اقتباسات ایک کہانی بہت پرانی: بنوں اور افغان سرحد مطبوعہ 1876سے ایک اقتباس

سید زبیر

محفلین
پچھلے دنوں ایک کتاب کا ترجمہ نظر سے گزرا، ایک کہانی پسند آئی،محفلین کی نذر ہے ، کہانی طویل ضرور ہے اگر 1876 کے بنوں کے تناظر میں پڑھیں گے تو لطف اندوز ہونگے
بنوں اور افغان سرحد مطبوعہ 1876سے ایک اقتباس
تحریر : برطانوی سول سرونٹ ایس ایس تھوربرن
ترجمہ :حسنین فلک
ایک عیار ٹھگ
ا یک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے، بڑے شہر کے شور اور رش سے دور۔ بڑا بھائی ہشیار اور چالاک جوان تھا اس کا نام ٹگا خان تھا؛ اور چھوٹا بے وقوف۔ ایک دن ٹگا خان نے اپنے بھائی کو ایک بکری دی اور کہا کہ اسے بازار لے جائے۔ لہذا ، فخر محسوس کرتے ہوئے کہ اتنا بڑا منصوبہ اسے سونپا گیا ہے۔
وہ بکری کو اپنے آگے آگے لیے جارہا تھا، وہ چار یا پانچ میل گیا ہوگا تب اسے ایک دیہاتی ملا ۔اُس نے اس سے کہا کہ کہاں جارہے ہو اتنے بد نصیب کتے کے ساتھ، لیکن اس نے غصہ سے جواب دیا،’’ اوئے بیوقوف، یہ کتا نہیں بلکہ دودھ دینے والی بکری ہے‘‘۔تھوڑی دور جاکر وہ ایک اور کسان سے ملا اور وہی سوال پوچھا جو کہ پہلے والے نے پوچھا تھا اور اسی طرح جواب دیا جس طرح پہلے کو جواب دیا تھا۔ لیکن اس بار قدرے سنجیدگی سے۔ دوبارہ تھوڑے ہی فاصلے پر وہ ایک اور علاقہ کے باسی سے ملا جس نے وہی سوال پوچھا اور اس بار اس نے تھوڑا سا مشکوک ہوکر جواب دیا،’’ جناب یہ بکری ہے، اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ کتا نہیں ہے۔‘‘ اور آگے چلا گیا، اور ہرآدھے میل پر اسے اسی طرح روکا گیا۔ یہاں تک کہ وہ بیچارہ اس بات پر آمادہ ہوگیا کہ یہ ایک کتا ہے اور اسے وہیں چھوڑ دیا۔پھر وہ گھرلوٹا اور اپنے بھائی پر غصہ ہوا کہ اس طرح کا دھوکا دوبارہ اس سے نہ کرے۔
اب یہ لوگ جنہوں نے اس بیوقوف کو چھیڑا تھا، چھ بھائی تھے اور دغابازوں کا ایک مکمل گروہ تھا۔ وہ بکری حاصل کرکے خوشی خوشی گھر گئے اسے ذبح کرکے اس کی دعوت کھائی۔
ٹگا خان کو سمجھ آگئی کہ اس کے بھائی کو مجبور کیا گیا ہے اور بحیثیت طاقت و قوت والے انسان ہونے کہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کا بدلہ بھی لے گا اور سود بھی وصول کریگا۔اگلے دن وہ ایک بیمارگدھے پر سوار ہوکر بازار کی طرف روانہ ہوا اور اس گدھے کو ایسا سجایا ہوا تھا جیسے ایرانی جنگی گھوڑا۔اسی گروہ سے وہ ایک ایک کر کے ملا جنہوں نے ان سے پوچھا کہ کیوں وہ اتنے بوڑھے گدھے پر بیٹھاہے، لیکن وہ ہر ایک کو یہ جواب دیتا رہا ،’’ کہ یہ گدھا نہیں بلکہ ایک’ بوچکی‘ ہے‘‘۔
بغیر جانے کہ بوچکی کیا چیز ہوتی ہے، چھٹے بھائی نے پوچھا اور اس نے جواب دیا،’’ جناب، یہ ایک ایسا جانور ہے جو کہ ایک سو سال تک زندہ رہتا ہے اور ہر صبح ایک ڈھیلہ سونا گوبر میں نکالتا ہے۔‘‘
