بھارت کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم، 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان

جان

محفلین
مسلم امہ کے"فاتحین" جب کشمیر فتح کر لیں تو مجھے یاد سے کوئی نیک مسلمان ٹیگ کر دے! :)
 

محمد وارث

لائبریرین
42 کروڑ ڈالر پچھلے سال اور 31 کروڑ اس سال۔ یہ برآمدات ہیں۔ پلوامہ کے بعد سے تجارت پہلے ہی تقریباً بند ہے۔ اس سال یہ کل برآمدات کا 1.3 فیصد بنتا ہے
انڈیا کے ساتھ کچھ تجارت براستہ دبئی بھی ہو رہی ہے۔ پچھلے سال سے ایک انڈین گاہک سے ہماری بات چیت ہو رہی تھی جو براہ راست ہم سے خریدنے کا خواہشمند تھا۔ پھر پلوامہ ہو گیا تو اس نے دبئی کے راستے خریدنے کی آفر بھی کر دی جو ہمیں بھی منظور تھی لیکن یہ بیل کچھ اور وجوہات کی بنا پر منڈھے نہیں چڑھی۔ دوسری طرف ابھی کچھ ہی ماہ قبل ہمارے ہاں ایک فیصلہ ہوا تھا کہ ہم کچھ اپنی چیزیں مکمل اور مستقل طور پر انڈیا سےڈائریکٹ منگوایں گے، اس کا اب کچھ اور حل ڈھونڈیں گے۔ :)
 

جان

محفلین
سچ ہے کہ جذبات میں ڈوبنے کا یہ اعزاز بھی پاکستانی قوم کو حاصل ہے۔ ایسا لگتا ہے پوری امت مسلمہ کا ٹھیکہ ہم نے لے رکھا ہے اور حال یہ ہے کہ امت مسلمہ کا ذرا سا بھی رد عمل نہیں آیا۔ ہم کبھی برادر اسلامی ملک فلسطین، کبھی چیچنیا، بوسنیا، افغانستان کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہوتے ہیں لیکن جب ہم پہ وقت آن پڑے تو دور دور سے صدا نہیں آتی۔ کمال است کہ قوم کو اپنے ملک سے زیادہ برادر اسلامی ملکوں سے الفت ہے اور برادر اسلامی ملکوں کو ذرا بھی اس کی پروا نہیں۔ :)
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یہ تو خوش قسمتی تھی جو ایک ہی بار دستک دیتی ہے۔ سیاست میں غلط اندازے کیسے دہائیوں اور صدیوں تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔ :)
اسرائیلی سفیر ابا ایبن نے عربوں کے سفارتی محاذ پر پہ در پہ ناکامیوں کے بعد کیا خوب تبصرہ کیا تھا:
The Arabs never miss an opportunity to miss an opportunity​
یہاں عربوں کو پاکستانیوں سے بدل دیں۔ جملہ بالکل فٹ بیٹھے گا :)
 

جاسم محمد

محفلین
ان کا خیال تھا کہ ان کو پاکستان میں زندہ اترنے نہیں دیا جائے گا!
بھٹو ایک ذہنی مریض تھا۔ پہلے ایوب کو کہہ کہہ کر بھارت سے جنگ کروائی۔ پھر تاشقند معاہدہ کو بنیاد بنا کر اس کے خلاف پیپلز پارٹی بنا لی۔ اور خود شملہ معاہدہ کرکے پھانسی پر چڑھ گیا۔
 
بھارتی پلان۔۔۔

8b7704a0-eecd-4707-ae0e-27401dbfc43e.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
کشمیر کے بعد بھارت کے پاکستان سے متعلق عزائم:
EBY-59-RUEAAeq-XZ.jpg

ن لیگ: جاگ پنجابی جاگ
پی پی پی: جاگ سندھی جاگ
پی ٹی ایم: جاگ پشتون جاگ
بی ایل اے: جاگ بلوچی جاگ
تحریک انصاف: جاگ پاکستانی جاگ
 

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کا بھارتی ہائی کمشنر کو ملک چھوڑنے کا حکم
ویب ڈیسک بدھ 7 اگست 2019
1771325-ajaybisariya-1565188796-504-640x480.jpg

پاکستان کے نئے ہائی کمشنر امین الحق کو 16 اگست کو بھارت جانا تھا، فوٹو: فائل

اسلام آباد: پاکستان نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

پاکستان نے بھارتی ہائی کمشنر کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے جب کہ پاکستان نے اپنے ہائی کمشنر کو نئی دلی نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان کے نئے ہائی کمشنر امین الحق کو 16 اگست کو بھارت جانا تھا۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ بھارتی ہائی کمشنر کو نکالنے سے متعلق بھارت کو آگاہ کردیا ہے، پاکستانی ہائی کمشنر بھی بھارت نہیں جائیں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان ہائی کمشنر کی واپسی سے ہائی کمیشن کے اختیارات کومحدود کردیاجائے گا ، البتہ و اہگہ بارڈر کو مکمل طور پر بند نہیں کیاجائے گا، واہگہ بارڈر پر پیدل کراس کرنے والے دونوں ممالک کے شہریوں کو اجازت ہوگی جب کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان دوستی بس بدستور چلتی رہے گی۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے بھارت کے ساتھ تمام جاری منصوبوں اور معاہدوں کو معطل کردیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فضائی حدود کے استعمال سے متعلق حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیاجائے گا۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق متنازع اقدام پر پاکستان نے بھارت سے دو طرفہ تجارت معطل اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہمارے سفیر اب نئی دلی میں نہیں ہوں گے اور بھارت کے سفیر کو ملک واپس جانا ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
نوازشریف کے تینوں ادوار کے دوران کشمیر کا مسئلہ نہ صرف موجود رہا،بلکہ سلگتا بھی رہا۔ لیکن میرا چیلنج ہے کہ آپ اخبارات کی لائبریریوں سے لے کر گوگل کا ایک ایک پیج کھنگال کر دیکھ لیں، آپ کو سوائے نوازشریف کے روایتی منافقانہ چہرے کے ساتھ جاری کردہ ایک پھسپھسی سی مذمت کے علاوہ کبھی کچھ نہیں ملے گا۔
یہی حال زرداری اور ملا فضل الرحمان کا بھی ہے۔

