برقیائی گئی پانچ اسلامی و تاریخی کتب ۔

سویدا

محفلین
ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں :
میری سابقہ تحریریں
جو لوگ اس موضوع پر میری پہلی تحریروں سے آشنا ہیں وہ یقینا یہ اعتراض کریں گے کہ میرا موجودہ موقف پہلے موقف سے متصادم ہورہا ہے ، ان کی خدمت میں گذارش ہے کہ انسانی فکر ایک متحرک چیز ہے جو کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں کرتی اور سدا خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہے ، جس دن فکر انسان کا یہ ارتقا رک جائے گا علم کی تمام راہیں مسدود ہوجائیں گی ، کمال صرف رب ذوالجلال کا وصف ہے وہ جو بات کہتا ہے وہ از ابتدا تا انتہا ہر لحاظ سے کامل ہوتی ہے اور کسی تغیر کو قطعا گوارا نہیں کرتی، لیکن انسان صداقت تک پہنچتے پہنچتے سو بار گرتا ہے، میں بھی بارہا گرا، اور ہر بار لطف ایزدی نے میری دست گیری کی کہ اٹھاکر پھر ان راہوں پر ڈال دیا جو صحیح سمت کو جارہی تھیں، والحمدللہ علی ذلک۔

نیز کتاب کے آغاز میں یہ اقتباس بھی ان کے کسی خط سے درج ہے :

1952” کے بعد میں نے حدیث کے متعلق اپنا موقف بدل لیا تھا اور اس پر ”چٹان“ میں بارہا لکھ بھی چکا ہوں، ایک اور تبدیلی یہ کی کہ میں علماء اسلام کو خواہ وہ کسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ، اسلام کا خادم ومعاون سمجھنے لگا ہوں، میرے عقائد وہی ہیں جو اہل سنت کے ہیں“۔
(ڈاکٹر صاحب کے ایک خط سے اقتباس)
 

سویدا

محفلین
برق صاحب نے دو اسلام میں بھی ان احادیث سے فائدہ اٹھانے کی بات کی تھی جو قران سے متصادم نہ ہوں اور آگے جا کر بھی وہ اسی بات کو اپنائے ہوئے ہیں۔ تعصب کی عینک لگا کر پڑھنے والوں کو دو اسلام کا وہ چیپٹر کبھی نظر نہیں آیا ۔یہاں بھی اسی بات کا تسلسل ہے کہ وہ احادیث کے انتخاب کی بات کر رہے ہیں نا کہ کسی ایک دو یا چار چھ کو صحیح کتاب بعد از کتاب اللہ اور آیات تسلیم کر رہے ہیں۔

بہرحال کتب موجود ہیں قاری پڑھے اور فیصلہ کرے مگر فیصلہ ان معاملات پر جن پر گرفت کی جاتی ہے مطلب کی چیز پکڑ لی جائے اور باقی کوڑے دان میں۔

وسلام

کتاب کے بالکل آخر میں برق صاحب لکھتے ہیں :
تو یہ تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چودہ لاکھ اقوال میں سے صرف سات سو جو بیاسی عنوانات کے تحت درج ہوئے، ہے زندگی کا کوئی ایسا پہلو جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درجنوں ارشادات موجود نہ ہوں؟ہمیں قرآن وحدیث میں شبانی سے جہاں بانی تک مفصل ہدایات ملتی ہیں، اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔“
 

سویدا

محفلین
نیز کتاب کے آغاز میں یہ اقتباس بھی ان کے کسی خط سے درج ہے :
1952” کے بعد میں نے حدیث کے متعلق اپنا موقف بدل لیا تھا اور اس پر ”چٹان“ میں بارہا لکھ بھی چکا ہوں، ایک اور تبدیلی یہ کی کہ میں علماء اسلام کو خواہ وہ کسی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے ، اسلام کا خادم ومعاون سمجھنے لگا ہوں، میرے عقائد وہی ہیں جو اہل سنت کے ہیں“۔
(ڈاکٹر صاحب کے ایک خط سے اقتباس)

واضح رہے کہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے ”دو اسلام“ ۱۹۴۹ میں تحریر فرمائی تھی۔
 

باذوق

محفلین
صاحبِ "تفہیم اسلام بجواب دو اسلام" کے نام اپنے ایک خط (16-مئی-1971ء) میں برق صاحب نے بذاتِ خود اعتراف کیا کہ :
1 : "دو اسلام" کی زبان غیر سنجیدہ ، غیر علمی اور سخت جانبدارانہ ہے !
2 : میرا یہ موقف کہ احادیث کی تدوین و تسوید اڑھائی سو برس بعد ہوئی تھی ، سر و پا غلط ہے۔ میں نے اس کی تلافی تو کر دی ہے کہ "تاریخ تدوین حدیث" لکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ حضور پرنور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی حیاتِ مبارکہ ہی میں تقریباً 40 ہزار احادیث ضبط ہو چکی تھیں۔

صاحبِ "تفہیم اسلام بجواب دو اسلام" کے نام برق صاحب کے ایک اور خط (14-نومبر-1972ء) میں واضح اعتراف :
میں نے ناشرین "دو اسلام" کو تاکید کی ہے کہ وہ اس کا آئیندہ کوئی ایڈیشن شائع نہ کریں۔

***
یہ اعترافات کتاب "تفہیم اسلام" کے تیسرے ایڈیشن (1987ء) کے آخری صفحات میں شائع کئے گئے ہیں۔ ان شاءاللہ یہ کتاب بھی پی ڈی ایف شکل میں جلد منظر عام پر آ جائے گی۔
 
Top