ایم اے راجا

محفلین
کب تلک اس سے سلسلہ رکھوں
ساری بستی سے فاصلہ رکھوں

بے وفا ہے مگر اسے کیسے
بھول جانے کا حوصلہ رکھوں

میرا اپنا قبیلہ دشمن ہے
سامنے کسکے اب گلہ رکھوں

کس کی خاطر میں ان منڈیروں پر
پھر چراغوں کو اب جلا رکھوں

کیوں نہ میں اسکو پھوڑ دوں راجا
دل میں کب تک یہ آبلہ رکھوں​
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
تین شعر



ڈوب جاتا ہوں میں‌سمندر میں
سوچ کر ہی غزل نہیں لکھتا

لوگ لکھتے رہے غزل تیری
میں غزل کی غزل نہیں لکھتا

اس کی آنکھوں کو دیکھتا ہوں میں
میں زبانی غزل نہیں لکھتا
 

الف عین

لائبریرین
خرم۔ تمہاری غزلیں کاپی پیسٹ کر کے محفوظ کر لی ہیں۔ فرصت میں دیکجھتا ہوں۔
راجا۔ تمہاری بھی غزلیں باقی ہوں تو ای میل کر دو یا ذ پ۔
 

الف عین

لائبریرین
خرم۔۔ ایک غزل کا آپریشن ہو گیا ہے، ملاحظہ ہو:
کوئی آہٹ کہاں سنائی دے
تیری صورت اگر دکھائی دے

*** درست تو ہے، لیکن ’مگر‘ کی جگہ ’جب‘ کا محل ہے۔
جب بھی صورت تری دکھائی دے، اور کیوں کہ ت۔ت کی تکرار بھی عیب ہے، اس لئے مزید بہتر
جب بھی چہرہ ترا دکھائی دے


تیری آنکھوں سے چُن لُوں سب موتی
گر خدا مجھ کو بھی خدائی دے

*** اسلام کے منافی شعر مت کہا کرو خرم،
"اس کی آنکھوں سے چُن لُوں سب موتی
مجھ کو وہ اتنی تو رسائی دے " کیسا رہے گا۔


ہم اگر مل گئے تو اے مولا
تا قیامت نا پھر جدائی دے

*** یہاں وزن میں بھی ’نہ‘ ہوتا ہے اور تقطیع میں بھی یہی آتا ہے، پھر ’نا‘ کیا محض املا کی غلطی ہے؟
اب جو ہم مل گئے تو اے مولا
تا قیامت نہ پھر جدائی دے
زیادہ واضح مطلب دیتا ہے۔


عقل والے کو عقل دے مولا
عشق والوں کو وہ رہائی دے

*** بات واضح نہیں ہوئی کہ کیا کہنا چاہ رہے ہو۔

جس کی صورت نظر نہیں آتی
اس کی صورت ہمیں دکھائی دے

*** کیا تصوف کی دنیا میں چل دئے خرم؟؟ شعر ویسے درست ہے۔ لیکن تصوف ذرا دشوار گزار راہ ہے میاں۔

بات بے بات یوں لگے خرم
اس کی آواز ہی سُنائی دے

*** یہاں ’بات بے بات ‘خلاف محاورہ استعمال لگ رہا ہے۔ اصک مطلب ہوتا ہے کہ بلا مقصد، بغیر ضرورت، خواہ مخواہ۔۔۔ جیسے وہ بات بے بات پہ ناراض ہوتا ہے، یعنی کوئی بات ہو یا نہ ہو۔۔۔ یہاں اگر چہ کچھ حد تک مطلب وہی ہے، لیکن بات لفظ کے مطلب کی طرف بھی اگر قاری/سامع کا دھیان چلا جائے تو وہ سوچ میں پڑ سکتا ہے کہ ’بے بات‘ میں کیسے آواز آئے گی؟ اس صورت میں ایک متبادل شکل یوں ہو سکتی ہے:
بات کوئی کرے، ہمیں خرم
اس کی آواز ہی سُنائی دے
یا چاہو تو اسی صورت میں چلنے دو۔۔ تمہاری مرضی پہ چھوڑتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
دوسری غزل بھی ابھی مکمل کر دی:

زندگی میں بہت عذاب آئے
مر چکے ہم تو پھر جناب آئے

*** جناب کون؟ منکر نکیر؟ ’تو پھر جناب آئے‘ سمجھ میں نہیں آ رہا۔


شام آئے مگر سکوں کب ہے
تب سکوں آئے جب شراب آئے

*** یہ بات بھی ہے؟؟؟، مذاق بر طرف، ’شام آئے‘ سے اظہار تمنائی لگتا ہے، لیکن دوسرے مصرع سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ماضی کی بات ہے کہ شام آ بھی گئی لیکن سکون نہیں ملا۔ یہ مفہوم، اگر ہے تمہارا، تو یوں کہو:
کوئ مصرع چن لو جو اچھا لگے:

شام آئی بھی تو سکوں نہ ملا
شام بھی کب سکوں بدوش آئی
شام کیا آئی جب سکوں نہ ملے
چین آیا نہ شام/ رات آتے ہی
چین آیا نہ، شام تو آئی

یاد آتے نہیں ہو تم لیکن
یاد آئے تو بے حساب آئے

*** مزے کا شعر ہے، صاف ستھرا

ہر زباں پر رہے تو بس اردو
ایک دن یوں بھی انقلاب آئے

پہلا مصرع ’صرف اردو ہر اک زباں پہ رہے ‘ کیسا رہے گا، یہاں بھی ’پر رہے‘ خوش گوار نہیں لگتا۔
اور ایک اور صورت:
ہر زباں پر زبانِ اردو ہو

اب تو کچے مکاں کہاں خرم
روز بستی میں جب چناب آئے

*** یہاں بھی پہلے مصرع میں کہنا یہ چاہ رہے ہو کہ چناب کے سیلاب کی وجہ سے کچے مکان بہہ چکے ہیں، اب کہاں بچے ہیں، مگر اتنا قاری کی سمجھ کے لئے مت چھورو، واری میری طرح بیوقوف بھی ہو سکتا ہے۔
کچے گھر کس طرح بچیں خرم
روز بستی میں جب چناب آئے
کچھ بہتر ہو سکتا ہے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم۔۔ ایک غزل کا آپریشن ہو گیا ہے، ملاحظہ ہو:
کوئی آہٹ کہاں سنائی دے
تیری صورت اگر دکھائی دے

*** درست تو ہے، لیکن ’مگر‘ کی جگہ ’جب‘ کا محل ہے۔
جب بھی صورت تری دکھائی دے، اور کیوں کہ ت۔ت کی تکرار بھی عیب ہے، اس لئے مزید بہتر
جب بھی چہرہ ترا دکھائی دے


تیری آنکھوں سے چُن لُوں سب موتی
گر خدا مجھ کو بھی خدائی دے

*** اسلام کے منافی شعر مت کہا کرو خرم،
"اس کی آنکھوں سے چُن لُوں سب موتی
مجھ کو وہ اتنی تو رسائی دے " کیسا رہے گا۔


ہم اگر مل گئے تو اے مولا
تا قیامت نا پھر جدائی دے

*** یہاں وزن میں بھی ’نہ‘ ہوتا ہے اور تقطیع میں بھی یہی آتا ہے، پھر ’نا‘ کیا محض املا کی غلطی ہے؟
اب جو ہم مل گئے تو اے مولا
تا قیامت نہ پھر جدائی دے
زیادہ واضح مطلب دیتا ہے۔


