اقتباسات ایک کہانی بہت پرانی: بنوں اور افغان سرحد مطبوعہ 1876سے ایک اقتباس

پی ایم ملاحظہ کیجئے :)
جناب عالی فن لینڈ کون بھیج سکتا ہے یہاں قریب ہی کوئی ہو تو اس کو دے دوں دراصل واقعی میں لاجواب کتاب ہے اس لیئے ادھر لکھا ہے ورنہ کتابیں تو بہت ہیں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ہے ورنہ خود ٹائپ کردیتا دوسرا میرے بچے اللہ کی پناہ ساری کتاب پھاڑ دیں گے تیسرا یہ کہ میں بہت بھلکڑ ہوں شروع کرونگا تو بھول جاؤنگا ہفتہ دس دن پہلے بارش ہوئی تھی تو چھتری کی ضرورت پیش آئی واپسی پر چھتری دفترمیں بھول گیا راستے میں بارش ہوگئی جب گھر پہنچا تو سارے کپڑے پانی سے شرابور تھے پھر تین دن کے بعد میرے اسسٹنٹ نے کہا کہ جناب چھتری ساتھ لے جائیں تو چھتری ہاتھ میں لے لی واپسی پر ایک دوست جو کہ جیولر ہے اس کا فون آگیا میں اس کی دوکان پر چلا گیا اور واپسی پر چھتری بھول گیا تین دن کے بعد کچھ سامان خریدنا تھا شیشے کے گلاس وغیرہ تو اس کی دوکان پر گیا اس کو ساتھ لیا اس نے میری چھتری میرے حوالے کی سامان خریدنے کے بعد جب واپس آنے لگے تو دوکان سے تھوڑا آگے نکل کر مجھے کہنے لگا کہ کچھ رہ تو نہیں گیا مین نے سامان کا جائزہ لیا اور کہا کہ کچھ بھی نہیں رہ گیا سارا سامان لے لیا ہے یعنی برتن اور گلاس وغیرہ تو کہنے لگا کہ چھتری خیرات میں چھوڑ دی ہے میں فورا گیا اور چھتری اٹھا لایا۔۔۔۔ تو یہ تو میرا حال ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب عالی فن لینڈ کون بھیج سکتا ہے یہاں قریب ہی کوئی ہو تو اس کو دے دوں دراصل واقعی میں لاجواب کتاب ہے اس لیئے ادھر لکھا ہے ورنہ کتابیں تو بہت ہیں میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ہے ورنہ خود ٹائپ کردیتا دوسرا میرے بچے اللہ کی پناہ ساری کتاب پھاڑ دیں گے تیسرا یہ کہ میں بہت بھلکڑ ہوں شروع کرونگا تو بھول جاؤنگا ہفتہ دس دن پہلے بارش ہوئی تھی تو چھتری کی ضرورت پیش آئی واپسی پر چھتری دفترمیں بھول گیا راستے میں بارش ہوگئی جب گھر پہنچا تو سارے کپڑے پانی سے شرابور تھے پھر تین دن کے بعد میرے اسسٹنٹ نے کہا کہ جناب چھتری ساتھ لے جائیں تو چھتری ہاتھ میں لے لی واپسی پر ایک دوست جو کہ جیولر ہے اس کا فون آگیا میں اس کی دوکان پر چلا گیا اور واپسی پر چھتری بھول گیا تین دن کے بعد کچھ سامان خریدنا تھا شیشے کے گلاس وغیرہ تو اس کی دوکان پر گیا اس کو ساتھ لیا اس نے میری چھتری میرے حوالے کی سامان خریدنے کے بعد جب واپس آنے لگے تو دوکان سے تھوڑا آگے نکل کر مجھے کہنے لگا کہ کچھ رہ تو نہیں گیا مین نے سامان کا جائزہ لیا اور کہا کہ کچھ بھی نہیں رہ گیا سارا سامان لے لیا ہے یعنی برتن اور گلاس وغیرہ تو کہنے لگا کہ چھتری خیرات میں چھوڑ دی ہے میں فورا گیا اور چھتری اٹھا لایا۔۔۔ ۔ تو یہ تو میرا حال ہے
آپ کہاں ہوتے ہیں؟ اگر لاہور ہیں تو میرا چھوٹا بھائی آپ سے لے لے گا؟
 

