردے گا۔ پاکستان کو اس فیصلے کی مزاحمت نہ کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

شاید ان رہ نماؤں کے پاس موجود ”اطلاعات“ کی بدولت ہی اپوزیشن اراکینِ قومی اسمبلی اور سینٹ کی بے پناہ اکثریت پارلیمان کے مشترکہ ایوان میں تقریر کرتے ہوئے اشاروں کنایوں میں یہ تاثر پھیلاتی رہی تھی کہ وزیر اعظم عمران خان کو بخوبی علم تھا کہ نریندرمودی آرٹیکل 370 کے بارے میں کیا کرنے جارہا ہے۔

جن لوگوں کو ”فروری۔ مارچ“ والی کہانی پر شاید اعتبار نہیں تھا وہ بھی اس شک کا اظہار کرتے رہے کہ 22 جولائی کے روز ہوئی ٹرمپ۔ عمران ملاقات کے دوران 370 والی بات گوش گزارکردی گئی تھی۔ امریکی صدر کی جانب سے کشمیر پر ”ثالثی“ کاذکر ”اچانک“ نہیں ہوا۔

میرے صحافی دوستوں کی اکثریت بھی پارلیمانی کیفے ٹیریا میں بیٹھی یہ کہانی دہراتی رہی۔ میرے لئے زیادہ پریشان کن بات یہ بھی تھی بیشتر صحافیوں اور سیاست دانوں کی دانست میں پاکستان فی الوقت مودی کی جانب سے آئے فیصلے کو ”ہضم“ کرنے کو مجبور ہے۔ ہماری معاشی صورتحال بہت دُگرگوں ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا شکنجہ بھی ہے۔ ہمارے لئے 370 کے خاتمے کے بارے میں شوروغوغا ؔکرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے میں نے اس رائے سے اختلاف کیا۔

اپوزیشن کے ان رہ نماؤں سے تھوڑی تلخی بھی ہوگئی جنہیں کسی زمانے میں ”حساس“ معاملات تک رسائی رہی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ نریندرمودی بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ اس کے خاتمے کے لئے لیکن وہ مناسب وقت کا انتظار کررہا تھا۔ یہ ہرگز طے نہیں ہوا تھا کہ اگست 2019 کے آغاز ہی میں اسے ختم کردیا جائے گا۔ اس سال کے ”فروری۔ مارچ“ میں لہذا پاکستانی وزیر اعظم کو ذہنی طورپر تیار کرنے کا امکان ہی موجود نہیں تھا۔

اندھی نفرت وعقیدت میں مبتلا ہوئے اگر ہم ڈرامے کے سکرپٹ کی طرح لکھے کسی ٹائم ٹیبل کے بارے میں اصرار کرتے رہیں تو میرے پاس اس کا کوئی علاج موجود نہیں ہے۔ بھارتی میڈیا کی کئی دنوں سے مستقل چھان پھٹک کے بعد میں نے اس ملک کی سیاست سے آگاہ چند افراد سے انٹرنیٹ کے ذریعے گفتگو بھی کی ہے۔ بہت سوچ بچار اور تھوڑی تحقیق کے بعد میں بہت اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ نریندر مودی کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لئے انگریزی محاورے والی سپیس، امریکی صدر نے 22 جولائی کے روز ”ثالثی“ والے ریمارکس کے ذریعے فراہم کی۔ ”ثالثی“ کا ذکر کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نریندرمودی نے جاپان کے شہر اوساکا میں ہوئی ایک ملاقات کے دوران اس سے کشمیر کے ضمن میں یہ کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ منظرِ عام پر آنے کے چند ہی منٹ بعد بھارتی وزیر خارجہ کے ترجمان نے اس کی تردید کردی تھی۔

24 جولائی کی صبح بھارتی وزیر خارجہ خصوصی طورپر راجیہ سبھا کے اجلاس میں گیا۔ وہاں اس نے محتاط سفارتی زبان میں ٹرمپ کے اس دعویٰ کی تردید کردی کہ نریندرمودی نے ڈونلڈ ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ بھارتی میڈیا میں مودی کے ناقدین اور کانگریس کے رہ نما اصرار کرتے رہے کہ چونکہ نریندرمودی کا نام لیتے ہوئے ثالثی کا دعویٰ ہوا ہے، اس لئے بھارتی وزیر اعظم کو بذاتِ خود پارلیمان میں آکر اس کی تصدیق یا تردید کرنا ہوگی۔