عقل والے کو عقل دے مولا
عشق والوں کو وہ رہائی دے

*** بات واضح نہیں ہوئی کہ کیا کہنا چاہ رہے ہو۔

جس کی صورت نظر نہیں آتی
اس کی صورت ہمیں دکھائی دے

*** کیا تصوف کی دنیا میں چل دئے خرم؟؟ شعر ویسے درست ہے۔ لیکن تصوف ذرا دشوار گزار راہ ہے میاں۔

بات بے بات یوں لگے خرم
اس کی آواز ہی سُنائی دے

*** یہاں ’بات بے بات ‘خلاف محاورہ استعمال لگ رہا ہے۔ اصک مطلب ہوتا ہے کہ بلا مقصد، بغیر ضرورت، خواہ مخواہ۔۔۔ جیسے وہ بات بے بات پہ ناراض ہوتا ہے، یعنی کوئی بات ہو یا نہ ہو۔۔۔ یہاں اگر چہ کچھ حد تک مطلب وہی ہے، لیکن بات لفظ کے مطلب کی طرف بھی اگر قاری/سامع کا دھیان چلا جائے تو وہ سوچ میں پڑ سکتا ہے کہ ’بے بات‘ میں کیسے آواز آئے گی؟ اس صورت میں ایک متبادل شکل یوں ہو سکتی ہے:
بات کوئی کرے، ہمیں خرم
اس کی آواز ہی سُنائی دے
یا چاہو تو اسی صورت میں چلنے دو۔۔ تمہاری مرضی پہ چھوڑتا ہوں۔
کوئی آہٹ کہاں سنائی دے
جب بھی چہرہ ترا دکھائی دے

اس کی آنکھوں سے چُن لُوں سب موتی
مجھ کو وہ اتنی تو رسائی دے

اب جو ہم مل گئے تو اے مولا
تا قیامت نہ پھر جدائی دے

عقل والے کو عقل دے مولا
عشق والوں کو وہ رہائی دے
(اس شعر کا بھی آپ نے ہی کچھ کرنا ہے میں یہاں زمانے کے حکمرانوں سے بات کر رہا ہوں جو خود کو بہت زیادہ عقل مند سمجھتے ہیں لیکن وہ عقل مند ہیں نہیں اللہ سے دعا کر رہا ہوں کے اللہ ایسے حکمرانوں کو عقل دے تانکہ وہ عشق والوں کو سمجھ سکھے اور ان کی جان چھوڑ دے )

بات کوئی کرے، ہمیں خرم
اس کی آواز ہی سُنائی دے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دوسری غزل بھی ابھی مکمل کر دی:

زندگی میں بہت عذاب آئے
مر چکے ہم تو پھر جناب آئے

*** جناب کون؟ منکر نکیر؟ ’تو پھر جناب آئے‘ سمجھ میں نہیں آ رہا۔


شام آئے مگر سکوں کب ہے
تب سکوں آئے جب شراب آئے

*** یہ بات بھی ہے؟؟؟، مذاق بر طرف، ’شام آئے‘ سے اظہار تمنائی لگتا ہے، لیکن دوسرے مصرع سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ماضی کی بات ہے کہ شام آ بھی گئی لیکن سکون نہیں ملا۔ یہ مفہوم، اگر ہے تمہارا، تو یوں کہو:
کوئ مصرع چن لو جو اچھا لگے:

شام آئی بھی تو سکوں نہ ملا
شام بھی کب سکوں بدوش آئی
شام کیا آئی جب سکوں نہ ملے
چین آیا نہ شام/ رات آتے ہی
چین آیا نہ، شام تو آئی

یاد آتے نہیں ہو تم لیکن
یاد آئے تو بے حساب آئے

*** مزے کا شعر ہے، صاف ستھرا

ہر زباں پر رہے تو بس اردو
ایک دن یوں بھی انقلاب آئے

پہلا مصرع ’صرف اردو ہر اک زباں پہ رہے ‘ کیسا رہے گا، یہاں بھی ’پر رہے‘ خوش گوار نہیں لگتا۔
اور ایک اور صورت:
ہر زباں پر زبانِ اردو ہو

اب تو کچے مکاں کہاں خرم
روز بستی میں جب چناب آئے

*** یہاں بھی پہلے مصرع میں کہنا یہ چاہ رہے ہو کہ چناب کے سیلاب کی وجہ سے کچے مکان بہہ چکے ہیں، اب کہاں بچے ہیں، مگر اتنا قاری کی سمجھ کے لئے مت چھورو، واری میری طرح بیوقوف بھی ہو سکتا ہے۔
کچے گھر کس طرح بچیں خرم
روز بستی میں جب چناب آئے
کچھ بہتر ہو سکتا ہے

