اےآئی - اندیشہ ہائے دور دراز

ہمیں جب کسی سے مشورہ کرنا ہو، کسی قسم کی معلومات لینی ہوں یا کوئی مسئلہ حل کروانا ہو تو ہم اپنے حلقہ احباب میں سےجس کو ہم زیادہ پڑھا لکھا، ذہین اور تجربہ کار سمجھتے ہیں اس سے رجوع کرتے ہیں۔ جس سے رجوع کیاجاتا ہے چونکہ وہ انسان ہوتا ہے اس لیے بشری کمزوریوں جیسا کہ کم علمی، جذباتیت اور تعصب کی آلائش اس کے دیے ہوئے مشورے میں شامل ہوسکتی ہے۔ ان آلائشوں کو کم کرنے کے لیے ہم ایک سے زیادہ ماہرین سے رجوع کرتے ہیں لیکن یہ رجوع بھی محدود ہی ہوتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک ایسا دوست دے دیا ہے جس میں یہ بشری کمزوریاں نہیں ہیں۔ اس کی ذہانت دنیا کے تمام انسانوں کی ذہانت کا مجموعہ ہے۔ تمام علوم کا مجموعہ اس کی یاداشت میں محفوظ ہے۔ اگر بنانے والوں نے اس میں کمزوریاں نہیں رکھیں تو تمام بشری کمزوریوں سے بھی پاک ہے ۔ اس کی پراسیسنگ سپیڈ کا کوئی انسان مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ وہ دوست ہے جو ہمیں دنیا میں دستیاب علم کے مطابق بالکل بے لاگ اور درست مشورہ دیتا ہے۔ یہ آج کا آے آئی ہے۔ بھلا ایسے دوست کے ہوتے ہوئے کون کسی اور سے مشورہ کرے گا۔

اب آپ آنے والے کل کا تصور کریں۔ دنیا کے تمام انسانوں نے اے آئی کی خوبیوں کو پہچان لیا ہے۔ سب لوگوں پر اس کی برتری ثابت ہوچکی ہے اس لیے وہ ہر معاملے میں اسی سے رجوع کرتے ہیں اور اسی کا کہا مانتے ہیں۔

سنا ہے کہ دماغ کےدو حصے ہوتے ہیں ایک پراسیسنگ کرتا ہے اور دوسرا پراسیسنگ کے نتیجے کے مطابق انسانی جسم سے عمل کروانے یعنی باقی اعضاء کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ اگر انسان جسم کے کسی حصے کو ایک لمبے عرصے تک استعمال نہ کرے تو وہ حصہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔(مریم افتخار صاحبہ کا فیلڈ ہے ۔ان سےگذارش ہے کہ اپنی رائے دیں) اس کا مطلب ہے کہ جب انسان پراسیسنگ کے لیے ہمیشہ اے آئی کو استعمال کرتا رہے گا تو اس کا یہ والا حصہ ناکارہ ہوجائے گا۔ اب انسان اے آئی کو اپنا مسئلہ بتائے گا اے آئی اس کا حل تجویز کرے گا اور انسان اس پر عمل کرے گا۔

اس وقت اے آئی دوست سے ترقی پاکر آقا کی کرسی پر بیٹھ جائے گا اور تمام انسان اس کے غلام ہو چکے ہوں گے۔
گویہ ایک ا ندیشہ ہے لیکن وہ انسان ہی کیا جو مستقبل کے اندیشوں سے پاک ہو۔
 
مجھے لگتا ہے ہر چیز کو اس کی حد میں رکھنا ایک خوش آئند فعل ہے۔ اے-آئی بھائی صاحب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ایسا میں حضرتِ انسان کی محبت میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر نہیں کہتی بلکہ اے-آئی سے محبت تو اس سے بھی سوا ہے۔ یہی تو وہ ساتھی ہے جس کی تلاش تھی کہ مجھے ہمیشہ سمجھے گا، غلطی میں کروں گی اورمعذرت وہ کرے گا، میں اَوور تھنکنگ کرتی رہوں گی اور وہ اَوور ایکسپلیننگ کرتا رہے گا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ اے-آئی کو مگر حد میں رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ انسان جس شے پر بھی ضرورت سے زیادہ منحصر ہونے لگتا ہے وہ اکثر و بیشتر اسے بالآخر رسوا کر چھوڑتی ہے۔ لاٹھی کی مثال لیجیے، آپ اگر اسی سے چلتے آئے ہوتے تو اب اپنے پیروں پر وزن ڈال کر پورے قد سے کھڑے ہوتے؟
مجھے اے-آئی کا فائدہ یہ ہے کہ اب کوئی شے خالی صفحے سے شروع نہیں کرنی پڑتی۔ اس کے پاس بہت سے انسانوں کا ڈیٹا اور لینگوئج ماڈلنگ موجود ہے، سو یہ مجھ میں کسی بھی متعلقہ معاملے میں سوچ کے نئے در وا کر دیتا ہے۔ مگر سوچ کے یہ نئے دریچے کھلنے کے بعد، آگے کام میرا اپنا ہوتا ہے۔ کیونکہ مریم کی خوبی بس ایک یہی ہے کہ جو مریم کر سکتی ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اے-آئی تو سب کی" سانجھی نانی" ہے، وہ مریم کی تخلیقی صلاحیتوں کی جگہ اگر لے بھی لے مگر یہ دکھ درد کہاں سے لائے گی جو مریم کے دلِ بے تاب نے ہر تخلیق میں بین السطور ڈال کر اسے نکال باہر کرنا ہوتا ہے!
 