سید زبیر

محفلین
بنوں خاص کے دیگر رہائشی۔

بنوں کی آبادی پوری پوری بنوچیوں پر مشتمل نہیں تھی اور قاری کو یہاں کی عوام اور ان کے معاشرتی پہچان نا مکمل لگے گی اگر میں یہاں کی آبادی میں تین طبقوں کا ذکر نہ کروں جن کا اس وادی پر مادی اثر موجود ہے۔ ان میں علماء یا مذہبی شخصیات ، ہندو آبادیاوروزیر جو کہ جا بے جا دخل دیتے ہیںشامل ہیں

علماء اور تعلیم یافتہ طبقہ۔

ایک تعلیم یافتہ آدمی کافی ممکنہ حد تک مذہبی بھی ہوگا مگر ایک جاہل آدمی لازمی طور پر توہم پرست ہوگا۔اتنے جاہل اور توہم پرست جیسے یہ بنوچی، میں نے کبھی نہیں دیکھے۔مبارک قران ان کی سمجھ سے باہر تھا، ایک کمینہ سا عیار جو کہ خود ایک عجوبہ ہوتا اور جسامت سے خوب موٹا ان کا ایک فقیر یا بزرگ ہوتا جن کو وہ بہت کچھ سمجھتے۔۔۔ دور اور قریب، بنجر میدان اور بدنما پہاڑوں سے یہ مُلا، قاضی، پیر اور سید اس ہنستی مسکراتی وادی میں نازل ہوئے، مکمل زرد چشموں میں جیسے اُلو کی آنکھیں ہوں، پھولوں کی مالا پہنے،طاقتور تعویز گلے میں لٹکے اور محمدﷺسے شجرہ کا نقشہ ہاتھ میں لیے ہوتا۔ جو بھی ان کے پاس آتا وہ سینٹ پیٹر کی طرح ہاتھ میں جنت کی چابی لیے ہوتا اور یہ آئرش بھکاری ہردم برابر تیار رہتا کہ کس کودعا دے اور کس پر عذاب نازل کرے۔ یہ’ ہوا میں معلق خنجر ‘ہوتے تھے جن سے بے چارہ بنوچی کسان کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا تھا اس کے لیے دور کسی گولی کی آواز یا دشمن کے شمشیر کی چمک کی کو ئی دہشت نہیں ہے، خون تو بس ایک سرخ شربت ہے اور پڑوسی کے کندھوں سے سر اتارنا تو ایسا ہے جیسے کھیرا کاٹنا۔ لیکن عربی زبان میں بدعا سننا یا اس طرح کچھ اور سننا ۔ یا یہ کہ پیغمبر نے اس شخص کی روح پر کالا نشان کیا تھا جس نے اپنی سب سے اچھی زمین اس کے آل و نسل کو نہیں دی۔ یا کوئی مایوس کیا گیا بزرگ اس پر اس کے گھر کے دروازے میں تھوک دے، یا کسی حاجی کو دیکھے جو کہ تین مرتبہ مکہ جا چکا ہو وہ جان بوجھ کر اس کے اونٹ پر کھجلی سے جادو کردے یا اس کی بھیڑ کو بوسیدہ بنا دے۔ ان چیزوں کی وجہ سے اس پر وہ خنجر جو کہ ایک خوفناک اور خونخوار درندے کے ہاتھ میں ہے اس کے سر پر آگرے گا اس تصور سے بھی اس کے گھٹنے لرز لرزکے آپس میں مل جاتے ہیں ، اس کا جگر پانی پانی ہوجاتا ہے اور اپنے خشک زبان جو کہ بولنے سے قاصرہے سے پھر بھی اس کی کافرانہ فرمائش پوری کرتا ہے۔ یہ طریقے کابل کے کمزور بادشاہوں نے بھی اپنائے اور جب بہت بعد میں انہوں نے لامذہب ٹیکس لینا بند کردیا تھا تب کابل کسی بھی ٹپہ میں چوتھائی حصہ وصول کرنے کے لیے اپنے فاضل مولوی بھیجنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا تھا۔ اس میں کوئی حیرانی والی بات نہیں کہ کہ جب میں زمینوں کو رجسڑ کرنے آیا تھا تب میں بنوں دوسو اٹھتر قلعوں کو وادی کے امیر ترین حصہ میں رجسٹر کیا گیا، 1848 کے موسم بہارمیں چوالیس صرف مذہبی لوگوں کی تھیں۔ ہر قسم کے ہدیہ اور نذرانے سے مبرا، کیونکہ مَلک ان سے فصل کا دسواں حصہ نہیں لے سکتا تھا اورنہ سکھوں کے حملہ کے خلاف ان کو لا سکتا تھا اور جلد یہ مخصوص رعایت کا حامل طبقہ امیر تر بن گیا اور سود میں اپنی بچت استعمال کرنے لگا۔ باوجود یکہ زرخیز زمین کے مالک تھےمگر بنوچی زمیندار غریب تھے۔ ہر دوسرے تیسرے سال سکھ ان کی زمینیں اجاڑتے تھے ان کی اناج کو پیروں تلے روندتے تھے، ان کے گھروں کو جلاتے تھے اور لوگوں کو زخمی کرتے تھے اور امن کا جتنا وقت میسر ہوتا وہ اس میں صرف ہوجاتا اور بنوچی ملک اس دورانیہ میں مَلک اپنی عیاشی میں مست ، جس کو یہ بھی پتہ نہ ہوتا کہ اس کا دسواں حصہ کتنا بنتا ہے، زمین چالاک ہندو کو آدھی قیمت پر دے دیتا جو کہ بعد میں لوگوں کو دگنی قیمت پر بیچتا۔ ان سب ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زمیندار اکثر مجبور ہوکر قرض لیتا اور اس کا پڑوسی، ’سید‘ جو اتنا ان پڑھ ہے کہ اپنے آباء کی مقدس کتاب قران نہیں پڑھ سکتا اور سود کے حوالے سے صاف لاعلمی کا اظہار کرے گا کہ یہ حرام ہے یا حلال۔ وہ اپنا پیسہ پریشان حال بنوچی کوقرض پر دے دیتا اور اس سے کچھ زمین اس وقت تک ضمانت میں رکھ لیتا جب تک قرض واپس ادا نہ ہو جائے۔ اس زمین پراس آبادی میں جو بھی ذ مہ داری ہو، خواہ ناراض مَلک کو دسواں حصہ دینا ہو یا’ سکھ‘ کے دہشت کی قیمت دینی ہو، اس غریب زمیندار کو وہ سارا خرچ ادا کرنا ہوتا اور اصل میں زمین کی پیداوارپر وہ مقدس انسان عیش سے اڑا رہا ہوتا اگر ان سے کچھ سیکھا جائے تو کچھ ہاتھ نہیں لگے گا اور اگر ان میں کچھ ہے تو صرف غیرمہذب رویے، ان کے بھیس مکارانہ، کسی صفت میں بھی اعلیٰ نہیں، سب شریفانہ اور اخلاقی اثر سے خالی۔ ان گستاخ اور بے ادب فریبیوں میں ہر لمحہ اضافہ ہورہا ہے اوربنوچیوں کو توہم پرست بنا کے ان پر کنٹرول حاصل کرتے ہیں۔ معاشرے میں کچھ کردار ادا نہیں کرتے سوائے اشتعال انگیز اور فتنہ گیر بحث و مبا حثہ کے۔ اور جنگ کے دوران دیوانوں کی طرح اپنی پیٹھ موڑ کے بھاگ جائیں گےمیرے خیال میں یہ تصویر علماء کے بارے میں بہت ہی زیادہ رنگوں سے بھر دی گئی ہے، جن میں بہت سے دغاباز تھے اور ہیں بھی لیکن ان میں اب بھی اچھے اورنیک افراد بھی موجود ہیں۔

