اختر شیرانی بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں ۔۔

عمر سیف

محفلین
بستی کی لڑکیوں میں(ایک دیہاتی گیت)

فریادیِ جفائے ایّام ہو رہا ہوں
پامال جور بختِ ناکام ہو رہا ہوں
سر گشتۂ خیالِ انجام ہو رہا ہوں
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں
بدنام ہو رہا ہوں
سلمیٰ سے دل لگا کر

بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں
سلمیٰ سے دل لگا کر سلمیٰ سے دل لگا کر
اس حور وش کے غم میں دنیا و دیں گنوا کر
ہو ش و حواس کھو کر، صبر و سکوں لٹا کر
بیٹھے بٹھائے دل میں،غم کی خلش بسا کر
ہر چیز کو بھلا کر!
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

کہتی ہیں سب یہ کس کی تڑپا گئی ہے صورت!
سلمیٰ کی شاید اس کے من بھا گئی ہے صورت!
اور اس کےغم میں اتنی مرجھا گئی ہے صورت
مرجھا گئی ہے صورت، کمھلا گئی ہے صورت!
سنولا گئی ہے صورت
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

پنگھٹ پہ جب کہ ساری ہوتی ہیں جمع آ کر
گاگر کو اپنی رکھ کر گھونگٹ اٹھا اٹھا کر
یہ قصہ چھیڑتی ہیں مجھ کو بتا بتا کر
"سلمیٰ سے باتیں کرتے دیکھا ہے اس کو جا کر
ہم نے نظر بچا کر"
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

راتوں کو گیت گانے، جب مل کرآتی ہیں سب
تالاب کے کنارے، دھومیں مچاتی ہیں سب
جنگل کی چاندنی میں منگل مناتی ہیں سب
تو میرے اور سلمیٰ کے گیت گاتی ہیں سب
اور ہنستی جاتی ہیں سب
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

کھیتوں سے لوٹتی ہیں جب دن چھپے مکاں کو
تب راستے میں باہم وہ میری داستاں کو
دہرا کے، چھیڑتی ہیں، سلمیٰ کو، میری جاں کو
اور وہ حیا کی ماری سی لیتی ہے زباں کو
کیا چھیڑے اس بیاں کو
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

کہتی ہے رحم کھا کر یوں ایک ماہ طلعت
"یہ شہری نوجواں تھا کس درجہ خوبصورت
آنکھوں میں بس رہی ہےاب بھی وہ پہلی رنگت
دو دن میں آہ کیا سے کیا ہو گئی ہے حالت
اللہ تیری قدرت"
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

اس شمع رُو کا جب سے پروانہ بن گیا ہوں
بستی کی لڑکیوں میں، افسانہ بن گیا ہوں
ہر ماہ وش کے لب کا، پیمانہ بن گیا ہوں
دیوانہ ہو رہا ہوں، دیوانہ بن گیا ہوں
دیوانہ بن گیا ہوں
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

ان کی زباں پہ میری جتنی کہانیاں ہیں
کیا جانیں یہ کہ دل کی سب مہربانیاں ہیں
کم سن ہیں، بے خبر ہیں، اٹھتی جوانیاں ہیں
کیا سمجھیں،غم کے ہاتھوں کیوں سرگرانیاں ہیں!
کیوں خوں فشانیاں ہیں
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

ہر اک کے رحم کا یوں اظہار ہو رہا ہے
"بے چارے کو یہ کیسا آزار ہو رہا ہے
دیکھے تو کوئی جانے بیمار ہو رہا ہے
کس درجہ زندگی سے بیزار ہو رہا ہے
ناچار ہو رہا ہے"
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

اک پوچھتی ہے آ کر "تم بے قرار کیوں ہو؟
کچھ تو ہمیں بتاؤ، یوں دل فگار کیوں ہو؟
کیا روگ ہے کہو تو، تم اشک بار کیوں ہو؟
دیوانے کیوں ہوئے ہو، دیوانہ وار کیوں ہو؟
با حال زار کیوں ہو؟
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

جاؤں شکار کو گر با ہمرہانِ صحرا
کھیتوں سے گھورتی ہیں یوں دخترانِ صحرا
بجلی کی روشنی کو جیسے میانِ صحرا
تاریک شب میں دیکھیں کچھ آہوانِ صحرا
حیرت کشانِ صحرا
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

اک شوخ چھیڑتی ہے، اس طرح پاس آ کر
"دیکھو وہ جا رہی ہے سلمیٰ نظر بچا کر!
شرما کے، مسکرا کر،آنچل سے منہ چھپا کر!
جاؤ نہ پیچھے پیچھے، دو باتیں کر لو جا کر!
کھیتوں میں چھپ چھپا کر!"
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