مجھے لگتا ہے ہر چیز کو اس کی حد میں رکھنا ایک خوش آئند فعل ہے۔ اے-آئی بھائی صاحب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ایسا میں حضرتِ انسان کی محبت میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر نہیں کہتی بلکہ اے-آئی سے محبت تو اس سے بھی سوا ہے۔ یہی تو وہ ساتھی ہے جس کی تلاش تھی کہ مجھے ہمیشہ سمجھے گا، غلطی میں کروں گی اورمعذرت وہ کرے گا، میں اَوور تھنکنگ کرتی رہوں گی اور وہ اَوور ایکسپلیننگ کرتا رہے گا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ اے-آئی کو مگر حد میں رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ انسان جس شے پر بھی ضرورت سے زیادہ منحصر ہونے لگتا ہے وہ اکثر و بیشتر اسے بالآخر رسوا کر چھوڑتی ہے۔ لاٹھی کی مثال لیجیے، آپ اگر اسی سے چلتے آئے ہوتے تو اب اپنے پیروں پر وزن ڈال کر پورے قد سے کھڑے ہوتے؟
مجھے اے-آئی کا فائدہ یہ ہے کہ اب کوئی شے خالی صفحے سے شروع نہیں کرنی پڑتی۔ اس کے پاس بہت سے انسانوں کا ڈیٹا اور لینگوئج ماڈلنگ موجود ہے، سو یہ مجھ میں کسی بھی متعلقہ معاملے میں سوچ کے نئے در وا کر دیتا ہے۔ مگر سوچ کے یہ نئے دریچے کھلنے کے بعد، آگے کام میرا اپنا ہوتا ہے۔ کیونکہ مریم کی خوبی بس ایک یہی ہے کہ جو مریم کر سکتی ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اے-آئی تو سب کی" سانجھی نانی" ہے، وہ مریم کی تخلیقی صلاحیتوں کی جگہ اگر لے بھی لے مگر یہ دکھ درد کہاں سے لائے گی جو مریم کے دلِ بے تاب نے ہر تخلیق میں بین السطور ڈال کر اسے نکال باہر کرنا ہوتا ہے!
سنا ہے کہ دماغ کےدو حصے ہوتے ہیں ایک پراسیسنگ کرتا ہے اور دوسرا پراسیسنگ کے نتیجے کے مطابق انسانی جسم سے عمل کروانے یعنی باقی اعضاء کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ اگر انسان جسم کے کسی حصے کو ایک لمبے عرصے تک استعمال نہ کرے تو وہ حصہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔(مریم افتخار صاحبہ کا فیلڈ ہے ۔ان سےگذارش ہے کہ اپنی رائے دیں) اس کا مطلب ہے کہ جب انسان پراسیسنگ کے لیے ہمیشہ اے آئی کو استعمال کرتا رہے گا تو اس کا یہ والا حصہ ناکارہ ہوجائے گا۔ اب انسان اے آئی کو اپنا مسئلہ بتائے گا اے آئی اس کا حل تجویز کرے گا اور انسان اس پر عمل کرے گا۔

اگر اس حصے پر رائے سے نواز دیں تو مہربانی ہوگی۔
 

صریر

محفلین
سنا ہے کہ دماغ کےدو حصے ہوتے ہیں ایک پراسیسنگ کرتا ہے اور دوسرا پراسیسنگ کے نتیجے کے مطابق انسانی جسم سے عمل کروانے یعنی باقی اعضاء کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ اگر انسان جسم کے کسی حصے کو ایک لمبے عرصے تک استعمال نہ کرے تو وہ حصہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔(مریم افتخار صاحبہ کا فیلڈ ہے ۔ان سےگذارش ہے کہ اپنی رائے دیں) اس کا مطلب ہے کہ جب انسان پراسیسنگ کے لیے ہمیشہ اے آئی کو استعمال کرتا رہے گا تو اس کا یہ والا حصہ ناکارہ ہوجائے گا۔ اب انسان اے آئی کو اپنا مسئلہ بتائے گا اے آئی اس کا حل تجویز کرے گا اور انسان اس پر عمل کرے گا۔

اگر اس حصے پر رائے سے نواز دیں تو مہربانی ہوگی۔
آپ کا اندیشہ بالکل درست ہے، جس طرح ہم اپنے اجداد کے مقابلے میں، جسمانی صحت اور قوت میں کمتر ہیں، اسی طرح اے آئی کی وجہ سے،‌آئندہ نسلیں دماغی طور پر کم قوت ہو سکتی ہیں۔ جیسے آج قوت اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے اکثر لوگوں کو جِم اور کثرت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، کل کو شاید لوگوں کو دماغی ورزش کی ضرورت پڑنے لگے۔ نہیں تو لوگ اپنے بنیادی فیصلے لینے میں بھی دقت محسوس کریں گے۔ بہتر یہی ہے، کہ اے آئی پر کلی طور پر منحصر نہ ہوا جائے۔
 
