برائے اصلاح: زمیں پہ رہتے رہتے مجھ کو آسمان مل گیا

مقبول

محفلین
قابلِ احترام
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
ظہیراحمدظہیر
صاحبان اور دیگر اساتذہ کرام سے رہنمائی کی درخواست ہے
“گیان” کی تقطیع (=- یا -=-) کے لحاظ سے استعمال پر آپ کی خاص توجہ کا طالب ہوں

زمیں پہ رہتے رہتے مُجھ کو آسمان مل گیا
ملے ہو جب سے تُم مُجھے مِرا جہان مل گیا

اِسے میں مُعجزہ کہوں یاسمجھوں تیرا اعتراف
کہ میرے کُل بیان سے ترا بیان مل گیا

بہت سے لوگ بیخودی میں ایک گھر کے سامنے
کھڑے ہوئے ملے، مُجھے تِرا مکان مل گیا

اُٹھا سڑک سے آ رہا میں تیری زلفوں کے تلے
بے گھر تھا میں ، مجھے مہکتا سائبان مل گیا

میں جو بڑے زمانے سے پڑا ہوا تھا سجدے میں
خیال تیرا آیا ہی تھا مجھ کو گیان مل گیا
یا
خیال تیرا آتے ہی مجھے گیان مل گیا

مرےلہو سے آ رہی ہے بھینی خوشبوئے گلاب
چھُپا ہوا ہے تُو کہاں یہ تو نشان مل گیا

قبول کر لیا، مرا بلاوا اُس نے شوق سے
وُہ آئے چاہے یا نہ آئے مُجھ کو مان مل گیا​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پوری غزل میں کئی جگہ 'ے' کے اسقاط کے ساتھ تقطیع کی گئی ہے، جو کہیں درست ہے، کہیں محض روانی پر گراں ہے، اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے
زمیں پہ رہتے رہتے مُجھ کو آسمان مل گیا
ملے ہو جب سے تُم مُجھے مِرا جہان مل گیا
.. رہتے رہتے کی ے؟ روانی متاثر کرتی ہے

اِسے میں مُعجزہ کہوں یاسمجھوں تیرا اعتراف
کہ میرے کُل بیان سے ترا بیان مل گیا
.. 'یا سمجھوں' کا الف اور وں کا اسقاط!

بہت سے لوگ بیخودی میں ایک گھر کے سامنے
کھڑے ہوئے ملے، مُجھے تِرا مکان مل گیا
.. درست

اُٹھا سڑک سے آ رہا میں تیری زلفوں کے تلے
بے گھر تھا میں ، مجھے مہکتا سائبان مل گیا
... آ رہا.. محاورہ نہیں
زلفوں کی وں کا اسقاط
بے گھر کی ے کا اسقاط درست نہیں

میں جو بڑے زمانے سے پڑا ہوا تھا سجدے میں
خیال تیرا آیا ہی تھا مجھ کو گیان مل گیا
یا
خیال تیرا آتے ہی مجھے گیان مل گیا
... گیان محض گان تقطیع ہوتا ہے، 'مجھ کو گیان' درست ہے
لیکن پہلے مصرع میں زمانے اور سجدے کی ے کا اسقاط نا گوار ہے

مرےلہو سے آ رہی ہے بھینی خوشبوئے گلاب
چھُپا ہوا ہے تُو کہاں یہ تو نشان مل گیا
.. بھینی جیسے ہندی لفظ کے ساتھ خوشبوئے.. کی فارسی ترکیب عجیب لگتی ہے
'یہ تو' 'یتو' تقطیع ہونا اچھا نہیں۔ 'تو' کی و گرانا فصیح تر ہے

قبول کر لیا، مرا بلاوا اُس نے شوق سے
وُہ آئے چاہے یا نہ آئے مُجھ کو مان مل گیا
.. بلاوا کے الف کا اسقاط برا لگتا ہے
چاہے اور یا دونوں ایک ساتھ محاورے کے خلاف ہے، آئے یا نہ آئے کافی ہے
مان بمعنی عزت و تکریم سنسکرت ہے، ہندی شاعری اور فلمی گانوں میں تو اکثر استعمال ہوتا دیکھا ہے، لیکن اردو شاعری میں نہیں۔ ممکن ہے پنجابی میں ادبی لفظ کے طور پر برتا جاتا ہو تو پاکستان میں ایسا استعمال جائز سمجھا جاتا ہو!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تفصیل کا وقت نہیں ۔ بس ایک دو نکات مختصراً مزید عرض کرتا ہوں:
- مطلع میں " مرا جہان مل گیا " بے معنی ہے ۔ ؟؟؟
۔ "کُل بیان سے" کون سی زبان ہے ؟
- "اُٹھا سڑک سے آ رہا میں تیری زلفوں کے تلے" ۔ ٹھیک نہیں ہے ۔ درست زبان یوں ہوگی: اُٹھ کے سڑک سے آرہا میں ۔۔۔۔۔۔ الخ" ۔ "آرہا " اچھا اور فصیح روز مرہ ہے ۔ اس کے معنی آجانا ، چلے آنا ہیں ۔
- بھینی بھینی خوشبو درست زبان ہے ۔ بھینی خوشبو درست نہیں ہے ۔
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم ظہیراحمدظہیر صاحب

