بات اب ضبط سے باہر ہے، مجھے رونے دو

کاشف اختر

لائبریرین
بہت عمدہ کلام ہے ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔

عمر گزری ہے صبا کہتے ہوئے جس کو مری

کے بجائے اگر یوں کہیں

زندگی بیت گئی جس کو صبا کہتے ہوئے ۔۔۔

تو کیسا رہے گا ؟؟

یا اگر مصرع تبدیل نہ کریں تو مری کو پہلے لائیں

عمر گزری ہے مری ، جس کو صبا کہتے ہوئے ۔۔۔۔

اس کے ہاتھوں میں بھی پتھر ہے ۔۔۔۔۔۔پتھر کے بجائے خنجر کہیں تو مناسب ہوگا ؟؟

ہر گھڑی ایک ہی منظر ہے ۔۔۔۔۔کے بجائے ۔۔۔۔ دل مرا غم کا سمندر ہے مجھے رونے دو ۔۔۔۔کہیں یا اگر مصرع تبدیل نہ کریں تو یوں کہیں ۔۔۔۔
کتنا پردرد یہ منظر ہے مجھے رونے دو ۔۔یا پردرد کے بجائے ۔۔پرہول ۔۔۔کہ لیں ۔۔۔۔۔

وقت رخصت جو دیا اس نے رضا عذر جفا ۔۔۔۔۔۔۔

اس مصرع میں لفظ رضا کے سبب کچھ ثقالت محسوس ہو رہی ہے ۔۔۔اس لیے اسے مقطع نہ بنائیں ۔۔۔۔۔بلکہ یوں کہیں ۔۔۔

وقت رخصت جو دیا اس نے مجھے عذر جفا ۔۔۔۔۔۔۔

پھر دوسرے مصرع میں ۔۔۔۔۔۔

وہ مجھے آج بھی ازبر ہے ۔مجھے رونے دو ۔۔۔۔

لفظ مجھے مکرر مناسب نہیں لگتا ہے ۔۔۔۔۔اس لئے یوں کہیں ۔۔۔۔۔

آہ!وہ آج بھی ازبر ہے مجھے رونے دو ۔۔۔۔۔۔
یا کوئی متبادل لفظ لائیں ؟؟؟؟؟

اور مقطع اسے بنائیں ۔۔۔۔۔

کل سجاتا تھا مرے در جو رضا پھولوں سے ۔۔۔۔
اس کے ہاتھوں میں بھی خنجر ہے مجھے رونے دو ۔۔



میں نے بطور ایک عام قاری جو محسوس کیا رائے دیے دی ۔۔۔۔۔۔آپ کو اختیار ہے چاہیں تو قبول کریں ورنہ رد کردیں ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
بہت عمدہ کلام ہے ماشاءاللہ ۔۔۔۔۔

عمر گزری ہے صبا کہتے ہوئے جس کو مری

کے بجائے اگر یوں کہیں

زندگی بیت گئی جس کو صبا کہتے ہوئے ۔۔۔

تو کیسا رہے گا ؟؟

یا اگر مصرع تبدیل نہ کریں تو مری کو پہلے لائیں

عمر گزری ہے مری ، جس کو صبا کہتے ہوئے ۔۔۔۔

اس کے ہاتھوں میں بھی پتھر ہے ۔۔۔۔۔۔پتھر کے بجائے خنجر کہیں تو مناسب ہوگا ؟؟

ہر گھڑی ایک ہی منظر ہے ۔۔۔۔۔کے بجائے ۔۔۔۔ دل مرا غم کا سمندر ہے مجھے رونے دو ۔۔۔۔کہیں یا اگر مصرع تبدیل نہ کریں تو یوں کہیں ۔۔۔۔
کتنا پردرد یہ منظر ہے مجھے رونے دو ۔۔یا پردرد کے بجائے ۔۔پرہول ۔۔۔کہ لیں ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
پسند آوری توجہ اور اچھے مشوروں کے لیے بہت شکریہ۔ شاد رہیے
 