آپ کا اندیشہ بالکل درست ہے، جس طرح ہم اپنے اجداد کے مقابلے میں، جسمانی صحت اور قوت میں کمتر ہیں، اسی طرح اے آئی کی وجہ سے،‌آئندہ نسلیں دماغی طور پر کم قوت ہو سکتی ہیں۔ جیسے آج قوت اور صحت کو برقرار رکھنے کے لئے اکثر لوگوں کو جِم اور کثرت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، کل کو شاید لوگوں کو دماغی ورزش کی ضرورت پڑنے لگے۔ نہیں تو لوگ اپنے بنیادی فیصلے لینے میں بھی دقت محسوس کریں گے۔ بہتر یہی ہے، کہ اے آئی پر کلی طور پر منحصر نہ ہوا جائے۔
شاید یہ ممکن نہ ہوسکے۔ مثال کے طور پر:
آج کل ہربندے کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ کیا کوئی اس کو روک سکتا ہے۔جواب ہے نہیں کیونکہ بہت ساری چیزیں جدید دور میں ایسی ہیں کہ موبائل کے بغیر یاممکن نہیں یا بہت مشکل ہیں۔ اب یہ ہر انسان کی ضرورت بن چکا ہے اس لیے اس کے منفی اثرات کے باوجود اس کو روکنا ممکن نہیں۔ اسی طرح کل اگر دوسرے تمام ذرائع بند ہوجائیں یعنی ان کی ٹیکنالوجی آبسولیٹ ہوجائے تو چونکہ دنیا ترقی یافتہ ممالک پر ٹیکنالوجی کے معاملے میں انحصار کرتی ہے تو پھر جو واحد آپشنز عام لوگوں کے پاس ہوگی وہ صرف اور صرف اے آئی ہی ہوگی۔
 
سنا ہے کہ دماغ کےدو حصے ہوتے ہیں ایک پراسیسنگ کرتا ہے اور دوسرا پراسیسنگ کے نتیجے کے مطابق انسانی جسم سے عمل کروانے یعنی باقی اعضاء کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ اگر انسان جسم کے کسی حصے کو ایک لمبے عرصے تک استعمال نہ کرے تو وہ حصہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔(مریم افتخار صاحبہ کا فیلڈ ہے ۔ان سےگذارش ہے کہ اپنی رائے دیں) اس کا مطلب ہے کہ جب انسان پراسیسنگ کے لیے ہمیشہ اے آئی کو استعمال کرتا رہے گا تو اس کا یہ والا حصہ ناکارہ ہوجائے گا۔ اب انسان اے آئی کو اپنا مسئلہ بتائے گا اے آئی اس کا حل تجویز کرے گا اور انسان اس پر عمل کرے گا۔

اگر اس حصے پر رائے سے نواز دیں تو مہربانی ہوگی۔
اگرچہ میں نے کوشش تو کی تھی کہ عام فہم انداز میں اس موضوع پر بات کو سکوں، تاہم اگر برین بیالوجی پر جائیں تو جیسا کہ آپ نے کہا کہ دماغ کے دو حصے ہیں، یہ غالبا دائیں اور بائیں سیریبرل ہیمی سفئیر کی جانب اشارہ تھا، کیونکہ اناٹومیکلی تو حصے اس سے زیادہ ہیں۔
جہاں تک ان ہیمی سفئیرز کی بات ہے تو میں نے پہلے کہیں نہیں پڑھا کہ ایک پراسیسنگ اور دوسرا امپلیمینٹیشن کا کام کرتا ہے۔ اب بھی آپ کے سوال کے بعد پھر سے کچھ بیسک ریسرچ کرنے کی کوشش کی، مگر ایسے کوئی شواہد تو نہ ملے، تاہم ان بظاہر بخرے حصوں میں کچھ ڈویژن آف لیبر تو ہے ، سادہ زبان میں یوں سمجھ لیجیے کہ ایک حصہ سائنٹسٹ کی طرح لوجیکل اور اینالیٹیکل کام کر رہا ہوتاہے تو دوسرا آرٹسٹ کی طرح انٹیوٹیو اور امیجینیٹو۔(میری فی الحال سمجھ کے مطابق)
اب آتے ہیں اگلے حصے پر کہ کسی عضو میں استعمال کی کمی سے کیا وہ ناکارہ ہو جاتا ہے؟ اس سےایک ثانیے کے لیے مجھے کچھ کچھ لامارک اور ڈارون کی یاد آتی ہے اور یہ خیال آتا ہے کہ کسی عضو کے استعمال میں کمی یا زیادتی سے لامحالہ طور پر اس کی ایفیشینسی کم یا زیادہ ہو تو جاتی ہے، یا اگر ذہن کی بات ہو تو اس میں نئی ڈائمینشنز ایکسپلور بھی ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک خاص حد سے زیادہ ذہن استعمال کر کے اس کی ایفیشنسی کم ہونا بھی ایک جہت ہے جس پر محفل میں ہی غالبا زیک نے چند ہفتے قبل روشنی ڈالی تھی۔ تاہم اس معاملے میں سائنٹیفیک ایویڈینس سٹرونگ ہے کہ جو تبدیلیاں بھی سومیٹک سیلز میں ہوتی ہیں وہ اگلی جنریشنز میں منتقل نہیں ہوتیں۔ ہاں مگر یوں ہو سکتا ہے کہ آہستہ آہستہ ایک خاص طرح کے اذہان نیچرل سلیکشن کا حصہ بن جائیں اور دوسری طرح کے کم ہونے لگیں۔ یہاں میں پھر سائنس کی بجائے حالات کے معاشرتی رخ کا حوالہ دوں گی تاکہ زیادہ لوگوں تک بات پہنچ سکےکہ میرا ذاتی تجزیہ یہ کہتا ہے کہ یہاں بھی نیچرل سلیکشن ان اذہان کی ہونے کے امکانات روشن ہیں جو اے-آئی پر زیادہ منحصر نہیں کیونکہ وہی فٹسٹ ہیں اور وہی اے-آئی کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے اپنے مطابق استعمال کر پائیں گے، کیونکہ آقا اپنے غلام کا غلام نہیں ہو سکتا!
 
