بانسری (ابنِ صفی)

فہیم

لائبریرین
کسی کی صدا
رات کے پرکیف سناٹے میں بنسی کی صدا
چاندنی کے سیمگوں شانے پہ لہراتی ہوئی
گونجتی بڑھتی لرزتی کوہساروں کے قریب
پھیلتی میدان میں پگڈنڈی پہ بل کھاتی ہوئی
آرہی ہے اس طرح جیسے کسی کی یاد آئے
نیند میں ڈوبی ہوئی پلکوں کو اکساتی ہوئی

آسمانوں میں زمیں کا گیت لہرانے لگا
چھا گیا ہے چاند کے چہرے پہ خفت کا غبار
بزمِ انجم کی ہر ایک تنویر دھندلی ہوگئی
رکھ دیا ناہید جھنجھلا کے ہاتھوں سے ستار
ذرہ ذرہ جھوم کر لینے لگا انگڑائیاں
کہکشاں تکنے لگی حیرت سے سوئے جوئبار

یوں فضاؤں میں رواں ہے یہ صدائے دلنشیں
ذہنِ شاعر میں ہو جیسے اک اچھوتا سا خیال
یا سحر کے سیمگوں رخسار پر پہلی کرن
سرخ ہونٹوں سے بچھائے جس طرح بوسوں کے جال

گاہ تھمتی، گاہ سناٹے کا سینہ چیرتی
یوں فضا میں اٹھ، ہوجاتی ہے مدھم ہائے ہائے
شام کی دھندلاہوہٹوں میں دور کوئی کارواں
کوہساروں سے اتر کر جیسے میدانوں میں آئے
 

فہیم

لائبریرین
ہیں نہیں تھے۔
ابن صفی کی شاعری کا مجموعہ طویل نہیں ہے
کیوں کے بقول ابن صفی کے ہی کہ جاسوسی ناول نگاری کا شوق شاعری پر غالب آگیا

باقی زیادہ تر لوگ ابن صفی کو صرف جاسوسی ناول نگار ہی حیثیت سے ہی جاتنے ہیں

لیکن وہ صرف جاسوسی ناول نگار ہی نہیں
بلکہ انھوں نے طنزومزاح ، معاشرتی ناول ، شاعری اور ایک فلم بھی لکھی
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ فہیم- واقعی ابنِ صفی کے کئی پہلوؤں سے ہمیں‌ واقفیت نہیں - اس ضمن میں‌ مجھے ایک سینہ بہ سینہ منتقل واقعہ یاد آگیا جو کسی دوست نے مجھے سنایا تھا کہ ابنِ صفی جب جاسوسی ناول نہیں‌لکھتے تھے تو اس زمانے میں جاسوسی ناول انگریزی سے ترجمہ ہوا کرتے تھے - ان صاحب کی بحث جاسوسی ادب پر کسی اور سے ہوگئی - ابن صفی کا موقف تھا کہ جاسوسی ادب میں‌ خواہ مخواہ کی فحش نگاری کی جاتی ہے - یہ ادب اسکے بغیر بھی تحریر ہو سکتا ہے لیکن دوسرے صاحب اس سے اتفاق نہیں‌کر رہے تھے - آخر ان صاحب نے ابن ِ‌صفی کو طیش دلاتے ہوئے کہا کہ اچھا تو تم ذرا لکھ کر دکھاؤ، ہم بھی دیکھیں کہ جاسوسی ادب کس طرح بغیر فحش نگاری کے لکھا جا سکتا ہے - اس بحث کے بعد ہی ابنِ‌صفی نے جاسوسی ادب لکھنا شروع کیا - (اس حوالے سے ابنِ‌صفی کو بابائے جاسوسی ادب بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان سے پہلے کوئی ادیب جاسوسی ادب نہیں‌لکھتا تھا)
آپ ابنِ‌ صفی کی مزید تحاریر بھی عنائت کیجئے گا -
 

فہیم

لائبریرین
آپ کا یہ سینہ بہ سینہ واقع بالکل درست ہے۔

میری دراصل ماہنامہ روشناس کے ایڈیٹر جناب مصلح الدین صاحب سے علیک سلیک ہے۔
اور مصلح الدین صاحب ابن صفی کے دوستوں میں سے ہیں۔
اس طرح جیسے میری مصلح الدیں صاحب سے دوستی ہے
یعنی میری عمر 22 سال ہے جب کہ خود ان کی 50 کے لگ بھگ

اسی طرح جب وہ میری عمر کے تھے تو جناب ابن صفی لگ بھگ ان کی عمر کے رہے ہوں گے۔

اس لیے مجھے اتنی معلومات ہیں۔

باقی میں کوشش کروں گا کہ ابن صفی صاحب کی شاعری جو کہ نہایت ہی مختصر ہے تمام کی تمام پیش کرسکوں
 