اب ٹگا خان نے ایسا منصوبہ بنایا تھا جس سے وہ رات تک قصبہ نہیں پہنچ سکے گا؛ اور جب آخری سوال کنندہ نے اس سے کہا کہ وہ رات ان کے گھر میں گزار لے، اور اس نے ایسا ہی کیا۔ صبح سویرے وہ آگے اپنے گدھے پر زین باندھنے کے لیے آیا اور جب اس کو محسوس ہوا کہ ابھی گوبر دیگا، اس گوبر کو اٹھایا جیسے یہ روزانہ کا حال ہو، اور سونے کا ڈھیلہ وہاں رکھا۔ وہ بھائی چپکے سے اسے دیکھ رہے تھے جیسے ٹگا خان نے توقع کی تھی۔ اس کے بازار سے گھر واپسی کے کچھ دن بعد دغابازوں کا وہ گروہ اس کے گھر آیا اور اس سے کہا کہ وہ حیران کن بوچکی اسے پانچ سو روپے میں بیچ دے۔ ٹگا خان نے بغیر کسی ناراضگی کے تھوڑی بہت اتار چڑھاؤ کے بعدپیشکس قبول کرلی۔جب دھوکے باز چلے گئے اس نے اپنی بیوی سے کہا کچھ دنوں بعد جب ان کو پتہ چلے گا کہ یہ گدھا ایک ڈھیلہ سونے کا نہیں دیتا تویہ دوبارہ واپس آئیں گے۔ جب وہ آئے تو کہنا کہ میں کچھ فاصلے پر گیا ہوں اور پھر اپنے دو کالے خرگوشوں کو مجھے بلانے کے لیے چھوڑ دینا۔‘‘ اب بیوی ایک سمجھدار عورت تھی اور اگرچہ اسے اپنے شوہر کی سازباز کا پتہ نہیں تھا لیکن وعدہ کیا کہ وہی کریگی جو ہدایات ملیں ہیں۔
ایک یا دو دن بعد، جب وہ گروہ گھرآئے، ٹگا خان خاموشی سے باہر نکل گیا اور اپنے ساتھ اپنے دو خرگوش لے گیا۔ اندر داخل ہوتے وقت اس گروہ میں سے ایک بھائی نے کہا کہ،’’ تمہارا شوہر کہاں ہے؟‘‘
اور اس نے جواب دیا،’’ وہ آج صبح مچھلی پکڑنے باہر گیا ہے میں کسی قاصد کو بھیجتی ہوں۔‘‘ لہذا اس نے ایک خرگوش کو باہر کی طرف چھوڑا اور اس سے یہ کہا ،’’ جلدی بھاگو اور میرے شوہر کو بلا لاؤ‘‘۔
ایک گھنٹے بعد ٹگا خان خرگوش کے ساتھ اندر آیا جسے وہ اپنے ساتھ بغل میں لے گیا تھا۔
’’ کیا خرگوش نے تمہیں بلایا ہے؟‘‘ گروہ میں سے ایک نے پوچھا
’’ جی ہاں، بالکل‘‘ ٹگا خان نے جواب دیا
اور آپس میں کھسر پھسر کرنے کے بعد سب سے بڑے بھائی نے پانچ سو روپے اس خرگوش کے عوض دینے کی پیش کش کی جس پر ٹگا خان راضی ہوگیا۔ پس پیسے دینے کے بعد وہ انعام کے ساتھ گھر روانہ ہوگئے۔
جب وہ چلے گئے تب ٹگا خان نے اپنی بیوی کو کہا،’’ وہ ایک یا دودن میں دوبارہ واپس آئیں گے، جب انہیں پتہ چلے گا کہ خرگوش واپس نہیں آتا اور جب وہ اسے چھوڑ دیں گے۔ میں بکری کے بچہ کو مار دونگا اور میں انہیں اس بات کا یقین دلا دونگا کہ میں نے تمہارا گلا کاٹا ہے اور پھر تمہیں زندہ کردونگا۔‘‘ پھر اس نے اپنی چھڑی اٹھائی اور اسے پردائروں میں سرخ اور سبز رنگ دیا۔
کچھ دنوں بعد جب گروہ گھر کی طرف پیش قدمی کرہا تھا، ٹگا خان نے بکری کا ایک بچہ ذبح کردیا اور اپنی بیوی کو ہدایات دیں کہ کیا کرنا ہے۔ داخل ہوتے ہی انہوں نے ٹگا خان کو گالیاں دینا شروع کیں کہ اس نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔ ٹگا خان نے اس شرط پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ اسے اس کی بوچکی اور خرگوش واپس کردیں گے اور جیسے ہی تنازعہ گرم ہوا اس نے اپنی بیوی کو آواز دی کہ اس کی’چلم ‘(حقہ)دیدے۔ اس نے نہ آواز دی اور نہ چلم دیا جس پر ٹگا خان اٹھا اور اور اسکی ماں، اس کی دادی اور اس کے سارے زنانہ رشتہ داروں کو گالیاں دینا شروع کردیں اور ساتھ والے کمرے میں بھاگ کے اندر گیا۔’’