آپ کا قیمتی آراء اور وقت دینے کا بہت شُکریہ۔
کچھ بہتری لانے کی کوشش کی ہے ۔ آپ کے جائزے کے لیے پیش کر رہا ہوں

زمیں پہ رہ رہا تھا مُجھ کو آسمان مل گیا
ملے ہو جب سے تُم مُجھے تو کُل جہان مل گیا

اِسے میں مُعجزہ کہوں کہ جان تیرا اعتراف
مرے بیان سے جو ہے ترا بیان مل گیا

بہت سے لوگ بیخودی میں ایک گھر کے سامنے
کھڑے ہوئے ملے، مُجھے تِرا مکان مل گیا

سڑک سے اُٹھ کے آ گیا میں تیری زلف کے تلے
تھا در بدر مجھے مہکتا سائبان مل گیا

قیام میں کھڑا ہوا تھا میں جو ایک عُمر سے
خیال ایک تیرا آنے پر ہی گیان مل گیا

مرے لہو سے آ رہی ہے خوشبو سی گلاب کی
چھُپا ہوا ہے تُو کہاں یہ بھی نشان مل گیا

قبول کر لیا مرا پیام تُم نے شوق سے
بہانہ اور جینے کا ہی میری جان مل گیا​
 

الف عین

لائبریرین
سڑک سے اُٹھ کے آ گیا میں تیری زلف کے تلے
تھا در بدر مجھے مہکتا سائبان مل گیا
.. در بدر ہونا محاورہ نہیں، در بدر پھرنا ہوتا ہے، سڑک سے آٹھ کر...؟ وہاں تو بیٹھنے کی بات کی جا رہی ہے! کچھ یوں کہو کہ بھتکتے بھٹکتے تری زلف کے سائے میں آ گیا، در بدر مارا مارا پھر رہا تھا وغیرہ، شعر پھر کہو

قیام میں کھڑا ہوا تھا میں جو ایک عُمر سے
خیال ایک تیرا آنے پر ہی گیان مل گیا
... رشی منی دھیان میں بیٹھتے تھے تو ان کو گیان ملتا تھا۔ قیام کی بہ نسبت شاید مسلمانوں کے لئے سجدہ کہنا ہی بہتر ہے۔ یا بہتر ہے کہ کسی بھی پوسچر کا ذکر نہ کیا جائے
لگا ہوا تھا دھیان میں بہت دنوں سے یوں ہی میں
یا اس قسم کا کوئی مصرع بہتر ہو گا
دوسرا مصرع پچھلا والا ہی بہتر تھا۔

مرے لہو سے آ رہی ہے خوشبو سی گلاب کی
چھُپا ہوا ہے تُو کہاں یہ بھی نشان مل گیا
.... خوشبو کی و گر رہی ہے، اس کی جگہ مہک کہو تو
مرے لہو سے آ رہی ہے کچھ مہک گلاب کی
یہ بھی 'یبی' اب بھی تقطیع ہو رہا ہے، ترا نشان کیا جا سکتا ہے
باقی اشعار درست ہیں
 

مقبول

محفلین
محترم
الف عین
صاحب
تبصرے کا شُکریہ
سڑک سے اُٹھ کے آ گیا میں تیری زلف کے تلے
تھا در بدر مجھے مہکتا سائبان مل گیا
.. در بدر ہونا محاورہ نہیں، در بدر پھرنا ہوتا ہے، سڑک سے آٹھ کر...؟ وہاں تو بیٹھنے کی بات کی جا رہی ہے! کچھ یوں کہو کہ بھتکتے بھٹکتے تری زلف کے سائے میں آ گیا، در بدر مارا مارا پھر رہا تھا وغیرہ، شعر پھر کہو

سر، بدقسمتی سے یہ بحر کوئی ایسا لفظ قبول نہیں کر رہی جس کی تقطیع میں دو ہجائے بلند جُڑے ہوے ہوں ۔