نریندرمودی مگر ضد کی حد تک خاموش رہا۔ اس کے کارندوں نے بھارتی میڈیا اور اپوزیشن کے رہ نماؤں سے خفیہ رابطوں کے ذریعے ”ثالثی“ والے دعویٰ کے بارے میں خاموشی بھی مینیج کرلی۔ ٹرمپ کے ثالثی والے دعویٰ کے ضمن میں جو حیران کن خاموشی دیکھنے کو ملی اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا کہ نریندرمودی کشمیر کے حوالے سے ”کچھ بڑا“ کرنے جارہا ہے۔ میرے شبے کو گویا تقویت دینے کے لئے آج سے دو ہفتے قبل بھارتی حکومت نے خصوصی طیاروں کے ذریعے بھارتی فوج اور نیم فوجی اداروں کے تازہ دم دستوں کو مقبوضہ وادی میں پہنچانا شروع کردیا تھا۔

افواہوں کے سیلاب نے پاکستان ہی کو نہیں دُنیا بھر کو اس کے بعد آرٹیکل 370 اور 35۔ A کے خاتمے کے اعلان کے لئے تیار کرنا شروع کردیا اور اس ہفتے کے آغاز میں اعلان ہوگیا۔ یہ اعلان ہونے کے بعد ایک بھارتی صحافی نے دعویٰ کیا کہ مودی کے مشیر برائے قومی سلامتی۔ اجیت دوول ”نے امریکی ہم منصب۔ جان بولٹن۔ کو فروری کے مہینے میں پاک۔ بھارت کشیدگی کے سنگین ترین مرحلوں کے دوران آگاہ کردیا تھا کہ آرٹیکل 370 ختم کردیا جائے گا۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی ایلس ویلز نے جو ان دنوں پاکستان میں ہے اس دعویٰ کی واضح الفاظ میں تردید کردی ہے۔ میری خواہش ہے کہ محترمہ ویلز کے اس بیان کے بعد ہمیں“ فروری۔ مارچ ”والی داستان کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے۔

370 کے خاتمے کے پسِ منظرکو سمجھنے کے لئے ہمیں اس پورے معاملے کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا ہوگا۔ میری ناقص رائے میں پاکستان کے وزیر اعظم کو 22 جولائی کے روز اپنے دائیں ہاتھ بٹھا کر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکی صدر نے ثالثی کا جس انداز میں ذکر کیا اس نے مودی کو مشتعل کردیا۔ بھارت۔ امریکہ تعلقات کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے جہاں تجارتی خسارہ بھارت کے بے پناہ حق میں ہے مودی ٹرمپ کو برملا ”جھوٹا“ پکارنے کی جرأت آزمانے کی سکت سے محروم تھا۔

اس نے ڈھٹائی بھری خاموشی اختیار کی اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ کشمیر کے حل کے لئے کسی ”تیسرے“ سے ثالثی کا طلب گار نہیں تھا آرٹیکل 370 کے خاتمے کی تیاری شروع کردی۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے ایک حوالے سے اس کی خاموشی کا ”احترام“ کیا ہے۔ وہ مطمئن رہی کہ امریکی صدر کو بھارتی وزیر اعظم نے ”جھوٹا“ نہیں پکارا۔ اسی باعث آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان ہوا تواسے بھارت کا ”اندرونی معاملہ“ قرار دے کر گویا نظرانداز کردیا گیا۔

عمران خان سے اندھی نفرت میں مبتلا ہوئے افراد ٹھوس حقائق پر مبنی تناظر کو دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ یہ بات بھلادیتے ہیں کہ سیاست میں بے ساختگی بھی ہوتی ہے۔ خواہش اور ارادے جو بھی رہے ہوں، ان پر عملدرآمد کے لئے مناسب ماحول کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں 22 جولائی کو عمران خان کو دائیں ہاتھ بٹھاکر ثالثی کی بڑھک لگادی اور مودی کو اس کی تمنا والا ماحول میسر ہوگیا۔ کہانی اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔
 