اس دفعہ لیکن معاملہ مختلف رہا۔

ادھر انڈیا نے آرٹیکل 370 کو ختم کیا، ادھر پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر پہلے تو بااثر مسلمان ممالک سے رابطہ کرنا شروع کیا، اس مقصد کیلئے ترکی کے اردگان، ملائیشیا کے مہاتیر محمد، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو فوری طور پر پرسنل کال کرکے انگیج کیا۔
اگلے مرحلے میں امریکی محکمہ خارجہ کو خط لکھا اور خطے کی صورتحال سے آگاہ کیا۔
پھر برطانیہ کے وزیراعظم کو کال کی اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کے ذریعے لابنگ شروع کی اور گزشتہ روز جی 20 کے دس ممالک کے نمائندگان کے ساتھ میٹنگ پلان کی۔
کل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جارحانہ لیکن مدبر انداز میں تقریر کی جس میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر کسی وزیراعظم نے بھارت کو براہ راست جنگ کا دبے الفاظ میں الٹی میٹم دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ ہم ایٹم بم کی دھمکی نہیں دیتے لیکن جب روایتی جنگ سے کچھ نہ ہوسکا تو ہم ٹیپو سلطان کی طرح خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔

آج نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا، اپنے سفیر کو واپس بلالیا اور بھارتی سفیر کو واپس بھیج دیا۔

تجارتی تعلقات فوری طور پر منقطع کرنے کا اعلان کیا۔

دو دن میں عمران خان نے جو کچھ کیا، وہ نوازشریف اور زرداری کے مجموعی سات ادوار کے بائیس برس میں بھی نہ ہوسکا۔

اس کے نتائج کچھ اس طرح سے نکل رہے ہیں کہ:

سب سے پہلے تو بھارت چیخیں مارنے لگ گیا کہ عمران خان نے جنگ کی دھمکی دے دی۔
انٹرنیشنل میڈیا بالخصوص الجزیرہ اور واشنگٹن پوسٹ نے جلی حروف میں لکھا کہ عمران خان نے انڈیا کو ایگریسو یعنی جارحانہ انداز میں للکار کر مشکل میں ڈال دیا ہے۔
جو مسلمان ممالک ماضی میں بھارت کی حمایت کرتے آئے تھے وہ اب یا تو خاموش ہیں، یا پھر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کررہے ہیں۔

عالمی عدالت انصاف کی پرانی ورڈکٹس کھنگالی جاچکی ہیں جن کے مطابق آرٹیکل 370 کا خاتمہ غیرقانونی سمجھا جاتا رہا ہے۔
امریکی کانگریس کی ایک ٹیم نے بھارت کی اس حرکت کو اشتعال انگیزی قرار دے دیا ہے۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ ایران نے بھی لداخ کے مسئلے پر نئے سرے سے غور کرنے کا اعلان کردیا۔
چین کا بڑا اعلان آ چکا کہ وہ اپنی سرحد پر بھارت کو کسی قسم کی نئی چالاکی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

اللہ تعالی کبھی حق کا ساتھ نہیں چھوڑتا، عمران خان کی نیت بھی نیک ہے اور ارادے بھی پاک۔ اللہ تعالی اسے ہر حال میں کامیابی عطا فرمائے گا، اور اسی لئے مجھے یقین ہے کہ انشا اللہ، کشمیر کا مسئلہ عمران خان کے دور میں ہی حل ہو گا
تحریر: خود باباکوڈا
 

جاسم محمد

محفلین
کیا بدنصیبی ہے!
ارشاد بھٹی

کیا بدنصیبی، ایک ڈکلیئرڈ قاتل، ڈکلیئرڈ دہشت گرد، ڈکلیئرڈ انسانیت کا مجرم، ایک انتہا پسند، ایک جنونی، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، سیکولر، روشن خیال، لبرل ہونے کے دعویدار ملک کا سربراہ، جس کے امریکہ، یورپ داخلے پر پابندی تھی، آج وہ وزیراعظم، ہر جگہ جا رہا، ہر جگہ استقبال ہو رہے، کہاں گئی مہذب دنیا، کہاں گئی انسانیت، کہاں گئے انسانی حقوق کے بھاشن؟ واقعی یہ مفادات کی دنیا، کیا بدنصیبی، پورا خطہ ایک انسان کے رحم و کرم پر، ڈیڑھ ارب انسانوں پر پاگلوں کا جتھہ راج کر رہا، ڈیڑھ ارب کا ہندوستان پاگل خانے میں ڈھل چکا، ہندوستان سے مسلمانوں کو نکالو، تاریخ سے مسلمانوں کو نکالو، شہروں، دیہات سے مسلمانوں کو نکالو، کتابوں،کہانیوں سے مسلمانوں کو نکالو، مسلم ناموں پر اعتراض، مسلم کاموں پر اعتراض، کیا بدنصیبی، ہندوستان میں مسلم خون سستا، گائے موتر مہنگا، یقین جانئے، مودی کو ایک ٹرم اور مل گئی، بھارتی پارلیمنٹ میں 5فیصد گائے کوٹا ہوگا، نوٹوں پر گائے کی تصویر، مودی کی ایڈوائزر دیس کی سب سے بوڑھی گائے، ’را‘ کی چیف کنسلٹنٹ گائے، شاہ رخ، عامر سمیت مسلم اداکاروں پر یہ پابندی ہوگی کہ سال میں ایک فلم ایسی کریں جس میں ہیروئن گائے، افسوسناک، شرمناک۔

