ایک کھلا خط

ظفری

لائبریرین
واللہ زبیر مرزا بھائی مانتے ہیں یا نہیں۔

میں نے مراسلے میں پہلے ایک ہنٹ بھی لکھ چھوڑا تھا کہ یہ مخاطب کون ہے پر پھر کچھ سوچ کر تدوین کر دی کہ جب زبیر مرزا بھائی نے نام نہ لکھا تو مجھے بھی نہیں لکھنا چاہیے۔

ظفری بھائی یقین جانیے دلی آسودگی 70 فیصد خود کو پڑھانے یا سیلف ہپنا ٹِزم اور 30 فیصد حقائق کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ دل اتنا زیادہ مادہ پرست اورحساب داں نہیں۔ اس کے فلسفے بڑے عجیب ہیں ۔
آپ لگتے تو دل والے ہیں اس لیےکہیں ایسا نہ ہو جائے یا ویسا نہ ہوجائے جیسی میٹیریلسٹک باتوں کو سائڈ پر رکھیں اور کود پڑیں۔ باقی دل کے معاملے دل خود سنبھال لے گا۔
امجد میانداد بھائی ۔۔۔۔ پہلے تو آپ کی پُرخلوص توجہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ۔ مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ گو کہ آپ سے میرے اتنے مکالمے نہیں ہوئے مگر آپ نے پھر یہ یہ جان لیا کہ زبیر مرزا بھائی کا مخاطب میں ہی ہوں ۔ بہرحال آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر ۔۔۔۔۔ انشاءاللہ جلد ہی آپ کے مشورے پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا ۔
یہ صحیح ہے کہ لگتا تو میں دل والا ہی ہوں مگر یہ کمبخت دل کہیں " لگتا " نہیں ہے ۔ ;)
اللہ آپ کو اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش رکھے ۔ آمین
 

ظفری

لائبریرین
اللہ سے دعا ہے کہ آپ دونوں کے حالات پر رحم فرمائے۔

اب آرڈر پر تو ایسی شریک حیات بننے سے رہییں۔ کچھ خوبیوں اور کچھ خامیوں کے ساتھ جیسی بھی ملے قبول کر لیں۔
آپ کا شادی دفتر کس کام کا ہے ۔ کوئی اسپیشل آرڈر پر یہ کام کروائیں ناں ۔۔۔۔ یاد رہے کہ فیس ڈالرز میں ادا ہوگی ۔ ;)
 

ظفری

لائبریرین
خط بھی اچھا لکھا گیا تھا اور جواب کے دلائل کو رد کرنا بھی محال ہے۔البتہ ہم زندگی کے بے شمار مرحلوں کو اپنی رضا،خواہش اور پسند کے بغیر تسلیم کر چکے ہیں،کہ ان میں سے اکثر ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں۔زندگی کے کئی مراحل کو ہم اپنے انداز سے بنانے ،سوارنے اور بسر کرنے میں ہماری قابلیت ، علم اور صلاحیت اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن کبھی کبھی ہماری تمام کی تمام کامیابیاں آنِ واحد میں نابودہو جاتی ہیں۔یہیں ہمیں اپنی حدود سے آشنائی ملتی ہے۔میں اپنے آپ کو صرف اپنے گھر تک صرف اس لیئے محدود نہیں کر سکتا کہ باہر نکلنے میں کئی خطرات موجود ہیں۔
دنیا کی طرح انسان کی ضروریات، ترجیحات،پسند ،صلاحیت نیز مزاج بھی تغیر پزیر رہتے ہیں۔اگر آپ خود اپنے راستے میں حائل نہ ہوں تو کوئی اور چیز آپ کے ارادے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ کوئی بھی انسان دوسرے جیسا پیدا نہیں کیا گیا،ہم سب کئی لحاظ سے ایک دوسرے سے محتلف ہیں۔
میں اپنے دونوں بھائیوں کو مشورہ دوں گا کہ آپ اپنا مقصود حاصل کرنے کی کوشش ضرور کریں البتہ یہ ذہن میں رکھیں کہ انسان بقول شمشاد بھائی آرڈر پر نہیں بنتے۔جو قریب تر ملے اُسے اپنا لیں۔
عمراعظم صاحب ۔۔۔ آپ کے پرُخلوص مراسلے کہ تہہ دل سے شکر گذار ہوں ۔ایک عرصے سے یہاں محفل پر متحرک ہوں ۔ اور ایک خوشی اور طمانیت سی حاصل ہوتی ہے کہ یہاں اتنے اچھے اور پُرخلوص دوست لمحوں میں غم گساری کے لیئے آگے بڑھ بڑھ کر آتے ہیں ۔ خواہ یہ دوستی کا دورانیہ پرانا ہو یا نیا ۔
ایک بار آپ کا پھر شکریہ ۔۔۔ ان شاءاللہ اس بار ۔۔۔۔۔۔ جیت ہی لیں گے ہم بازی ۔ :)
 