جاسم محمد

محفلین
ترک فوج کا پاکستانی فوج کے ساتھ کشمیر میں شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان
ترک فوج اور پاکستان کی فوج کی ایک ساتھ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی
1530270996_admin.jpg._1
مقدس فاروق اعوان جمعہ 9 اگست 2019 16:58

pic_1453663845.jpg._3


انقرہ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔09 اگست 2019ء) :ترکی وہ ملک ہے جس نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا سب سے زیادہ ساتھ دیا۔مسئلہ کشمیر پر ترکی کا بیان دیا کے سامنے واضح ہے۔ترک صدر طیب اردگان نے انقرہ میں ترک سفرا کی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر کشمیر کا تذکرہ کیا تھا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ کشمیر کے معاملے پر ترکی پاکستان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کشمیر کی خراب ہوتی صورتحال پر میں قریب سے نظر رکھے ہوئے ہوں اور اس پر میں نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔اسی طرح ترک عوام بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے شانہ بشانہ ہے۔اس حوالے سے اردو ترکی نے ایک ٹویٹ کیا ہے ترک فوج کا پاکستانی فوج کے ساتھ کشمیر میں شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان۔

ترک قوم اور فوج کی پاکستان اور کشمیر کے ساتھ محبت کا جذبہ قابل دید ہے۔

.خیال رہے مسئلہ کشمیر کی حالیہ صورتحال پر وزیراعظم عمران خان ترک صدر کو بھی فون کر چکے ہیں۔اس دوران وزیراعظم عمران خان نے ترک صدر کو مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال سے متعلق آگاہ کیا۔ تفصیلات سے آگاہ ہونے کے بعد ترک صدر طیب اردگان نے بھارتی اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔۔ ترکی نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پرپاکستان کے موقف کی بھرپور حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ترکی کے صدر سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کے غیرقانونی اقدامات سے علاقائی امن اورسلامتی پرسنجیدہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہارکیا انہوں نے اس ضمن میں ترکی کے مضبوط حمایت اورتعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔تاہم اہم ترین مسئلے پر ترک صدر کے ساتھ ساتھ ترک عوام نے بھی پاکستان کا دوست مالک ہونے کا عملی مظاہرہ کر دکھایا۔سوشل میڈیا پر ترک عوام نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ایک صارف نے کہا کہ ہم نہ صرف مسئلہ کشمیر پر بلکہ ہر مسئلے پر آپکو سپورٹ کریں گے۔ہم دو ریاستیں ہیں لیکن ایک قوم ہیں۔پاکستان نے جنگ میں ترکی کا جو ساتھ دیا تھا وہ ابھی بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔ جب کہ ایک ترک صحافی نے کہا کہ پاکستان اکیلا نہیں ہے۔ ترکی کے لوگ کشمیریوں کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ کشمیر تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ترکی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایک صارف نے کہا چاہے کچھ بھی ہو ترکی پاکستانی بہن بھائیوں کو مسئلہ کشمیر پر اکیلا نہیں چھوڑے گا اس کے علاوہ بھی کئی ترک صارفین نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کا اظہار کیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
’کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان دنیا کو گمراہ کر رہا ہے‘
_108262480_gettyimages-1160466728.jpg

تصویر کے کاپی رائٹMONEY SHARMA
Image captionدلی میں بھی انڈیا کے خلاف مظاہرہ ہوئے ہیں

انڈیا نے پاکستان پر دنیا کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق انڈیا کے فیصلے کی حقیقت کو تسلیم کرے۔

پاکستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے فیصلے کے بعد انڈیا کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات میں کمی کا اعلان کیا ہے اور انڈیا کے سفیر کو ملک سے چلے جانے اور اپنے نامزد سفیر کو دلی نہ بھیجنے کے علاوہ دونوں ملکوں کے ٹرین رابطوں اور تجارت کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے جمعے کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکوت نے دنیا کے کئی ملکوں کے سفیروں اور عالمی تنظیموں کے نمائندوں کو انڈیا کی پوزیشن سے روشناس کروایا ہے اور بتایا ہے کہ شق 370 سے متعلق تبدیلی انڈیا کا مکمل طور پر اندرونی معاملہ ہے اور اس کا تعلق انڈیا کے آئین سے ہے جو انڈیا کے اقتدار اعلیٰ کے دائرے میں ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان یکطرفہ قدم اٹھا کر اس اندرونی معاملے کو دنیا کے سامنے باہمی رشتے کی پریشان کن صورتحال کے طور پر پیش کر رہا ہے لیکن اسے ہر جگہ ناکامی ہوئی ہے۔

_108253196_maleehaasifghafooranqureshi.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGESImage captionپاکستان کا نقطہ نظر دنیا تک پہنچانے کے لیے وزیرِ خارجہ اور اقوامِ متحدہ میں تعینات سفیر سرگرم ہیں، جبکہ میجر جنرل آصف غفور نے انڈین فوجی کمانڈر کو تنبیہ کی ہے کہ کسی بھی 'مس ایڈوینچر' کی صورت میں پاکستان کا جواب 27 فروری سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔


اس سے پہلے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مندوب ملیحہ لودھی نے پاکستان کی جانب سے کسی عسکری آپشن کے استعمال کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے پاس تمام سفارتی اور سیاسی آپشن موجود ہیں اور پاکستان کو انڈیا کی جانب سے بڑھائے گئے اس بحران کو مزید بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی کرسٹیئن آمنپور کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان انڈیا کے اقدامات کے خلاف سلامتی کونسل جائے گا اور سلامتی کونسل اور اس کے ارکان کو ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کروائے گا۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کا حل چاہتا ہے۔

میزبان کرسٹیئن آمنپور نے ان کی توجہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے حالیہ بیان کہ پاکستان اس مسئلے پر عسکری ردِ عمل نہیں دینا چاہتا، اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کہ پاکستان کشمیریوں کی حمایت میں کسی بھی حد تک جائے گا، کے درمیان بظاہر تضاد کی طرف دلائی۔

انھوں نے ملیحہ لودھی سے پوچھا کہ کیا ان کے نزدیک اس مسئلے کا کوئی عسکری حل ہے یا پاکستان ابھی بھی سفارتی طریقے سے معاملہ حل کرنا چاہتا ہے۔

جواب میں ملیحہ لودھی نے کہا کہ: ’ہم اس بارے میں بہت واضح ہیں کہ ہمارے پاس سارے سیاسی اور سفارتی آپشن میز پر موجود ہیں۔ یہ پورا بحران اس ریاست کے لوگوں کے بارے میں ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ بین الاقوامی برادری قانون، انصاف اور اصولوں کے لیے کھڑی ہو تاکہ اس ریاست کے لوگوں کی مشکلات حل کی جا سکیں۔’

ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے لوگوں کو 70 سال سے آزادی سے محروم رکھا گیا ہے اور اب انھیں ان کی شناخت سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ حالیہ تبدیلیاں انڈیا کی حکومت کو جموں و کشمیر کی آبادی میں تبدیلی لانے میں مدد دیں گی اس لیے اس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کی شناخت خطرے میں ہے۔

انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے اپنی قوم سے خطاب میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے دفاع پر بات کرتے ہوئے ملیحہ لودھی نے کہا کہ وزیرِ اعظم مودی کی توجیہہ 'بدنیتی اور دھوکہ دہی' پر مبنی تھی اور یہ کہ انڈیا اپنے اقدام سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کشمیر ٹھوس انداز میں سلامتی کونسل کے ایجنڈا پر موجود ہے، اور اس حوالے سے اس بین الاقوامی ادارے کی کئی قراردادیں موجود ہیں۔

’کشمیر ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور یہ مسئلہ بحران میں اس وقت تبدیل ہوا جب انڈیا نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ذریعے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر پر تسلط جمایا۔’

ملیحہ لودھی نے کہا کہ انڈیا کے وزیرِ اعظم کو یہ اقدام کرنے سے قبل کشمیر کو مکمل طور پر بند کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ کسی بھی کشمیری نے اس اقدام کی حمایت نہیں کرنی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈیا نے بڑی تعداد میں اضافی فوجی تعینات کیے ہیں تاکہ مزاحمت کو دبایا جا سکے مگر ایک دن ضرور آئے گا جب کرفیو اٹھایا جائے گا اور تب کشمیریوں کی آواز سب سنیں گے۔
_108252493_line976.jpg

p07k3r7f.jpg

کشمیری طلبہ

جمعہ کے روز کشمیر کے حالات

کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق قوانین کے خاتمے کے بعد وادی میں کیے جانے والے سکیورٹی کے سخت اقدامات اب بھی جاری ہیں۔

جمعے کو لوگوں کو اپنی مقامی مساجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی تاہم سری نگر کی جامعہ مسجد اب بھی بند ہے اور شہر میں کرفیو نافذ ہے۔

کشمیر میں ہزاروں فوجی گلیوں میں گشت کر رہے ہیں۔

کشمیر میں مواصلات کے تمام ذرائع گذشتہ اتوار سے منقطع ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق سری نگر کے کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت ملنا شروع ہو گئی ہے لیکن اس کی کوالٹی زیادہ اچھی نہیں ہے۔