کیا بدنصیبی، مودی جارحیت، حریت کانفرنس کو چھوڑیں، مظلوم کشمیریوں کو رہنے دیں، دلّی سرکار کے اپنے اتحادی پھٹ پڑے، فاروق عبداللہ کہہ رہے ’’ایسے لگا جیسے میرے وجود کے دو ٹکڑے ہو گئے‘‘، محبوبہ مفتی کہہ رہیں ’’بھارت سے الحاق، دو قومی نظریے کی مخالفت، ہمارا فیصلہ غلط نکلا، ہم نے پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی یہ ہماری غلطی‘‘، عمر عبداللہ بولے ’’ہمارے ساتھ دھوکہ ہوگیا‘‘ کانگریس کہہ رہی ’’یہ سیاہ دن، بھارتی اقلیتوں کا قاتل دن، تاریخ ثابت کرے گی کہ یہ بھیانک غلطی‘‘، کیا بدنصیبی، مودی جارحیت، نہرو، پٹیل دستخطی وعدوں پر خطِ تنسیخ پھیر دیا، مہاراجہ ہری سنگھ، بھارتی گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے الحاقی معاہدے پر خطِ تنسیخ، بھارتی آئین پر خطِ تنسیخ، 1952کے دلی سمجھوتہ پر خطِ تنسیخ، 1949میں متعارف کردہ آرٹیکل 370پر خطِ تنسیخ، اقوام متحدہ قراردادوں، شملہ معاہدہ پر خطِ تنسیخ، کشمیر واپس 1947کی پوزیشن پر چلا گیا، کیا بدنصیبی، مودی جارحیت، مقبوضہ وادی کی تحریک تیز ہی نہیں بلکہ بھارت میں چلنے والی 50چھوٹی 17بڑی تحریکوں میں جان پڑے گی، ناگالینڈ، میزورام، منی پور، بھارتی پنجاب، لداخ، کشمیر ہر جگہ شعلے بھڑکیں گے۔

کیا بدنصیبی، مودی جارحیت، جو اسرائیل نے فلسطین میں کیا، وہی مودی کشمیر میں کرنے جا رہا، نریندر مودی، بنیامین نیتن یاہو کی دوستیاں، بھارت، اسرائیل سالہا سال سے ایک، دونوں کا ایجنڈا ایک،مقبوضہ وادی میں اب ہندوؤں کی آبادکاری، مسلمانوں کو اقلیتوں میں بدلنا مقصد، کیا بدنصیبی، مودی جارحیت، آرٹیکل 370کا خاتمہ، فرق یہ پڑا، پہلے جموں وکشمیر خودمختار، اب نہیں، پہلے بھارتی کشمیری شہری نہیں تھا، اب ہر بھارتی کشمیری شہری، پہلے مقبوضہ وادی کا اپنا جھنڈا، ترانہ، آئین، اب یہ سب ختم، پہلے بھارتی شہری کشمیر میں جائیداد، زمین نہیں خرید سکتا تھا، اب ہر بھارتی کشمیر میں جائیداد، زمین خرید سکے گا، اوپر سے لداخ، مقبوضہ وادی سے علیحدہ، مطلب مقبوضہ وادی بھارت کا ایک صوبہ بن گئی، کیا بدنصیبی، مودی جارحیت، پاکستان میں منظم پروپیگنڈا مہم، کوئی سنا رہا، عمران خان امریکی صدر ٹرمپ کے ہاں کشمیر بیچ آئے، کوئی بتا رہا یہ ٹرمپ، مودی، عمران سازش، کوئی کہہ رہا عمران خان، ٹرمپ کارڈ کے چکر میں ٹرمپ کے ٹریپ میں آگئے، کوئی کہہ رہا جس ثالثی کا ٹرمپ کہہ رہے تھے، وہ یہی تو تھی کہ کشمیر دو حصوں میں، اِدھر ہم، اُدھر تم، عجیب و غریب سازشی تھیوریاں، وہ بھی منظم پروپیگنڈوں میں لگے ہوئے، جن کے سینوں پر سول، ملٹری قیادت کے کامیاب دورۂ امریکہ کی وجہ سے سانپ لوٹ رہے تھے، جنہیں یہ سب ہضم نہیں ہو رہا تھا، اب موقع ملا، حسد نکال رہے، وہ بھی پروپیگنڈے کر رہے جن کی بقا اسی میں کہ حکومت ناکام ہو، عمران خان کو گندا کیا جائے، وہ بھی پروپیگنڈ ے کر رہے جن کے دماغ ہی سازشی ہو چکے، سوال یہ، اکیلا عمران کشمیر کا سودا کیسے کر سکتا، کیا مقبوضہ وادی میں عمران خان کی حکومت، کیا پاکستان کی فوج وہاں لڑ رہی، کیا ٹرمپ ملاقات کے بعد پاکستان نے وہاں سے اپنی فوج واپس بلا لی، اگر عمران خان نے کشمیر بیچنا تھا، ٹرمپ نے کشمیر خریدنا تھا،کوئی سازش کرنا تھی تو ایسی کچی سازش کہ اِدھر وائٹ ہاؤس میں سازش ہوئی، اُدھر دوستوں کو پاکستان میں پتا چل گیا، سبحان اللہ، پھر علی گیلانی کہہ چکے، عمران پہلا لیڈر جس نے نہتے کشمیریوں کیلئے آواز اٹھائی، یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کہہ رہیں، عمران خان جس طرح کشمیریوں کی مدد کر رہے، میں شکر گزار، مگر کیا کریں حاسدوں کا حسد ایسا کہ جھوٹ، منافقت، افواہیں عروج پر۔

