بادباں کب کھولتا ہوں ، پار کب جاتا ہوں میں
روز رستے کی طرح ، دریا سے لوٹ آتا ہوں میں
صبحِ دم میں کھولتا ہوں ، رسّی اپنے پاؤں کی
دن ڈھلے خود کو ، کہیں سے ہانک کر لاتا ہوں میں
اپنی جانب سے بھی دیتا ہوں ، کچوکے جسم کو
اس کی جانب سے بھی ، اپنے زخم سہلاتا ہوں میں
ایک بچّے کی طرح ، خود کو بٹھا کر سامنے
خوب خود کو کوستا ہوں ، خوب سمجھاتا ہوں میں
خشک پتّوں کی طرح ہے ، قوّتِ گویائی بھی
بات کوئی بھی نہیں ، اور بولتا جاتا ہوں میں
یہ وہی تنہائی ہے ، جس سے بہل جاتا تھا دِل
یہ وہی تنہائی ہے ، اب جس سے گھبراتا ہوں میں
عشق میں مانع ہے ، غالب کی طرفداری مجھے
رعب جب چلتا نہیں تو ، پاؤں پڑ جاتا ہوں میں
میرے ہاتھ آتے ہیں تابش ، دوسرے موسم کے پھول
ایک موسم میں تو ، ٹہنی تک پہنچ پاتا ہوں میں
( عباس تابش )