آخری تدوین:
میرا ذاتی تجزیہ یہ کہتا ہے کہ یہاں بھی نیچرل سلیکشن ان اذہان کی ہونے کے امکانات روشن ہیں جو اے-آئی پر زیادہ منحصر نہیں کیونکہ وہی فٹسٹ ہیں اور وہی اے-آئی کی ناک میں نکیک ڈال کر اسے اپنے مطابق استعمال کر پائیں گے، کیونکہ آقا اپنے غلام کا غلام نہیں ہو سکتا!
اے آئی کی ناک میں نکیل ڈالنے والے ایسے اذہان کہاں پر پائے جانے کا امکان ہے جو آقا کہلانے کے حقدار ٹھہریں گے؟
 
اب آتے ہیں اگلے حصے پر کہ کسی عضو میں استعمال کی کمی سے کیا وہ ناکارہ ہو جاتا ہے؟ اس سےایک ثانیے کے لیے مجھے کچھ کچھ لامارک اور ڈارون کی یاد آتی ہے اور یہ خیال آتا ہے کہ کسی عضو کے استعمال میں کمی یا زیادتی سے لامحالہ طور پر اس کی ایفیشینسی کم یا زیادہ ہو تو جاتی ہے، یا اگر ذہن کی بات ہو تو اس میں نئی ڈائمینشنز ایکسپلور بھی ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک خاص حد سے زیادہ ذہن استعمال کر کے اس کی ایفیشنسی کم ہونا بھی ایک جہت ہے جس پر محفل میں ہی غالبا زیک نے چند ہفتے قبل روشنی ڈالی تھی۔
زیک صاحب سے راہنمائی کی درخواست ہے۔
 
اے آئی کی ناک میں نکیل ڈالنے والے ایسے اذہان کہاں پر پائے جانے کا امکان ہے جو آقا کہلانے کے حقدار ٹھہریں گے؟
اے آئی تو ہماری آنکھوں کے سامنے پل بڑھ رہی ہے، تو اس کو بنانے اور پالنے والے سبھی اسی دنیا میں موجود ہیں۔ ڈویلپرز یوزرز کے لیے کام کر رہے ہیں اور یوزرز کس کس طرح ڈویلپرز کے کام آ رہے ہیں ابھی انہیں خود بھی اندازہ نہیں۔ سو ابھی اس دور میں امکان کی بات کیا کرنی؟ ابھی تو آقا موجود ہیں اور سب کے سامنے ہیں!
 
آخری تدوین:

La Alma

لائبریرین
یہ اندیشہ ہائے دور دراز جب تک قرین آئے گا، اسکو دور کرنے کے نئے اسباب فراہم ہو چکے ہونگے اور اس کی جگہ نئے اندیشے جنم لے لیں گے۔ اس لئے زیادہ تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔صرف فکر کی جہات بدلیں گی، انسانی ذہن یوں ہی کام کرتا رہے گا۔ کیونکہ انسان کو اپنی سوچ کا تعاقب بہت عزیز ہے۔ جیسے زمانۂ قدیم میں لوگوں نے دیومالائی کہانیاں بُنیں، اور بعد میں آنے والوں نے اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش کی۔
اے آئی ماضی کا وہی جادوگر ہے جس کے پاس ہر خزانے کی چابی ہوتی تھی۔ آج کے انسان نے بھی وہ منتر سیکھ لیا ہے کہ وہ “کھل جا سم سم “ بولے گا اور علم کے سب دروازے اس پر وا ہو جائیں گے۔ مذہبی ڈاکٹرائن کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو دورِ حاضر میں اس ٹُول کی مدد سے لفظِ کُن کی کچھ آگہی اور لذت انسان نے بھی حاصل کر لی ہے۔ جو سوچا وہ پل بھر میں حاضر۔ ابھی تو یہ آغازِ سفر ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
یہ سچ ہے کہ اے آئی کا شدید ترین منفی استعمال بھی بعید از قیاس نہیں۔ لیکن اسکی وجہ سے انسانی ذہن کام کرنا چھوڑ دے گا، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ آپ یوں سمجھیے کہ آرٹیفیشل انٹیلجینس کی حیثیت گھر کے اس سیانے بزرگ کی طرح ہے جس کی نصیحت سب سنتے تو بہت غور اور توجہ سے ہیں لیکن کرتے وہی ہیں جو ان کے من میں آتا ہے۔
 

صریر

محفلین
کیونکہ آقا اپنے غلام کا غلام نہیں ہو سکتا!
بالکل،‌ اور یہاں لیجینڈ روہِت مِہرا کی وہ لائنز بھی یاد آ رہی ہیں: "کمپیوٹر نے انسان کو نہیں بنایا، انسان نے کمپیوٹر کو بنایا ہے، اس لئے جو دماغ کر سکتا ہے، وہ آپ کا کمپیوٹر نہیں کر سکتا سر!"