آخری تدوین:
امجد میانداد بھائی ۔۔۔ ۔ پہلے تو آپ کی پُرخلوص توجہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ۔ مگر مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ گو کہ آپ سے میرے اتنے مکالمے نہیں ہوئے مگر آپ نے پھر یہ یہ جان لیا کہ زبیر مرزا بھائی کا مخاطب میں ہی ہوں ۔ بہرحال آپ کا مشورہ سر آنکھوں پر ۔۔۔ ۔۔ انشاءاللہ جلد ہی آپ کے مشورے پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا ۔
یہ صحیح ہے کہ لگتا تو میں دل والا ہی ہوں مگر یہ کمبخت دل کہیں " لگتا " نہیں ہے ۔ ;)
اللہ آپ کو اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوش رکھے ۔ آمین
ظفری بھائی بلا مبالغہ اچھے لوگ میری کمزوری ہیں ، اس لیے انہیں اپنے آس پاس محسوس کر لیتا ہوں اور پھر ان سے ایک تعلق بن ہی جاتا ہے انہیں اور مجھے احساس ہو یا نہ ہو۔

جب دل کے خود سے لگنے میں مسئلہ ہو رہا ہو تو اسے لگا لیا جانا چاہیے :)

میں عام دوستیوں اور دوستوں سے زیادہ نونہال اور تعلیم و تربیت کے ساتھ کھیلا اس لیے حکیم صاحب ، مستنصر حسین تارڑ اور بہت سے ایسے لوگوں کی گولڈن باتیں میرے لیے کسی سپر ہیرو کی انسپیریشن سے زیادہ تھیں۔ اور میں بھی آئیڈل اِزم اور دلوں اور احساسات کے میل کا داعی ہوں۔

دل کی آسودگی ایک آئیڈیل میچ یا آئیڈیل کے حصول پہ ضرور حاصل ہوتی ہے لیکن میں نے محسوس کیا کہ یہی آسودگی خود کوہی آئیڈیل میں دھالنے سے بھی دگنا حاصل ہوتی ہے۔ ہم اپنے آئیڈیل سے آگے بڑھ کر خود ہی آئیڈیل بن جائیں وہ سب کر گزریں جو ہم اپنے ہیروز سے سنتے آئے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہیں کسی کو آپ جیسے ایک اچھے انسان کی شدید ضرورت ہو، ہو سکتا ہے آپ کسی کی قسمت بدل دیں، کسی کی ویران زندگی میں خوشیوں کا سامان پیدا کر سکیں۔

یہ جو دل والے لوگ ہوتے ہیں نا ظفری بھائی محبتوں ، الفتوں، ہجر و فراق کے سینیریو یا دور تخلیق کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اپنی دل کی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہم خوب جانتے ہیں۔ ظفری بھائی ایک نیا سین بنائیں، ایک نئی محبت کو پینٹ کریں، اس بار خود ہیرو بنیں اور حقیقی دِلی آسودگی حاصل کریں اور کوئی اندھیری کوٹھڑی ٹارگٹ کر کےڈھونڈیں اور چراغ جلائیں، وہاں کے اندھیروں کو شکست دیں خصوصی کوششیں کر کے۔ کسی کی ویران زندگی میں خوشیاں بھرنے کا عزم کر لیں اور اسی کو اپنا مشن بنا لیں۔ یقین کریں ایک اچھا کام کر جانے کا اور اس راستے میں آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کا مزہ آپ کو پہلے کبھی نہیں آئے گا۔ اس میں آپ کی توقعات بھی قدرے کم ہوں گی کیوں کہ آپ نے بہرحال ہیرو بننا ہے اور آگے بڑھنا ہے۔ یہ آسودگی بعد میں آنے والی مشکلات اور نا مساعد حالات پر بہت حاوی رہتی ہے۔


