بخاری محدث کے بارے میں ایک کتاب : قرآن مقدس اور بخاری مقدس

ذیل میں ایک کتاب کا لنک فراہم کررہا ہوں۔ یہ کتاب علامہ احمد سعید ملتانی صاحب نے لکھی ہے جو 74 سال کے ہیں اور جناب عرصہ 35 سال سے جامعہ محمدیہ احیاء السنۃ، کبیر والا شہر ضلع خانیوال میں قرآن اور حدیث کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جناب نے بخاری محدث کے ایسے بیانات کو واضح کیا ہے جو فرمان الہی قرآن حکیم کے سراسر خلاف ہیں۔

http://ia701508.us.archive.org/2/it...adath/QuranMuqaddasOrBukhariMuhadath_text.pdf
 
ہاہاہاہاہاہاہاہا!!! ایک ایک قدم پر ایک منکر مل جاتا ہے۔ :grin: کوئی فقہ کا منکر، کوئی حدیث کا منکر، کوئی ختم نبوت کا منکر تو کوئی خدا کا منکر ہے :eek:
 

ظفری

لائبریرین
ہاہاہاہاہاہاہاہا!!! ایک ایک قدم پر ایک منکر مل جاتا ہے۔ :grin: کوئی فقہ کا منکر، کوئی حدیث کا منکر، کوئی ختم نبوت کا منکر تو کوئی خدا کا منکر ہے :eek:
میرے بھائی ۔۔۔۔ یہی اللہ کی وہ اسکیم ہے جس کی بنیاد پر یہ دنیا اور اس پر رہنے والی خلق وجود میں آئی ۔ یعنی عقل و دانش کی کسوٹی پر نیت کے معیار پر آزمائش ، امتحان کا پلان ۔ "دین پر کوئی جبر نہیں " یعنی اللہ تعالی کی طرف سے مخلوق کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ حقائق کی بنیاد پر کس طرح حق و باطل میں تمیز کرتے ہیں ۔ احادیث کی کتب تصانیف ہیں ۔ کوئی وحی کی کتاب نہیں ہے ۔ اور یہ کتب بہت ہی مشہور علماء نے لکھیں ہیں ۔ مگر بہرحال یہ ایک انسانی کام ہے ۔ لہذا اس پر تحقیق یا عمل کی کوئی راہ نکالی جائے تو اللہ کی کتاب کو سامنے رکھ کر کی جائے ۔ جو برہان بھی ہے اور میزان بھی ۔
 
حق کوئی لازمی مضمون نہیں ہے کہ اللہ اپنے ہر بندے کو جبرا رکھوا دیتا۔ حق کی پہچان کی کوشش البتہ لازمی مضمون ہے اور اسی نے اپنے بندوں کے جذبوں کی پرکھ کی خاطر یہ آزمائش رکھی ہے ۔
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے​
پھر اسی کا وعدہ ہے کہ جو حق کی تلاش میں نکلے گا اسے ضرور ملے گا۔​
 
میرے بھائی ۔۔۔ ۔ یہی اللہ کی وہ اسکیم ہے جس کی بنیاد پر یہ دنیا اور اس پر رہنے والی خلق وجود میں آئی ۔ یعنی عقل و دانش کی کسوٹی پر نیت کے معیار پر آزمائش ، امتحان کا پلان ۔ "دین پر کوئی جبر نہیں " یعنی اللہ تعالی کی طرف سے مخلوق کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ حقائق کی بنیاد پر کس طرح حق و باطل میں تمیز کرتے ہیں ۔ احادیث کی کتب تصانیف ہیں ۔ کوئی وحی کی کتاب نہیں ہے ۔ اور یہ کتب بہت ہی مشہور علماء نے لکھیں ہیں ۔ مگر بہرحال یہ ایک انسانی کام ہے ۔ لہذا اس پر تحقیق یا عمل کی کوئی راہ نکالی جائے تو اللہ کی کتاب کو سامنے رکھ کر کی جائے ۔ جو برہان بھی ہے اور میزان بھی ۔