واخ !! واخ !! واخ!!‘‘ کی آوازیں پورے گھر میں گونجنے لگیں،’’چیخ! چیخ!چیخ!‘‘ کی آوازیں اس عورت کے منہ سے نکلنے لگیں۔ ایک لمحہ بعد ٹگا خان اس کمرے میں آیا جہاں وہ گروہ بیٹھا تھا، اس کے ہاتھ میں خون سے رنگا ہوا چاقو تھا اور اپنی بیوی کو گھسیٹتے ہوئے لارہا تھا جس کا چہرا اور گردن خون سے رنگا ہوا تھا۔ وہ زمین پر کراہتی ہوئی گر گئی، اس کے ظالم شوہر نے نفرت سے کہا کہ،’’منحوس، میں نے پچھلے جمعہ کو تمہارا گلہ کاٹا تھا اور میں نے اب پھر ایساکیا۔ اس بار اتنی جلدی میں تمہیں زندگی میں واپس نہیں لاؤنگا۔‘‘
وہ چھ بھائی خوف سے پتھر بن چکے تھے اور ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ وہ اس طرح کچھ منٹوں تک رہے، ایک کونے میں بزدل اور ڈرے ہوئے بیٹھے تھے۔ بیوی ایک لاش کی زمین پر پڑی ہوئی تھی اور اس کا شوہر ایک جنونی قاتل کی طرح اس پر کھڑا تھا، قسمیں کھاتا، بھوں بھوں کرتا جبکہ وہ چھری اپنی داڑھی سے صاف کررہا تھا۔ جلد ہی اس کے آنسوٹپکنے لگے تب وہ زیر لب کہنے لگا،’’ میری بیچاری گلی جان، تم میری ایک اچھی بیوی ہو،‘‘ اس نے ایک کونے سے ایک چھڑی اٹھائی جس کو اس نے اس موقع کے لیے سبز اور سرخ رنگ دیا تھا، اور اپنے ہاتھ سے باندھ کر اپنے ساتھ کہنے لگا، ’’ بسم اللہ‘‘ اور اپنی بیوی کے گلے پر آگے پیچھے پھیرا جس پر اس کی بیوی ہلنے لگی اور اٹھ گئی۔
بھائیوں نے آپس میں کھس پھس کی کی یقینی طور پر اب اس میں کوئی دھوکہ یا چال نہیں تھی، اور ان میں سے ایک بولا،’’ جو ہو گیا اسے جانے دو، ہم آپ کو اس چھڑی کے عوض پانچ سو روپے دیتے ہیں۔‘‘ ٹگا خان راضی ہوگیا اور وہ چھ بھائی نہایت خوشی خوشی سے روانہ ہوئے۔ جب وہ گھر پہنچے انہوں نے دیکھا کہ انکی ماں نے ابھی تک کھانا نہیں بنایا تھا، اور ان میں سے ایک نے جوش میں آکر اس کا گلا کاٹ دیا۔ لیکن افسوس!! اس رنگدار چھڑی میں کوئی طاقت نہیں تھی اور وہ بوڑھی عورت کبھی دوبارہ زندہ نہ ہوئی۔
جو کچھ ہوا تھا اس خوف کے مارے، اور یہ بھی جانتے ہوئے کہ بادشاہ اس کہانی پر کبھی یقین نہیں کریگا، وہ الگ الگ اطراف میں فرار ہوگئے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے۔ اور ٹگا خان اپنے پندرہ سو روپے کی کمائی کا مالک بن کر رہ گیا۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب آگہی بھری شراکت
بہت شکریہ بہت دعائیں
قریب چالیس پہلے یہ کہانی کچھ ردوبدل کے ساتھ والد مرحوم نے اس نصیحت کے ساتھ سنائی تھی کہ
کبھی کسی کی باتوں میں نہ آنا ہمیشہ اپنے دل و دماغ کی کسوٹی پر پرکھنا پھر فیصلہ کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
حسب معمول شاندار شراکت
اللہ آپ کو بہت سی سعادتیں عطا فرمائے آمین
آجکل بہت کم آ رہے ہیں خیر تو ہے نا؟
گرامی قدر ! 15 نومبر کو میری ساٹھویں سالگرہ تھی جس کے ساتھ ہی اسلامی یونیورسٹی سے میری ملازمت ختم ہوگئی اور اب یہ اللہ کا بندہ حصول روزگار کے لیے سرگرداں ہے ۔ دعاوں کی ضرورت ہے کہ رب کریم رزق حلال کے دروازے وا کردے (آمین)
 