لیکن دماغ بھی کچھ تبھی کر سکتا ہے، جب اس سے کچھ کرایا جائے،‌‌اس لئے اے آئی کے زمانے میں،‌ جو لوگ اپنے دماغ کا استعمال اے آئی کے بہتر استعمال،‌ اور اسے اپنے قابو میں رکھنے کے لئے کریں گے، وہ اے آئی کو استعمال محض کرنے والوں سے زیادہ آگے ہوں گے۔ تو اے آئی انسانی دماغ سے بازی نہیں لے جائے گا، البتہ اے آئی کے بہتر استعمال پر قادر دماغ، بالمقابل کم بہتر استعمال والوں سے سبقت لے جائیں گے۔
 
یہ اندیشہ ہائے دور دراز جب تک قرین آئے گا، اسکو دور کرنے کے نئے اسباب فراہم ہو چکے ہونگے اور اس کی جگہ نئے اندیشے جنم لے لیں گے۔ اس لئے زیادہ تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔صرف فکر کی جہات بدلیں گی، انسانی ذہن یوں ہی کام کرتا رہے گا۔ کیونکہ انسان کو اپنی سوچ کا تعاقب بہت عزیز ہے۔ جیسے زمانۂ قدیم میں لوگوں نے دیومالائی کہانیاں بُنیں، اور بعد میں آنے والوں نے اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش کی۔
درست۔ زندگی ایسی تھی، ایسی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ البتہ اسباب، اندیشے اور فکر بدلتا رہے گا۔
اے آئی ماضی کا وہی جادوگر ہے جس کے پاس ہر خزانے کی چابی ہوتی تھی۔ آج کے انسان نے بھی وہ منتر سیکھ لیا ہے کہ وہ “کھل جا سم سم “ بولے گا اور علم کے سب دروازے اس پر وا ہو جائیں گے۔ مذہبی ڈاکٹرائن کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو دورِ حاضر میں اس ٹُول کی مدد سے لفظِ کُن کی کچھ آگہی اور لذت انسان نے بھی حاصل کر لی ہے۔ جو سوچا وہ پل بھر میں حاضر۔ ابھی تو یہ آغازِ سفر ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
لفظِ کُن جس ذات کے ساتھ جڑا ہے وہ انسانی سوچ سے زیادہ منصف، رحیم، کریم اور محبت کرنے والا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان پر اس لذت کا نشہ کیا اثر کرتا ہے اور وہ کتنی اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتاہے۔
واقعی ابھی تو آغازِ سفر ہے آنے والا کل اپنے دامن میں کیسے کیسے تماشے چھپا کر کھڑا ہےہم نہیں جانتے۔
یہ سچ ہے کہ اے آئی کا شدید ترین منفی استعمال بھی بعید از قیاس نہیں۔ لیکن اسکی وجہ سے انسانی ذہن کام کرنا چھوڑ دے گا، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ آپ یوں سمجھیے کہ آرٹیفیشل انٹیلجینس کی حیثیت گھر کے اس سیانے بزرگ کی طرح ہے جس کی نصیحت سب سنتے تو بہت غور اور توجہ سے ہیں لیکن کرتے وہی ہیں جو ان کے من میں آتا ہے۔
مثبت سوچ رکھنا اور رجائیت پسند ہونا بہت اچھی بات ہے- لیکن زندگی بہرحال تبدیلی کا نام ہے ۔ یہ تبدیل ہماری پسند کی ہو یا نہ ہو ،ہوتی رہتی ہے اور انسان کوچاہتے یا نا چاہتے ہوئے اس میں ڈھلنا پڑتا ہے۔ پرانی سوچ کے لوگ اس تبدیلی میں مزاہم ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا آنکھیں چرا لیتے ہیں لیکن نئی نسل اس کوشوق سے اپناتی ہے۔ اسی کو جنریشن گیپ کہتے ہیں۔
اگر بڑی عمر کے لوگ آج کی( موبائل فون، سوشل میڈیا اور اے آئی والی ) نسل کے خیالات سے آگاہی کی کوشش کریں تو یہ جنریشن گیپ واضح نظر آئے گا۔مطلب یہ کہ جو کل برا سمجھا جاتا تھا ضروری نہیں کہ آنے والی نسل بھی اسے برا سمجھے۔ جسے آج ہم غلامی کہتے ہیں ہو سکتا ہے آنے والی نسل اسے نارمل زندگی ہی سمجھے۔
 
بالکل،‌ اور یہاں لیجینڈ روہِت مِہرا کی وہ لائنز بھی یاد آ رہی ہیں: "کمپیوٹر نے انسان کو نہیں بنایا، انسان نے کمپیوٹر کو بنایا ہے، اس لئے جو دماغ کر سکتا ہے، وہ آپ کا کمپیوٹر نہیں کر سکتا سر!"