ہم نے کب ایسا کہا کہ یہ وحی ہے؟
چلیں یہی بتائیں کہ قران کیا اللہ نے خود لکھا؟ نہیں۔ انسان نے لکھا۔ وہ بھی نبی نے نہیں بلکہ صحابہ نے۔ اللہ کا کام یہ تھا کہ اسے جاری کروا کر کھلی نشانی دکھلائی کہ یہی وہ چیز ہے جو میری مرضی تھی۔ اسی طرح دیگر مسائل ہیں۔ احادیث کی تصانیف انسانوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔ مگر جو حدیثیں جاری ہوئی ہیں اور جن پر پوری امت جمع ہوئی وہ اللہ کی مرضی تھی۔ کیونکہ امت کا اجماع معصوم ہے۔ ہم حدیث میں سب حدیثوں پر عمل نہیں کرتے۔ ایسی بہت سی احادیث ہیں جو منسوخ ہوگئی ہیں۔ مگر کبھی کسی وقت ان پر عمل تھا اس سے بھی انکار نہیں۔ ہم انہیں حدیث نبوی مانتے ہیں۔ مگر عمل نہیں کرتے کیونکہ وہ منسوخ ہیں۔ عمل صرف ناسخ پر کرتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ ہمارا عقیدہ کہ آدم سے لیکر عیسی ؑ تک سارے نبی بر حق ہیں۔ ہم سب کو صد فیصد سچا مانتے ہیں مگر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں جو شریعت انکے دور میں وہ لیکر آئے وہ اب منسوخ ہے۔ اس پر عمل نہیں کرتے، عمل ناسخ پر کرتے ہیں۔ مثلاً یوسف علیہ السلام کے زمانے میں سجدۂ تعذیمی جائز تھا۔ اب اجازت نہیں۔ تو کیا یوسف کی نبوت کے منکر ہوجائیں؟
یہی مسئلہ یہاں بھی ہے۔ حدیثیں تو ہر قسم کی ہیں مگر عمل انہی پر ہے جن پر امت کا اجماع ہوا۔ اب احادیث کا انکار کرکے چند ہزار لوگ اگر کروڑوں مسلمان کو ٹھکرا کر یہ کہیں کہ ہمارا عمل قران کے مطابق ہے تو سب سے پہلے تو وہ قران کے ہی منکر ہو گئے۔ کیونکہ اس اجماع سے ہٹ کر وہ لوگ یتبع غیر سبیل المؤمنین کا مصداق تو ہوسکتے ہیں۔ راہ حق پر کبھی نہیں ہوسکتے۔ اور آپ نے جیسا کہا کہ حدیث کی کتابیں مصنف کی لکھی ہیں تو حضور عرض کردوں کہ لکھنے والا بیشک امتی انسان تھا مگر کیا اس نے اپنی حدیثیں بنائی تھیں؟ جس طرح قران کو لکھنے والی خود خدا کی ذات نہیں مگر جو کچھ لکھا ہے وہ ہے تو خدا کا کلام!! اسی طرح حدیث کو خود نبی نے نہیں لکھا مگر ہے نبی کا کلام، صحابہ کا کلام، انکے عوامل، اور انکے اقوال۔
امید ہے آپ سمجھیں گے۔ :)
 
