باتیں موسم گرما کی

زبیر مرزا

محفلین
السلام علیکم​
جی جناب گرمی کا موسم ذائقے دار پھلوں ، مشروبات اور شجرکاری کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے - بات آموں کی ہو ، تربوز کا ذائقہ ، سکنجبین کا مزہ اور ہلکے پھلکے لباس- باتوں کا​
ایک لامتناہی سلسلہ - تو چلیں شروعات کرتے ہیں اس گپ شپ اور یادوں کی​
summer-67.gif
 

تعبیر

محفلین
وعلیکم السلام
مجھےتو گرمیوں میں سردیاں یاد آتی ہیں اور سردیوں میں گرمیاں :p
سوالات بھی تو پوچھیں نا :) یا میں نے کچھ زیادہ ہی جلدی کر دی جواب دینے میں :roll:
 

زبیر مرزا

محفلین
نہیں جی سوال کیا کرنے ہیں بس غیر رسمی گپ شپ :)
آپ کچھ تھادل کا ذکر کررہیں تھیں ؟ بادام کا شربت مزے دار اور مقوی بھی ہوتا ہے
 

تعبیر

محفلین
تھادل کا ذائقہ اب بھول گیا ہے بچپن میں بڑے بابا (نانا ابا) زبردستی پلایا کرتے تھے
شاید اس وجہ سے پسند نہیں تھی
آپ بھی کچھ کہ رہے تھے کچھ یادیں کہ کر کچھ
 

تعبیر

محفلین
چھوٹے والے پیارے بچے حسیب نذیر گِل کو بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ حاضر ہو
( چھوٹے والے پیارے بچے میرا تکیہ کلام ہے اپنے سے چھوٹوں کے لیے:)
حسیب واقعی بڑا پالا بچہ ہے ماشاءاللہ
حسیب کے پاس تو بہت کچھ ہو گا گرمیوں کےحوالے سے پنڈ کے دلچسپ قصے
لسی اور کھلے آسمان کے نیچے رات کو سونا
 

زبیر مرزا

محفلین
جی تھادل ( بادام کا شربت) ہماری اماں مرحومہ کو بہت پسند تھا اور گھر پرتیار کرتی تھیں اور سب کو اصرار کرکے پلاتی تھیں
 

تعبیر

محفلین
یورپ،یوکے اور امریکہ میں تو گرمیاں نعمت ہوتی ہیں کہ دن لمبے ہو جاتے ہیں سو کافی سارے کام اور آرام کرنے کا موقع ملتا ہے جبکہ سردیوں میں پانچ بجے ہی مغرب ہو جاتی ہے
 

زبیر مرزا

محفلین
اچھا مزیدار بات یہ ہے کہ میں پیدا فروری میں ہوا مگر گرمیاں مجھے جی جان سے پسند ہیں
میں پاکستان تھا تو جب لائیٹ چلی جاتی تھی تو گرمی میں بڑے آرام سے سویا رہتا تھا - پچھلے سال جب میں کراچی گیا تھا توبھی
بڑے مزے سے بناء بجلی کے رات کو سویا رہا:)
 

تعبیر

محفلین
گرمیوں کی دوپہروں کا مزا تو بچپن میں تھا ہائے
جب امی سو جایا کرتی تھیں تو میں اور میرا چھوٹا بھائی اور بہن گھر سے باہر جا کر خوب مستیاں کرتے تھے
اکثر لوگوں کی ڈور بیل بجا کر بھاگ جایا کرتے تھے یا پھر کرنل انکل کے درختوں کے پھل توڑا کرتے تھے،میں شام کو شکایت لیکر ہمارے گھر پہنچ جایا کرتے تھے۔لوگ اتنے کنجوس کیوں ہوتے ہیں اپنے درختوں سے پھل کیوں نہیں توڑنے دیتے؟؟؟
اور ہاں تب ہمارا ایک اور شوق بھی تھا جب چھٹیوں میں بڑے بابا کے گھر جاتے تھے تو چھوٹی نانی(خیر سے میری ہر طرح کی نانیاں تھیں ،بڑی،منجھلی اور چھوٹی ہر سائز اور ہر عادت کی )ہاں تو چھوٹی نانی کے بھانجے کو پیسے دیکر میں اور باجی پتنگ اڑانا سیکھتے تھے ،پتنگ اڑانا تو کیا خاک آئی البتہ رنگ بالکل کالے سیاہ ہو گئے ۔
گرمیوں،دوپہروں اور بڑے بابا کے بڑے قصے ہیں جو پھر سہی
ابھی نیند آ رہی ہے سو آج کے لیے اتنا ہی