دوبارہ کہنے کی کوشش کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے

بھٹک رہا تھا، آ گیا میں تیری زلف کے تلے
پھروں تھا در بدر ، مہکتا سائبان مل گیا

قیام میں کھڑا ہوا تھا میں جو ایک عُمر سے
خیال ایک تیرا آنے پر ہی گیان مل گیا
... رشی منی دھیان میں بیٹھتے تھے تو ان کو گیان ملتا تھا۔ قیام کی بہ نسبت شاید مسلمانوں کے لئے سجدہ کہنا ہی بہتر ہے۔ یا بہتر ہے کہ کسی بھی پوسچر کا ذکر نہ کیا جائے
لگا ہوا تھا دھیان میں بہت دنوں سے یوں ہی میں
یا اس قسم کا کوئی مصرع بہتر ہو گا
دوسرا مصرع پچھلا والا ہی بہتر تھا۔

سر، میں نے سوچا کہ مسلمان ہونے کے ناتے ایک کوشش مسلمان کے طور پر کر لوں ۔ اگر کام نہیں بنا تو پھر کسی اور عقیدہ کی چادر اوڑھ لوں گا۔ پہلے والے شعر کے دوسرے مصرعہ میں خیال سجدے کے دوران آنا تھا اور سجدے کا استعمال “ے” گرائے بغیر ممکن نہیں لگ رہا تھا لہٰذا شعر کو تھوڑا مختلف شکل دینا پڑی ۔ یہ دیکھیے

نہ پا سکا میں عمربھر رکوع اور سجود میں
شروع کیا جو تُم سے عشق خود ہی گیان مل گیا
یا
لگی فراق کی جو چوٹ خود ہی گیان مل گیا
یا
تڑپ رہا تھا ہجر میں کہ خود ہی گیان مل گیا
مرے لہو سے آ رہی ہے خوشبو سی گلاب کی
چھُپا ہوا ہے تُو کہاں یہ بھی نشان مل گیا
.... خوشبو کی و گر رہی ہے، اس کی جگہ مہک کہو تو
مرے لہو سے آ رہی ہے کچھ مہک گلاب کی
یہ بھی 'یبی' اب بھی تقطیع ہو رہا ہے، ترا نشان کیا جا سکتا ہے

جی۔ یہ بہترین ہو گیا ہے ۔ میں نے “تِرا” کو سٹینڈ بائی رکھا ہوا تھا ۔ یہی مناسب ہے

براہِ مہربانی، اپنی رائے سے نوازیئے
 

الف عین

لائبریرین
پھروں تھا... آج کل متروک ہے، اگر چل سکے تو درست تو ہو گیا ہے شعر
رکوع و سجود والا مصرع اچھا ہو گیا مگر ثانی پسند نہیں آیا، یوں کر سکتے ہو
ترے فراق کی/تمہارے ہجر کی... تڑپ میں خود ہی گیان مل گیا
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

پھروں تھا... آج کل متروک ہے، اگر چل سکے تو درست تو ہو گیا ہے شعر

سر، یہ کیسا رہے گا

بھٹک رہا تھا آ گیا میں تیری زلف کے تلے
تھی خاک میں بسر، مہکتا سائبان مل گیا

رکوع و سجود والا مصرع اچھا ہو گیا مگر ثانی پسند نہیں آیا، یوں کر سکتے ہو
ترے فراق کی/تمہارے ہجر کی... تڑپ میں خود ہی گیان مل گیا

بالکل ۔ ان دونوں میں سے کوئی استعمال کر سکتا ہوں

ان کے علاوہ، ایک مصرعہ ذہن میں آیا ۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہو گی۔ خاص طور پر “جوں” کے “وں” کو ساقط کرنے پر

نہ پا سکا میں عمر بھر رکوع اور سجود میں
پڑی جوں ہی تری نگاہ مجھ کو گیان مل گیا
 

الف عین

لائبریرین
تھی خاک میں بسر،... تو جم نہیں رہا ہے
جوں ہی والا مصرع بھی پچھلے مصرع سے بہتر ہے روانی میں۔ اسقاط کے سقم کے باوجود
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

تھی خاک میں بسر،... تو جم نہیں رہا ہ

سر، یہ مصرعہ دیکھیے

میں پھر رہا تھا در بدر کہ سائبان مل گیا

جوں ہی والا مصرع بھی پچھلے مصرع سے بہتر ہے روانی میں۔ اسقاط کے سقم کے باوجود

یہ مصرعہ دیکھیے ہلکی سی تبدیلی کے بعد

پڑی مگر تری نگاہ مجھ کو گیان مل گیا
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب

سر، یہ مصرعہ دیکھیے

میں پھر رہا تھا در بدر کہ سائبان مل گیا



یہ مصرعہ دیکھیے ہلکی سی تبدیلی کے بعد

پڑی مگر تری نگاہ مجھ کو گیان مل گیا
اس سے تو
تری نظر جو پڑ گئی تو مجھ کو گیان...
بہتر ہو گا
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب ، شُکریہ

سر، یہ خیال کیسا رہے گا

خُدا نہ پا سکے وُہ جن کو ناز تھا سجود پر
نہ جن کو تھا کوئی غرور اُن کو گیان مل گیا​
 
Top