سید زبیر

محفلین
زبیر بھائی بہت شکریہ۔ آپ نے تو پیاس بڑھا دی۔
باقی کی کتاب کہاں ملے گی؟
شمشاد بھائی ! حوصلہ افزائی کا ایسے شکریہ ادا کرہا ہوں کہ ایک اور اقتباس شریک محفل کر رہا ہوں ۔ کتاب ابھی ترجمے کے مراحل میں ہے اللہ نے زندگی دی تو اشاعت کے بعد آپ کے نذر کروں گا ۔بہت دلچسپ کتاب ہے ، بنوں ، وزیرستان ، مروت ، ڈیرہ اسماعیل خان کی تہذیب و روایات کی ایک تاریخ ہے ۔ گاہے گاہے اقتباس شریک محفل کرتا رہوں گا ۔ دعاوں کا محتاج ہوں
 

سید زبیر

محفلین
ایک اور اقتباس ، اسے دیکھیں کہ آج سے ڈیڑھ سو سال قبل ایک انگریز بنوں جیسے دور دراز علاقے کی روایات ، تعلیمات میں کتنی دلچسپی لیتا تھا ۔

’’ ایک جمعہ جب شیر دل اپنے باپ کے ساتھ بازار جارہا تھا، اپنے باپ سے پوچھا کہ جمعہ کا دن بطور چھٹی کیوں منایا جاتا ہے مگر اس کے باپ نے اسے ملا کی طرف بھیج دیا اور اس نے اپنے بوڑھے استاد سے پوچھا جس نے بتایا کہ ’’ یہ ہمارے لیے ویسا ہی ہے جیسے صاحب لوگوں کے لیے ان کا اتوار، ایک مقدس دن، کیونکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں خدا نے اس دن دنیا بنانے کے بعد آرام کیا تھا۔ یہ باقی تمام دنوں کی طرح شروع ہوتا ہے لیکن جو کوئی بھی غروب آفتاب سے دو گھنٹے پہلے فوت ہوجائے اس کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے کیونکہ منکر اور نکیر چند سوالات ہی پوچھتے ہیں۔ اور جمعہ کی شام(یہ ہماری جمعرات کی شام ہے) کو گزرے ہوئے لوگوں کی روحیں اپنے گھروں کی سیر کو آتی ہیں۔تمہاری ماں ہمیشہ ان کے لیے ان کی پسند کا کھانا بناتی ہیں اور رات ہونے سے پہلے مسجد بھیج دیتی ہیں کیونکہ ٹھیک یہی ہے کہ روحیں رات ہونے سے پہلے ہی اپنے مزاروں میں واپس چلی جائیں۔

اب مجھے تمام بزرگوں کے دنوں اور تہواروں کے بارے میں بتاؤ‘‘ شیر دل نے نہ بجھنے والی پیاس سے پوچھا۔’’تو سنو‘‘ ملّا نے کہا۔’’ رمضان ہمارے کیلنڈر میں نواں چاند ہے جس میں تمام مسلمان طلوع افتاب سے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں۔پانی تک نہیں پیا جاتا۔ایک مہینہ تک روزہ رکھنے سے انسان تمام گناہوں سے صاف ہوجاتا ہے۔جب دسویں ماہ کا نیا چاند ظاہر ہوتا ہے تب رمضان مکمل ہوجاتا ہے اور اس دن کو ہم ’عید الفطر‘ یا چھوٹی عید(کم اختر) کہتے ہیں۔ اس دن ہر یک خوشحال ہوتا ہے اور اپنا بہترین لباس پہنتا ہے اور اعلیٰ کھانا کھاتا ہے۔ صبح کی نماز کے بعد لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں کیونکہ ہر ایک کا دل اس خوشی اور اطمینان سے چمک رہاہوتا ہے کہ اس نے ایک لمبا رمضان کامیابی سے پورا کرلیا۔ہماری بڑی عید( ستر اختر) جسے عید قرباں کہا جاتا ہے ستر دن بعد آتی ہے، بارہویں چاند کے دسویں دن کو۔ اس دن کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام 1(حاشیہ نمبر ۱:مسلمان کہتے ہیں کہ یہ اسماعیل علیہ السلام تھے، اسحاق علیہ السلام نہیں ۔)کو قربان کرنے کے واقعہ کو یاد کیا جاتا ہے جب خدا نے اس کے ہاتھ کو روکا اوراس کی جگہ ایک دنبہ کو قبول کرلیا۔اس طرح ہر خاندان کوکوئی جانور قربان کرنا ہوگا۔کوئی دنبہ یا بکری یا کوئی پرندہ۔ جو بہت غریب ہوتے ہیں ملکر ایک جانور خریدتے ہیں اس کو اس مقصد کے لیے پال کر موٹا کرتے ہیں ۔قربانی کا تیسرا حصہ غریبوں میں تقسیم کرلیا جاتا ہے ۔ مرد اپنا دن زندہ دلی، نشانہ بازی، دوڑ اور تلوار بازی میں لگا لیتے ہیں لیکن عورتیں ایک گروہ بنا کر کسی مقدس مزار پہ جاتی ہیں جہاں وہ رقص اور نغمہ سے مذہب اورلذت دونوں حاصل کرلیتی ہیں۔