گویا ہیں یوں حسد سے کچھ نازنیں نگاہیں
سلمیٰ کی بھا گئی ہیں کیوں دل نشیں نگاہیں؟
ان سے زیادہ دلکش، ہیں یہ حسیں نگاہیں
القصہ ایک دل ہے، سو خشمگیں نگاہیں
شوق آفریں نگاہیں
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

اک شوخ تازہ وارد، سسرال سے گھر آ کر
سکھیوں سے پوچھتی ہے جس دم مجھے بتا کر
"یہ کون ہے" تو ظالم کہتی ہیں مسکرا کر
"تم اس کا حال پوچھو سلمیٰ کے دل سے جا کر!
یہ گیت اسے سنا کر
سلمیٰ سے دل لگا کر
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

اختر شیرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور محقق اور عالم مولانا محمود شیرانی حیدرآباد دکن گئے ، ایک تقریب میں ایک صاحب نے ان سے کہا :
”شیرانی صاحب ! آ پ کی ایک نظم مجھے بہت پسند ہے ۔“
” کونسی نظم بھائی !.... “ مولانا نے استفسار کیا ۔
” وہی جس کا مصرعہ ہے ۔
بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہورہاہوں
مولانا نے ٹھنڈی سانس بھری اور بولے ، یہ نظم میری نہیں ، میرے نالائق ، بیٹے اختر شیرانی کی ہے ، وہ تو محض بدنام ہو رہا ہے ، میں اس کی کرتوت سے رسوا ہو رہا ہوں ۔
 

فلک شیر

محفلین
اختر شیرانی بڑے باپ کے بیٹے تھے.........
حافظ محمود شیرانی نے کیا کیا دادِ تحقیق نہ دی.....ٹونک کے تھے اور مزاج بڑا جارحانہ پایا تھا علمی مباحث میں..... نقاد اور محقق بھی تھے اور نظریہ ساز دانشور بھی......اختر نے بہرحال ایک الگ پہچان بنائی.......لیکن شراب ِ خانہ خراب نے اخترکو بدر سے ہلال کر ڈالا...............
کیا کیا لوگ اس ساغر ومینا کے حلقے کے اسیر ہوئے اور ........بس
 

فلک شیر

محفلین
کبھی جی چاہتا ہے کہ کوئی صاحب اس موضوع پہ کوئی بسیط مقالہ لکھیں کہ وادی ادب کے کون کون سے مسافر ..........اپنے اپنے عصر کے نابغہ........حرف جن کی کہی میں تھے اور لفظ جن کے ہاںہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے ..........مگر اس خمار زادی نے ان کو کیا سے کیا کر دیا........اور اس سوال کو زیر بحث لایا جائے کہ یہ فکر کو واقعی جلا دیتی ہے، جیسا کہ اس گروہ کے لوگوں کا دعوی ہے.......یا حقیقت اس کے برعکس ہے.........اور اسی سے ملحقہ متعدد دیگر بنیادی سوالات .....
یقین ہے کہ احوال و آثار قسم کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ جات سے ہزار درجہ بہتر چیز سامنے آئے گی............
 
آخری تدوین:

عمر سیف

محفلین
محفل پر تھینکس گاڈ کوئی سلمی آنٹی نہی ہیں ورنہ آپ کو تو پوچھ لینا تھا عمر بھائی انہوں نے :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
میں کہیں پڑھ رہا تھا یہ جس سلمٰی کا ذکر اس نظم میں ہے وہ اختر شیرانی کی محبوبہ تھیں، مزید تحقیق درکار ہے۔
۔۔۔۔
اور کیا پوچھ لینا تھا اگر ہوتی کوئی سلمٰی یہاں ؟؟
 

عمر سیف

محفلین
اختر شیرانی بڑے باپ کے بیٹے تھے.........
حافظ محمود شیرانی نے کیا کیا دادِ تحقیق نہ دی.....ٹونک کے تھے اور مزاج بڑا جارحانہ پایا تھا علمی مباحث میں..... نقاد اور محقق بھی تھے اور نظریہ ساز دانشور بھی......اختر نے بہرحال ایک الگ پہچان بنائی.......لیکن شراب ِ خانہ خراب نے اخترکو بدر سے ہلال کر ڈالا...............
کیا کیا لوگ اس ساغر ومینا کے حلقے کے اسیر ہوئے اور ........بس
جی میں بھی ان سے متعلق یہی سب پڑھ رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی کوچے کے ہو لیے ۔۔۔
 