لیکن دماغ بھی کچھ تبھی کر سکتا ہے، جب اس سے کچھ کرایا جائے،‌‌اس لئے اے آئی کے زمانے میں،‌ جو لوگ اپنے دماغ کا استعمال اے آئی کے بہتر استعمال،‌ اور اسے اپنے قابو میں رکھنے کے لئے کریں گے، وہ اے آئی کو استعمال محض کرنے والوں سے زیادہ آگے ہوں گے۔ تو اے آئی انسانی دماغ سے بازی نہیں لے جائے گا، البتہ اے آئی کے بہتر استعمال پر قادر دماغ، بالمقابل کم بہتر استعمال والوں سے سبقت لے جائیں گے۔
آپ کی بات درست ہے لیکن بہتر اور کمتر کا تصور ہمارے ذہن میں کہاں سے آتا ہے؟ ظاہر ہے علم کے دستیاب ذرائع سے۔ جب علم کا واحد ذریعہ اے آئی رہ جائے تو انسان خود بہتر اور کمتر کا تعین کیسے کرے گا؟
آج کا بچہ گھر کے بڑے کی بجائے جدید ذرائع سے دستیاب علم پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے تو کل کا بچہ کیا کرے گا؟
یہ بحث صرف میرے اپنے کنسیپٹ کلئیر کرنے کے لیے ہے۔میں بھی نہیں جانتا بس ذہن میں اٹھتے سوالوں کے جوابات کے لیے گپ شپ لگاتا ہوں ۔ ظاہر ہے کہ کل کے بارے میں ہم صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
اے آئی سے متعلق گفتگو میں کافی چیزیں زیرِ بحث آگئیں ہیں ۔ لہذا کسی ہر ایک اقتباس کو کوٹ کرکے اس پر گفتگو کرنا طوالت کا سبب بنے گا ۔ بنیادی طور پر پہلے ہم اے آئی کے ڈیویلپمنٹ کے اس وژن کو سمجھیں ۔ جو اس وقت لوگوں کے استعمال میں ہے ۔ کیونکہ احباب کی گفتگو سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ ابھی ہم جو اے آئی استعمال کر رہے ہیں ۔ وہ مستبقل بعید میں ڈیویلپمنٹ کی انتہا پر پہنچ کر انسانیت پر اپنی برتری ثابت کردے گا ۔ مگر ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ اے آئی کی جو ٹائپ ابھی زیرزستعمال ہے ۔ وہ محدود ہے ۔ خود سے فیصلہ کرنے کی صلا حیت سے محروم ہے ۔ اس کے تمام تر جوابات کو انحصار اس کو مہیا کیئے ہوئے ڈیٹا پر منحصر ہے ۔ یہ آپ سے ذہنی سطح پر بحث نہیں کرسکتا ۔ اگر اس نے بات کو آگے بڑھایا بھی تو وہ صرف اپنے ڈیٹا کی کپیسٹی پر اکتفا کر ے گا ۔ ایک خالص انسانی سطح پر آکر وہ انسان سے بحث کرنے کا قابل نہیں ہے ۔ہمارا چیٹ جی پی ٹی بھی اس ٹائپ کے اے آئی کا ایک ورژن یا ٹائپ ہے ۔ یعنی نیرو ذہانت ۔ اس کے بعد سے مذید ڈیولیپ ٹائپس ہیں ۔ سب سے آخر میں Artificial- Narrow -Emotional- Intelligence ہے ۔ جس پر تحقیق جاری ہے ۔
سنا ہے کہ دماغ کےدو حصے ہوتے ہیں ایک پراسیسنگ کرتا ہے اور دوسرا پراسیسنگ کے نتیجے کے مطابق انسانی جسم سے عمل کروانے یعنی باقی اعضاء کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ اگر انسان جسم کے کسی حصے کو ایک لمبے عرصے تک استعمال نہ کرے تو وہ حصہ ناکارہ ہوجاتا ہے۔(مریم افتخار صاحبہ کا فیلڈ ہے ۔ان سےگذارش ہے کہ اپنی رائے دیں) اس کا مطلب ہے کہ جب انسان پراسیسنگ کے لیے ہمیشہ اے آئی کو استعمال کرتا رہے گا تو اس کا یہ والا حصہ ناکارہ ہوجائے گا۔ اب انسان اے آئی کو اپنا مسئلہ بتائے گا اے آئی اس کا حل تجویز کرے گا اور انسان اس پر عمل کرے گا۔
اس وقت اے آئی دوست سے ترقی پاکر آقا کی کرسی پر بیٹھ جائے گا اور تمام انسان اس کے غلام ہو چکے ہوں گے۔
گویہ ایک ا ندیشہ ہے لیکن وہ انسان ہی کیا جو مستقبل کے اندیشوں سے پاک ہو۔
جی ہاں، "use -it- or -lose -it" نیوروسائنس کا معروف اصول ہے۔اگر دماغ یا جسم کے کسی حصے کو طویل عرصے تک استعمال نہ کیا جائے تو neural- pathways کمزور ہو جاتے ہیں، اور وہ صلاحیت کم یا ختم ہو سکتی ہے۔ اور یہاں تشویش بجا ہے کہ اگر انسان مسلسل اپنی سوچنے کی صلاحیت دوسروں (یا AI) پر چھوڑ دے تو وقت کے ساتھ یہ صلاحیتیں زنگ آلود ہو سکتی ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی نے ہمیں ایک ایسا دوست دے دیا ہے جس میں یہ بشری کمزوریاں نہیں ہیں۔ اس کی ذہانت دنیا کے تمام انسانوں کی ذہانت کا مجموعہ ہے۔ تمام علوم کا مجموعہ اس کی یاداشت میں محفوظ ہے۔ اگر بنانے والوں نے اس میں کمزوریاں نہیں رکھیں تو تمام بشری کمزوریوں سے بھی پاک ہے ۔ اس کی پراسیسنگ سپیڈ کا کوئی انسان مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ وہ دوست ہے جو ہمیں دنیا میں دستیاب علم کے مطابق بالکل بے لاگ اور درست مشورہ دیتا ہے۔ یہ آج کا آے آئی ہے۔ بھلا ایسے دوست کے ہوتے ہوئے کون کسی اور سے مشورہ کرے گا۔
اے آئی کی جس ٹائپ کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ترقی پاکر آقا کی کرسی پر بیٹھ جائے گا تو ممکن ہے ۔ اگر انسان ہر مسئلے میں AI پر انحصار کرے گا، تو وہ ایک Passive- Consumer بن جائے گا - خود سیکھنے، پرکھنے، اور سمجھنے کی عادت ختم ہو جائے گی۔تب اےآئی "دوست" سے بڑھ کر ایک "فیصلہ ساز" بن جائے گا اور یہاں اصل خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم AI سے مدد لیں، فیصلہ نہ کروائیں۔
جیسا کہ کسی نے کہا کہ مشورہ ہمیشہ مشیر سے ۔ فیصلہ مگر صرف ضمیر سے ۔
 