ابن رضا

لائبریرین
۔

جو سجاتا تھا در و بام مِرے پھولوں سے
مرے پھول؟ مراد تو میرے در و بام سے ہے نا!!میری

جو سجاتا تھا گُلوں سے در و دیوار مرے
اس کے ہاتھوں میں بھی خنجر ہے ، مجھے رونے دو

یادِ رفتہ ہے، غمِ ہجر ہے، تنہائی ہے
کس قدر تلخ یہ منظر ہے، مجھے رونے دو
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین


بات اب ضبط سے باہر ہے، مجھے رونے دو
دل مرا درد کا خوگر ہے ، مجھے رونے دو

ایک برسات کا منظر ہے عیاں آنکھوں سے
اِک تلاطم مرے اندر ہے، مجھے رونے دو

شدتِ غم نہ کہیں مانگ لے نذرانہِ جاں
اب کے شاید یہی بہتر ہے، مجھے رونے دو

جب سے ساقی نے دیا بزم نکالا مجھ کو
تب سے مینا ہے نہ ساغر ہے، مجھے رونے دو

یادِ رفتہ ہے، غمِ ہجر ہے، تنہائی ہے
کس قدر تلخ یہ منظر ہے، مجھے رونے دو


عُمرگُزری ہے مری جس کو صبا کہتے ہوئے

حیف وہ موجہِ صرصر ہے، مجھے رونے دو

جو سجاتا تھا گلوں سے در و دیوار مرے

اُس کے ہاتھوں میں بھی خنجرہے، مجھے رونے دو

بات بے بات ہو جاتی ہیں نم آنکھیں میری

مجھ میں باقی یہی جوہر ہے، مجھے رونے دو

وقتِ رخصت جو دیا اُس نے رضاؔ عُذرِ جفا
وہ مجھے آج بھی اَزبر ہے، مجھے رونے دو


برائے توجہ فقط اساتذہ
محمد یعقوب آسی صاحب و الف عین صاحب
 
آخری تدوین:
میں نے جس مصرعے کی بنیاد پر بات کی تھی وہ ہے
بات بے بات بھر آتی ہیں یہ آنکھیں میری
بات اکیلی "یہ" کو ہٹانے کی نہیں تھی، اس میں پورا سیاق و سباق از خود شامل تھا۔

آپ نے جو بعد میں ترمیم کر دی، اس سے وزن کی سابقہ صورت جاتی رہی۔ اور
بات بے بات ہو جاتی ہیں نم آنکھیں میری
مجھ میں باقی یہی جوہر ہے، مجھے رونے دو
پہلا مصرع پھر وزن سے نکل گیا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
میں نے جس مصرعے کی بنیاد پر بات کی تھی وہ ہے

بات اکیلی "یہ" کو ہٹانے کی نہیں تھی، اس میں پورا سیاق و سباق از خود شامل تھا۔

آپ نے جو بعد میں ترمیم کر دی، اس سے وزن کی سابقہ صورت جاتی رہی۔ اور

پہلا مصرع پھر وزن سے نکل گیا۔

"۔۔۔۔۔ وزن سے نکل گیا " بات سمجھ نہیں آئی سر۔ وضاحت فرما دیجیے
 
"۔۔۔۔۔ وزن سے نکل گیا " بات سمجھ نہیں آئی سر۔ وضاحت فرما دیجیے
خارج از وزن ۔۔۔ اسی کو آسان پیرائے میں لکھا۔
بات بے بات بھر آتی ہیں یہ آنکھیں میری ۔۔ کی بجائے
بات بے بات بھر آتی ہیں آنکھیں میری
مجھ میں باقی یہی جوہر ہے مجھے رونے دو