اختر شیرانی بڑے باپ کے بیٹے تھے.........
حافظ محمود شیرانی نے کیا کیا دادِ تحقیق نہ دی.....ٹونک کے تھے اور مزاج بڑا جارحانہ پایا تھا علمی مباحث میں..... نقاد اور محقق بھی تھے اور نظریہ ساز دانشور بھی......اختر نے بہرحال ایک الگ پہچان بنائی.......لیکن شراب ِ خانہ خراب نے اخترکو بدر سے ہلال کر ڈالا...............
کیا کیا لوگ اس ساغر ومینا کے حلقے کے اسیر ہوئے اور ........بس
میرے ننھیال کے تھے۔۔۔ مطلب ٹونک کے۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
زبردست۔
اختر شیرانی کا مزید کلام ملے تو ضرور پوسٹ کریں۔
شمشاد بھائی کی نذر خصوصا"۔اور محفلین کی خدمت میں موصوف کا ایک اور نمونہ۔۔۔۔بہ نام ۔۔۔
ننھا قاصد

ترا ننھا سا قاصد ، جو ترے خط لے کر آتا تھا
نہ تھا معلوم اسے ، کس طرح کے پیغام لاتا تھا؟

سمجھ سکتا نہ تھا وہ خط میں کیسے راز پنہاں ہیں؟
حروف سادہ میں کس حشر کے انداز پنہاں ہیں؟
اسے کیا علم ان رنگیں لفافوں میں چھپا کیا ہے؟
کسی مہوش کا نامے بھیجنے سے مدعا کیا ہے؟

مگر مجھ کو خیال آتا تھا اکثر اس زمانے میں
کہ اس کی حیرت طفلی ہے کیوں گم اس فسانے میں؟
وہ باایں کم سنی ، کیا یہ نہ دل میں سوچتا ہو گا؟
کہ"باجی نے ہماری اپنے خط میں کیا لکھا ہو گا؟"

"اور آخر وہ اسی کو نامہ لکھ کر بھیجتی کیوں ہیں؟"
"کبھی بھیجا تو بھیجا لیکن اکثر بھیجتی کیوں ہیں؟"
"وہ پہلے سے زیادہ بھائی کو کیوں پیار کرتی ہیں؟"
"لفافہ دے کے لطف خاص کا اظہار کرتی ہیں"

"پھر"ایسے اجنبی" پر اُس کی باجی" مہرباں کیوں ہیں؟"
"اگر ہیں بھی تو گھر والوں سے یہ باتیں نہاں کیوں ہیں؟"
اور اس کے شبہے کی، اس سے بھی تو تائید ہوتی ہے
چھپا کر خط کو لے جانے کی کیوں تاکید ہوتی ہے؟

"یہ نو خیز اجنبی جانے کہاں سے اکثر آتا ہے"
"جب آتا ہے تو باجی کی طرح خط لکھ کے لاتا ہے"
"عزیزوں کی طرح یہ کیوں، مکاں میں آ نہیں سکتا؟"
جب اس سے پوچھتا ہے، وہ اسے سمجھا نہیں سکتا!

کھلونے دے کر اس کو، مسکرا دیتا ہے وہ اکثر
اور اک ہلکا سا تھپڑ بھی لگا دیتا ہے وہ اکثر!
ترے قاصد کے یہ افکار ، دل کو گدگداتے تھے
اور اپنے بھولپن سے میرے جذبوں کو ہنساتے تھے

نہیں موقوف انہی ایام پر، جب بھی خیال آیا،
تصور ، تیرے بعد اس کا بھی نقشہ سامنے لایا!
مگر آج اس طرح دیکھا ہے وہ نقش حسیں میں نے
کہ رکھ دی خاک حیرت پر محبت کی جبیں میں نے

وہی ننھا سا قاصد نوجواں ہو کر ملا مجھ کو
زمانے کے تغيّر نے پریشاں کر دیا مجھ کو
جنونِ ابتدائے عشق نے کروٹ سی لی دل میں
پس از مدّت ، یہ لیلیٰ آ گئی پھر اپنے محمل میں!

ترے قاصد سے ملتے وقت مجھ کو شرم آتی تھی
مگر اس کی نگاہوں میں شرارت مسکراتی تھی
شرارت کا یہ نظارہ مری حیرت کا ساماں تھا!
کہ اس پردے کے اندر تیرا راز عشق عریاں تھا!
 
Top