مجھے زبیر مرزا بھائی کے سگنیچر میں لکھا یہ شعر بہت پسند آیا ہے
یہ جو ہم لوگ ہیں احساس کی آگ میں جلتے ہوئے
ہم زمیں زاد نہ ہوتے تو ستارے ہوتے۔
 
آخری تدوین:
خط بھی عمدہ تھا اور جواب بھی لاجواب تھا۔۔لیکن اس جواب پر ایک انگلش فلم یاد آئی جو تین چار مہینے قبل دیکھی تھی نام یاد نہیں رہا۔۔۔۔اس میں ایک محترمہ جو سائنٹسٹ تھیں اور برکاتِ شادی و بیاہ سے یکسر ناواقف تھیں۔۔لیکن ایک مکینک کو سائنسدان سمجھ بیٹھیں اور اسے Zeno کی پیراڈوکسز سمجھانے لگیں اور وہی ہوا جو زینو کی پیراڈاکس کے برعکس ہوتا ہے۔۔۔:D
 

نایاب

لائبریرین
خط بھی عمدہ تھا اور جواب بھی لاجواب تھا۔۔لیکن اس جواب پر ایک انگلش فلم یاد آئی جو تین چار مہینے قبل دیکھی تھی نام یاد نہیں رہا۔۔۔ ۔اس میں ایک محترمہ جو سائنٹسٹ تھیں اور برکاتِ شادی و بیاہ سے یکسر ناواقف تھیں۔۔لیکن ایک مکینک کو سائنسدان سمجھ بیٹھیں اور اسے Zeno کی پیراڈوکسز سمجھانے لگیں اور وہی ہوا جو زینو کی پیراڈاکس کے برعکس ہوتا ہے۔۔۔ :D
محمود بھائی کیا ہی اچھا ہو کہ اگر آپ " Zeno " کی پیراڈوکس افادہ عام کے لیئے اردو میں تحریر کر دیں ۔ مجھ سمیت کئیوں کا بھلا ہوجائے گا ۔
بہت دعائیں
 
زینو ایک قبلِ مسیح وقت کا فلاسفر تھا۔۔۔اس زمانے میں منطقی موشگافیاں زیادہ رائج تھیں۔ چنانچہ مختلف موضوعات میں سے ایک موضوع "حرکت" بھی تھا۔ زینو کا کہنا تھا کہ اگرچہ دیکھنے میں ہمیں حرکت نظر آتی ہے لیکن منطقی اعتبار سے حرکت ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر کوئی نقطہ الف سے نقطہ ب کی جانب حرکت کرنا چاہے تو وہ نقطہ ب تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ان دونوں نقاط کے درمیان میں واقع نقطہ ج تک نہ پہنچ جائے اور اس پر کچھ وقت لگے گا۔۔۔اور چونکہ دو نقاط کے درمیانی فاصلے کو لامتناہی نقاط میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، چنانچہ انکے نصف فاصلے والے نقاط بھی لامتناہی ہی ہونگے اور کسی بھی جسم کو ایک نقطے سے دوسرے نقطے تک پہنچنے کیلئے درمیانی لامتناہی نقاط کو عبور کرنا ہوگا اور ان لامتناہی نقاط کو عبور کرنے کیلئے لامتناہی وقت درکار ہوگا۔۔۔ چنانچہ کوئی بھی جسم ایک جگہ سے دوسری جگہ پر کبھی بھی پہنچ نہیں پائے گا۔۔۔لہٰذا ہمیں جو حرکت نظر آتی ہے وہ منطقی طور پر ممکن نہیں، پس محض ایک فریبِ نظر اور ilusionہی ہے۔۔۔۔۔:p:D:rolleyes:
 

نایاب

لائبریرین
خاصا فریب نگاہ کا حامل فلسفہ ہے ۔
حرکت میں برکت بھی اسی فلسفے سے جڑی ہے کہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید ۔ ؟
بہت دعائیں محمود بھائی
 
Top