برائے اصلاح

La Alma

لائبریرین
اگر آپ دوسرا مصرع تسلی سے دیکھ لیں تو شاید یہ گماں غلط ثابت ہو سکے

شاہدِ رعنا کا زیبا
نقش تھا ہر دام ظل میں​
آپ کا شعر صوفیانہ مزاج کا ہے . مصرع اول نا مکمل اور اس کا بقیہ حصّہ مصرع دوم میں ہونے کی وجہ سے شعر پہلی نظر میں مبہم معلوم ہوتا ہے .
 
میری رائے ہے کہ فی الحال آپ غیر ضروری ثقالت سے دور رہیں۔ اگر اس طرز کو اپنانا ہے تو اس رنگ کے نامور شعرا کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
میری رائے ہے کہ فی الحال آپ غیر ضروری ثقالت سے دور رہیں۔ اگر اس طرز کو اپنانا ہے تو اس رنگ کے نامور شعرا کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔
ریحان بھائی حکم کی تعمیل ہو گی. ظل قافیہ کی وجہ سے یہ کرنا پڑا. اس شعر اور غزل پہ اصلاح تو دے دیں پلیز
 
چاند اترا دشتِ دل میں
ضو فشانی آب و گل میں
غم زدوں نے چارہ سازی
ڈھونڈ لی عارض کے تل میں
تیرگی کا تھا تبسم
پھر فضائے مضمحل میں
خندہ رو ہے اک گلستاں
اس کلی کی ایک کھل میں
شاہدِ رعنا کا زیبا
نقش تھا ہر دام ظل میں
.
.
تیرگی تیرا تبسم
پھر فضائے مضمحل میں
ضو فشانی کا آب و گل میں اترنا محلِ نظر ہے اور دونوں مصرعوں کا ربط بھی واضح نہیں۔
فضائے مضمحل یعنی تھکی ہوئی فضا، چہ معنیٰ دارد؟
اس کلی کی ایک کھل میں پورے گلستاں کا تبسم پنہاں ہے۔ شعر کچھ یوں ہونا چاہیے تھا۔
دامِ ظل سے کیا مراد ہے؟
 

امان زرگر

محفلین
'ظل' بمعنی عکس یا تصویر
'نقش ہے ہر دام' کا مطلب ہر خوبصورتی و قدر نقش ہے.
شاہد رعنا بمعنی معشوق یعنی خوبصورت معشوق کی ہر خوبصورتی و اچھائی اس عکس یعنی تصویر میں نقش ہے یعنی دیکھی جا سکتی ہے
سر محمد ریحان قریشی
مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ یہ شعر وحدت الوجود اور وحدت الشھود کی بحث کی جانب نکل گیا.
 
آخری تدوین:
ظل بمعنی عکس یا تصویر
نقش ہے ہر دام کا مطلب ہر خوبصورتی و قدر نقش ہے.
شاہد رعنا بمعنی معشوق یعنی خوبصورت معشوق کی ہر خوبصورتی و اچھائی اس عکس یعنی تصویر میں نقش ہے یعنی دیکھی جا سکتی ہے
سر محمد ریحان قریشی
مجھے اب احساس ہو رہا ہے کہ یہ شعر وحدت الوجود اور وحدت الشھود کی بحث کی جانب نکل گیا.
اول تو"ہر دام کا" شعر میں موجود ہی نہیں ہے۔ دوم ہر دام میں کم دام والا بھی آئے گا اور یہ محبوب کے شایانِ شان نہیں ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
ضو فشانی کا آب و گل میں اترنا محلِ نظر ہے اور دونوں مصرعوں کا ربط بھی واضح نہیں۔
چاند اترا دشتِ دل میں
ضو فشانی آب و گل میں
١ - کیچڑ
 آب و گل میں جس طرح زاہد نہاں ہو جانے زر منہ سے ہے انکار زر کا اور دل میں جاے زر ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ٦٧:٣ )
٢ - پانی اور مٹی، گندھی ہوئی مٹی۔
 خمیر مایۂ مسلم خدا نے اٹھایا ہے عرب کے آب و گل سے ( ١٩١٦ء، بہارستان، ظفر علی خاں، ٧٣١ )
٣ - قالب بشری، جسم، کالبد۔
 ہنستا ہے عشق مجھ کو گر انبار دیکھ کر زندان آب و گل میں گرفتار دیکھ کر ( ١٩٥٧ء، یگانہ، گنجینہ، ٣٦ )
٤ - عالم مادی۔
 ایک دم میں ہو گیا افسانۂ ہستی تمام شکر ہے اس کا کہ میں مجبور آب و گل نہ تھا ( ١٩٦٣ء، ہادی مچھلی شہری، صدائے دل، ٨ )
٥ - سرشت، خمیر، مزاج۔
 حسن ہو جس میں وہ ہر شے جلوہ گر اس دل میں ہے جذبۂ صورت پرستی میرے آب و گل میں ہے ( ١٩٥١ء، حسرت موہانی، کلیات، ٤٥ )
٦ - (کسی شے موجود کی) اصل، جڑ، بنیاد۔ (فرہنگ آصفیہ، 81:1)۔
 