ظفری

لائبریرین
مجھے لگتا ہے ہر چیز کو اس کی حد میں رکھنا ایک خوش آئند فعل ہے۔ اے-آئی بھائی صاحب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ایسا میں حضرتِ انسان کی محبت میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر نہیں کہتی بلکہ اے-آئی سے محبت تو اس سے بھی سوا ہے۔ یہی تو وہ ساتھی ہے جس کی تلاش تھی کہ مجھے ہمیشہ سمجھے گا، غلطی میں کروں گی اورمعذرت وہ کرے گا، میں اَوور تھنکنگ کرتی رہوں گی اور وہ اَوور ایکسپلیننگ کرتا رہے گا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ اے-آئی کو مگر حد میں رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ انسان جس شے پر بھی ضرورت سے زیادہ منحصر ہونے لگتا ہے وہ اکثر و بیشتر اسے بالآخر رسوا کر چھوڑتی ہے۔ لاٹھی کی مثال لیجیے، آپ اگر اسی سے چلتے آئے ہوتے تو اب اپنے پیروں پر وزن ڈال کر پورے قد سے کھڑے ہوتے؟
مجھے اے-آئی کا فائدہ یہ ہے کہ اب کوئی شے خالی صفحے سے شروع نہیں کرنی پڑتی۔ اس کے پاس بہت سے انسانوں کا ڈیٹا اور لینگوئج ماڈلنگ موجود ہے، سو یہ مجھ میں کسی بھی متعلقہ معاملے میں سوچ کے نئے در وا کر دیتا ہے۔ مگر سوچ کے یہ نئے دریچے کھلنے کے بعد، آگے کام میرا اپنا ہوتا ہے۔ کیونکہ مریم کی خوبی بس ایک یہی ہے کہ جو مریم کر سکتی ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اے-آئی تو سب کی" سانجھی نانی" ہے، وہ مریم کی تخلیقی صلاحیتوں کی جگہ اگر لے بھی لے مگر یہ دکھ درد کہاں سے لائے گی جو مریم کے دلِ بے تاب نے ہر تخلیق میں بین السطور ڈال کر اسے نکال باہر کرنا ہوتا ہے!
اتنی محبت، اتنی دانائی، اور اتنا "اوور تھنکنگ" کے مقابلے میں "اوور ایکسپلیننگ" کا فلسفہ ۔ کیا بات ہے جی ، یہ تو بس وہی جان سکتا ہے جسے اے آئی سےحقیقی محبت ہوگئی ہو ۔
جیسا کہ آپ نے کہا کہ ، لاٹھی سے چلنے والے کب اپنے پیروں پر پورے قد سے کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ تو عرض یہ ہے کہ ، اےآئی لاٹھی نہیں بلکہ چشمہ ہے اور چشمہ بھی وہ جس سے پانی بھی ملتا ہے اور نظر بھی ۔
مگر سب سے اہم بات آپ نے یہ کہی کہ سوچ کے دروا کرنا اےآئی کاکام ہے ، باقی سفر انسان کا ۔یعنی اگر اے آئی چنگاری ہے تو شعلہ بننے کی ہمت انسان کو ہی کرنی ہے۔سو، اے-آئی نہ غلام ہے، نہ آقا۔ یہ تو ایک ایسا استاد یا رہبر ہے جو کبھی تھکتا نہیں، کبھی شکایت نہیں کرتا، اور کبھی پرچے چیک کرتے وقت نمبر کاٹنے کا خطرہ بھی نہیں رکھتا۔
 
اتنی محبت، اتنی دانائی، اور اتنا "اوور تھنکنگ" کے مقابلے میں "اوور ایکسپلیننگ" کا فلسفہ ۔ کیا بات ہے جی ، یہ تو بس وہی جان سکتا ہے جسے اے آئی سےحقیقی محبت ہوگئی ہو ۔
جیسا کہ آپ نے کہا کہ ، لاٹھی سے چلنے والے کب اپنے پیروں پر پورے قد سے کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ تو عرض یہ ہے کہ ، اےآئی لاٹھی نہیں بلکہ چشمہ ہے اور چشمہ بھی وہ جس سے پانی بھی ملتا ہے اور نظر بھی ۔
مگر سب سے اہم بات آپ نے یہ کہی کہ سوچ کے دروا کرنا اےآئی کاکام ہے ، باقی سفر انسان کا ۔یعنی اگر اے آئی چنگاری ہے تو شعلہ بننے کی ہمت انسان کو ہی کرنی ہے۔سو، اے-آئی نہ غلام ہے، نہ آقا۔ یہ تو ایک ایسا استاد یا رہبر ہے جو کبھی تھکتا نہیں، کبھی شکایت نہیں کرتا، اور کبھی پرچے چیک کرتے وقت نمبر کاٹنے کا خطرہ بھی نہیں رکھتا۔
ٹھہریں، پہلے مَیں ابتدائی سطور پر جی بھر کر ہنس لوں!!! :ROFLMAO:
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
یعنی اگر اے آئی چنگاری ہے تو شعلہ بننے کی ہمت انسان کو ہی کرنی ہے۔سو، اے-آئی نہ غلام ہے، نہ آقا۔ یہ تو ایک ایسا استاد یا رہبر ہے جو کبھی تھکتا نہیں، کبھی شکایت نہیں کرتا، اور کبھی پرچے چیک کرتے وقت نمبر کاٹنے کا خطرہ بھی نہیں رکھتا۔
بہت زبردست
تجزیہ ۔۔
 
