بارشوں کا موسم

بارشوں کا موسم

ساون کے حوالے سے کوئی شعر، نظم یا غزل آپ بھی لکھیے


نظم
بارشوں کا موسم ہے
روح کی فضاؤں میں
غم ذدہ ہوائیں ہیں
بے سب اداسی ہے ۔ ۔ ۔

اس عجیب موسم میں
بے قرار راتوں کی
بے شمار باتیں ہیں
ان گنت فسانے ہیں
جو بہت خموشی سے
دل پہ سہتے پھرتے ہیں

اور بہ امر مجبوری
سب سے کہتے پھرتے ہیں
آ ج موسم اچھا ہے
آج ہم بہت خوش ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

(فرحت عباس شاہ)



 

فرحت کیانی

لائبریرین
کبھی جو بارش کی رُت آنکھوں کو بند کر کے
میں صرف اُس کی نئی نرالی صدائیں سنتا
اور ان میں بنتے طرح طرح کے سُروں کو چُنتا ہوں۔
ایسے لگتا ہے جیسے
آہنگَ نو بہ نو کا کوئی دریچہ سا کُھل گیا ہو۔

شجر ، سمندر، پہاڑ، وادی۔۔۔ہوا کی پائل
اُداس تنہا سڑک، بیاباں کی ریت، ساحل
مکان، ان کی چھتیں ، دریچے اور ان کے چھجے
گلی کی جانب کھلنے والی ہر ایک کھڑکی اور اس کے شیشے

ہر ایک شے سے برستی بارش کی گفتگو کا الگ مزا ہے۔
نیا ہے الفاظ کا چناؤ، نرالی بندش، نَوا جُدا ہے۔
ہر اک سے باتیں الگ الگ ہیں۔
ہر اک سے لہجہ جُدا جُدا ہے۔

گھنی اُداسی کی برف جیسے
لہو کے اندر پگھل رہی ہے!!
چراغِ امید کے جلو میں
ہَوا جدائی کی چل رہی ہے!!
فضا میں وعدے بکھر رہے ہیں،
اور آگ پانی میں جل رہی ہے!!
 
قطعہ
آج بہت دن بعد سنی ہے بارش کی آواز
آج بہت دن بعد کسی منظر نے رستہ روکا ہے
رم جھم کا ملبوس پہن کر یاد کسی کی آئی ہے
آج بہت دن بعد اچانک آنکھ یونہی بھر آئی ہے


(امجد اسلام امجد)

 

فرحت کیانی

لائبریرین
لاکھ دوری سہی مگر عہد نبھاتے رہنا
جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا
تم گئے ہو تو سرِ شام یہ عادت ٹھہری
جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا
اک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو
آپ ہی روٹھنا اور آپ ہی مناتے رہنا
تم کو معلوم ہے فرحت کہ یہ پاگل پن ہے
دور جاتے ہوئے لوگوں کو بلاتے رہنا

(فرحت عباس شاہ)
 



کبھی ہم بیھگتے چاہتوں کی تیز بارش میں
کبھی برسوں نہیں ملتے کسی ہلکی سی رنجش میں
بہت سے زخم ہیں دل میں، مگر ایک زخم ایسا ہے
جو جل اٹھتا ہے راتوں میں جو لو دیتا ہے بارش میں
 

فرحت کیانی

لائبریرین
تمنا جو ہے ساون کی، میری آنکھوں میں آ ٹھہرو!!!!!
وہ برسوں میں کبھی برسے، یہ برسوں سے یونہی برسیں
 

عمر سیف

محفلین
میں سوچتا ہوں اگر میں سمندر ہوتا
تو میں ساون کی بوندوں کو اپنے اندے جذب کر لیتا
میں سوچتا ہوں اگر میں بادل ہوتا
تو میں چاند کو اپنے سائے میں چھپا لیتا
میں سوچتا ہوں اگر میں تارا ہوتا
تو میں آسمان پر روشنی بکھیر دیتا
میں سوچتا ہوں اگر میں ہوا کا جھونکا ہوتا
تو میں سمندر کو ساون کی بوندوں سے
بادل کو چاند سے اور تاروں کو آسمان سے ملا دیتا
میں تو بس ایک خواب ہوں ۔۔۔
 
ہم قرار کیا پاتے وحشتوں کے موسم میں
اس نے دور ہونا تھا بارشوں کے موسم میں
بیگتی رتوں میں ہم بے سبب نہیں روتے
بارشیں تو ہوتی ہیں بارشوں کے موسم میں
 

سیما علی

لائبریرین
کبھی ہم تم ملے تھے مہرباں لمحوں کی بارش میں
مگر اب بھیگتے ہیں ہم انہی یادوں کی بارش میں

جہاں ہم نے محبت کے حسیں خوابوں کو پایا تھا
کبھی تو آ ملو ہم سے انہی جھرنوں کی بارش میں

کبھی آؤ تو یوں آؤ بھلا کر ساری دنیا کو
کہ دو روحیں ملیں جیسے حسیں پھولوں کی بارش میں

بڑی مدت سے خواہش ہے ملیں ساحل کنارے ہم
چلیں ہم ننگے پاؤں دور تک سیپوں کی بارش میں

کریں باتیں زمانے کے ہر اک موضوع پہ ، ساون میں
ہری بیلوں کے نیچے بیٹھ کر زوروں کی بارش میں میں

مرا جی جانتا ہے کتنے رنج و غم اٹھائے ہیں
جیوں کب تک بھلا میں درد کےشعلوں کی بارش میں

ہوئی جاتی ہے میری روح تک سرشار ہر لمحہ
تمہارے رنگ برساتے ہوئے لفظوں کی بارش میں

گذاری ہے اسی حالت میں ساری زندگی ہم نے
سلگتی ، روح جھلساتی ہوئی سوچوں کی بارش میں
عذرا ناز
 

سیما علی

لائبریرین
کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں
کوئی بارش ہو یہ کاغذ ذرا بھی نم نہیں ہوتا
امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
ایک ہی شہر میں اتنی بارشیں ٹھیک نہیں
آؤ ہم تم بانٹ لیں آنکھوں کی برسات
میں جی لوں گا مجھ کو راس ہے تاریکی
سارے دن تم لے لو مجھ کو دے دو رات
نامعلوم
 
Top