تم جانتے ہوں ہمارا پہلا مہینہ محرّم کہلاتا ہے۔ اس کا دسواں دن عاشورہ کہلاتا ہے۔ اس دن الگ سالوں پہ حسینؓ اور حسنؓ، علیؓ ،جو کہ فاطمہؓ کے شوہر تھے،کے بیٹے اور وہ ہمارے پیغمبر کی بیٹی تھیں، ان کو یزید نے قتل کیا تھا۔ شیعہ اس دن کوماتم کرتے ہیں لیکن ہم سنی اسے عاجزی ،عبادت اور خیرات کرنے میں مناتے ہیں۔ اس دن لوگ اپنے رشتہ داروں کی قبروں پہ جاتے ہیں ان پہ پانی چھڑکتے ہیں اور ان پر ہموار پتھر لگاتے ہیں اس طرح بروز قیامت جب فرشتے خدا کی موجودگی میں ترازو تھامے ہونگے اور ہر انسان کے اچھے اور برے اعمال کا حساب ہوگا تب ہر پتھر اچھے اعمال کی جانب رکھا جاےئگا۔ آخر میں عاشورہ کے دن تمہاری بہن اور تمام لڑکیاں گاؤں میں باہر آتی ہیں اور ساری رات سوگ مناتی ہیں یہ ایک رواج ہے لیکن یہ صحیح نہیں اور مجھے امید ہے یہ بہت جلد ختم ہوجائے گا کیونکہ یہ شیعہ لوگوں کا وطیرہ ہے ۔جو دن میں نے تمہیں بتائے ہیں ان سے مختلف ایک بزرگ کا دن بھی آتا ہے جسے میں بتانا ہی بھول گیا تھا۔ ہر مہینہ کی گیارویں دن کو مقدس سمجھا جاتا ہے اس دن شیخ عبدالقادر جیلانی ؑ فوت ہوئے تھے اور اس دن ان کی تعلیمات کو یاد کیا جاتا ہے۔ وہ تمام صوفیوں کے سردار تھے ان کا پیر باقی تمام کے گردنوں پر ہے۔ یہ ہر مہینہ اس لیے منایا جاتا ہے کہ ہمیں تاریخ معلوم ہے لیکن مہینہ ہم نہیں جانتے جس میں ان کا انتقال ہوا۔

’’کیا آپ کا مطلب ہے کہ وہ دن جب ہم ایک’’ بہترین جوان‘‘ (لوئی زوان )کو یاد کرتے ہیں۔

’’ہاں‘‘ ملا نے جواب میں کہا،’’ صوفی کو اسی طرح پکارا جاتا ہے کیونکہ کسی عظیم آدمی کو اس کے نام سے پکارنا احتراماً درست نہیں ہوتا۔ اس دن زکوٰۃ اور خیرات دی جاتی ہے۔ اس دن کوئی خواہش یا دعا اگرمانگی جائے کسی اور دن کی مناسبت سے لازمی پوری ہوتی ہیں اور مولویوں کو بھی اس دن کونہیں بھولا جاتا۔‘‘

’’آپ پر سلامتی ہو‘‘ شیر دل نے ملا کی پیشگی خبر کرنے پر متاثر ہوکر کہا،’’ میں اپنے بابا کو کہوں گا کہ آپ کو نہ بھولیں اور نہ ہی فصل میں آپ کا حصہ بھولیں۔‘‘

ملا کی آنکھیں چمک اٹھیں جب اس نے اپنے جوان دوست کو جواب دیا،’’ آپ پر بھی سلامتی ہو‘‘۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
گرامی قدر ! 15 نومبر کو میری ساٹھویں سالگرہ تھی جس کے ساتھ ہی اسلامی یونیورسٹی سے میری ملازمت ختم ہوگئی اور اب یہ اللہ کا بندہ حصول روزگار کے لیے سرگرداں ہے ۔ دعاوں کی ضرورت ہے کہ رب کریم رزق حلال کے دروازے وا کردے (آمین)
گزشتہ سالگرہ مبارک ہو زبیر انکل۔ اللہ تعالیٰ زندگی کے اس نئے سال اور نئے مرحلے کو آپ کے آسان اور اطمینان بھرا ثابت فرمائیں اور آپ کو صحت ، سکون ، خوشیوں بھری طویل عمر عطا فرمائیں۔ آمین
زبیر انکل آپ کی خواہش بہت اچھے طریقے سے پوری ہو گی ان شاءاللہ۔
 

سید زبیر

محفلین
گزشتہ سالگرہ مبارک ہو زبیر انکل۔ اللہ تعالیٰ زندگی کے اس نئے سال اور نئے مرحلے کو آپ کے آسان اور اطمینان بھرا ثابت فرمائیں اور آپ کو صحت ، سکون ، خوشیوں بھری طویل عمر عطا فرمائیں۔ آمین
زبیر انکل آپ کی خواہش بہت اچھے طریقے سے پوری ہو گی ان شاءاللہ۔
میرے بیٹا ! اللہ کریم آپ کو دونوں جہانوں کی ڈھیروں سعادتیں اور خوشیاں عطا فرمائے ۔ کبھی کسی کا محتاج نہ کرے (آمین )
 
یارو اس طرح کی ایک کتاب میرے پاس بھی ہے غالبا سوسال سے تو زیادہ ہی پرانی ہوگی میں چاہتا ہوں کہ کوئی اس کو لکھ دے یا کوئی لائبریرین اس کو اس طرح لکھ دے کیا کوئی کرسکتا ہے ؟؟؟؟؟
نوٹ: ٹیگ ضرور کرنا ہے ورنہ مجھے پتہ نہ چلے گا
 

سید زبیر

محفلین
وزیرستان کے وزیروں کا ایک یہ بھی روپ تھا ۔۔۔۔۔ایک اور اقتباس
ایک دلیر لڑائی

