برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
کچھ تو امکاں ہوں کامرانی کے
کیا ستم ہیں یہ زندگانی کے

عشق سے ہم فرار کیا کرتے
ہم تو قائل تھے جاں فشانی کے

ہے خلاصہ یہ آپ بیتی کا
ہم ستائے ہیں زندگانی کے

یوں تڑپتے ہیں عشق کے مارے
جیسے مچھلی بغیر پانی کے

وہ محبت کو کیا سمجھ پاتے
تھے گرفتار بدگمانی کے

عشق، چاہت، وفا، جنوں، ایثار
اب یہ دعوے ہیں منہ زبانی کے

دار، نوکِ سناں، تہِ خنجر
یہ نتیجے ہیں حق بیانی کے


عشق پر کیوں چڑھائیں رنگِ ہوس
کب ہیں محکوم نوجوانی کے

مت کہو تم اسے غزل فائق
ہیں یہ اشعار نوحہ خوانی کے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
درست ہے غزل لیکن اس شعر میں تہِ خنجر سمجھ میں نہیں آیا. نوک سناں قسم کا کوئی اور لفظ لاؤ تو بہتر ہے
 
آخری تدوین:
اچھی غزل ہے بھیا، داد قبول فرمائیں۔

کچھ تو امکاں ہوں کامرانی کے
کیا ستم ہیں یہ زندگانی کے
پہلے مصرعہ میں کامرانی کا ذکر ہے تو تلازمہ پورا کرنے کے لئے دوسرے مصرعے میں ستم کی بجائے ناکامی کا ذکر ہونا چاہیئے۔
گو کہ بین السطور ناکامی کو ہی زندگانی کے ستم کہا جا رہا ہے لیکن وضاحت اتنے جاندار طریقے سے ہو نہیں رہی۔ اور دوسرا مصرعہ ویسے بھی کمزور لگ رہا ہے، مطلع دوبارہ کہیں۔
گو کہ بین السطور ناکامی کو ہی زندگانی کے ستم کہا جا رہا ہے لیکن


عشق سے ہم فرار کیا کرتے
ہم تو قائل تھے جاں فشانی کے
ٹھیک ہے

ہے خلاصہ یہ آپ بیتی کا
ہم ستائے ہیں زندگانی کے
ٹھیک ہے

یوں تڑپتے ہیں عشق کے مارے
جیسے مچھلی بغیر پانی کے
بہت ہی عام سا خیال ہے، کوئی نیا خیال لے کر آئیں تو بہتر ہوگا جیسے
حسرتوں کی ندی میں ڈوب گئے
بُت بنانے لگے تھے پانی کے

(شعر اچھا نہیں ہے صرف مثال پیش کی ہے)

وہ محبت کو کیا سمجھ پاتے
تھے گرفتار بدگمانی کے
دونوں مصرعوں کا ربط کمزور لگ رہا ہے، بدگمانی کا تعلق اگر اعتبار کے ساتھ ہو تو بہتر ہے۔
عمر بھر اعتبار کو ترسے
تھے گرفتار بدگمانی کے

عشق، چاہت، وفا، جنوں، ایثار
اب یہ دعوے ہیں منہ زبانی کے
درست

دار، نوکِ سناں، تہہِ خنجر
تختہِ دار ہے یا نوکِ سناں
یہ نتیجے ہیں حق بیانی کے

عشق پر کیوں چڑھائیں رنگِ ہوس
کب ہیں محکوم نوجوانی کے
رنگ چڑھانے کا مطلب ہوتا ہے اصل کو چھپا دینا، عشق پر ہوس کا رنگ چڑھانا، یعنی اصل میں تو عشق ہے لیکن اس پر ہوس کا رنگ چڑھانے کی بات ہو رہی ہے، کیا یہ تقاضہِ محکومِ نوجوانی ہے؟

مت کہو تم اسے غزل فائق
ہیں یہ اشعار نوحہ خوانی کے
ٹھیک ہے
 

محمد فائق

محفلین
اچھی غزل ہے بھیا، داد قبول فرمائیں۔

کچھ تو امکاں ہوں کامرانی کے
کیا ستم ہیں یہ زندگانی کے
پہلے مصرعہ میں کامرانی کا ذکر ہے تو تلازمہ پورا کرنے کے لئے دوسرے مصرعے میں ستم کی بجائے ناکامی کا ذکر ہونا چاہیئے۔
گو کہ بین السطور ناکامی کو ہی زندگانی کے ستم کہا جا رہا ہے لیکن وضاحت اتنے جاندار طریقے سے ہو نہیں رہی۔ اور دوسرا مصرعہ ویسے بھی کمزور لگ رہا ہے، مطلع دوبارہ کہیں۔
گو کہ بین السطور ناکامی کو ہی زندگانی کے ستم کہا جا رہا ہے لیکن


عشق سے ہم فرار کیا کرتے
ہم تو قائل تھے جاں فشانی کے
ٹھیک ہے

ہے خلاصہ یہ آپ بیتی کا
ہم ستائے ہیں زندگانی کے
ٹھیک ہے

یوں تڑپتے ہیں عشق کے مارے
جیسے مچھلی بغیر پانی کے
بہت ہی عام سا خیال ہے، کوئی نیا خیال لے کر آئیں تو بہتر ہوگا جیسے
حسرتوں کی ندی میں ڈوب گئے
بُت بنانے لگے تھے پانی کے

(شعر اچھا نہیں ہے صرف مثال پیش کی ہے)

وہ محبت کو کیا سمجھ پاتے
تھے گرفتار بدگمانی کے
دونوں مصرعوں کا ربط کمزور لگ رہا ہے، بدگمانی کا تعلق اگر اعتبار کے ساتھ ہو تو بہتر ہے۔
عمر بھر اعتبار کو ترسے
تھے گرفتار بدگمانی کے

عشق، چاہت، وفا، جنوں، ایثار
اب یہ دعوے ہیں منہ زبانی کے
درست

دار، نوکِ سناں، تہہِ خنجر
تختہِ دار ہے یا نوکِ سناں
یہ نتیجے ہیں حق بیانی کے

عشق پر کیوں چڑھائیں رنگِ ہوس
کب ہیں محکوم نوجوانی کے
رنگ چڑھانے کا مطلب ہوتا ہے اصل کو چھپا دینا، عشق پر ہوس کا رنگ چڑھانا، یعنی اصل میں تو عشق ہے لیکن اس پر ہوس کا رنگ چڑھانے کی بات ہو رہی ہے، کیا یہ تقاضہِ محکومِ نوجوانی ہے؟

مت کہو تم اسے غزل فائق
ہیں یہ اشعار نوحہ خوانی کے
ٹھیک ہے
آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت دے کر میری غزل کی اصلاح کی
 
Top