ایک ہی نقطے نے ہمیں محرم سے مجرم بنا دیا

جب میں میٹرک میں تھا تو بھاٹی گیٹ چوک کی مشہور حلیم کی دوکان کا اشتہار اندرون شہر کی گلیوں میں چسپاں کیا گیا۔۔ دکان کا نام تھا حاجی مرغ حلیم۔۔لیکن کاتب نے اشتہار میں اپنی خوشخطی کے جوہر دکھاتے ہوئے بڑے سٹائل سے لکھا چنانچہ لفظ حاجی کا حا بہت بڑا تھا اور اسکے اوپر جی لکھا ہوا تھا۔۔۔اور میں کافی حیران ہوکر اسے پڑھتا تھا کہ جملہ مکمل کیوں نہیں ہے یعنی جی ہاں مرغ حلیم۔۔۔آگے بھی تو کچھ ہونا چاہئیے تھا ناں مطلب واضح کرنے کیلئے ۔یعنی جی ہاں۔۔۔آپ بھی کھائیے مرغ حلیم (اوہ سوری میرا مطلب ہے دلیم) :D
 
جب ہم ڈپلومہ کر رہے تھے تو فرسٹ ائر کے امتحانات کے بعد Viva voceکے مرحلے میں ایک دن فونڈری ٹیکنالوجی اور پیٹرن میکنگ کا vivaتھا۔پریکٹیکل کی نوٹ بک بھی چیک کی جانی تھی۔ میرے ایک کلاس فیلو (جسے ہم بُورے والا کہتے تھے کیونکہ اسکا تعلق بوریوالہ سے تھا) کی پریکٹیکل بک مکمل نہیں تھی چنانچہ اس نے مجھ سے میری بک لیکر کچھ اسباق نقل کرلئیے اور جب امتحان میں استاد نے اس سے (یعنی بورے والا) سے پوچھا کہ یہ کیا ہے اور اشارہ کنیکٹنگ راڈ کی تصویر کی طرف کیا تو موصوف نے کہا ۔۔۔کن کٹنگ راڈ۔۔۔یعنی کان کو کاٹنے والا راڈ۔۔۔استاد کو اسکے معصومانہ انداز پہ بہت ہنسی آئی اور پاس کردیا۔:D
 

شمشاد

لائبریرین
میں بھی پہلے پہل سینڈ وچ کو سینڈو چ یعنی سینڈو الگ اور چ الگ پڑھتا تھا، وہ تو جب انگریزی میں پڑھا تو معلوم ہوا کہ سینڈ وچ ہے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
میں نے حافظ آباد میں کھیت کے کنارے بورڈلکھا دیکھا جو محمکمہ زراعت کی طرف سے تھا محکمہ کا نام کافی چھوٹا لکھا تو اوربڑے فونٹ میں
ترمیم شدہ کھال
میں نےاسے اُردو والی کھال پڑھا اور سمجھا اور کافی حیران ہوا :) جبکہ یہ پنجابی والی کھال تھی جو کھیتوں کے ساتھ پانی کے لیے بنائی جاتی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
بچپن میں کبھی ٹی وی پر چلتا یا اخبار پر خبر کہ فلاں "بستہ الف" یا "بستہ ب" کا بدمعاش ہے تو بڑی حیرت ہوتی تھی کہ بستہ تو لے کر سکول جاتے ہیں۔ ان سے کون سی بدمعاشی بھلا سرزد ہو سکتی ہے؟
 
میرے ماموں کا بیٹا جب نیا نیا اسکول جانے لگا تو کبھی کبھی ہمارے گھر آکر بھی سبق پڑھتا۔ اردو کا ابتدائی قاعدہ پڑھ رہا تھا اور کتاب میں چ سے چمچہ لکھا ہوا تھا اور ساتھ میں چمچے کی تصویر بھی بنی ہوئی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ کہو چ سےچمچہ۔۔اس نے کہا چ سے چمچے۔۔جب دو تین مرتبہ اس نے چمچے ہی پڑھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیوں بھی چمچہ کیوں نہیں کہتے تو کہنے لگا۔۔۔یہ ایک چمچہ نہیں ہے یہ دو ہیں۔۔۔میں نے جو تصویر کو غور سے دیکھا تو چمچے کی تصویر کے ساتھ مصور نے اسکا سایہ بھی تصویر میں بنایا ہوا تھا۔۔چنانچہ چ سے چمچے:D
 

زبیر مرزا

محفلین
ہماری پھوپھی زاد بہن پنجابی لہجے اپنا سبق یوں یاد کرتی نظرآئیں ایک بار
خلیفہ ہارون رشید رات کو شہر میں گوشت کرتا تھا
یہ گشت لکھا ہوا تھا جسے وہ روانی میں گوشت پڑھ رہی تھی
 