اگر یہ ایک با عزت مسلمان مولوی کی حالت تھی تو حد درجہ کم تر اور گری ہوئی حالت یہاں کے ہندو کی تھی۔

بنوں میں ہندوؤں کی حالت خاص طور پرگری ہوئی تھی جس کی ممکنہ وجہ ان کے مروجہ حکومت سے ایک اچھے تعلق کا نہ ہونا تھا اور وہ مکمل طور پر اکیلے مَلک پر منحصر ہوگئے تھے جنہوں نے ان کو اپنے قلعوں میں پناہ دی تھی۔ وہ بغیر اپنے مَلک کی طرف سے مہیا کیے گئے محافظ کے ان دیواروں سے باہر اپنے بھائیوں سے ملنے دوسرے قلعوں میں بھی نہیں جاسکتے تھے یہ محافظ ان کے ساتھ جاتے اور ان کو واپس لے کے آتے اور ان محافظوں کو اس خدمت کی ان کو باقاعدہ اجرت ملتی(page-ایک بار جب میں سورانی ٹپہ میں کیمپ میں مقیم تھا کہ دو آدھے دفنائے ہوئے انسانی جسم برآمد ہوئے جن کے زخموں سے لگتا تھا کہ ان کو تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ میرے اپنے آدمی نہ ہوں جس کے لیے فوراََ کیمپ میں تفتیش چلوائی گئی جس میں دو بنوچی سامنے آئے اور کہا کہ یہ دو ہندو تھے جو قرضہ وصول کرنے کے لیے بغیر کسی محافظ کے باہرگئے تھے۔ بنوں میں کسی بھی ہندوکو پگڑی پہننے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ یہ اسلام کی ایک مقدس علامت ہے ان کو ایک چھوٹی ٹوپی پہننی پڑتی تھی تاکہ بنوں کی چلچلاتی دھوپ سے بچا جا سکے۔جب وہ ہمارے کیمپ میں آئے تو خوشی میں ایک پگڑی اپنی جیبوں میں لے کہ آئے اور جیسے ہی لائنز میں داخل ہوئے تب اس پگڑی کو پہن لیا۔ اگر کسی ہندو کو اپنے خاندان میں کوئی شادی منانی ہوتی تو وہ اپنے مَلک سے اجازت نامہ حاصل کرتا جیسے ہم انگریز ڈاکٹر کا اجازت نامہ حاصل کرتے ہیں۔ اور ساتھ میں مَلک کے محافظ کو کرایہ پر لینا ہوتا تاکہ اس کے جلوس کی حفاظت کرے اورجشن کے طور پر فائرنگ بھی کرے۔ ہر چند کہ ہندوؤں کے گرد مسائل اور خطرات پھیلے ہوئے تھے لیکن اندرونی طور پر ایک ہندو اس معاشرہ میں ایک رنگین اور پر رونق رتبہ کی زندگی بسر کرتا تھا کیونکہ ان کو اپنے مسلمان مالکوں پر اخلاقی حاکمیت حاصل تھی۔ بنوں میں مجھے کوئی ایسا مَلک نہیں یاد جو کہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو اور عام لوگوں میں بہت کم ایسے ہونگے جو کہ حساب کتاب کر سکتے ہوں۔ اس لئے تمام مَلک اپنے ساتھ ہندو ایجنٹ اور معاون رکھتے تھے۔ ہندو کو اپنے مال سے محبت اس کے جھولے سے شروع ہوجاتی، ایک عام ہندو اپنا پہلادانت ایک سکے پر تڑواتا، ایک سونے کی تعویز اور سیپیاں(اس کے سب سے کم درجہ کے دیوتا) اپنے گلے میں پہنتا اور کھیلنے کے لیے کوڑیاں دی جاتی جن سے وہ زمین پر کھیلتا، اس کا پہلا سبق سو ضرب سو کو پہاڑہ ہوتا اور سکول کے باہر اس کو دوپیسے دیے جاتے جن کو اس نے بازار لے جانا ہوتا اور شام کے کھانے سے پہلے اس کو ایک آنے میں بدلنا ہوتا اس طرح تعلیم یافتہ ہندو ایک درمیانی راستے کا سب سے بہترین کردار ادا کرتا اور بنوچی مَلک نے اس کو ایک آلہ کو طور پر لیا لیکن اس کو نہیں پتہ کہ یہ آلہ نہیں بلکہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ہندو ان مَلکوں کے لیے دسواں حصہ کا حساب کرتے لیکن صحیح کل کے بجائے بہت کم نمبر بتاتے اور آخر میں جب لوگوں سے دسواں حصہ اکٹھا کیا جاتا ۔جو اسی طرح ا ن پڑھ تھے ۔جن سے سوروپے کی چیز اکٹھا کر کے پچاس کابتایا جاتا تھا۔ مَلک کے سپاہی ان کی رکھوالی کے لیے موجود رہتے تھے ۔ مَلک کو پچاس کی چیز سو کے برابر دکھائی جاتی تھی۔ اگر زمیندار کو تکلیف ہوتی تو ہندواپنے مسلمان مخالف مولوی سے بات کرکے اس کو قرضہ دلوا دیتا جو کہ بعد میں اگر ادا نہ کیا جاتا تواس زمیندار سے رشوت لے کرمَلک سے انصاف دلوا دیا جاتا۔ بنوں کے طول و عرض میں سارا کاروبار ہندوؤں کے ہاتھ میں تھا سوائے بارود، اسلحہ اور تلواروں کے جوکہ کلی طور پر مسلمانوں کے ذریعے بنائی اور بیچی جاتی اس طرح ان کی ہرقلعہ میں ایک دکان ہوتی اور ہر مسلمان ان کا گاہک تھا مطیع ہونے سے پہلے ہندو ٹھگ رہے ہوں گے لیکن انہوں نے کبھی اپنی دولت ظاہر کرنے کی جسارت نہیں کی اور ہمیشہ اپنے ملک یا آقا کے رحم پر ٹکا ہوتا اور جب ہم نے پنجاب کو لیا تب بنوں میں صرف یہی ایک ہی طبقہ غریب تھا۔قانونی طور پر ایک ساہوکار اتنا ہی سود وصول کرسکتا ہے جتنا اس کی مرضی ہو اور کچہری کی مدد سے پیسہ پیسہ سود وصول کرسکتا ہے۔ایک چوتھائی صدی پہلے اتنا سود لاگو کرنا ایسا ہی تھا جتنا اپنی جان کو داؤ پر لگا دینا ۔بنوچی چاہے جتنا ہی برا حساب والا ہو لیکن وہ ایک روپے اور دو میں فرق جانتا ہے۔

اس طرح ان کی زندگی خوف اور وحشت میں تھی جہاں وہ اپنے خواہشات کو پورا نہیں کرسکتے تھے جو منافع ان کو ملتا وہ زمینوں میں سوراخوں میں دفناتے یا اپنے گھروں میں موجود اتش دان کے پتھر کے نیچے دبا دیتے، اپنی بیویوں اگر بدصورت بھی تھیں تو تحمل سے برداشت کرتے اوراپنے خداؤں کو چھپ چھپ کے پوجتے۔ بنوں کے ہندو پھر بھی ترس کے قابل نہیں تھے کیونکہ ان کی لالچ نے ان کواس درجہ نیچے گرا دیا تھا جس نے انہیں اپنی ذلت آمیز زندگی کے لیے بے حس بنا دیا تھا۔
 
Top