سری نگر میں بی بی سی کے نامہ نگار عامر پیرزادہ کے مطابق پیر سے جاری کرفیو اب بھی نافذ ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو اپنے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت کی کوشش ہوگی کہ عید منانے میں لوگوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔
 

فرقان احمد

محفلین
کرفیو کے باوجود سری نگر میں شدید احتجاج
یقینی طور پر، مودی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہو گا۔ کشمیریوں نے دراصل یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ ہندوستانی تسلط سے نجات چاہتے ہیں۔ کم از کم وادی کے مسلم اکثریتی حصے میں یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ مودی صاحب نے کشمیر کے مسئلے کو تازہ بہ تازہ کر دیا ہے جس کے لیے اُن کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یقینی طور پر، مودی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ہو گا۔ کشمیریوں نے دراصل یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ ہندوستانی تسلط سے نجات چاہتے ہیں۔ کم از کم وادی کے مسلم اکثریتی حصے میں یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ مودی صاحب نے کشمیر کے مسئلے کو تازہ بہ تازہ کر دیا ہے جس کے لیے اُن کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے۔
مودی کافی عرصہ سے مسلمانوں کو اس طرح ڈیل کر رہا ہے جیسے اسرائیلی فلسطینیوں کو کرتےہیں۔ ان دونوں ممالک میں پیدا ہونے والی قربتیں بے وجہ نہیں۔ لیکن ان سب کا فائدہ یہ ہوا کہ اب دنیا مسئلہ فلسطین کے ساتھ کشمیر کو بھی اہمیت دینے لگی ہے۔ اور آج تو وزیر اعظم نے مودی حکومت کو جرمن نازی اور مودی کو ہٹلر ہی کہہ دیا :)
 

فرقان احمد

محفلین
آج تو وزیر اعظم نے مودی حکومت کو جرمن نازی اور مودی کو ہٹلر ہی کہہ دیا :)
کبھی مِس کالز کرنا اور کبھی ہٹلر سے تشبیہ دینا؛ واہ! امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بھی ایک غلطی ہے کہ وزیراعظم ہندوستان کے خلاف وزیراعظم پاکستان غلط زبان استعمال کرے کیونکہ کل پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا جا سکتا ہے۔ یہ جواب کوئی بھی وزیر دے سکتا تھا۔ بے کار ٹویٹس سے بہتر ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر میچور انداز میں جواب دیا جائے۔ جناح نے ایک دفعہ فرمایا تھا، میں جذبات تو رکھتا ہوں، مگر جذباتی نہیں ہوتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کبھی مِس کالز کرنا اور کبھی ہٹلر سے تشبیہ دینا؛ واہ! امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بھی ایک غلطی ہے کہ وزیراعظم ہندوستان کے خلاف وزیراعظم پاکستان غلط زبان استعمال کرے کیونکہ کل پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا جا سکتا ہے۔ یہ جواب کوئی بھی وزیر دے سکتا تھا۔ بے کار ٹویٹس سے بہتر ہے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر میچور انداز میں جواب دیا جائے۔ جناح نے ایک دفعہ فرمایا تھا، میں جذبات تو رکھتا ہوں، مگر جذباتی نہیں ہوتا۔
آپ شاید خان کی فطرت سے واقف نہیں۔ یہ صرف ایک بار پیار سے سمجھاتا ہے۔
مودی کو تو بہت مواقع دیے کہ پر امن طریقہ سے مسئلہ کشمیر کو حل کر لے۔ لیکن اس نے مذاکرات کی بجائے تشدد اور جنگ کی راہ اپنائی۔
کشمیری اقلیت کے ساتھ جو وفاق نے اکثریت کا جبر کیا ہے اس پر مغربی دنیا بھی خوش نہیں ہے۔ اور عین ممکن ہے ملک کی اپنی سپریم کورٹ اس فیصلہ کو معطل کر دے۔ البتہ تب تک دباؤ جاری رہے گا۔
 

فرقان احمد

محفلین
آپ شاید خان کی فطرت سے واقف نہیں۔ یہ صرف ایک بار پیار سے سمجھاتا ہے۔
جی ہاں! یہ تو جناح سے بھی بڑے رہنما ہیں۔ :) فطرت کی بھی خوب کہی صاحب! صرف ایک بار پیار سے سمجھاتے ہیں؛ اس کے بعد بوٹوں کے سائے تلے بیٹھ جاتے ہیں؛ پھر جو ہدایت مل جائے۔ :)
نوٹ: بوٹوں سے مراد وہ بوٹ نہ لیے جائیں۔ :)
 
Top