بلجیم، جرمنی اور فرانس کی سیر

عرفان سعید

محفلین
گزشتہ سے پیوستہ

2009 تا 2011 جب جرمنی میں قیام پذیر تھا تو یہ معلوم ہوا کہ گوئٹے کی یہ سرزمین یورپ میں اپنے مرکزی جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے سیر و سیاحت کے لیے نہایت موزوں اور سہل ہے۔ جرمنی کی سرحدیں فرانس، بلجیم، نیدر لینڈ، ڈنمارک، پو لینڈ، چیک، آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ سے ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے ممالک تک رسائی خشکی کے راستوں سے ممکن ہے۔ اس وجہ سے کار یا جرمنی کی سبک رفتار ٹرینیں بہت فائدہ مند ہیں اور سیر و سیاحت میں بہت ممد و معاون ہوتی ہیں۔

فن لینڈ میں یہ نعمت میسر نہیں۔ اپنی جنوبی اور مغربی سرحدوں پر بحرِ بالٹک کے پانیوں نے اس دھرتی کو باقی یورپ سے کافی حد تک کاٹ کر رکھا ہوا ہے۔ اس لیے مرکزی یورپ تک رسائی ہوائی سفر سے ہی ممکن ہے۔

ہوائی جہاز کی ٹکٹوں اور دورانِ سفر رہائش کی سب بکنگ کروا لی تھی۔ صرف برسلز سے کولون کی ریل ٹکٹ ابھی بک نہیں کی تھی۔ اس شش و پنج میں رہا کہ بک کروں یا نہ کروں۔نجی اور دفتری مصروفیات میں وقت گزرتا رہا۔ لیکن مقاماتِ سیاحت کی تحقیق کو ابھی تک ہاتھ نہ لگا سکا تھا۔ بیگم بھی گاہے گاہے اس کا اظہار کرتی رہتیں۔ میں بھی یاد دلاتا رہتا۔ لیکن ہر بار شدید مصروفیت کا عذر پیش کر کے ہم دونوں خاموش ہو جاتے۔ یہاں تک کے فلائیٹ میں ایک ہفتے سے بھی کم کا وقت رہ گیا اور مصروفیت بدستور قائم تھی۔
(جاری ہے)
 
آخری تدوین:
درج کر لیا گیا ہے۔
لیکن تصاویر کے لیے ڈھیروں مراسلے پڑھنا ہوں گے۔
تصاویر کے لیے ہمیں سب کچھ منظور ہے لیکن اگر مراسلے کے آخر میں تصویر بھی شامل کر دیں تو یقین مانیں اس سفرنامے کا لطف دوبالا ہو جائے گا ہمیں لگے گا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے بغیر ٹکٹ کے :D
 

عرفان سعید

محفلین
تصاویر کے لیے ہمیں سب کچھ منظور ہے لیکن اگر مراسلے کے آخر میں تصویر بھی شامل کر دیں تو یقین مانیں اس سفرنامے کا لطف دوبالا ہو جائے گا ہمیں لگے گا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے بغیر ٹکٹ کے :D
سفر شروع تو ہونے دیں۔ ابھی تو ایک ہفتہ باقی ہے۔
 

عرفان سعید

محفلین
بلکہ لگے ہاتھوں کیو موبائل اور مولٹی فوم وغیرہ کے اشتہار بھی چلوا دیں تصاویر سے پہلے۔ سب ہمہ تن گوش و چشم براہ وغیرہ تو ہیں ہی۔
مانا کہ آپ کو دونوں کمپنیوں نے ملازمت آفر کر دی ہے۔ لیکن اتنی پھرتیاں بھی اچھی نہیں۔
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
ویسے کوئی پاکستانی یا انڈین ایشیا کی نمائندگی کرتے ہوئے سفرنامہ شروع کر دے تو کیا ہی بات ہے۔