کیا بدنصیبی، کوئی یہ نہ سوچے، جب وائٹ ہاؤس میں عمران، ٹرمپ پریس کانفرنس میں جب ٹرمپ نے کشمیر پر بات کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ مودی نے مجھ سے کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی تھی، تب وہ مودی جس کے انتخابی منشور میں تھا کہ اس بار جیت کر ہم کشمیر کی خصوصی حیثیت آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے کا خاتمہ کریں گے، اس پر ایسی تنقید ہوئی کہ اسے ’غدار‘ کہہ دیا گیا، تب جو کام مودی نے ذرا ٹھہر کر کرنا تھا وہ اس نے فوراً کرلیا، اب ہمیں کیا کرنا، ہمیں چومکھی لڑائی لڑنی، اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹانا، دوست ممالک کو ایکٹیو کرنا، ٹرمپ افغانستان سے نکلنے کیلئے ہم پر انحصار کر رہا، ہمیں اس کے بدلے کشمیر پر اس سے مدد لینی چاہئے اور خود ایک ہو کر متفقہ لائحہ عمل بنا کر، ملک ملک جاکر مودی جارحیت کو بے نقاب کرنا، یہ چومکھی لڑائی تب تک، جب تک مظلوم کشمیری بھائیوں کا معاملہ حل نہیں ہو جاتا، کیا بدنصیبی، امریکہ، بھارت کا نیوکلیئر پارٹنر،بھارت دنیا کیلئے ایک بہت بڑی منڈی، بھارت کی سفارتکاری ایسی جھوٹ بیچ دے، کیا بدنصیبی، ہم بھوکے ننگے، ہماری دنیا میں کوئی حیثیت نہ اہمیت، عالمی تنہائی، وزیر خارجہ وہ جو دوستوں کو روز بتائیں ’’میں تو وزیر خارجہ بننا ہی نہیں چاہتا تھا، مجھے تو عمران خان نے زبردستی وزیر خارجہ بنا دیا‘‘، سیاسی قیادت ایسی، گزشتہ روز فوج کی طرف سے سخت، مضبوط پیغام کے بعد جو ہماری پارلیمنٹ میں ہوا، سب کے سامنے، سفارتکاری ایسی، سچ نہ بیچ پائیں، پچھلے 5سالوں میں 56ارب خرچنے والے ہمارے سفارتکاروں کی گزشتہ 5سالہ کارکردگی ہی دیکھ لیں، کیا بدنصیبی، اب ہم لڑ کر شام، عراق، لیبیا تو بن سکتے ہیں، کشمیر حاصل نہیں کر سکتے، لڑ کر کشمیر لینے کے تین مواقع آئے، ہم ضائع کر چکے، اب لڑائی سفارتی محاذ پر ہی لڑنا ہوگی، ویسے کیا بدنصیبی ہے۔
 

  • عاصمہ شیرازی کا کالم: امریکہ بہادر کا آسرا۔۔۔
عاصمہ شیرازی صحافی
Image copyrightGETTY IMAGES
Image captionٹرمپ صاحب نے آخر یہ کیا کیا؟
جس قدر بد دعائیں، طعنے اور مغلظات مجھے آتی تھیں میں نے بک دیں۔۔۔

کمرے میں گھوم گھوم کر ہلکان ہو گئی، جس قدر غم اور غصے کا اظہار کر سکتی تھی کیا۔۔۔

مٹھیاں بھینچیں، ہاتھوں سے بالوں کو کھینچا، دانت پیسے اور پھر ہاتھ مل لیے۔۔۔

صرف ایک ہی غصہ تھا کہ ٹرمپ صاحب نے آخر یہ کیا کیا؟

مسئلہ کشمیر سے متعلق سوال کے جواب میں خود ہی ہونٹوں کو گولائی میں لا کر مودی کو ’موڈی‘ بنا کر بتا ڈالا کہ موڈی نے مجھ سے خود ’ثالثی‘ کے لئے کہا ہے۔

معصومانہ سے انداز میں بقول ان کے سوال بھی پوچھا گیا کہ کہاں کی۔۔۔ جواب آیا ’کشمیر۔‘

ہائے رے معصومیت! یقین بھی کیا تو ٹرمپ صاحب پر، ہم کس قدر خوش تھے، وزیراعظم کے کامیاب امریکی دورے کی خوشیاں مناتے۔ کیوں نہ مناتے؟ آخر دنیا کے طاقتور ترین ملک کی طاقتور ترین شخصیت نے یقین دلایا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کی ثالثی کے لئے تیار ہیں۔

یہ دھوکا پہلی بار نہیں ہوا۔ حال ہی میں امریکہ کے دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی کہ اسامہ بن لادن کی اطلاع بھی ہمارے حساس ادارے نے امریکہ کو دی تھی اور امریکہ بہادر نے اچک لی۔

اس سے پہلے 1971 کی جنگ کے دوران بھی امریکی بحری بیڑہ وعدے کے باوجود بحیرہ عرب میں آ کے ہی نہیں دیا۔

Image captionاب کرنا کیا ہے؟ انڈیا نے جارحانہ قدم اُٹھا لیا۔۔۔
اب کرنا کیا ہے؟ انڈیا نے جارحانہ قدم اُٹھا لیا، انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے ریاست ہندوستان کی یونین ٹیریٹری بنا ڈالا۔

ہم جوابی کارروائی کے طور پر اسی او آئی سی سے رابطے میں ہیں جنھوں نے ماضی قریب میں پاکستان کی ’مبینہ‘ مخالفت کے باوجود انڈیا کی وزیر خارجہ کو خصوصی دعوت پر دبئی میں منعقدہ اسلامی ممالک کے اجلاس میں بلایا تھا۔

سوال یہ ہے کہ کیا ترکی ہماری محبت میں انڈیا کے ساتھ اربوں ڈالرز کی تجارت ختم کر دے گا یا ملائشیا انڈیا سے کُٹی کر لے گا؟

سعودی عرب ہماری ’محبتوں‘ کا جواب انڈیا سے سفارتی تعلقات ’خلاص‘ کر کے کرے گا یا متحدہ عرب امارات اور ایران ہمارے لیے نئی دہلی سے دشمنی مول لیں گے؟

اور تو اور، ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری دوستی والا چین سلامتی کونسل میں ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا یا نہیں؟

Image copyrightGETTY IMAGES
Image captionانڈیا جتنی مرضی کاغذ کی کشتیاں دریا میں ڈال دے، کشمیر میں تحریک آزادی کی ناؤ تیرتی رہے گی
یہ بات تو طے ہے کہ انڈیا جتنی مرضی کاغذ کی کشتیاں دریا میں ڈال دے، کشمیر میں تحریک آزادی کی ناؤ تیرتی رہے گی۔ یہ جنگ اب شروع ہوئی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کے دعویدار انڈیا کے سب نظریاتی بُت اب ایک ایک کرکے دھڑام سے گر سکتے ہیں۔