م لہذا اس پر تحقیق یا عمل کی کوئی راہ نکالی جائے تو اللہ کی کتاب کو سامنے رکھ کر کی جائے ۔ جو برہان بھی ہے اور میزان بھی ۔
1- حدیث کے لیے قرآن کی تصدیق ضروری نہیں ، یہ غلط فہمی پرویزیہ کی ہے ۔
2- میزان کو قرآن کا نام کہنا غلط ہے اور یہ غلطی علامہ جاوید احمد غامدی کی ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
ہم نے کب ایسا کہا کہ یہ وحی ہے؟
چلیں یہی بتائیں کہ قران کیا اللہ نے خود لکھا؟ نہیں۔ انسان نے لکھا۔ وہ بھی نبی نے نہیں بلکہ صحابہ نے۔ اللہ کا کام یہ تھا کہ اسے جاری کروا کر کھلی نشانی دکھلائی کہ یہی وہ چیز ہے جو میری مرضی تھی۔ اسی طرح دیگر مسائل ہیں۔ احادیث کی تصانیف انسانوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔ مگر جو حدیثیں جاری ہوئی ہیں اور جن پر پوری امت جمع ہوئی وہ اللہ کی مرضی تھی۔ کیونکہ امت کا اجماع معصوم ہے۔ ہم حدیث میں سب حدیثوں پر عمل نہیں کرتے۔ ایسی بہت سی احادیث ہیں جو منسوخ ہوگئی ہیں۔ مگر کبھی کسی وقت ان پر عمل تھا اس سے بھی انکار نہیں۔ ہم انہیں حدیث نبوی مانتے ہیں۔ مگر عمل نہیں کرتے کیونکہ وہ منسوخ ہیں۔ عمل صرف ناسخ پر کرتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ ہمارا عقیدہ کہ آدم سے لیکر عیسی ؑ تک سارے نبی بر حق ہیں۔ ہم سب کو صد فیصد سچا مانتے ہیں مگر ساتھ یہ بھی کہتے ہیں جو شریعت انکے دور میں وہ لیکر آئے وہ اب منسوخ ہے۔ اس پر عمل نہیں کرتے، عمل ناسخ پر کرتے ہیں۔ مثلاً یوسف علیہ السلام کے زمانے میں سجدۂ تعذیمی جائز تھا۔ اب اجازت نہیں۔ تو کیا یوسف کی نبوت کے منکر ہوجائیں؟
یہی مسئلہ یہاں بھی ہے۔ حدیثیں تو ہر قسم کی ہیں مگر عمل انہی پر ہے جن پر امت کا اجماع ہوا۔ اب احادیث کا انکار کرکے چند ہزار لوگ اگر کروڑوں مسلمان کو ٹھکرا کر یہ کہیں کہ ہمارا عمل قران کے مطابق ہے تو سب سے پہلے تو وہ قران کے ہی منکر ہو گئے۔ کیونکہ اس اجماع سے ہٹ کر وہ لوگ یتبع غیر سبیل المؤمنین کا مصداق تو ہوسکتے ہیں۔ راہ حق پر کبھی نہیں ہوسکتے۔ اور آپ نے جیسا کہا کہ حدیث کی کتابیں مصنف کی لکھی ہیں تو حضور عرض کردوں کہ لکھنے والا بیشک امتی انسان تھا مگر کیا اس نے اپنی حدیثیں بنائی تھیں؟ جس طرح قران کو لکھنے والی خود خدا کی ذات نہیں مگر جو کچھ لکھا ہے وہ ہے تو خدا کا کلام!! اسی طرح حدیث کو خود نبی نے نہیں لکھا مگر ہے نبی کا کلام، صحابہ کا کلام، انکے عوامل، اور انکے اقوال۔
امید ہے آپ سمجھیں گے۔ :)
آپ نے ایک تحقیقی اور بامقصد بحث کا آغاز کیا ہے جو خوش آئند ہے ۔ میں آپ کی ایک ایک سطر کا جواب دیتا ہوں مگر ایک توقف کے بعد کہ کچھ مصروف ہیں ۔ باقی کسی کی اور بے منطق باتوں کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا کہ وقت کا ضیاع ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
میزان کو قرآن کا نام کہنا غلط ہے اور یہ غلطی علامہ جاوید احمد غامدی کی ہے ۔
ہوسکتا ہے ان سے غلطی ہوئی ہو ۔ وہ بھی ایک انسان ہیں ۔ اگر آپ اس موضوع پر اپنے تعصب اور تنگ نظری کو ایک طرف رکھ کر اس پر کوئی اپنا استدلال اور دلائل دیں سکیں تو بحث کی جاسکتی ہے ۔ ( برائے کرم کاپی پیسٹ سے کام نہ لجیئے گا ) ۔ ورنہ امریکہ ، مغرب ، مہاجرین ، غامدی ، فلاں فلاں کو ٹارگٹ بناکر کر میرا وقت ہی ضائع کریں گی ۔ جس کا میں متحمل نہیں ہوسکتا ۔
 

ظفری

لائبریرین
1- حدیث کے لیے قرآن کی تصدیق ضروری نہیں ، یہ غلط فہمی پرویزیہ کی ہے ۔
2- میزان کو قرآن کا نام کہنا غلط ہے اور یہ غلطی علامہ جاوید احمد غامدی کی ہے ۔
چونکہ غامدی کے حوالے سے بات ہو رہی ہے تو میں ایک یو ٹیوب کا لنک پیش کرتا ہوں ۔ اس میں کئی مسائل کا ایک ساتھ تذکرہ ہوگیا ہے ۔ بات اختلاف کے اصول سے ہوئی تھی ۔ یہ بات سرعام ٹی وی پر ہوئی ہے ۔ لہذا دیکھیئے ، سنیئے اور سر دھنیئے ۔ حدیث اور مندرجہ بالا اقتباس پر آپ کے دلائل کے بعد گفتگو ہوگی ۔
 