اوہو پہلے پڑھ لیتا تو میں یاز بھائی ملکر "کر لیتے کچھ" خیر آپکے اختتام تک شاید کچھ انتظام ہو ہی جائے-

کچھ دن قبل ہی دراوڑ فورٹ کے ٹرپ کی تصاویر دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ ایک چھوٹا سا سفرنامہ یہ بھی بن سکتا ہے۔
 
کچھ دن قبل ہی دراوڑ فورٹ کے ٹرپ کی تصاویر دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ ایک چھوٹا سا سفرنامہ یہ بھی بن سکتا ہے۔

آپ وہ پوسٹ کریں میں ہرن مینار کا چکر لگا لیتا ہوں- ;)

تب تک تو عبداللہ محمد بھائی خنجراب یا نلتر یا راما یا تھر سے ہو ہی آئیں گے۔

جی جی وہی تو-
 

عرفان سعید

محفلین
تیسرا حصہ

روانگیٔ سفر میں ایک ہفتے سے بھی کم کا وقت رہ گیا تھا اور ابھی تک سیاحتی مقامات کی تفصیل دیکھنا ممکن نہ ہو پایا تھا۔ ایسا عام طور پر ہوتا نہیں۔ کسی بھی ٹرپ پر نکلنے سے پہلے ، میں اور بیگم بہت عرق ریزی سے تاریخی نوعیت کے مقامات بہت تفصیل سے دیکھا کرتے تھے۔ اچھی خاصی بحث کے بعد جگہوں کا انتخاب عمل میں آتا۔ دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے تیز رفتار ذرائع آمد و رفت کو چنا جاتا۔ کسی ناگہانی صورتِ حال یا طے شدہ وقت سے تاخیر کی صورت میں بیک اپ پلان سوچا جاتا۔ پرنٹ آوٹس کا اچھا خاصا بنڈل ساتھ رکھا جاتا۔ لیکن اب کی بار ایسا نہیں تھا۔ جس کی بڑی وجہ رمضان کی آمد کے باعث عام معمولات کا تبدیل ہونا، اور عید کی پارٹی میں بیٹی کا گر کر زخمی ہونا شامل تھا۔ بیٹی کے زخمی ہونے کے باعث مجھے دس دن آفس سے چھٹی لینا پڑی۔ چھٹی ختم ہوئی تو ٹرپ پر جانے میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا تھا۔

دفتر میں ڈھیروں کام انجام دہی کے لیے میرے منتظر تھے۔ جو شاید اتنا بڑا مسئلہ نہ ہوتا کہ ایک یونیورسٹی کے ساتھ باہمی تحقیق کے معاہدے کو حتمی اور عملی شکل دینے کے لیے مجھے قانونی دستاویزات کے سطر در سطر مطالعے اور تفہیم کے کرب ناک مراحل سے گزرنا پڑا۔ ایک سائنس دان کو قانونی مسودات پڑھنے پر لگانا ایسے ہی ہے جیسے کسی کافر کو جبرا کلمہ پڑھوانا۔ اس صورتَ حال میں ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا اور جو فراغت درکار تھی وہ میسر نہ آئی۔ دوسری طرف بیگم اپنے کورس سے چھٹیاں ہونے کے باعث کچھ سستا کر تازہ دم ہو رہی تھیں کہ ایک ہی ہفتے میں سماجی نوعیت کی تین سرگرمیوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔

جمعے کی رات تھک ہار کر جب بستر پر لیٹے تو مقامات کی تحقیق تو درکنار، ابھی پیکنگ بھی شروع نہیں کی تھی اور اتوار کو صبح ساڑھے چھ بجے فلائیٹ تھی۔ ہفتے کی صبح اٹھتے ساتھ ہی ناشتے کے بعد ہم پیکنگ پر جت گئے۔ پیکنگ میں کچھ باتوں کا بطورِ خاص خیال رکھنا تھا۔ پہلے یہ کہ کسی مقام پر پڑاؤ تین چار روز سے زیادہ نہیں تھا۔ اس لیے چار لوگوں کے کپڑے خلط ملط نہ ہونے دئیے جائیں۔ اس کے لیے ہم نے کمال مہارت سے زپ لاک پلاسٹک بیگ لیے اور سب کے کپڑے الگ الگ اس طرح پیک کیے کسی غلط فہمی کا امکان نہ رہے۔ نیز استعمال شدہ کپڑوں کو حتی الامکان باقی ملبوسات سے الگ رکھنے کے لیے ڈھیروں پلاسٹک بیگ ساتھ رکھ لیے۔ چوں کہ دورانِ سفر رینٹل کار پر بھی ایک ہفتہ سفر کرنا تھا، اس لیے کوشش کی کہ سفر کے ساز و سامان کو ایک بڑے سوٹ کیس اور چار ہینڈ کیری بیگز سے متجاوز نہ ہونے دیا جائے۔ ایک اہم مسئلہ سارہ کی پرام کا تھا۔ سارہ اگرچہ ساڑھے چار سال کی ہے لیکن اتنے لمبے ٹرپ میں بہت زیادہ چلنا تھکاوٹ کا باعث ہو سکتا ہے۔ کافی گفت و شنید کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ بغیر پرام ہی سفر کیا جائے، اگر ضرورت محسوس ہو تو سفر کے دوران خرید لی جائے۔

یہ سب کرتے کراتے رات کے دس بج چکے تھے۔ ٹھیک ساڑھے چھ گھنٹے بعد ائیر پورٹ لے جانے کے لیے ٹیکسی آنے والی تھی۔ بستر پر دراز ہوتے رات کے بارہ بج گئے۔ بچے تھوڑی دیر قبل نیند کی آغوش میں جا چکے تھے۔ کسی بھی سیاحتی مقام کی تفصیل نہ دیکھ پائے تھے۔ برسلز سے کولون ٹرین کی بکنگ بھی ابھی تک نہیں کر سکا تھا۔ بیگم نے بارہا اس امر کا اظہار کیا کہ اتنی عدم تیاری تو کبھی بھی نہیں کی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ مجھے موردِ الزام گرداننے کی بجائے مجھے بہت تسلی دی کہ میں جا کر سب مقامات کی تفصیل دیکھ لوں گی۔ بیگم کا سیاحتی ذوق غیر معمولی حد تک ہم سے ملتا ہے۔ اس لیے کوئی تشویش نہیں تھی۔ ساتھ ہی ساتھ جب انہوں نے ذمہ داری لے لی تو مجھے یک گونہ اطمینان ہو گیا کیونکہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے پہاڑوں کو بھی ہلانا پڑے تو ہلا کر دم لیں گی۔ نصف شب سے زیادہ کا وقت بیت چکا تھا۔ میں نے صبح ساڑھے تین بجے اٹھنے کا الارم لگایا اور تقریبا ایک بجے نیند نے مجھے آ لیا۔
 

عرفان سعید

محفلین
چوتھا حصہ

رات ساڑھے تین بجے موبائل سے بجنے والے پے در پے الارم سے میری آنکھ کھل گئی۔ ہفتے کا سارا دن پیکنگ کرتے، اڑھائی گھنٹے کی مختصر نیند، اور سفر کی تشویش سے جسم بری طرح تھکن سے چور تھا۔ لیکن اٹھ کرائیر پورٹ جانے کی تیاری کرنا ضروری تھا۔ ٹھیک ایک گھنٹے بعد ٹیکسی آنے والی تھی۔ فن لینڈ میں جو وقت طے کر لیا جائے، اس سے انحراف کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ میں چند منٹ بستر پر بے و حس و حرکت لیٹا اگلے ایک گھنٹے میں کرنے والے کاموں کو ذہن میں ترتیب دینے لگا۔ جب آنکھ مکمل طور پر کھل گئی تو میں نے بیوی بچوں کو بھی جگانا شروع کر دیا۔ بیس منٹ میں سب پوری طرح بیدار ہو چکے تھے۔ ضروری کاموں سے فارغ ہونے کے بعد سب لباس تبدیل کر چکے تھے۔پچھلے ایک ہفتے میں اشیائے خورد و نوش کی خریداری کچھ اس طرح ترتیب دی تھی کہ گھر سے نکلتے وقت کوئی کھانے کی چیز فریج میں پڑی نہ رہ جائے۔