مگر وقت آ گیا ہے کہ اپنی سفارتکاری کی خامیوں اور ریاستی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے۔ پاکستان کی پارلیمان ہی وہ جگہ ہے جہاں مشترکہ دانش کے ذریعے سے اپنی خارجہ اور معاشی پالیسیوں کو ترتیب دینا مناسب ہو گا۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس نتیجہ خیز بنانا ہو گا، صرف یہی نہیں حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھی ریاستی پالیسیوں سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اور کیا ہی مناسب ہو کہ ایک اجلاس بلا ہی لیا جائے جس میں تمام قومی قیادت مل بیٹھے، ایک ساتھ فیصلے کرے تا کہ اتحاد کا ایک صفحہ تیار ہو سکے۔



https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48103207

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48572948

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48263125
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48019020


https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49000727

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48421159
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47201536


https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48836118
 

جاسم محمد

محفلین
آنسوؤں سے ہوشیار
حامد میر

وہ روتا پھرتا ہے۔ کہتا ہے مجھ سے دھوکہ ہو گیا۔ خود کو مظلوم ثابت کرنے کیلئے آنسو بھی بہا رہا ہے لیکن ان آنسوئوں کے پیچھے دھوکے کی ایک لمبی کہانی چھپی ہوئی ہے اور یہ دھوکہ نمائشی آنسو بہانے والے اس شخص کے خاندان نے خود اپنی قوم کے ساتھ کیا۔ اس شخص کا نام ہے فاروق عبداللہ، جو مقبوضہ جموں و کشمیر کا تین مرتبہ وزیراعلیٰ رہا۔ جب سے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دفعہ 370اور 35اے ختم کرتے ہوئے مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا ہے تو فاروق عبداللہ اور اس کا بیٹا عمر عبداللہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت نے کبھی دفعہ 370کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا کیونکہ اس کے ذریعہ فاروق عبداللہ کے باپ شیخ محمدعبداللہ نے مقبوضہ ریاست اور بھارت کے درمیان ایک ناجائز تعلق قائم کیا تھا، جس کا مقصد صرف اور صرف ریاست پر اپنے ذاتی اقتدار کو قائم رکھنا تھا۔ دفعہ 370دراصل بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ شیخ عبداللہ نے کشمیریوں کو راضی رکھنے کے لئے 35اے بھی آئین میں شامل کرائی اور غیر ریاستی افراد کی طرف سے ریاست میں جائیداد خریدنے کا راستہ بند کر دیا۔ 370اور 35اے کا خاتمہ دراصل بھارتی ریاست کی طرف سے ان کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ ہے جو بھارتی ریاست کے وعدوں پر اعتبار کر کے بھارتی آئین کے تحت حلف اٹھا کر اپنی قوم سے غداری کرتے رہے۔ شیخ محمد عبداللہ کو بانیٔ پاکستان قائداعظمؒ محمد علی جناح نے اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ کرنے سے منع کیا لیکن اُس نے قائداعظمؒ کی بات نہ سنی اور نہرو کے ساتھ ملی بھگت کر کے کشمیریوں کو بھارت کا غلام بنا دیا۔ تاریخ نے قائداعظمؒ کو بار بار سچا اور شیخ محمد عبداللہ کو بار بار جھوٹا ثابت کیا۔ آج جب بھارت نے بطور ریاست اپنے آپ کو بھی جھوٹا اور دغا باز ثابت کر دیا ہے تو شیخ محمد عبداللہ اور اُس کے خاندان کا اصل کردار سامنے لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس خاندان نے صرف کشمیریوں کو نہیں بلکہ پاکستان کو بھی دھوکہ دیا۔

شیخ محمد عبداللہ نے اپنی سوانح حیات ’’آتش چنار‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر تو کیا ہے لیکن قائداعظمؒ کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی اصل کہانی نہیں لکھی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیریوں کی حالیہ تحریک آزادی کا باقاعدہ آغاز علامہ اقبالؒ نے 1931میں کیا تھا۔ 13جولائی 1931کو سرینگر میں مسلمانوں کی شہادت پر پہلا احتجاجی جلسہ اور جلوس علامہ اقبالؒ کی زیرِ قیادت 14اگست 1931کو باغ بیرون موچی دروازہ لاہور میں منعقد ہوا۔ اس جلسے جلوس نے کشمیری مسلمانوں کو ہمت و حوصلہ دیا اور 1932میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس معرض وجود میں آئی، جس کا مقصد ریاست سے ڈوگرہ راج ختم کر کے برٹش انڈیا سے الحاق کرنا تھا۔ یہ پہلو انتہائی قابل غور ہے کہ 1933میں شیخ محمد عبداللہ کی شادی اکبر جہاں نامی ایک خاتون سے ہوئی جو ایک برطانوی جاسوس لارنس آف عریبیہ کی سابقہ بیوی قرار دی جاتی ہے۔ اکبر جہاں کا باپ ہیری نیڈوز لاہور اور سرینگر میں نیڈوز ہوٹل کا مالک تھا۔ لاہور کے نیڈوز ہوٹل کی جگہ اب آواری ہوٹل بن چکا ہے۔ اسی ہوٹل میں ٹی ای لارنس آ کر ٹھہرا کرتا تھا اور کرم شاہ کے نام سے افغانستان کے امیر امان اللہ خان کی حکومت کے خلاف سازش کر رہا تھا۔ یہیں پر اس کی ملاقات اکبر جہاں سے ہوئی اور دونوں نے شادی کر لی۔ جب کلکتہ کے ایک اخبار ’’لبرٹی‘‘ نے لارنس آف عریبیہ کا بھانڈا پھوڑ دیا تو وہ واپس بھاگ گیا اور جاتے جاتے اکبر جہاں نے اُس سے طلاق لے لی۔ اکبر جہاں کی شیخ عبداللہ سے شادی ہوئی تو موصوف کے خیالات بدل گئے اور 1939میں انہوں نے مسلم کانفرنس چھوڑ کر نیشنل کانفرنس بنا لی۔ 1944میں قائداعظمؒ سرینگر گئے تو مسلم کانفرنس نے اُن کے لئے استقبالیے کا اہتمام کیا۔ شیخ عبداللہ نے قائداعظمؒ کو نیشنل کانفرنس کے استقبالیے میں بھی شرکت کی دعوت دیدی۔ قائداعظمؒ نے دونوں کی دعوت قبول کر لی لیکن شیخ عبداللہ کو ذاتی ملاقات میں سمجھایا کہ وہ کانگریس سے دور رہے اور تحریک پاکستان کا حصہ بن جائے۔ بقول کے ایچ خورشید ایک ملاقات میں قائداعظمؒ نے شیخ عبداللہ کو کہا کہ ’’عبداللہ تم دھوکہ کھائو گے، باز آ جائو اور مسلم کانفرنس کا ساتھ دو‘‘۔ اس مشورے پر شیخ عبداللہ چیخ اُٹھا اور اُس نے بیان دیا کہ ’’یہ جو باہر سے لوگ آتے ہیں اُنہیں کشمیر کی سیاست میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں، مسٹر جناح کو چاہئے کہ وہ کشمیر سے واپس چلے جائیں‘‘۔