یہ دونوں مصرعے وزن میں ہوتے: فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن ۔۔۔ یا ۔۔۔ روایتی عروض میں اس کا جو بھی وزن ہے اس پر نیلے رنگ والے متن کا شعر پورا اترتا ہے۔
آپ نے بدل کر پہلا مصرع یوں کر دیا
بات بے بات ہو جاتی ہیں نم آنکھیں میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وزن سے خارج ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
خارج از وزن ۔۔۔ اسی کو آسان پیرائے میں لکھا۔
بات بے بات بھر آتی ہیں یہ آنکھیں میری ۔۔ کی بجائے
بات بے بات بھر آتی ہیں آنکھیں میری
مجھ میں باقی یہی جوہر ہے مجھے رونے دو

یہ دونوں مصرعے وزن میں ہوتے: فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن ۔۔۔ یا ۔۔۔ روایتی عروض میں اس کا جو بھی وزن ہے اس پر نیلے رنگ والے متن کا شعر پورا اترتا ہے۔
آپ نے بدل کر پہلا مصرع یوں کر دیا
بات بے بات ہو جاتی ہیں نم آنکھیں میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وزن سے خارج ہے۔

فاعلاتن: بات بے با
فعلاتن: ت بھ راتی
فعلاتن: ہیں یہ آکھیں
فعلن: میری

فاعلاتن: بات بے با
فعلاتن: ت ہُ جاتی
فعلاتن: ہیں ن ماکھیں
فعلن: میری

سر اس بحر کے حساب سے تو دونوں مصرعے موزوں ہیں یہاں نشاندہی فرما دیں
 
فاعلاتن: بات بے با
فعلاتن: ت بھ راتی
فعلاتن: ہیں یہ آکھیں
فعلن: میری

فاعلاتن: بات بے با
فعلاتن: ت ہُ جاتی
فعلاتن: ہیں ن ماکھیں
فعلن: میری

سر اس بحر کے حساب سے تو دونوں مصرعے موزوں ہیں یہاں نشاندہی فرما دیں

بات بے بات بھر آتی ہیں (یہ) آنکھیں میری
مجھ میں باقی یہی جوہر ہے مجھے رونے دو

فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن (فاعلتن)
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
۔۔۔۔۔ اس (یہ) پر شاعر کا مؤقف درست ہے کہ یہ بحر میں ہے۔ مجھے مغالطہ ہوا تھا۔
 
آخری تدوین:
خارج از وزن ۔۔۔ اسی کو آسان پیرائے میں لکھا۔
بات بے بات بھر آتی ہیں یہ آنکھیں میری ۔۔ کی بجائے
بات بے بات بھر آتی ہیں آنکھیں میری
مجھ میں باقی یہی جوہر ہے مجھے رونے دو

یہ دونوں مصرعے وزن میں ہوتے: فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن ۔۔۔ یا ۔۔۔ روایتی عروض میں اس کا جو بھی وزن ہے اس پر نیلے رنگ والے متن کا شعر پورا اترتا ہے۔
آپ نے بدل کر پہلا مصرع یوں کر دیا
بات بے بات ہو جاتی ہیں نم آنکھیں میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وزن سے خارج ہے۔
خوب صورت اصلاح فرمائی ہے استادِ محترم۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فاعلاتن: بات بے با
فعلاتن: ت بھ راتی
فعلاتن: ہیں یہ آکھیں
فعلن: میری
فاعلاتن: بات بے با
فعلاتن: ت ہُ جاتی
فعلاتن: ہیں ن ماکھیں ۔ ہ نما کھیں
فعلن: میری
سر اس بحر کے حساب سے تو دونوں مصرعے موزوں ہیں یہاں نشاندہی فرما دیں
رضا بھائی ۔ جہاں تک میں سمجھا آسی بھائی کا ذہن، ہو جا تی کے" وا ؤ" کا اور ہیں نم آکھیں میں" یں" کا اتنا قریبی اسقاط قبول نہیں کر پا ر ہا ۔یہ اسقاط ہی مصرع کو وزن کا پابند کرنے میں بوجھل ثابت ہو رہا ہے ۔اس طر ح مصرع موزوں تو ہو رہا ہے مگر ہموار نہیں ۔
 

