محترم استاد@الف عین صاحب
ریحان قریشی صاحب
امجد علی راجا صاحب



گھر بار سبھی یار پہ قربان کیا جایے
کیوں اپنا دلءناداں یہ نقصان کیا جائے

ہر بار دیا دھوکہ مجھے سوچ سمجھ کر
اب سوچ کے ان سے کوئی پیمان کیا جائے


خاموشی سے بہتر ہے کریں پیار کسی سے
جینے کے لیے تو کوئی سامان کیا جائے

کوئی بھی خوشی راس نہیں آتی ہے ہم کو
کیا سوچ کے پھر خود کو پریشان کیا جائے

ہر اشک بہاتا ہوں میں تو خون کا لیکن
کب تک یوں تری یاد کو مہمان کیا جائے

فرعون کا ہر ایک ستم لکھنا ہے میں نے
کشمیر مری نظم کا عنوان کیا جائے

سجدے مرے بیکار رہیں گے سبھی عابد
جب تک دلء کافر نہ مسلمان کیا جائے
 
اچھے غزل ہے بھیا۔ لیکن میں ابھی اصلاح کی غرض سے کچھ عرض اس لئے نہیں کر سکتا کہ کچھ مصرعوں کا آخری رکن مفاعیل ہے اور کچھ کا فعولن ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ ایسا کرنا درست ہے کہ نہیں۔ استادِ محترم الف عین اس فرق کے بارے میں کچھ ارشاد فرما دیں تو اس کے بعد میں کچھ عرض کر سکوں گا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھے غزل ہے بھیا۔ لیکن میں ابھی اصلاح کی غرض سے کچھ عرض اس لئے نہیں کر سکتا کہ کچھ مصرعوں کا آخری رکن مفاعیل ہے اور کچھ کا فعولن ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ ایسا کرنا درست ہے کہ نہیں۔ استادِ محترم الف عین اس فرق کے بارے میں کچھ ارشاد فرما دیں تو اس کے بعد میں کچھ عرض کر سکوں گا۔
امجد بھائی ، ہر دوسرے مصرع کے آخر میں مفاعیل نہیں بلکہ فعولان ہے ۔ اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آخری رکن فعولن کو فعولان کرنا جائز ہے ۔
جائے ، لائے ، کھائے وغیرہ اگر مصر ع کے آخر میں آئیں تو یہاں ہمزہ گرایا جاسکتا ہے ۔ جیسے: آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے ۔۔۔۔ مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
اس کی سینکڑوں مثالیں اساتذہ کے ہاں ملتی ہیں اور یہ ایک مستند اصول ہے ۔ کبھی کبھی کسی استاد نے جاؤ ، کھاؤ ، لاؤ وغیرہ پر بھی اس اصول کا اطلاق کیا ہے ۔ جیسے: ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ ۔۔۔ جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

امجد بھائی ، اس بارے میں نہایت تفصیلی گفتگو پہلے دو یا تین دھاگوں میں ہوچکی ہے ۔ ربط اس وقت یاد نہین آرہے ۔ اگر کسی محفلین یا مدیر کو یاد ہو تو اس ربط تک رہنمائی کردیں ۔ بہت شکریہ ۔
 
آخری تدوین:
امجد بھائی ، ہر دوسرے مصرع کے آخر میں مفاعیل نہیں بلکہ فعولان ہے ۔ اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آخری رکن فعولن کو فعولان کرنا جائز ہے ۔
جائے ، لائے ، کھائے وغیرہ اگر مصر ع کے آخر میں آئیں تو یہاں ہمزہ گرایا جاسکتا ہے ۔ جیسے: آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے ۔۔۔۔ مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
اس کی سینکڑوں مثالیں اساتذہ کے ہاں ملتی ہیں اور یہ ایک مستند اصول ہے ۔ کبھی کبھی کسی استاد نے جاؤ ، کھاؤ ، لاؤ وغیرہ پر بھی اس اصول کا اطلاق کیا ہے ۔ جیسے: ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ ۔۔۔ جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

امجد بھائی ، اس بارے میں نہایت تفصیلی گفتگو پہلے دو یا تین دھاگوں میں ہوچکی ہے ۔ ربط اس وقت یاد نہین آرہے ۔ اگر کسی محفلین یا مدیر کو یاد ہو تو اس ربط تک رہنمائی کردیں ۔ بہت شکریہ ۔