اتنی صبح کچھ کھانے کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا، لیکن ہر ایک کے لیے دودھ کا ایک ایک گلاس اور کیلا محفوظ تھا۔کیلے کی بابت بتاتا چلوں کہ اس خدائی حلوے کو ہمارے ناشتے میں ایک جزوِ لازم کی حیثیت حاصل ہے۔ جس دن صبح کیلا نہ کھا سکوں، سارا دن ایک کمی کا سا احساس رہتا ہے۔ فن لینڈ آنے کے بعد ایک دو بار جب کیلے کی قیمت میں چند فیصد کا اضافہ ہوا تو دنوں طبعیت ملول رہی۔ اس عادت کے باعث بیگم اکثر یہ فقرہ کستی ہیں کہ کیلا کھانے کو ایک مذہبی عبادت کا درجہ دیا ہوا ہے۔

ٹھیک ساڑھے چار بجے اپنے گھر سے باہر موجود تھے۔ ٹیکسی تیار کھڑی تھی۔ سب سامان ٹیکسی میں لادنے کے بعد ہیلسنکی کے ہوائی اڈے کی جانب روانہ ہو گئے۔ گھر ائیر پورٹ سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ اتوار کی علی الاصبح سڑکوں پر ٹریفک برائے نام تھی۔ پندرہ منٹ میں ہم ہوائی اڈے پر کھڑے تھے۔
 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
ہیلسنکی ائیر پورٹ سے متعدد بار دوسرے ملکوں کو جانا ہوا۔ لیکن کبھی تصویر لینے کا خیال نہیں آیا۔ بلکہ صحیح بات یہ ہوگی مجھے کبھی بھی تصویر لینے کا خیال نہیں آتا۔ یہ کام ہمیشہ ہماری اہلیہ سر انجام دیتی ہیں۔اگر ضرورت محسوس ہو تو میں بس یاد دہانی کروا دیتا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود ائیر پورٹ کی تصویر اتارنا بھول گئے۔ اس لیے گوگل سے ایک تصویر مستعار لے رہا ہوں۔



ائیر پورٹ اپنی صفائی کے لحاظ سے انتہائی صاف ستھرا ہے۔ لیکن مجھے دنیا کے جن بڑے ہوائی اڈوں سے سفر کا اتفاق ہوا، یہاں جاکر نجانے کیوں تنگی اور چھوٹے پن کا احساس ہوتا ہے۔ البتہ ہیلسنکی ائیرپورٹ کی ایک انتہائی متاثر کن بات سخت سردی اور برف کے انتہائی شدید طوفانوں میں بھی بغیر کسی تعطل کے پروازوں کے لیے بغیر کسی تاخیر کے کھلا رہنا ہے۔ یہ محیر العقول کام سر انجام دینے کے لیے کارکنوں کی جدید ترین مشینری سے لیس ایک تربیت یافتہ چاق و چوبند فوج موسمِ سرما میں مصروفِ کار رہتی ہے، جس کی ایک جھلک ذیل کی ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے سنو پلور (Snow Plower) رکھنے اور استعمال کرنے کا اعزاز بھی اس ائیرپورٹ کے پاس ہے۔