شمشاد

لائبریرین
فہیم پھر تو تم ماہنامہ روشناس کے ایڈیٹر جناب مصلح الدین صاحب سے ابن صفی مرحوم کے متعلق خاصی معلومات حاصل کر سکتے ہو۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے دن ابنِ صفی کے دوست احباب اکٹھا ہو کر صورتحال پر بحث‌کر رہے تھے۔ جب بحث‌ نے طول پکڑا تو ابن صفی صاحب نے ایک شعر پڑھا

یہ جنگل ہے پیارے یہاں‌کون کسی کا
بھیڑیئے نے بھیڑیئے کو پھاڑ‌ ڈالا، بات ختم

شعر ہو سکتا ہے کہ کچھ غلط ہو، لیکن مفہوم یہی ہے۔ اس کے بعد بحث میں شریک تمام افراد چپ ہو گئے
 

فہیم

لائبریرین
اوکے میں کوشش کرتا ہوں کہ مصلح الدین صاحب سے جناب ابنِ صفی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرکے یہاں شیئر کروں

باقی قیصرانی بھائی نے جو بات بتائی یہ میرے علم میں نہیں تھی
 

راشد اشرف

محفلین
دسمبر 2013 میں اٹلانٹس پبلی کیشنز سے ابن صفی مرحوم کا مجموعہ کلام "متاع قبل و نظر" شائع ہوا تھا۔ یہ مجموعہ 34 برس کے طویل انتطار کے بعد شائع ہوا۔
 
بہت شکریہ فہیم- واقعی ابنِ صفی کے کئی پہلوؤں سے ہمیں‌ واقفیت نہیں - اس ضمن میں‌ مجھے ایک سینہ بہ سینہ منتقل واقعہ یاد آگیا جو کسی دوست نے مجھے سنایا تھا کہ ابنِ صفی جب جاسوسی ناول نہیں‌لکھتے تھے تو اس زمانے میں جاسوسی ناول انگریزی سے ترجمہ ہوا کرتے تھے - ان صاحب کی بحث جاسوسی ادب پر کسی اور سے ہوگئی - ابن صفی کا موقف تھا کہ جاسوسی ادب میں‌ خواہ مخواہ کی فحش نگاری کی جاتی ہے - یہ ادب اسکے بغیر بھی تحریر ہو سکتا ہے لیکن دوسرے صاحب اس سے اتفاق نہیں‌کر رہے تھے - آخر ان صاحب نے ابن ِ‌صفی کو طیش دلاتے ہوئے کہا کہ اچھا تو تم ذرا لکھ کر دکھاؤ، ہم بھی دیکھیں کہ جاسوسی ادب کس طرح بغیر فحش نگاری کے لکھا جا سکتا ہے - اس بحث کے بعد ہی ابنِ‌صفی نے جاسوسی ادب لکھنا شروع کیا - (اس حوالے سے ابنِ‌صفی کو بابائے جاسوسی ادب بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان سے پہلے کوئی ادیب جاسوسی ادب نہیں‌لکھتا تھا)
آپ ابنِ‌ صفی کی مزید تحاریر بھی عنائت کیجئے گا -
خرم منظور صاحب۔ ابنِ صفی صاحب کے بارے میں جو واقعہ آپ نے لکھا ہے اُس میں اتنی ترمیم کرنا چاہتا ہوں کہ اُس وقت گفتگو جاسوسی ادب کے بارے میں نہیں بلکہ صرف کتابوں کے بارے میں ہو رہی تھی کہ اردو میں صرف فحش کتابیں ہی زیادہ بک سکتی ہیں ورنہ غیر فحش کتابیں اسی طرح معمولی تعداد میں بک سکتی ہیں۔ ابنِ صفی صاحب کا موقف تھا کہ اگر دلچسپ کتابیں چھاپی جایئں تو وہ ضرور زیادہ تعداد میں بکیں گی۔ اسی موقع پر ابنِ صفی نے دلچسپ کتابیں لکھنے کا چیلنج قبول کرکے جاسوسی ناول دلچسپ انداز میں لکھنے شروع کئے۔ ابنِ صفی سے پہلے بھی بعض لوگوں نے جاسوسی ناول لکھے تھے ان میں ظفر عمر زبیری زیادہ مشہور ہیں جنہوں نے بہرام کا کردار بنایا تھا اور اُن کے بعض ناول یعنی نیلی چھتری، بہرام کی گرفتاری وغیرہ مشہور ہوئے تھے۔
ابنِ صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا اور وہ اسرار ناروی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ اُن کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے۔
جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی
ابنِ صفی نے ایک فلم بھی بنائی تھی جس کا نام تھا " دھماکہ "۔ یاد نہیں انہوں نے بنائی تھی یا صرف اس کی کہانی لکھی تھی۔ اس فلم کو ایک صاحب نے جو مولانا ہپی کے نام سے سامنے آئے تھے پروڈیوس یا ڈائرکٹ کیا تھا۔ اس فلم میں ابنِ صفی اپنے دو کرداروں ظفرالملک اور جیمسن کو لائے تھے۔ جیمسن کا کردار تو مولانا ہپی نے ادا کیا تھا اور بالکل جیمسن لگے تھے۔ ظفرالملک کا کردار ایک نوجوان جن کا نام جاوید اقبال تھا ادا کیا تھا۔ اس سے پہلے جاوید اقبال کا اداکاری سے تعلق نہیں تھا بلکہ وہ ماڈلنگ کرتے تھے۔ ابنِ صفی نے اُنہیں پہلی نظردیکھ کر ہی ظفرالملک کے کردار کے لئے پسند کر لیا تھا۔ جاوید اقبال اپنے بڑے بڑے بالوں اور چہرے مہرے سے بالکل طفرالملک نظر آتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ابنَ صفی کے ناولوں سے ظفرالملک کا جیتا جاگتا کردار باہر نکل آیا ہے۔( یہی جاوید اقبال صاحب بعد میں جاوید شیخ کے نام سےٹی وی اور فلم کے مشہور اداکار بنے)۔دونوں نے اچھی اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اداکارہ شبنم ہیروئن بنیں اور اداکار رحمٰن نے وِلن کا کردار ادا کیا۔فلم میں ایک موقع پر ایکسٹو کو ظفرالملک سے مخاطب ہونا تھا ۔ٹیلی فون پر ایکسٹو کے ظفرالملک سے خطاب کے لئے ابنِ صفی کی آواز استعمال کی گئی۔ فلم ٹیھک ٹھاک تھی لیکن چونکہ ہمارے عوام فارمولا فلموں کے عادی ہیں اس لئے یہ فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہو سکی۔ سنا تھا کہ اس فلم کے لئے ایک غزل بھی ابنِ صفی نے لکھی تھی جو کچھ یوں شروع ہوتی تھی۔
راہِ طلب میں کون کسی کا اپنے بھی بےگانے ہیں​
اس غزل کو حبیب ولی محمد نے گایا تھا۔
 