اسلام اباد میں ایک اور پھل ہوتا ہے جسے لوکاٹ کہتے ہیں ۔کسی کو پتہ ہے اسکا
وہ بھی کچھ کھناے کا کیا ہی مزا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
گرمیوں میں تو گاؤں ہو، دوپہر کا وقت ہو، کنوئیں کے کنارے گھنے درختوں کے نیچے بغیر بستر کے کھری چارپائی ہو، کنواں چل رہا ہو، بیل کے گلے کی گھنٹی بج رہی ہو، کنوئیں کے ٹھنڈے پانی کے نیچے آموں کی پیٹی رکھی ہو اور دو چار دوست ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بچپن میں گرمیوں میں ہم گاؤں جایا کرتے تھے۔ ننھیال میں۔ وہاں سب ہی خالہ زاد، ماموں زاد اسکولوں میں چھٹیوں کی وجہ سے اکٹھے ہوتے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ گاؤں میں میلہ لگا ہوا ہے۔ اتنی زیادہ رونق ہوتی تھی۔ نانا مرحوم بھینسوں کا دودھ نکالتے وقت زبردستی بچوں کے منہ کھلوا کے دودھ کی دھاریں منہ میں مارتے تھے۔ کھیتوں میں خربوزے اور تربوز ہر طرف نظر آتے تھے۔ ہم آٹھ دس ہم عمر اکٹھے ہو کر ٹوکرا بھر کر خربوزے خریدتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے چٹ کر جاتے تھے۔ جو پھیکا ہوتا تھا اسے دور کھیتوں میں پھینکنے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ چھڑی سے کاٹ کر کبھی نہیں کھائے تھے۔ رات کو چاند کی چاندنی میں دور دور تک کھیتوں میں جاتے تھے۔

ایک دفعہ دوپہر میں گاؤں سے تھوڑی دور ایک ڈیرہ تھا، وہاں جامن کے بہت سارے درخت تھے، ہم تین کزن وہاں درختوں سے پتھر مار مار کر جامن توڑ رہے تھے کہ ڈیرے والوں کے کُتے ہمارے پیچھے پڑ گئے، پھر جو ہمارے دوڑیں لگی ہیں تو گھر پہنچ کر ہی دم لیا۔
 

زبیر مرزا

محفلین
پچھلے سال میں کراچی میں تھا گرمی تھی اور بجلی گئی ہوئی تھی میں چادر لپیٹے سو رہا تھا
تو ہمارے ہمسائے جمال نے جس کا کمرہ میرے کمرے کی سیدھ میں
وہاں سے جو آوازیں لگانی شروع کی اور اُس قوت تک دھاڑتا رہا( پکارتا رہا)
جب میں گلی میں نہیں پہنچ گیا :) آدھی رات تک بیچ سڑک کے
کرسیاں بچھائے باتوں کا دور چلا ہمارے کچھ بیگمات شدہ دوست بھی ہمت کرکے آس پاس کے گھروں اور گلیوں سے نکل آئے
میرا دوست جو کافی دور رہتا ہے اُس کا فون آیا 11 بجے رات کو تو وہ بھی سن کر کچھ اور دوستوں کو گاڑی میں بھر کر لے آیا
چونکہ ہفتے کی رات تھی اور سب کی اگلے دن چھٹی تو رات 4 بجے تک 20 کے قریب ہم لوگ رت جگا مناتے رہے جب بجلی نہیں آئی
 