زندگی میں بہت عذاب آئے
مر چکے ہم تو پھر جناب آئے
(سر یہاں میں محبوب سے مخاطب ہوں کے زندی میں تو کبھی بھی ملنے کے لیے نہیں آیا اس لے زندگی میں عذاب ہی رہے لیکن جب ہم مر چکے تو ہمارے مرنے پر آ گیا :grin: یہی کہنا چاہتا ہوں )

شام کیا آئی جب سکوں نہ ملے
تب سکوں آئے جب شراب آئے

یاد آتے نہیں ہو تم لیکن
یاد آئے تو بے حساب آئے

ہر زباں پر زبانِ اردو ہو
ایک دن یوں بھی انقلاب آئے

کچے گھر کس طرح بچیں خرم
روز بستی میں جب چناب آئے
 

الف عین

لائبریرین
نہیں خرم
زندگی میں بہت عذاب آئے
مر چکے ہم تو پھر جناب آئے
سے تمیارا بتایا مفہوم تو برامد نہیں ہوتا۔ پہلا مصرع تو محض ایک بیان ہے، اس سے کون سمجھے گا کہ مراد ہے کہ محبوب عذاب دے رہا ہے، زندگی میں بہت عذاب دئے ہوتا تو شاید مطلب نکلتا۔ کچھ اور سوچو۔
 

الف عین

لائبریرین
خرم۔ آج حیدر آباد سے نکلنے سے پہلے اصلاح کا کام کر لیا تھا۔ اب سعود کے لیپ ٹاپ پر کاپی پیسٹ کر کے اصلاح کر رہا ہوں یہاں۔

کون کرتا ہے بے رُخی تم سے
ہم تو کرتے ہیں عاشقی تم سے

کوئ خاص نہیں


بس جہاں میں ہو تم ہی تم میرے
زندگی تم ہو زندگی تم سے

درست۔ کوئ خاص نہیں


میرے منزل بہت ہی مشکل تھی
میں نے پائی ہے روشنی تم سے

میرے؟؟
میری منزل بہت ہی مشکل تھی
میں نے پائی ہے روشنی تم سے

جب نہیں تھا مرا جہاں بھر میں
تب مری تھی یہ دوستی تم سے

دوسرا مصرع یوں کر دو:
تب بھی تھی میری دوستی تم سے

یہ دوستی کی ضرورت نہیں

اب تو سورج کی روشنی بھی کبھی
آ کے لیتی ہے روشنی تم سے

چلے گا۔ ٹھیک ہی ہے

چاند تارے بی ماند لگتے ہیں
ان کو ملتی ہے بس خوش تم سے

خوشی کا کیا محل؟
چاند تارے بھی ماند لگتے ہیں
ان کو ملتی ہے روشنی تم سے


راب کالی نہیں ہے تیرے سنگ
رات ہوتی ہے چاندنی تم سے
// اس کو یوں کہو:
رات کالی نہیں رہی ترے سنگ
چاندنی رات بن گئی تم سے

میں خدا کو خدا نا کہتا گر
میں سمجھتا نا بندگی تم سے

///وہی بات جو ایک بار پہلے لکھ چکا ہوں۔ بندگی اور خدائی والے اشعار ذرا کانٹوں بھرا راستہ ہے خرم۔ مت کہا کرو۔


چاند تاروں سے کیا ملا خرم
ہم کو ملتی ہے چاندنی تم سے

///چاند تاروں سے کیا ملے خرم
ہم کو ملتی ہے چاندنی تم سے
بس ذرا چاندنی اور روشنی کے قوافی بہت ہو گئے ہیں۔ کچھ اور اشعار کہہ کر ان کو پھیلا دو تو ٹھیک ہو جائے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
اس گلی اس مکان سے نکلا
میں بھی تیرے جہاں سے نکلا
مطلب؟؟ واضح نہیں