 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
ائیرپورٹ پر سامان بک کرواتے ہوئے تھوڑی سی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ میں جب اپنا سوٹ کیس سامان بک کروانے والے کاؤنٹر پر لے کر گیا تو سامنے ایک خوش شکل دوشیزہ تشریف فرما تھیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے مجھے سوٹ کیس وزن کرنے کے لیے بیلٹ پر رکھنے کا کہا۔ سکرین پر جیسے ہی نظر پڑی تو 27 کے ہندسے نے کچھ خطرے کی گھنٹی بجائی۔ وزن معینہ حد سے چار کلو زائد تھا۔ میں اس صورتِ حال کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔ محترمہ نے وزن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وزن زیادہ ہے ، یا تو زائد وزن کا کرایہ ادا کرو، یا پھر چار کلو سوٹ کیس سے نکال لو۔ میں نے کندھے پر لٹکا ہوا ہینڈ کیری بیگ دکھایا جس میں کمپیوٹر کے سوا کچھ نہیں تھا۔وزن بمشکل تین کلو ہوگا۔ہم نے مسکراتے ہوئے حتی الامکان اپنے چہرے کو خوشگوار رکھتے ہوئے گزارش کی کہ سامان تو ایک ہی جہاز پر جانا ہے۔ دونوں کا مجموعی وزن 31 کلو کی حد سے کم ہے۔ لیکن ہمیں ان کی آنکھوں میں جذبۂ ترحم کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ وہ سوٹ کیس سے چار کلو سامان نکالنے پر مصر رہیں۔

ہمارے دل اور کمپیوٹر کے بیگ میں ہمیشہ بے تحاشا جگہ ہوتی ہے۔ زپ لاک لفافوںمیں پیکنگ کی وجہ سے کوئی دقت نہ ہوئی۔ ہم نے چار عدد لفافے اپنے کمپیوٹر کے بیگ میں منتقل کیے اور سامان لے کر دوبارہ لائن میں کھڑے ہو گئے۔ وزن میں کمی سے محترمہ کھل اٹھیں اور بخوشی ہمارا سوٹ کیس بک کر لیا۔

برسلز جانے کے لیے جرمنی کے فرانکفرٹ ائیرپورٹ پر فلائیٹ تبدیل کرنا تھی۔ لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ فنی خرابی کے باعث جہاز دو گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوگا۔ چار گھنٹے کے انتظار کے بعد بالآخر برسلز کے مقامی وقت کے مطابق فلائیٹ دوپہر ساڑھے بارہ بجے برسلز پہنچ گئی۔

 
آخری تدوین:

عرفان سعید

محفلین
ائیر پورٹ سے سامان لینے میں زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ آدھ گھنٹے بعد ہم سامان لیکر ائیر پورٹ سے باہر آگئے اور ایک ٹیکسی کو ہوٹل چلنے کا کہا۔ ٹیکسی ڈرائیور اپنے حلیے سے ایک غیر ملکی باشندہ معلوم ہو رہا تھا۔ ہم نے ہوٹل کے ایڈریس کا پرنٹ آؤٹ تھما دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ چلنے کے لیے تیار تھا۔ چلنے سے پہلے اس نے سب کو منٹ کی ایک ایک ٹافی تھمائی اور خود بھی ایک منہ میں ڈال لی۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہاتھا۔ درجہ حرارت تیس ڈگری کے قریب تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور بہت ملنسار، خوش گفتار اور خوش اخلاق معلوم ہوا۔ اس نے فورا برسلز کی جانب جانے والی ہائی ویز کی حالیہ تعمیر و توسیع اور برسلز کی مشہور عمارات کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ اس کا تعلق تیونس سے ہے اور وہ پچھلے اٹھائیس سال سے بلجیم میں مقیم ہے۔

دورانِ سفر ڈرائیور مسلسل سڑکوں اور عمارات کی تفصیل مہیا کرتا رہا۔ اس دوران برسلز کی سب سے بڑی جامع مسجد کے سامنے سے بھی گزر ہوا۔



شہر کی انتہائی مصروف شاہراؤں سے گزرے ہوئے ہم آدھ گھنٹے میں شہر کے مرکز میں واقع ہوٹل کے سامنے پہنچ گئے۔

 
آخری تدوین:
Top