ابن رضا

لائبریرین
بات بے بات بھر آتی ہیں (یہ) آنکھیں میری
مجھ میں باقی یہی جوہر ہے مجھے رونے دو

فاعلن فاعلتن فاعلتن مفعولن (فاعلتن)
فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
۔۔۔۔۔ اس (یہ) پر شاعر کا مؤقف درست ہے کہ یہ بحر میں ہے۔ مجھے مغالطہ ہوا تھا۔
جی سر تاہم مذکور مصرعے میں "یہ" بھرتی کا ہے۔

اور دوسرا مصرع بھی باوزن ہے۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
رضا بھائی ۔ جہاں تک میں سمجھا آسی بھائی کا ذہن، ہو جا تی کے" وا ؤ" کا اور ہیں نم آکھیں میں" یں" کا اتنا قریبی اسقاط قبول نہیں کر پا ر ہا ۔یہ اسقاط ہی مصرع کو وزن کا پابند کرنے میں بوجھل ثابت ہو رہا ہے ۔اس طر ح مصرع موزوں تو ہو رہا ہے مگر ہموار نہیں ۔
شکریہ شاہ جی یہ اخفا تو معمول کے ہیں اور عام مستعمل ہیں وزن کی بابت سر آسی صاحب کو مغالطہ ہو گیا تھا جس میں ایک کی تصدیق اوپر انہوں نے کر دی ہے۔ دوسری کا جواب باقی ہے۔ سلامت رہیں اور اپنی محبتوں سے نوازتے رہیں
 
رضا بھائی ۔ جہاں تک میں سمجھا آسی بھائی کا ذہن، ہو جا تی کے" وا ؤ" کا اور ہیں نم آکھیں میں" یں" کا اتنا قریبی اسقاط قبول نہیں کر پا ر ہا ۔یہ اسقاط ہی مصرع کو وزن کا پابند کرنے میں بوجھل ثابت ہو رہا ہے ۔اس طر ح مصرع موزوں تو ہو رہا ہے مگر ہموار نہیں ۔
جی سر تاہم مذکور مصرعے میں "یہ" بھرتی کا ہے۔
اور دوسرا مصرع بھی باوزن ہے۔

سید صاحب نے وہ بات بہت آسانی سے کہہ دی جسے میں شاید یوں نہ کہہ پاتا۔ بہت ممنون ہوں۔ مغالطہ کی وجہ کچھ ایسی ناملائم نشست و برخاست بھی ہو سکتی ہے۔ ایک بات یوں بھی ہے کہ: صاحب میں نے مصرعے وزن میں کہے ہیں اور مغالطوں کے بعد کے مباحث نے ثابت کر دیا کہ مصرعے وزن میں ہیں۔ بجا ارشاد! تاہم ان میں شعریت (یعنی جمالیات) فکری کے علاوہ لفظی سطح پر کیسی ہے؛ گرائے جا سکنے والے حروف کو گرانا میرے شعر کو بوجھل تو نہیں بنا رہا؟ "کلامِ منظوم اور شعر" اس پر میں اکثر بات کیا کرتا ہوں اور کچھ گزارشات اپنے بلاگ پر بھی پیش کر رکھی ہیں۔ صاحبِ کلام مناسب سمجھیں تو دیکھ لیں۔

میں نے جو محسوس کیا، بہ کم و کاست عرض کر دیا۔ اور مغالطہ ہوا تو اس کو بھی علی الاعلان تسلیم کر لیا۔ بندہ بشر ہوں ابنِ رضا صاحب، مغالطہ لگ سکتا ہے۔"کلامِ منطوم اور شعر" کے مصداق "بحث اور جرح" میں بہرحال فرق ہوتا ہے۔ اجتناب کی کوشش کروں گا۔ خوش رہا کیجئے۔
 
آخری تدوین:
Top