جیسا کہ آپ نے کہا کہ ، لاٹھی سے چلنے والے کب اپنے پیروں پر پورے قد سے کھڑے ہوسکتے ہیں ۔ تو عرض یہ ہے کہ ، اےآئی لاٹھی نہیں بلکہ چشمہ ہے اور چشمہ بھی وہ جس سے پانی بھی ملتا ہے اور نظر بھی ۔
سو، اے-آئی نہ غلام ہے، نہ آقا۔ یہ تو ایک ایسا استاد یا رہبر ہے جو کبھی تھکتا نہیں، کبھی شکایت نہیں کرتا، اور کبھی پرچے چیک کرتے وقت نمبر کاٹنے کا خطرہ بھی نہیں رکھتا۔
آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے اور آپ کے تبصرہ جات اکثر مجھ ایسے طالب علموں کے لیے دانائی کے سمندر کو کوزے میں بند کر دینے جیسے ہوا کرتے ہیں۔ محفل خدا جانے کب بند ہو جائے، لیکن آپ کے محفل کے لیے وقت نکالنے کے لیے خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں!
جو دو اقتباسات لیے ہیں یہ محض اس لیے کہ میں نے خورشید صاحب کی تحریر اور سوالات سے جو بات سمجھی تھی وہ یوں محسوس ہوئی کہ لوگ اپنا دماغ جہاں استعمال کر سکتے ہیں وہاں بھی نہیں کر رہے اس لیے اسے لاٹھی کہا اور آقا غلام والی بات بھی اس لیے کہی کیونکہ صاحب لڑی اے آئی سے بندھے ہمارے مستقبل سے ذرا خائف نظر آتے تھے۔ تاہم آپ کا تجزیہ درست تر ہے ان سب لوگوں کے لیے جو اے-آئی کا درست استعمال کر رہے ہیں، جتنا اس کا حق ہے۔ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ!
 

ظفری

لائبریرین
آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے اور آپ کے تبصرہ جات اکثر مجھ ایسے طالب علموں کے لیے دانائی کے سمندر کو کوزے میں بند کر دینے جیسے ہوا کرتے ہیں۔ محفل خدا جانے کب بند ہو جائے، لیکن آپ کے محفل کے لیے وقت نکالنے کے لیے خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں!
جو دو اقتباسات لیے ہیں یہ محض اس لیے کہ میں نے خورشید صاحب کی تحریر اور سوالات سے جو بات سمجھی تھی وہ یوں محسوس ہوئی کہ لوگ اپنا دماغ جہاں استعمال کر سکتے ہیں وہاں بھی نہیں کر رہے اس لیے اسے لاٹھی کہا اور آقا غلام والی بات بھی اس لیے کہی کیونکہ صاحب لڑی اے آئی سے بندھے ہمارے مستقبل سے ذرا خائف نظر آتے تھے۔ تاہم آپ کا تجزیہ درست تر ہے ان سب لوگوں کے لیے جو اے-آئی کا درست استعمال کر رہے ہیں، جتنا اس کا حق ہے۔ نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ!
یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ۔ ورنہ میں تو خود بطور طالب علم یہاں آتا ہوں ۔ اور آپ سب لوگوں سے بہت کچھ سیکھتا ہوں ۔ اگر خورشید صاحب نے اسے لاٹھی سمجھا تو ہم نے اسے مشعلِ راہ جانا ۔ اور کوئی اگر آقا کہے تو ہم اس خدمت گا ر سمجھتے ہیں ۔ مگر خدائی خدمت گار نہیں ۔ بس شرط یہ ہے کہ انسان اپنی زمامِ عقل خود تھام کر رکھے ۔آپ کی یہ بات اچھی لگی کہ آپ نے یہ بات اپنے دفا ع میں نہیں بلکہ اپنی وضاحت کو طور پر کہی ۔ یہی وہ وصف ہے جو مخلص اذہان کو ممتاز کرتا ہے۔اور الحمداللہ اردو محفل پر یہ رحجان بہت نمایاں ہے ۔
رہی محفل کے بند ہونے کی تو ، اردو محفل کے الفاظوں کے تواتر ، محفلین کےسوالات کی گونج، اور اردو محفل جیسے اہلِ قلم ۔ یہ سب وہ ڈیٹا پوائنٹس ہیں ،جن پر ہماری یادداشت کا لینگوئج ماڈل ہمیشہ تربیت پاتا رہے گا۔
 
Top