محمدعمر

محفلین
بچپن میں کبھی ٹی وی پر چلتا یا اخبار پر خبر کہ فلاں "بستہ الف" یا "بستہ ب" کا بدمعاش ہے تو بڑی حیرت ہوتی تھی کہ بستہ تو لے کر سکول جاتے ہیں۔ ان سے کون سی بدمعاشی بھلا سرزد ہو سکتی ہے؟
ایک راز کی بات بتاؤں کسی کو بتانا نہیں مجھے ابھی بھی سمجھ نہیں آئی بستہ الف، بستہ ب؟
 
نبیل بھائی (کے پیغام) کی "خباثت" اور ساجد بھائی کی "--برداشت-" کے بعد تو کچھ بھی شریک کرنا محض خانہ پری ہے سو کر رہے ہیں۔ :) :) :)

کچھ سال قبل تک ہمارے گاؤں و اطراف میں جاڑوں میں الاؤ کے اطراف یا گرمیوں میں مکانوں کی چھتوں پر رات اکثر چھوٹے پیمانے پر محفل جما کرتی تھی۔ ایسی ہی ایک محفل میں ایک لڑکے کو شاہنامہ جنگ اسلام کے کچھ اشعار پڑھ کر سنانے کو کہا گیا۔ اس کا ایک مصرعہ تھا "بغلگیر ہو کر ملا اور کہا" کتابت میں اشعار کی طوالت یکساں رکھنے کی غرض سے "ملا" میں تطویل شامل کی گئی تھی۔ تو موصوف نے اسے کچھ یوں پڑھا، "بغلگیر ہو کا مسلا اور کہا" :) :) :)

ہم خود ایک عرصہ تک ابن صفی مرحوم کی ناولوں میں کہیں کسی کے "نَروَس" ہونے کا لکھا دیکھتے تو اس کو نِروس بر وزن ٹھٹھول پڑھتے (اور اس لفظ کے معنی بھی بس سیاق و سباق سے کچھ سمجھ بیٹھے تھے۔)= خیر گاؤں سے انگریزی حروف تہجی پڑھ کر جب شہروں کی طرف کوچ کیا اور انگریزی کے الفاظ جوڑ کر پڑھنا سیکھا تو کہیں سے ایک لفظ Nervous سامنے آیا تب سارا عقدہ کھلا۔ :) :) :)

ویسے سری ادب کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کو پڑھ کر سنانا نہ پڑے تو الفاظ کی ادائیگی یاد کرنے کے بجائے ان کی شکل محفوظ کر لی جائے اور جہاں جہاں کسی تحریر میں نظروں سے ایسے الفاظ گزریں ان کی جگہ دل ہی دل میں "وہی لفظ" اور "دوسرا والا وہی لفظ" وغیرہ کہہ کر کام چلایا جا سکتا ہے۔ :) :) :)
 

تلمیذ

لائبریرین
لاہور میں ایک جگہ ہے 'پکی ٹھٹھی' (پ اور ٹھ دونوں پر زبر)۔ مجھے یاد ہےکئی سال پہلے ّغالباً ستر کی دہائی کی بات ہے ، ہم آرٹس کونسل میں ایک ڈرامہ دیکھ رہے تھے جو غالباً اطہر شاہ خان کا تحریر کردہ تھا۔ اس میں مزاح کی ایک بہت اچھی سچوایشن پیدا کی گئی تھی۔ وہ ایسے کہ ایک فنکار ہاتھ میں ایک ڈاک کا لفافہ پکڑےاس پر درج پتے کو پڑھتا ہوا آتا ہے اور اس لفظ کو پُکی ٹھِٹھی (پ پر پیش اور ٹھ کے نیچے زیر) پڑھتا ہے، دوسرا اس کی تصحیح یوں کرتا ہے کہ احمق! یہ لفظ پُکی ٹھِٹھی نہیں بلکہ پکی ٹھٹی (پ کے نیچے زیر اور ٹھ کے اوپر پیش) ہے۔ یقین کریں کہ غلط تلفظ پر مشتمل ان کے اس مختصر مکالمے سے ہال کشت زعفران بن گیا اور ناظرین ان کے انداز ادائیگی پر دیر تک ہنستے رہے۔
 

احمد بلال

محفلین
واہ۔ اچھی تفریح ہے۔ آج کافی دنوں بعد محفل میں آیا ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا دیکھوں یا کیا پڑھوں سوچا چائے خانے میں آ کے ایک چسکیاں ہم بھی لگا لیں۔ حآضری بھی ہو جائے گی اور دل بھی بہل جائے گا۔
 
Top