فعولان اور مفاعیل میں کیا فرق ہے
 
امجد بھائی ، ہر دوسرے مصرع کے آخر میں مفاعیل نہیں بلکہ فعولان ہے ۔ اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آخری رکن فعولن کو فعولان کرنا جائز ہے ۔
جائے ، لائے ، کھائے وغیرہ اگر مصر ع کے آخر میں آئیں تو یہاں ہمزہ گرایا جاسکتا ہے ۔ جیسے: آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے ۔۔۔۔ مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
اس کی سینکڑوں مثالیں اساتذہ کے ہاں ملتی ہیں اور یہ ایک مستند اصول ہے ۔ کبھی کبھی کسی استاد نے جاؤ ، کھاؤ ، لاؤ وغیرہ پر بھی اس اصول کا اطلاق کیا ہے ۔ جیسے: ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ ۔۔۔ جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
امجد بھائی ، اس بارے میں نہایت تفصیلی گفتگو پہلے دو یا تین دھاگوں میں ہوچکی ہے ۔ ربط اس وقت یاد نہین آرہے ۔ اگر کسی محفلین یا مدیر کو یاد ہو تو اس ربط تک رہنمائی کردیں ۔ بہت شکریہ ۔
فعولن کو فعولان کرنے کا تو علم تھا لیکن "ئے" کو یک حرفی باندھا جا سکتا ہے یہ معلوم نہیں تھا۔ ظہیر بھیا آپ کا بہت بہت شکریہ۔ چلیں اس بہانے میرے اساتذہ میں ایک بیش قیمت اضافہ تو ہوا۔ میری خوشنصیبی۔
 
فعولان اور مفاعیل میں کیا فرق ہے
تقطیع کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں دونوں ہموزن اوزان ہیں۔
میری سمجھ کے مطابق فرق صرف یہ ہے کہ جس بحر کا آخری رکن "فعولن" ہوگا آپ اسے بدل کر "فعولان" کرسکتے ہیں اور جس بحر کا آخری رکن "مفاعیل" ہوگا آپ اسے بدل کر "مفاعل" کر سکتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ "مفاعیل" رکن "مفاعل" کی تبدیل شدہ شکل ہی ہے۔
یہ میری سمجھ کی بات ہے علمی بات نہیں۔ علمی بات تو اساتذہ ہی بتا سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بحر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ ظہیر میاں نے واضح کر دی ہے بات۔ البتہ حروف کے اسقاط کا کچھ جگہ مسئلہ ہے۔ حروف علت کا اسقاط اگرچہ جائز ہے لیکن کچھ صورتوں میں نا گوار گزرتا ہے۔ ان کو انڈر لائن کر رہا ہوں۔
گھر بار سبھی یار پہ قربان کیا جایے
کیوں اپنا دلءناداں یہ نقصان کیا جائے

ہر بار دیا دھوکہ مجھے سوچ سمجھ کر
اب سوچ کے ان سے کوئی پیمان کیا جائے

خاموشی سے بہتر ہے کریں پیار کسی سے
جینے کے لیے تو کوئی سامان کیا جائے

کوئی بھی خوشی راس نہیں آتی ہے ہم کو
کیا سوچ کے پھر خود کو پریشان کیا جائے

ہر اشک بہاتا ہوں میں تو خون کا لیکن
کب تک یوں تری یاد کو مہمان کیا جائے

فرعون کا ہر ایک ستم لکھنا ہے میں نے
کشمیر مری نظم کا عنوان کیا جائے

سجدے مرے بیکار رہیں گے سبھی عابد
جب تک دلء کافر نہ مسلمان کیا جائے
۔مقطع میںبیکار رہیں‘ میں ر کی تکرار بھی سقم مانا جائے گا۔
’کافر مسلمان کرنا‘ محاورہ نہیں، کافر کو مسلمان کرنا درست محاورہ ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تقطیع کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں دونوں ہموزن اوزان ہیں۔
میری سمجھ کے مطابق فرق صرف یہ ہے کہ جس بحر کا آخری رکن "فعولن" ہوگا آپ اسے بدل کر "فعولان" کرسکتے ہیں اور جس بحر کا آخری رکن "مفاعیل" ہوگا آپ اسے بدل کر "مفاعل" کر سکتے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ "مفاعیل" رکن "مفاعل" کی تبدیل شدہ شکل ہی ہے۔
یہ میری سمجھ کی بات ہے علمی بات نہیں۔ علمی بات تو اساتذہ ہی بتا سکتے ہیں۔
امجد بھائی یہ مفاعیل کو مفاعل کرنے والی بات ٹھیک نہیں ۔
۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی بحر کا آخری رکن مفاعیل نہیں ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ مفاعل نام کا کوئی رکن یا زحاف نہیں ہے ۔ اسلئے مفاعیل کو مفاعل میں بدلنے کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مفاعیل دراصل خود مفاعیلن کا ایک زحاف ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا اگر مصرع کے آخر میں فعو لن ہو تو اسے حسبِ قاعدہ ایک ساکن حرف کا اضافہ کرکے فعولان بنایا جاسکتا ہے ( اور فعولان اتفاق سے مفاعیل کا ہم وزن ہے) ۔
 
امجد بھائی یہ مفاعیل کو مفاعل کرنے والی بات ٹھیک نہیں ۔
۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی بحر کا آخری رکن مفاعیل نہیں ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ مفاعل نام کا کوئی رکن یا زحاف نہیں ہے ۔ اسلئے مفاعیل کو مفاعل میں بدلنے کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مفاعیل دراصل خود مفاعیلن کا ایک زحاف ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا اگر مصرع کے آخر میں فعو لن ہو تو اسے حسبِ قاعدہ ایک ساکن حرف کا اضافہ کرکے فعولان بنایا جاسکتا ہے ( اور فعولان اتفاق سے مفاعیل کا ہم وزن ہے) ۔
شکریہ ظہیر بھیا۔ سلامت رہیں اور ہمارے علم میں اضافہ فرماتے رہیں۔
 
Top