راشد ماہیؔ
محفلین
الف عین محمد وارث
جب مرے نامہِ اعمال کو لایا جائے
ما سوا عشق کےنمبر ہیں بتایا جائے ٓ
دیکھتے دیکھتے ارمان سبھی خاک ہوئے
اب تو ہستی کو بھی مٹی میں ملایا جائے
میں بھی پڑھ لوں کلمہ عشق کا میرے کافر
شرط یہ ہے ترے نینوں سے پڑھایا جائے
تھمنے والا نہیں ہے عشق جنوں یہ ماہی
آج سگرٹ کی جگہ دل ہی جلایا جائے
شہر بھر میں بنے پھرتے جو وفا کے پیکر
کبھی انکو بھی تو آئینہ دکھایا جائے
اٹھ چلیں بزم سے اسکی کہ کہیں ایسا نہ ہو
عشقِ ناکام کا افسانہ سنایا جائے
بندھے رہتے ہیں خیالوں میں ترے ہم ہر وقت
کوئی پل بھی کبھی آزاد بتایا جائے
آشیانے پہ مرے آج اسے بھی رشک آئے
ماہی کی قبر کو یارو یوں سجایا جائے
میری آنکھوں میں نظر آتے سرِ عام ہو تم
کسی سے کیسے محبت کو چھپایا جائے
جب مرے نامہِ اعمال کو لایا جائے
ما سوا عشق کےنمبر ہیں بتایا جائے ٓ
دیکھتے دیکھتے ارمان سبھی خاک ہوئے
اب تو ہستی کو بھی مٹی میں ملایا جائے
میں بھی پڑھ لوں کلمہ عشق کا میرے کافر
شرط یہ ہے ترے نینوں سے پڑھایا جائے
تھمنے والا نہیں ہے عشق جنوں یہ ماہی
آج سگرٹ کی جگہ دل ہی جلایا جائے
شہر بھر میں بنے پھرتے جو وفا کے پیکر
کبھی انکو بھی تو آئینہ دکھایا جائے
اٹھ چلیں بزم سے اسکی کہ کہیں ایسا نہ ہو
عشقِ ناکام کا افسانہ سنایا جائے
بندھے رہتے ہیں خیالوں میں ترے ہم ہر وقت
کوئی پل بھی کبھی آزاد بتایا جائے
آشیانے پہ مرے آج اسے بھی رشک آئے
ماہی کی قبر کو یارو یوں سجایا جائے
میری آنکھوں میں نظر آتے سرِ عام ہو تم
کسی سے کیسے محبت کو چھپایا جائے