اب ترے دل میں جی نہیں سکتا
دم لیا میں چٹان سے نکلا
مطلب؟؟ واضح نہیں

اس سے آگے بھی سفر کرنا ہے
میں ابھی آسمان سے نکلا
مطلب؟؟ کیا یہ کہ مجھے آسمان سے آگے سفر کرنا ہے اور ابھی محض آسمان سے نکلا ہوں؟؟
پہلا مصرع مختلف بحر میں ہے، فاعلاتن فعِلاتن فعلن ہو گیا ہے۔ جب کہ خفیف ہے فاعلاتن مفاعلن فعلن۔
اس سے بھی آگے سفر کرنا ہے
آ سکتا ہے، جس میں ’آگے‘ کی ’ے‘ گرتی ہے جو جائز ہے۔

اک پرندہ زمیں کو چھونے لگا
تیر جب ایک کمان سے نکلا
////عام طور پر چھونے سے مراد مظبت ہوتی ہے، آسمان چھوا جاتا ہے، زمین پر تو گرا جاتا ہے۔
اک پرندہ زمیں پہ آن گرا
تیر جب اُس کمان سے نکلا
بہتر ہے، یوں بھی ’ایک‘ تو وزن میں آتا ہی نہیں، ’اک‘ آتا ہے، لیکن ’اک کمان‘ اچھا نہیں لگتا۔


اس قدر مفلسی میں تھا خرم
وہ تو اپنے مکان سے نکلا

///مطلب؟؟ واضح نہیں
مفلس تھا خرم تو کیوں اپنے مکان سے نکلا؟ اور پھر ’تو‘ کا مطلب؟
 

الف عین

لائبریرین
ڈوب جاتا ہوں میں‌سمندر میں
سوچ کر ہی غزل نہیں لکھتا

///درست یہ ہے کہ غزل‘ کہی‘ جاتی ہے، جب کہ ہندی میں ’کوِتا‘ لکھی جاتی ہے، اردو فارسی میں یہ سب گوئیدن‘ ہےم غزل گوئی، شعر گوئی۔ خیر اس کو تو غزل نہیں کہتا‘ کیا جا سکتا ہے، لیکن ’سوچ کر ہی‘ سے کیا مطلب ہے؟ سوچ کے سمندر میں ڈوب کر غزل کہتے ہو تو سوچ کر غزل نہ کہنے کا مطلب۔۔ بغیر سوچے سمجھے شعر کہہ رہے ہو؟ اور یہ شعر اسی کی مثال لگ رہا ہے۔ پھر سے کہو۔


لوگ لکھتے رہے غزل تیری
میں غزل کی غزل نہیں لکھتا

///لوگ کہتے رہے غزل تجھ پر
میں غزل پر غزل نہیں کہتا
کہا جا سکتا ہے، لوگ ’تیری غزل‘ کس طرح لکھ سکتے ہیں، اگر مراد ’تیری شان میں غزل‘ ہے تو’ تجھ پر‘ سے یہ مطلب واضح ہو سکتا ہے۔

اس کی آنکھوں کو دیکھتا ہوں میں
میں زبانی غزل نہیں لکھتا

ٹھیک ہے:
اس کی آنکھوں کو دیکھتا ہوں میں
میں زبانی غزل نہیں کہتا
اگر چہ یہ مطلب اتنا واضح نہیں پھر بھی چل سکتا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
استادِ محترم و احباب، السلام علیکم، کافی دنوں بعد ایک نا پختہ آمد ہوئی ہے عرض کرتا ہوں،