ایک بوڑھا ملاّ جس کا نام بشیر تھا جو روزی روٹی چھاؤنی میں افسروں کو پشتو سکھانے سے کماتا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا او چھاونی سے ایک میل دور ایک پن چکی پر اس کا دارومدار تھا۔بہت سال پہلے اس نے ایک عورت کے مقدمہ میں ایک محسود کی دشمنی اپنے سر لی تھی اور جب حالات میں بگاڑ پیدا ہوا اس نے ڈپٹی کمشنر کو بتایا کہ اس کے خیال میں اس کے دشمن اس موقع کا فائدہ لیں گے اور اپنے انتقام کا بدلہ لے لیں گے۔ اسے زیادہ محفوظ علاقہ میں منتقل ہونے کا کہا گیا تھا لیکن جب وہ ایسا کرنے والا تھا تو ایک رات تیرہ یا چودہ محمد خیل اور محسودکے لوگوں نے اس کے الگ تھلگ محلہ پر حملہ کیا اس کے بھائی اور پانچ دوسرے افراد کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا اورمزید دو کوزخمی کردیا۔ لیکن اپنے کھوج کا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے کیونکہ لائق ملا اپنے جھونپڑے سے باہر بھاگنے کے بجائے اپنی چارپائی کے نیچے منہ زمین کی طرف کیے سیدھا لیٹ گیا اور اس وقت تک باہر نہ آیا جب تک باہر خاموشی پر یقین نہ ہوگیا کہ اب باہر نکلنے میں خطرہ نہیں۔ دور جاتے ہوئے قاتلوں کے پیچھے بزدل بنوچی نعرے مار رہے تھے

چالاکی سے اونٹ چوری کرنا

ایک اور موقع پر چونتیس اونٹ قریبی پہاڑوں سے خاصی دوری پر گھاس کھا نے کے لیے چر رہے تھے جو کہ چند افرادگاؤں سے ایک میل کے فاصلے پر تھے کہ چرواہوں کو علم ہوا کہ چند آدمی پہاڑوں کی سمت سے قریب آرہے ہیں۔جیسے یہ گروہ قریب آیا انہوں نے دیکھا کہ یہ چند وزیر ہیں جن کے پاس ایک جنازہ تھا اور لگتا تھا کہ اس میں کوئی لاش لپٹی ہوئی ہے۔ اس سے وہ مطمئن ہوئے اور انہوں نے مزید توجہ نہیں دی جب تک وہ گروہ اونٹوں کے درمیان پہنچا اور اچانک سے وہ جنازہ چادر کھول کے کھڑا ہوگیا اور جو لوگ اسے لے جارہے تھے انہوں نے اپنی بندوقیں تان لیں جو کہ میت میں لپٹی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے کہ چرواہے حیرت سے نکل کر اپنی زبانیں اور ٹانگیں استعمال کرتے اونٹ پہاڑوں کی طرف لیے جائے جا چکے تھے اور اورجس وقت تک گاؤں والے چوروں کے پیچھے جاتے چورا پنے انعام کے ساتھ صاف غائب ہوچکے تھے۔وہ ایک بہترین ڈاکہ تھا ڈاکوؤں کو اس کے دو ہزار روپے ملتے۔

کھیل کھیلا گیا

موسم سرما میں محمد خیل کے لوگ سخت اور قابل رحم حالات کا شکار ہوگئے تھے ۔ اپنے دوستوں کی مہربانی کے لیے خاص طور پر داوڑ کے لوگوں نے انکو اپنے گاؤں میں پناہ اور خوراک بھی دے رکھی تھی نئے سال 1871 کے دن سے مسلسل نے بھوک نے ان کو ذلت آمیز ہار ماننے پر مجبور کردیا تھا۔ آخر کار ناامیدی میں ڈھل جانے کے بعد انہوں نے اپنے سرداروں کوغیر مشروط ہتھیارڈالنے پر راضی کرلیا تھا اور 20ستمبر1871 کو جلاوطنی کے پندرہ مہینے بعد پورا قبیلہ مرد، عورتیں، بچے ایڈورڈ آباد آئے اور ڈپٹی کمشنر کے گھر بغیر پگڑیوں کے ننگے سر گردن اور کمر پر رسیاں لپیٹ کر گئے اور ہتھیار ڈپٹی کمشنر کے قدموں میں ڈال کر خود کو زمیں پر گرادیا اورمعافی مانگنے لگے۔جبکہ بعض بچے اور عورتیں پیچھے میدان میں بے ترتیبی سے بیٹھ گئے اور باقی باغ میں ٹڈوں طرح پھیل گئے اور ہر کھانے والی سبز چیز کو ہڑپ کر گئے۔