ظفری

لائبریرین
حق کوئی لازمی مضمون نہیں ہے کہ اللہ اپنے ہر بندے کو جبرا رکھوا دیتا۔ حق کی پہچان کی کوشش البتہ لازمی مضمون ہے اور اسی نے اپنے بندوں کے جذبوں کی پرکھ کی خاطر یہ آزمائش رکھی ہے ۔
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے​
پھر اسی کا وعدہ ہے کہ جو حق کی تلاش میں نکلے گا اسے ضرور ملے گا۔​
پہلے میری بات کو سمجھیں کہ میں نے کیا بات کہی ہے ۔ کم از کم ان لوگوں سے ہی پوچھ لیں جو میری اس پوسٹ سے متفق ہوئے ہیں ۔ ہر غلط فہمی کے سوالات خود سے اخذ کرکے ان کے جوابات بھی خود ہی تخلیق کرلینا ، کوئی دانشمندی نہیں ہے ۔ ورنہ ہم جانتے ہیں کہ کون آگ لینے نکلا تھا اور پھرپیغمبری مل گئی ۔ :)
 

Ukashah

محفلین
ذیل میں ایک کتاب کا لنک فراہم کررہا ہوں۔ یہ کتاب علامہ احمد سعید ملتانی صاحب نے لکھی ہے جو 74 سال کے ہیں اور جناب عرصہ 35 سال سے جامعہ محمدیہ احیاء السنۃ، کبیر والا شہر ضلع خانیوال میں قرآن اور حدیث کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جناب نے بخاری محدث کے ایسے بیانات کو واضح کیا ہے جو فرمان الہی قرآن حکیم کے سراسر خلاف ہیں۔
http://ia701508.us.archive.org/2/it...adath/QuranMuqaddasOrBukhariMuhadath_text.pdf
یہ صاحب حیاتی وفات پا گئے ہیں ۔ اس کتاب کو لکھنے کے بعد ان کے ہم مسلک خیر المدرس ملتان کے مہتمم سمیت بہت سے علماء مماتیوں نے انہیں مناظرے کی دعوت دی لیکن انھوں نے راہ فرار اختیار کی ۔ کافی عرصہ تک جیل میں بھی رہے ۔ ۔ ۔ لیکن اپنی غلطی سے رجوع نہیں کیا ۔ موصوف کا کہنا تھا کہ انہوں نے جو بھی لکھا وہ حرف بحرف صحیح ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اپنے علماء کے نزدیک ثقہ نہیں تھے ۔
 
پہلے میری بات کو سمجھیں کہ میں نے کیا بات کہی ہے ۔ کم از کم ان لوگوں سے ہی پوچھ لیں جو میری اس پوسٹ سے متفق ہوئے ہیں ۔ ہر غلط فہمی کے سوالات خود سے اخذ کرکے ان کے جوابات بھی خود ہی تخلیق کرلینا ، کوئی دانشمندی نہیں ہے ۔ ورنہ ہم جانتے ہیں کہ کون آگ لینے نکلا تھا اور پھرپیغمبری مل گئی ۔ :)
آپ سے یہ کس نے کہا کہ میری اس پوسٹ کا آپ کی پوسٹ سے کوئی تعلق ہے ؟ یہ ایک عمومی بات ہے ۔
 
چونکہ غامدی کے حوالے سے بات ہو رہی ہے تو میں ایک یو ٹیوب کا لنک پیش کرتا ہوں ۔ اس میں کئی مسائل کا ایک ساتھ تذکرہ ہوگیا ہے ۔ بات اختلاف کے اصول سے ہوئی تھی ۔ یہ بات سرعام ٹی وی پر ہوئی ہے ۔ لہذا دیکھیئے ، سنیئے اور سر دھنیئے ۔ حدیث اور مندرجہ بالا اقتباس پر آپ کے دلائل کے بعد گفتگو ہوگی ۔
شاید آپ کو علم نہیں کہ پاکستان میں یوٹیوب بینڈ ہے ۔
 