پھر یہ کس کا خیال آیا ہے
سوچ میں در ، ملال آیا ہے

کون اترا ہے دِل میں چپکے سے
جو لہو میں اُبال آیا ہے

اس دِلِ مضطرب میں غم تیرا
زندگی کی مثال آیا ہے

اتنے ظلم و ستم پہ بھی جاناں
کب مرے دل میں بال آیا ہے

پیار متروک ہو گیا، اب کے
دہر میں کیا زوال آیا ہے

بزم تیری میں پھر مرے ساقی
کوئی غم سے نڈھال آیا ہے

اس کے آنے کے بعد ہی یارو
عشق کو کچھ کمال آیا ہے

سانس چلنے لگی ہے پھرمیری
کون وقتِ وصال آیا ہے

بستی بستی ہے روشنی راجا
کون یہ خوش جمال آیا ہے​
 

محمد وارث

لائبریرین
استادِ محترم و احباب، السلام علیکم، کافی دنوں بعد ایک نا پختہ آمد ہوئی ہے عرض کرتا ہوں،

آج پھر کس کا خیال آیا ہے
سوچ میں در ، ملال آیا ہے

کون اترا ہے دِل میں چپکے سے
جو لہو میں اُبال آیا ہے

اس دِلِ مضطرب میں غم تیرا
زندگی کی مثال آیا ہے

باوجودِ ستم بھی اے جاناں
کب مرے دل میں بال آیا ہے

پیار متروک ہو گیا، اب کے
بستی میں کیا زوال آیا ہے

بزم میں پھر تری ارے ساقی
کون غم سے نڈھال آیا ہے

اس کے آنے کے بعد ہی یارو
عشق کو کچھ کمال آیا ہے

سانس چلنے لگی ہے پھرمیری
کون وقتِ وصال آیا ہے

بستی بستی ہے روشنی راجا

کون سا خوش جمال آیا ہے

بہت اچھی غزل ہے راجا صاحب، اکثر اشعار اچھے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ آپ کی 'ناپختگی' میں سوچ و بچار کی مدد سے پختگی آ رہی ہے۔ :) کچھ شعر تو مجھے بہت اچھے لگے، واہ واہ سبحان اللہ۔

مطلع میں 'خیال' بروزن 'فاع' بندھا ہےیہ 'فعول' ہے میرے خیال میں شاید۔

'ارے ساقی' کو 'مرے ساقی' سے بدل کر دیکھیئے گا، شاید۔

'متروک' اور 'زوال' جیسے الفاظ کے درمیان مجھے 'بستی' کی جگہ 'دہر' زیادہ اچھا لگ رہا ہے، شاید۔

اعجاز صاحب کی اصلاح کے بعد اس غزل کو 'آپ کی شاعری' میں ضرور پیش کیجیئے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو اچھی ہے، آپریشن بعد میں کرتا ہوں۔۔ میں پہلے سمجھا کہ مطلع میں راجا ایک لفظ زائد غلطی سے تائپ کر گئے ہیں، لیکن وارث کی پوسٹ سے معلوم ہوا کہ شاید خیال کو ’خال‘ باندھا ہے، ممکن ہے کہ جس طرح ’پنجابی‘ بر وزن مفعولن کو پنجابی ’پںجابی‘ بر وزن فعولن بھی کہتے ہیں، اسی طرح خیال کو بھی ’خا‘ بولتے ہوں، اس لئے غلطی ہو گئی۔
مکمل رائے بعد میں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وارث بھائی بہت خوشی ہوئی آپ کی اصلاح دیکھ کر، خیال کو فاع باندھنے کا کہیں پڑھا تھا صبح دیکھ کر کلیئر کروں گا، انشاءاللہ۔، باقی تبدیلی میں نے کی ہے آپکے کہنے کے مطابق۔
اعجاز صاحب بہت شکریہ، اور خرم بھائی آپکا بھی بہت شکریہ۔

وارث بھائی اس شعر،

بزم میں پھر تری مرے ساقی
کون غم سے نڈھال آیا ہے
کو اگر ایسے کیا جائے تو کیسا رہے گا،

بزم میں پھر تری مرے ساقی
ایک غم سے نڈھال آیا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
'خیال' کو ضرور دیکھیئے گا۔

'تری' اور 'مرے' بلافصل مجھے اچھے نہیں لگ رہے، اور 'کون' یا 'ایک' کو 'کوئی' بھی کر کے دیکھیں:

بزم میں تیری پھر مرے ساقی
کوئی غم سے نڈھال آیا ہے
 
Top