جب پاکستان بن گیا تو قائداعظمؒ نے شیخ عبداللہ کے پاس ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور سردار شوکت حیات سمیت کئی نمائندے بھیجے لیکن شیخ عبداللہ ان سب سے بدتمیزی کے ساتھ پیش آتا رہا۔ اُس نے سردار شوکت حیات کو گرفتاری کی دھمکی دیدی اور کہا کہ میں تمہیں ایک خود مختار ریاست بنا کر دکھائوں گا۔ جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی ایک نام نہاد دستاویز پر دستخط کر دیئے تو شیخ عبداللہ کی پوزیشن کمزور ہو گئی لیکن اُس نے نہرو کے ساتھ مل کر ریاست کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے نہرو کو یہ تاثر دیتا تھا کہ پاکستانی حکومت اُس کے ساتھ رابطے کر رہی ہے۔ 1952میں اُس نے نہرو کے ساتھ معاہدہ دہلی پر دستخط کئے اور یوں آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو اپنا علیحدہ پرچم رکھنے کی اجازت مل گئی۔ اس دوران شیخ محمد عبداللہ نے کچھ مزید اختیارات مانگے تو نہرو نے موصوف کو برطرف کر کے جیل میں بند کر دیا۔ جیل سے شیخ محمد عبداللہ نے پاکستانی حکومت کو خط لکھا کہ اُسے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ پاکستان کے حق میں فیصلہ دیدے گا۔ اس بلیک میلنگ کی وجہ سے جنوری 1958میں اُسے رہا کیا گیا لیکن اپریل 1958میں دوبارہ گرفتار کر کے اُس پر بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا جس میں چار پاکستانیوں کو بھی شریک جرم بنایا گیا۔ شیخ عبداللہ بھارت کو پاکستان کے نام پر بلیک میل کرتا رہا اور کشمیریوں کے سامنے آزادی کا ہیرو بنتا رہا اور پھر 1974میں اندرا گاندھی کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد دوبارہ وزیراعلیٰ بن گیا۔ 1982میں دنیا سے رخصت ہوا تو اُس کا بیٹا فاروق عبداللہ وزیراعلیٰ بن گیا۔ فاروق عبداللہ نے بھی ایک برطانوی خاتون سے شادی کی۔ فاروق عبداللہ کے بعد اُس کا بیٹا عمر عبداللہ مقبوضہ ریاست کا وزیراعلیٰ بن گیا۔ آج یہ خاندان اپنی آنکھوں میں آنسو لا کر دُہائی دے رہا ہے کہ بھارت سرکار نے ان کے ساتھ دھوکہ کر دیا جبکہ سچائی یہ ہے کہ اس خاندان نے اپنی قوم کے ساتھ دھوکہ کیا۔ اگر 1947میں شیخ عبداللہ اقتدار کی ہوس میں نہرو کا ساتھ نہ دیتا تو آج کشمیر آزاد ہوتا۔ وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ سید علی گیلانی، یاسین ملک، میر واعظ عمر فاروق، آسیہ اندرابی، شبیر شاہ اور دیگر حریت پسند رہنما ٹھیک تھے اور فاروق عبداللہ جیسے لوگ غلط تھے، جو آج بھی بھارتی آئین کے وفادار ہیں۔ فاروق عبداللہ کی رسوائی دراصل بھارت نواز کشمیریوں کی رسوائی ہے۔ دفعہ 370کا خاتمہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مضبوط اور بھارتی ریاست کو کمزور کرے گا۔ مودی بھارت کا گوربا چوف ثابت ہو گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس نتیجہ خیز بنانا ہو گا، صرف یہی نہیں حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھی ریاستی پالیسیوں سے آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اور کیا ہی مناسب ہو کہ ایک اجلاس بلا ہی لیا جائے جس میں تمام قومی قیادت مل بیٹھے، ایک ساتھ فیصلے کرے تا کہ اتحاد کا ایک صفحہ تیار ہو سکے۔
اسمبلی کی بجائے جیل میں یہ اجلاس رکھ لیتے ہیں۔
 
چلیں پھر ایک صفحے پر موجود حصے دار ہی بڑھکیں مارنے کے علاؤہ کچھ کرلیں۔

موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی اظہر من الشمس ہے۔ ایک سال کا ریکارڈ ہے، دنیا کے کسی سربراہِ مملکت یا حکومت نے ہمارے وزیرِ اعظم کا ائر پورٹ پر استقبال نہیں کیا ہے۔

امریکہ کے دورے کی کامیابی تو نظر آرہی گئی۔ سعودی عرب، یو اے ای، ایران سمیت دنیا کے کسی ملک کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں۔ آپ کنٹینر پر چڑھے رہے اور ادھر ہندوستان سلامتی کونسل کا غیر مستقل ممبر بن بھی گیا۔

ہندوستان کے کشمیر پر اس عمل کے جواب میں کیا قومی سلامتی کونسل کے غم و غصّے کے اظہار سے کام چل جائے گا؟
 