چھوٹے والے پیارے بچے حسیب نذیر گِل کو بھی اطلاع دی جاتی ہے کہ حاضر ہو
( چھوٹے والے پیارے بچے میرا تکیہ کلام ہے اپنے سے چھوٹوں کے لیے:)
حسیب واقعی بڑا پالا بچہ ہے ماشاءاللہ
حسیب کے پاس تو بہت کچھ ہو گا گرمیوں کےحوالے سے پنڈ کے دلچسپ قصے
لسی اور کھلے آسمان کے نیچے رات کو سونا
حسیب بیچارہ تو بخار سے لطف اندوز ہو رھا ہے۔
ویسے بخار بھی گرمیوں کا یک تحفہ ہے:)
 
حسیب واقعی بڑا پالا بچہ ہے ماشاءاللہ
حسیب کے پاس تو بہت کچھ ہو گا گرمیوں کےحوالے سے پنڈ کے دلچسپ قصے
لسی اور کھلے آسمان کے نیچے رات کو سونا
چاٹی والی لسی کا تو خیر کیا ہی کہنا ابھی ابھی پی کے آیا ہوں:)

جب گرمیاں آتی ہیں تو میرا سارا دن بھینسیں گننے میں گزر جاتا ہے وہ کیا ہے کہ جس بازار میں ہمارا گھر ہے وہ سیدھا نہر(راجباہ) کو جاتا ہے۔بس پھر کیا صبح 10 بجے بھینسیں جانا شروع ہو جاتی ہیں اور عصر کے وقت ختم ہوتی ہیں۔انشااللہ جلد ہی اپنے پنڈ کی تازہ تازہ تصویریں پیش کروں گا
 
بچپن میں گرمیوں میں ہم گاؤں جایا کرتے تھے۔ ننھیال میں۔ وہاں سب ہی خالہ زاد، ماموں زاد اسکولوں میں چھٹیوں کی وجہ سے اکٹھے ہوتے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ گاؤں میں میلہ لگا ہوا ہے۔ اتنی زیادہ رونق ہوتی تھی۔ نانا مرحوم بھینسوں کا دودھ نکالتے وقت زبردستی بچوں کے منہ کھلوا کے دودھ کی دھاریں منہ میں مارتے تھے۔ کھیتوں میں خربوزے اور تربوز ہر طرف نظر آتے تھے۔ ہم آٹھ دس ہم عمر اکٹھے ہو کر ٹوکرا بھر کر خربوزے خریدتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے چٹ کر جاتے تھے۔ جو پھیکا ہوتا تھا اسے دور کھیتوں میں پھینکنے کا مقابلہ ہوتا تھا۔ چھڑی سے کاٹ کر کبھی نہیں کھائے تھے۔ رات کو چاند کی چاندنی میں دور دور تک کھیتوں میں جاتے تھے۔

ایک دفعہ دوپہر میں گاؤں سے تھوڑی دور ایک ڈیرہ تھا، وہاں جامن کے بہت سارے درخت تھے، ہم تین کزن وہاں درختوں سے پتھر مار مار کر جامن توڑ رہے تھے کہ ڈیرے والوں کے کُتے ہمارے پیچھے پڑ گئے، پھر جو ہمارے دوڑیں لگی ہیں تو گھر پہنچ کر ہی دم لیا۔
ان دھاروں کو ہم لوگ " ڈوکے" کہتے ہیں اور بزرگوں کا فرمان ہے کہ ان میں بہت طاقت ہوتی ہے۔
ویسے ہمارے گاؤں میں بھی کافی سارے جامن کے درخت ہیں لیکن گھر والے ہمیشہ یہی نصیحت کرتے ہیں کہ بیٹا اسکے اوپر مت چڑھنا کیونکہ اسکی لکڑی بہت کمزور ہوتی ہے اور ذرا سے وزن سے مختلف آوازین نکالتی ہوئی دارِفانی سے کوچ کر جاتی۔
 
Top