ضو فشانی اترنے کی سند دکھائی نہیں دے رہی۔
آب و گل کا ضو فشان ہو جانا قابلِ فہم ہے لیکن آب و دل میں ضو فشانی کا اترنا محلِ نظر۔
 

امان زرگر

محفلین
روشنی کے دشت دل میں اترنے سے وجود میں روشنی پھیل گئی ہے.
مقصد یہ ہے کہنے کا. اگر ناکام رہا تو کیا کمی رہ گئی، نمایاں کر دیں پلیز
 

امان زرگر

محفلین
اگر ضوفشانی کا آب و گل میں اترنا قبول کیا جا سکے تو شعر درست ہے۔
حتمی رائے سر الف عین کی ہی ہوگی۔
مجھے احساس ہے کہ معیاری اشعار ترتیب نہ پا سکے لیکن میں پہلے ہی اظہار کر چکا ہوں کہ خام حالت شعر کو پختہ کرنے میں اساتذہ کس طرح شعر کو تراشتے ہیں اس انداز نظر کا سیکھنا مقصد ہے کہ کس کس انداز سے شعراء شعر کی خبر گیری کرتے ہیں. گستاخیوں سے صرف نظر کی التجا ہے
 

امان زرگر

محفلین
ضو فشانی کا آب و گل میں اترنا محلِ نظر ہے اور دونوں مصرعوں کا ربط بھی واضح نہیں۔
فضائے مضمحل یعنی تھکی ہوئی فضا، چہ معنیٰ دارد؟
اس کلی کی ایک کھل میں پورے گلستاں کا تبسم پنہاں ہے۔ شعر کچھ یوں ہونا چاہیے تھا۔
دامِ ظل سے کیا مراد ہے؟
خندہ رو ہےاک گلستاں
اس کلی کی ایک کھل میں
بیان وہی کرنا چاہا جو آپ نے کہا مگر ناکام رہا بہتری کے لئے کوئی حکم ارشاد فرما دیں تو
 
خندہ رو ہےاک گلستاں
اس کلی کی ایک کھل میں
بیان وہی کرنا چاہا جو آپ نے کہا مگر ناکام رہا بہتری کے لئے کوئی حکم ارشاد فرما دیں تو
دوبارہ دیکھنے پر شعر درست لگ رہا ہے۔ دوسرے مصرعے میں "ایک" حشو ہے۔ ہر کھل میں کا محل ہے۔
معذرت مگر بہتری کی کوشش آپ کو خود کرنی ہوگی کہ اصلاحِ سخن کا اصول یہی ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
ہر کھل 22 بن رہا ہے جبکہ وزن 21 ہونا ہے فاعلاتن
خندہ رو ہے یہ گلستاں
اس کلی کی ایک کھل میں
شاید اس طرح حشو نہ رہے
دوبارہ دیکھنے پر شعر درست لگ رہا ہے۔ دوسرے مصرعے میں "ایک" حشو ہے۔ ہر کھل میں کا محل ہے۔
معذرت مگر بہتری کی کوشش آپ کو خود کرنی ہوگی کہ اصلاحِ سخن کا اصول یہی ہے۔
 

امان زرگر

محفلین
میں نے ایک کو ہر سے تبدیل کرنے کا مشورہ نہیں دیا صرف اتنا کہا ہے کہ ایک کی جگہ ہر کا مقام ہے۔
ہر کھل 22 بن رہا ہے جبکہ وزن 21 ہونا ہے فاعلاتن
خندہ رو ہے یہ گلستاں
اس کلی کی ایک کھل میں
یا پھر
خندہ رو ہے اک گلستاں
ہر کلی کی ایک کھل میں
شاید اس طرح حشو نہ رہے
 
آخری تدوین:
ہر کھل 22 بن رہا ہے جبکہ وزن 21 ہونا ہے فاعلاتن
خندہ رو ہے یہ گلستاں
اس کلی کی ایک کھل میں
ایک ابھی بھی حشو ہی ہے۔
ایک بار پھر عرض کروں گا کہ میں نے ایک کھل کو ہر کھل کرنے کا مشورہ نہیں دیا۔ مجھے علم ہے کہ اس سے شعر بحر سے خارج ہو جائے گا۔
 
Top