ہوسکتا ہے ان سے غلطی ہوئی ہو ۔ وہ بھی ایک انسان ہیں ۔ اگر آپ اس موضوع پر اپنے تعصب اور تنگ نظری کو ایک طرف رکھ کر اس پر کوئی اپنا استدلال اور دلائل دیں سکیں تو بحث کی جاسکتی ہے ۔ ( برائے کرم کاپی پیسٹ سے کام نہ لجیئے گا ) ۔ ورنہ امریکہ ، مغرب ، مہاجرین ، غامدی ، فلاں فلاں کو ٹارگٹ بناکر کر میرا وقت ہی ضائع کریں گی ۔ جس کا میں متحمل نہیں ہوسکتا ۔
آپ نے قارئین کو دھوکا دینے کے لیے یہ بات لکھی ہے ۔ آپ ثابت کریں کہ میں نے کبھی ضرورت کے بغیر ، بنا حوالہ دئیے کاپی پیسٹ کیا ہو۔ میرے شروع کردہ موضوعات یا تو میرے لکھے ہوتے ہیں یامیرے ٹائپ کردہ اور مکمل باحوالہ۔ آپ کو اس غلط بیانی پر شرم آنی چاہیے ۔
 
ہوسکتا ہے ان سے غلطی ہوئی ہو ۔ وہ بھی ایک انسان ہیں ۔ اگر آپ اس موضوع پر اپنے تعصب اور تنگ نظری کو ایک طرف رکھ کر اس پر کوئی اپنا استدلال اور دلائل دیں سکیں تو بحث کی جاسکتی ہے ۔ ( برائے کرم کاپی پیسٹ سے کام نہ لجیئے گا )
مجھے بحث کی کیا ضرورت ہے ؟ علوم القرآن اور علوم الحدیث سے تعلق رکھنے والوں کے نزدیک یہ معلوم حقیقت ہے ۔ قدریہ اور جہمیہ کا جہاں بھی ذکر آئے ہم نئے سرے سے ان کے عقائد کو ثابت کریں گے کیا؟پرویزیہ نے جس موضوع حدیث کی بنیاد پر یہ اصول گھڑا ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے ۔جناب غامدی نے قرآن کو میزان قرار دیا ہے اور علماء اس پر رد کر چکے ہیں اب میں اس پر نئے سرے سے کیا بحث کروں ؟ شاید آپ نے میزان نام سے ان کی کتاب دیکھ نہیں رکھی ۔
 
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

2:185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پالے تو اس کے روزے رکھے اور جو کوئی بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنو ں سے گنتی پوری کر ے اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا اور تاکہ تم گنتی پوری کر لو اور تاکہ تم الله کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو

3:4
مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَأَنزَلَ الْفُرْقَانَ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِآيَاتِ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ
(جیسے) اس سے قبل لوگوں کی رہنمائی کے لئے (کتابیں اتاری گئیں) اور (اب اسی طرح) اس نے حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا (قرآن) نازل فرمایا ہے، بیشک جو لوگ اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے سنگین عذاب ہے، اور اﷲ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے

25:1
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرّب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈر سنانے والا ہو جائے

جو لوگ قرآن حکیم کے الفرقان ہونے سے صاف انکار کرتے ہیں ۔ ان کے لئے فرمان الہی سے حوالے ۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

 
شاید آپ کو علم نہیں کہ پاکستان میں یوٹیوب بینڈ ہے ۔


وڈیو میں زنا پر شادی شدہ کو سنگسار اور غیر شادی کو سو کوڑے مارنے پر سوال کیا کہ ائمہ کی فقہ میں یہ قانون ہے۔ مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ ہم ائمہ کی وہ بات مانینگے جو قران و حدیث کے مطابق ہو باقیوں کو رد کرینگے۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ نے ایسا کہا تھا کہ اگر میرا کوئی مسئلہ قران و حدیث کے خلاف نظر آئے تو اسے دیوار پر مار دینا۔