ان کی سزا اور وہ جنہوں نے ان کو ترغیب دی تھی

ان کے چھ سرداروں کو سیاسی قیدیوں کے طور پر لاہور جیل بھیج دیا گیا جن پر بہت سی دفعات نافذ کی گئیں۔ خیل پر سات ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ ضمانت کے لیے ان کی بہترین زمینیں رکھ لی گئیں۔ بعد میں جب جرمانہ ادا کر دیا گیا تب ان کو برطانوی حکومت میں رہنے کی اجازت دے دی گئی۔ ان کے دو قیدی سردار وں کی ہیضہ کی وجہ سے موت کے سبب ،اکتوبر1872میں وائسرائے نے رحم کھا کر باقی کے سرداروں کو رہا کر دیا۔اس کے بعد احمد زئی وزیر کی شاخوں بزن خیل اور عمر زئی وزیر، جو سردیوں میں بنوں میں رہتے پر جرمانے عائد کیے گئے ۔ اگرچہ ظاہری طور پر وہ حکومت کی ہر مسئلہ میں حمایت کرتے تھے لیکن انہوں نے ڈھٹائی سے محمد خیل کی ہر طرح مدد کی اور ان کو فائدہ دیا۔

’سُدن خیل ‘جو کہ اسی خیل یعنی محمد خیل سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے ہر دوسرے گروہ سے زیادہ مدد انہیں پہنچائی اور ان کی حمایت میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔ انہیں’ گماٹئی ‘‘گاؤ ں کوجلانے کا جرم تسلیم کرنا پڑا۔ جو کہ انہی کے ایک پہاڑ پر واقع تھا جس کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے جلایا تھا۔ یہ جرم جب ان پرثابت ہوا وہ شرم و ندامت سے پانی پانی ہوگئے لیکن اس سے ان پر کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ جھونپڑوں کی تعداد کم تھی اور صرف سرکنڈے اور گھاس سے بنی ہوئی تھیں جو کہ ویسے بھی فورا جل جاتی ہیں نقصان صرف محنت کا ہوا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
یارو اس طرح کی ایک کتاب میرے پاس بھی ہے غالبا سوسال سے تو زیادہ ہی پرانی ہوگی میں چاہتا ہوں کہ کوئی اس کو لکھ دے یا کوئی لائبریرین اس کو اس طرح لکھ دے کیا کوئی کرسکتا ہے ؟؟؟؟؟
نوٹ: ٹیگ ضرور کرنا ہے ورنہ مجھے پتہ نہ چلے گا
روحانی بابا سکین کر کے مہیا کر سکتے ہیں کیا؟
 

قیصرانی

لائبریرین
یارو اس طرح کی ایک کتاب میرے پاس بھی ہے غالبا سوسال سے تو زیادہ ہی پرانی ہوگی میں چاہتا ہوں کہ کوئی اس کو لکھ دے یا کوئی لائبریرین اس کو اس طرح لکھ دے کیا کوئی کرسکتا ہے ؟؟؟؟؟
نوٹ: ٹیگ ضرور کرنا ہے ورنہ مجھے پتہ نہ چلے گا
سکین کرنے سے تو بہتر ہے کہ میں ٹائپ ہی کردوں۔۔۔ ۔۔۔ کوئی بندہ ایسا ہو سکین والا اگر اس کو ڈاک کے ذریعے بھجوادوں وہ سکین بھی کرے اور ٹائپ بھی
مجھے بھجوا دیں تو میں ذمہ لیتا ہوں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
وزیرستان کے وزیروں کا ایک یہ بھی روپ تھا ۔۔۔ ۔۔ایک اور اقتباس
ایک دلیر لڑائی

ایک بوڑھا ملاّ جس کا نام بشیر تھا جو روزی روٹی چھاؤنی میں افسروں کو پشتو سکھانے سے کماتا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا او چھاونی سے ایک میل دور ایک پن چکی پر اس کا دارومدار تھا۔بہت سال پہلے اس نے ایک عورت کے مقدمہ میں ایک محسود کی دشمنی اپنے سر لی تھی اور جب حالات میں بگاڑ پیدا ہوا اس نے ڈپٹی کمشنر کو بتایا کہ اس کے خیال میں اس کے دشمن اس موقع کا فائدہ لیں گے اور اپنے انتقام کا بدلہ لے لیں گے۔ اسے زیادہ محفوظ علاقہ میں منتقل ہونے کا کہا گیا تھا لیکن جب وہ ایسا کرنے والا تھا تو ایک رات تیرہ یا چودہ محمد خیل اور محسودکے لوگوں نے اس کے الگ تھلگ محلہ پر حملہ کیا اس کے بھائی اور پانچ دوسرے افراد کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا اورمزید دو کوزخمی کردیا۔ لیکن اپنے کھوج کا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے کیونکہ لائق ملا اپنے جھونپڑے سے باہر بھاگنے کے بجائے اپنی چارپائی کے نیچے منہ زمین کی طرف کیے سیدھا لیٹ گیا اور اس وقت تک باہر نہ آیا جب تک باہر خاموشی پر یقین نہ ہوگیا کہ اب باہر نکلنے میں خطرہ نہیں۔ دور جاتے ہوئے قاتلوں کے پیچھے بزدل بنوچی نعرے مار رہے تھے