جاسم محمد

محفلین
مقبوضہ کشمیر: جذبات بھری خیالی دنیا سے باہر نکلیں
07/08/2019 انیق ناجی

مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی جارحیت کا جواب جو مجموعی طور پر ہم نے آج دیا، اس کا لب لباب بس اتنا ہے کہ اگر بھارت نے ہمارے خلاف جارحیت کی یا حملہ کیا تو ہم اس کا جواب دیں گے اور اگر کمزور پڑے تو ایٹم بم چلانا پڑے گا۔ اس میں نیا کیا ہے؟

میں طنز نہیں کر رہا اور اندازہ رکھتا ہوں کہ کشمیر کے معاملے میں دنیا کا کوئی قابل ذکر ملک بھارت کو ناراض نہیں کرے گا اور ہماری، جو کشکول ہاتھ میں اٹھائے در در سے مدد کی خیرات مانگتے ہیں، حیثیت اتنی نہیں ہے کہ دنیا ہمارے لئے بھارت سے کٹ جائے۔ مجھے میڈیائی مخلوق کے ان میک اپ سے بھرے مجاہدوں پر حیرت ہے جو گلا پھاڑ کے سوال کرتے ہیں کہ پاکستان نے مودی کو اس کی اجازت کیسے دی یا وہ میک اپ زدہ جعلی چہروں اور لہجے کی مالک خواتین جن کو شاید یہ یاد بھی نہ ہو کہ پاکستان کے صوبوں کی تعداد کیا ہے، فرماتی ہیں کہ “وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اب مودی کو وہ سبق سکھائے کہ اسے یاد رہے۔”

کیا مودی پاکستان کی مدد سے اقتدار میں آیا تھا کہ وہ ہم سے اجازت لے یا پاکستان بھارت کو سبق سکھانے کے لئے خود کشی کر لے۔ آدھی سے زیادہ میڈیائی مخلوق کو کتابوں سے نفرت ہے، اخبارات سے نفرت ہے، تاریخ پڑھنے کو یہ لوگ گالی سمجھتے ہیں۔ عقل اور ہوش مندی کو یہ بد ترین دشمن سمجھتے ہوئے اس سے دور بھاگتے ہیں۔ یہ مناظرے کی دنیا کے لوگ ہیں، داستان گوئی کے یا پھر نچلی سطح کے جذبات فروش ہیں۔ میں قسم اٹھا سکتا ہوں کہ آدھی سے زیادہ چسکہ فروش میڈیائی مخلوق میں سے کسی نے بھی گزشتہ روز یا آج بھارتی اخبارات پڑھے ہوں یا بھارتی پارلیمنٹ کی آج کی کارروائی کو دیکھنے کی زحمت ہی کی ہو۔

ہر کوئی گلا پھاڑ پھاڑ کے بھارت کو سبق سکھانے کی بات کرتا ہے۔ او بھائی! خود کشی کے علاوہ کوئی اور طریقہ بھی بتا دو۔ ہماری وقعت اس دنیا میں بالکل اتنی ہی ہے جتنی کہ ہمارے پاسپورٹ کی قدر ہے اور وہ کتنی ہے، کیا بتانے کی ضرورت ہے؟

میں نریندر مودی کی بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے پر کیسے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے سر پرائیز دیا ہے جبکہ اس کی انتخابی مہم کے پارٹی منشور کا یہ حصہ تھا۔ اب خبریں سامنے آ چکیں ہیں کہ فروری میں باضابطہ طور پر امریکہ کو اس قدم سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔ امریکی صدر نے جب محض دو ہفتوں میں دو مرتبہ کشمیر میں ثالثی کا ذکر کیا تھا اس کے پیچھے انفارمیشن تھی کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ پاکستانی سلامتی کی ذمہ دار ایجنسیوں کے کام سے ہلکی سے واقفیت رکھنے والا مان ہی نہیں سکتا کہ ان کو مودی کے اس قدم کا علم نہیں تھا۔ یقیناً وہ جانتے تھے مگر بات پھر وہی ہے کہ وہ کیا کرتے؟ شور مچاتے؟ وہ اب مچا لیں، کون روکتا ہے؟

وہاں بندے بھیج کر دھماکے کرواتے؟ اگر ایسا ہوتا تو ایف اے ٹی ایف سے ہمیں اس میڈیائی مخلوق نے بچانا تھا؟

میرا گمان ہے کہ شاہ محمود قریشی کا اس وقت سعودی عرب میں ہونا بھی صرف حج کی سعادت حاصل کرنا نہیں ہو سکتا۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے کردار کو ذہن میں رکھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ اس وقت سعودی عرب میں کیوں بیٹھا ہے۔

باقی رہے او آئی سی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی تو جتنا کردار انہوں نے پہلے ادا کیا تھا اتنی ہی توقع اب بھی رکھ لیں۔ کسی کو شبہ نہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے اس کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا، میں نوحے لکھوں تو عمر بیت جائے گی ظلم کی کہانیاں ختم نہیں ہوں گی، اب بھی ان پر ساری دنیا کے سامنے ظلم عظیم ہوا ہے، ان کے حقوق، زندگی، زمین اور آزادیِ پر ڈاکہ مارا گیا ہے۔ سوال مگر پھر وہی ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم جنگیں کر کے دیکھ چکے، آدھا ملک گنوا چکے، بھارت سے بہتر سال کسی تجارتی نفع کی بغیر، کسی طرح کے باہمی سماجی تعلقات کے بغیر گزارنے کے بعد بھی ہم کشمیر کا مسئلہ اپنے جائز موقف اور انصاف کے اصولوں پر کھڑے ہو کر نہیں حل کر سکے تو اب کیسے کریں۔ دنیا ہماری خواہش یا انصاف و عدل کے اصول پر چلتی تو جنت کہلاتی مگر یہ دنیا ہے۔