تما م احباب نے بالکل درست تحریر کیاہے۔ تاہم یہ ہم سب کی خوش نصیبی ہے کہ ابن صفی کے عاشق اور ابن صفی کے صاحبزادے احمد صفی صاحب کے دوست ، میرے مہربان راشد اشرف صاحب ابن صفی پر دو نہایت معلوماتی کتب"ابن صفی-کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا " اور "ابن صفی۔ شخصیت اور فن" لکھ چکے ہیں۔ اوپر متذکرہ تمام واقعات اپنی پوری صحت کے ساتھ ان میں مرقوم ہیں۔ آپ کو ابن صفی پر مستند تحاریر اور ،معلومات یہاں مل جائیں گی۔ ابن صفی کی نہایت نایاب تصاویر بھی اور ان پر بے حد معلومات افزاء مضامین بھی مل جائیں گے۔ فی الوقت دونوں کتابوں کے پہلے پہلے ایڈیشن ختم ہو چکے ہیں۔ جلد ہی دوسرے ایڈیشن دستیاب ہوں گے۔ راشد صاحب خود بھی اور میں بھی فورا اپنی محفل کو آگاہ کر دوں گا۔ انشا اللہ
 

عباد اللہ

محفلین
ابن صفی کا ایک شعر کہیں دیکھا تھا
جو کہہ گئے وہی ٹھرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیر کیا ہوتی
حالانکہ جاسوسی ادب کی خدمت کے حوالے سے انہیں کمالِ فن کہنا چاہئے تھا لیکن خیر یہاں بات شاعری کی ہو رہی ہے:)
 

عباد اللہ

محفلین
ابن صفی کا ایک شعر کہیں دیکھا تھا
جو کہہ گئے وہی ٹھرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیر کیا ہوتی
حالانکہ جاسوسی ادب کی خدمت کے حوالے سے انہیں کمالِ فن کہنا چاہئے تھا لیکن خیر یہاں بات شاعری کی ہو رہی ہے:)
اوووہ یہ شعر تو بابا جی پہلے ہی سنا چکے ہیں لیکن اب اتنی سی بات پر کیامعذرت قندِ مکرر کے طور پر ہی سہی
 
آخری تدوین:
Top