چالاکی سے اونٹ چوری کرنا

ایک اور موقع پر چونتیس اونٹ قریبی پہاڑوں سے خاصی دوری پر گھاس کھا نے کے لیے چر رہے تھے جو کہ چند افرادگاؤں سے ایک میل کے فاصلے پر تھے کہ چرواہوں کو علم ہوا کہ چند آدمی پہاڑوں کی سمت سے قریب آرہے ہیں۔جیسے یہ گروہ قریب آیا انہوں نے دیکھا کہ یہ چند وزیر ہیں جن کے پاس ایک جنازہ تھا اور لگتا تھا کہ اس میں کوئی لاش لپٹی ہوئی ہے۔ اس سے وہ مطمئن ہوئے اور انہوں نے مزید توجہ نہیں دی جب تک وہ گروہ اونٹوں کے درمیان پہنچا اور اچانک سے وہ جنازہ چادر کھول کے کھڑا ہوگیا اور جو لوگ اسے لے جارہے تھے انہوں نے اپنی بندوقیں تان لیں جو کہ میت میں لپٹی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے کہ چرواہے حیرت سے نکل کر اپنی زبانیں اور ٹانگیں استعمال کرتے اونٹ پہاڑوں کی طرف لیے جائے جا چکے تھے اور اورجس وقت تک گاؤں والے چوروں کے پیچھے جاتے چورا پنے انعام کے ساتھ صاف غائب ہوچکے تھے۔وہ ایک بہترین ڈاکہ تھا ڈاکوؤں کو اس کے دو ہزار روپے ملتے۔

کھیل کھیلا گیا

موسم سرما میں محمد خیل کے لوگ سخت اور قابل رحم حالات کا شکار ہوگئے تھے ۔ اپنے دوستوں کی مہربانی کے لیے خاص طور پر داوڑ کے لوگوں نے انکو اپنے گاؤں میں پناہ اور خوراک بھی دے رکھی تھی نئے سال 1871 کے دن سے مسلسل نے بھوک نے ان کو ذلت آمیز ہار ماننے پر مجبور کردیا تھا۔ آخر کار ناامیدی میں ڈھل جانے کے بعد انہوں نے اپنے سرداروں کوغیر مشروط ہتھیارڈالنے پر راضی کرلیا تھا اور 20ستمبر1871 کو جلاوطنی کے پندرہ مہینے بعد پورا قبیلہ مرد، عورتیں، بچے ایڈورڈ آباد آئے اور ڈپٹی کمشنر کے گھر بغیر پگڑیوں کے ننگے سر گردن اور کمر پر رسیاں لپیٹ کر گئے اور ہتھیار ڈپٹی کمشنر کے قدموں میں ڈال کر خود کو زمیں پر گرادیا اورمعافی مانگنے لگے۔جبکہ بعض بچے اور عورتیں پیچھے میدان میں بے ترتیبی سے بیٹھ گئے اور باقی باغ میں ٹڈوں طرح پھیل گئے اور ہر کھانے والی سبز چیز کو ہڑپ کر گئے۔

ان کی سزا اور وہ جنہوں نے ان کو ترغیب دی تھی

ان کے چھ سرداروں کو سیاسی قیدیوں کے طور پر لاہور جیل بھیج دیا گیا جن پر بہت سی دفعات نافذ کی گئیں۔ خیل پر سات ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔ ضمانت کے لیے ان کی بہترین زمینیں رکھ لی گئیں۔ بعد میں جب جرمانہ ادا کر دیا گیا تب ان کو برطانوی حکومت میں رہنے کی اجازت دے دی گئی۔ ان کے دو قیدی سردار وں کی ہیضہ کی وجہ سے موت کے سبب ،اکتوبر1872میں وائسرائے نے رحم کھا کر باقی کے سرداروں کو رہا کر دیا۔اس کے بعد احمد زئی وزیر کی شاخوں بزن خیل اور عمر زئی وزیر، جو سردیوں میں بنوں میں رہتے پر جرمانے عائد کیے گئے ۔ اگرچہ ظاہری طور پر وہ حکومت کی ہر مسئلہ میں حمایت کرتے تھے لیکن انہوں نے ڈھٹائی سے محمد خیل کی ہر طرح مدد کی اور ان کو فائدہ دیا۔

’سُدن خیل ‘جو کہ اسی خیل یعنی محمد خیل سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے ہر دوسرے گروہ سے زیادہ مدد انہیں پہنچائی اور ان کی حمایت میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔ انہیں’ گماٹئی ‘‘گاؤ ں کوجلانے کا جرم تسلیم کرنا پڑا۔ جو کہ انہی کے ایک پہاڑ پر واقع تھا جس کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے جلایا تھا۔ یہ جرم جب ان پرثابت ہوا وہ شرم و ندامت سے پانی پانی ہوگئے لیکن اس سے ان پر کوئی نقصان نہیں ہوا ۔ جھونپڑوں کی تعداد کم تھی اور صرف سرکنڈے اور گھاس سے بنی ہوئی تھیں جو کہ ویسے بھی فورا جل جاتی ہیں نقصان صرف محنت کا ہوا تھا۔
ابو اکثر بتایا کرتے تھے کہ وزیر قبائل کے لوگ اکثر لوٹ مار کرنے آیا کرتے تھے ہمارے علاقے میں
 
Top