سچی بات ہے کہ ہمارے پاس ماضی میں ایک سے زیادہ بار اس مسئلے کو عزت سے حل کروانے کے مواقع چل کر آئے تھے مگر ہمیں عزت راس نہیں تھی۔ ہم تب کسی اونچے خیالی محل کے مکین تھے اور آج جب خیالات کا محل ٹوٹا اور سلگتی زمین سے پیر اس طرح جل رہے ہیں کہ کبھی ایک پیر اٹھاتے ہیں کبھی دوسرا، تو جا کر اب سمجھ آئی ہے کہ خواہشیں اکیلی کچھ نہیں ہوتیں۔ جو حال ہم نے اپنا کر لیا ہے اس سے بھارت فائدہ کیوں نہ اٹھاتا؟ اس سے باقی دنیا بھی فائدہ کیوں نہ اٹھائے؟ جو زبان ہمیں سمجھ آتی ہے اسی زبان میں ہم سے بات کی جا رہی ہےاور لطف یہ ہے کہ ہمیں وہی زبان بالکل درست سمجھ بھی آ رہی ہے۔

چند دن کا شور ہو گا، پھر مسئلہ کشمیر اپنے حل کی جانب چل پڑے گا، وہی حل جو اب تک بیک ڈور ڈپلومیسی میں زیر بحث رہتا تھا، بھارت اسے میدان میں لے آیا ہے۔ اتنا تو سب ہی جانتے ہیں کہ جو مسئلہ میدان جنگ میں نہیں جیتا جا سکتا وہ گفتگو سے کیونکر جیتا جائے گا۔

عزت مانگی نہیں، کمائی جاتی ہے۔ اسلام کے نام پر بنے ملک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ایک تعلیم کی دن رات مسلسل حکم عدولی کرتے ہوئے ہر طرح کی کرپشن کو جائز ماننے والے، اپنے مریضوں کی دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے، اپنے بچوں کو سڑکوں کا بھکاری بنانے والے، اپنی اقلیتوں کو الزام لگا کر زندہ جلانے والے، ہر چڑھتے سورج کے پجاری اور جانے والے کو گالی دینے والے، ٹیکس ادا کرنے کو حماقت جاننے والے، بنکوں سے قرضہ معاف کروانے والوں کو وزیر بنانے والے، سیاسی لوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے اور جھوٹ کو رفعتیں دینے والے ہم لوگ جب سنجیدہ منہ بنا کر غیرت وغیرہ کی بات کرتے ہیں تو دنیا اس کا کیا جواب دے گی؟ وہی نا جو دے رہی ہے۔

غیرت رکھنے والی اقوام اور طرح کی ہوتی ہیں۔ عزت نام کی چیز سخت محنت، اپنی قوم کے ساتھ دیانت داری اور ہنر کے میدان میں نکتہ عروج حاصل کرنے کے بعد ملا کرتی ہیں۔ ہم جو یہ نہ طے کر پائے کہ آئین ٹھیک بھی ہے یا غلط ، آئینی یا قانونی حدود میں رہنا ہمارے لئے کمزوری اور توہین کی علامت بن چکا ہے۔ کوئی ادارہ اپنی حدود میں رہنے کو تیار نہیں، اور توقع یہ ہے کہ دنیا کو سبق سکھانے چلے ہیں۔ کشمیر کے نام پر کشمیر کمیٹی کے دورے بہت ہو گئے، اب کشمیریوں کو مزید جھوٹے خواب دکھانے سے بہتر ہے کہ وہاں امن کی ہر ممکن اور سنجیدہ کوشش کی جائے ۔ پاکستان مودی حکومت کے غیر معمولی قدم کو تسلیم کرنے کے بدلے میں اگر کشمیری عوام کو کچھ ریلیف دلوا سکتا ہے تو اسے لازماً ایسا کرنا چائیے۔ ابھی متحدہ عرب امارات کے بھارت میں سفیر کا بیان سامنے آیا ہے کہ ان کو امید ہے کہ کشمیر کی نئی صورتحال سے عوام کو ترقی اور خوشحالی مئیسر آئے گی۔ جذباتی دوست دوبارہ پڑھ لیں، افاقہ ہو گا۔ چین کی مذمت بھی روایتی ہے، امریکہ خاموش ہے البتہ ایلس ویلز اسلام آباد پہنچ چکیں ہیں۔

اگر یہ قبول نہیں تو بھارت کو ایک ہفتے کا نوٹس دیں، ایٹم بم تیار رکھیں اور ایک ہفتے میں اگر بھارتی حکومت اپنا قدم واپس نہیں لیتی تو حملہ کر دیں ، خود بھی مٹ جائیں اسے بھی مٹا دیں، شہادت کی آرزو اگر سچی ہے تو اسے میدان جنگ میں ثابت کریں محض نغمے گانے سے کشمیر تو کیا کوئی ایک مکان بھی آزاد نہیں ہوتا۔
 
یہ معاملہ تو اب دنیا کے ہر فارم پر اٹھایا جا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں بات کہاں تک جاتی ہے۔
فورمز پر اٹھاتے تو کچھ آگہی ہوتی دنیا والوں کو۔ فش فارم اور مویشی فارم پر اٹھانے کا کوئی فایدہ نظر نہیں آرہا۔
 

جاسم محمد

محفلین
موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی اظہر من الشمس ہے۔ ایک سال کا ریکارڈ ہے، دنیا کے کسی سربراہِ مملکت یا حکومت نے ہمارے وزیرِ اعظم کا ائر پورٹ پر استقبال نہیں کیا ہے۔
جس وزیر اعظم کا ائیر پورٹ پر استقبال کیا جاتا تھا وہ پرچیوں کے ذریعہ ملک و قوم کو بے عزت کروا آتا تھا :)
 

جاسم محمد

محفلین
امریکہ کے دورے کی کامیابی تو نظر آرہی گئی۔ سعودی عرب، یو اے ای، ایران سمیت دنیا کے کسی ملک کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں۔ آپ کنٹینر پر چڑھے رہے اور ادھر ہندوستان سلامتی کونسل کا غیر مستقل ممبر بن بھی گیا۔
اچھے تعلقات سے کیا مراد ہے؟ یہ ممالک اپنی تجوریاں کھول کر امداد کے خزانے پاکستان کے حوالہ کر دیں تو تعلقات اچھے کہلائیں گے؟
 
Top