جواب:
پہلی بات کا جواب یہ کہ جو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جس پر تمام امت کا اجماع ہوجائے وہ شرعی قانون ہے۔ اور اس سے بغاوت کرنے والا گمراہ ہے۔
بات کو غیر متعصب ہو کر سمجھیں۔ یہ نظریہ کس وقت آیا کہ قران حدیث کو مانو، ہر بات پر دلیل مانگو اور جو بات تمہیں قران و حدیث کی دلیل کے خلاف لگے اسے رد کرو؟
بر صغیر میں اسلام کی صدیوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اس طرح کہتا۔ یہ نظریہ ملکہ وکٹوریہ کے دور میں آیا اور چند شر پسندوں نے علماء اور فقہاء کو تنگ کرنا شروع کیا۔
بارہ سو سال میں بادشاہ، عوام، وزیر و مشیر سب حنفی تھے ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو اس طرح دلیل مانگتا۔
انگریزوں کے دور میں یہ سب فرقے نکلے، ورنہ انگریزوں کے دور سے پانچ منٹ پہلے کی آپ کسی ایسے فرقے کی صرف چھوٹی سی نماز کی کتاب بھی نہیں دکھا سکتے (جیسے ہماری ”آسان نماز“ کتاب ہے) جس نے صرف قران و حدیث کے حوالوں سے نماز سکھائی ہو۔ :)
اب سوچیں کہ دور عباسی میں، سلجوقیوں کے دور میں، خوارزمیوں کے دور میں بادشاہ، رعایا، قاضی، وزیر، سب کے سب حنفی ہوتے۔ حکومت ہی حنفیوں کی تھی اس لئے جہاد جیسی عظیم عبادت بھی انہی کے حصے میں آئی کیونکہ جس کی حکومت نہ ہو اسکا جہاد بھی نہیں۔ اسی دوران مالکی حنبلی، اور شافعی بھی بڑھ گئے۔ اور سارے حق بجانب ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود کوئی بھی ایسا نہ تھا جو نہ حنفی ہو نہ مالکی نہ شافعی نہ حنبلی۔ ابھی سو سال پہلے تک بھی 1911 میں علامہ شکیب ارسلانؒ 1366ھ (حاشیہ حسن المساعی نمبر 69) پر فرماتے ہیں:
اثنا عشری ایک کروڑ سینتیس لاکھ، زیدی تیس لاکھ، حنبلی تیس لاکھ، مالکی ایک کروڑ، شافعی دس کروڑ، اور حنفی سینتیس کروڑ سے زائد۔ اب دیکھیں سنی مسلمانوں کی تعداد 48 کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہے۔ مگر اس میں کوئی ایک بھی خانہ ایسا نہیں جہاں سنیوں میں ان چار ائمہ کی فقہ کے ماننے والوں کے علاوہ کوئی ہو۔ تو ثابت ہوا کہ جو لوگ ان چاروں ائمہ میں کسی کی پیروی نہ کریں وہ اجماع امت سے تو خارج ہیں۔ کیونکہ ان ائمہ کو امت کے اجماع نے مجتہد مانا، اور انکی پیروی کرکے 1200 سال تک اسلام پر عمل کیا۔ اور جو اجماع سے ثابت ہو وہی اللہ کی مرضی بھی ہے۔
دوسری بات جو کہی کہ:
کیونکہ امام ابو حنیفہ نے ایسا کہا تھا کہ اگر میرا کوئی مسئلہ قران و حدیث کے خلاف نظر آئے تو اسے دیوار پر مار دینا
اس حوالے سے میں عرض کرونگا کہ یہ بات امام صاحبؒ نے کسی چمار کے لئے نہیں کہی تھی کہ وہ جا کر حدیث کا اردو ترجمہ پڑھ کر میرے مسائل کی تحقیق کرنا شروع کردے :)
ارے یہ تو انکی حدیثوں اور فقہ پر مہارت پر مبنی قول ہے۔ مثال یوں سمجھیں:
اگر کوئی ڈاکٹر کوئی نسخہ تجویز کرے اور کہے کہ جاؤ اور کھا لو یہ دوا۔ اگر فائدہ نہ ہو تو میرے منہ پر تھوک دینا۔ تو اس ڈاکٹر کے اس قول کا مطلب یہ نہیں کہ اسکی دوا سے شفا نہیں ہوگی۔ بلکہ وہ اپنی مہارت بتا رہا ہے کہ جاؤ کھالو اور شفا ہو جائے گی۔
یا جیسے میں نے رباعی کے دو اوزان سے چوبیس اوزان نکال کر کہہ دیا کے آجائے کوئی عروضی اور ان چوبیس اوزان کے علاوہ کوئی وزن نکال کر دکھائے۔ مگر اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی عروضی ایسا نہیں کر سکتا۔ یہی امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ حدیثوں کے خلاف مل جائے تو دیوار پر مار دینا۔ مگر کوئی مسئلہ خلاف ہے ہی نہیں۔ :) مگر یہ بات امام صاحبؒ نے کسی چمار کے لئے ہرگز نہیں کہی تھی۔۔ :)
 
Top