ایک نئی کاوش برائے اصلاح

محترم سر الف عین
راحیل فاروق سید عاطف علی اور دیگر اساتذہٴ کرام!

فعولن فعولن فعولن فعو

کوئی زخم اپنا دِکھایا نہیں
غمِ دل کسی کو سنایا نہیں

گھڑی کو بھی پردہ اُٹھایا نہیں
ہمیں جام اک بھی پلایا نہیں

نہیں تیری یادوں پہ کچھ اختیار
بھلا کر بھی تجھ کو بھلایا نہیں

بہت رنج ہم نے اُٹھائے مگر
کبھی رنج ایسا اُٹھایا نہیں

خفا ہو گئے اتنی سی بات پر
ابھی آئینہ تو دِکھایا نہیں

ترا مثل کیسےجہاں میں ملے
کوئی اُس نے تجھ سا بنایا نہیں[/USER]
 
آخری تدوین:
فعولن فعولن فعولن فعو
متقارب مثمن محذوف کے حقیقی ارکان یہ ہیں: فعولن فعولن فعولن فَعَل
کوئی زخم اپنا دِکھایا نہیں
غمِ دل کسی کو سنایا نہیں
ٹھیک۔
گھڑی کو بھی پردہ اُٹھایا نہیں
ہمیں جام اک بھی پلایا نہیں
پردہ اٹھانے اور جام پلانے میں کیا تعلق ہے؟ دو مصرعے جوڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں بس۔
نہیں تیری یادوں پہ کچھ اختیار
بھلا کر بھی تجھ کو بھلایا نہیں
اچھا۔
بہت رنج ہم نے اُٹھائے مگر
کبھی رنج ایسا اُٹھایا نہیں
کیسا؟
دوسرے مصرع میں 'ایسا' ایک اشارہ ہے جس کا مشار الیہ موجود نہیں۔ کوشش کیجیے کہ واضح کر سکیں کس قسم کا رنج نہیں اٹھایا۔
خفا ہو گئے اتنی سی بات پر
ابھی آئینہ تو دِکھایا نہیں
اتنی سی بات؟ کون سی؟
شعر میں اتنا کچھ مقدر ہے کہ قاری اس تک چاہے بھی تو نہیں پہنچ سکتا۔
مقدر اس فقرے یا الفاظ کے مجموعے کو کہتے ہیں جسے شاعر نے شعر میں نظم نہ کیا ہو مگر کسی قدر تامل سے یا معاً وہ ٹکڑا قاری کی نگاہ میں روشن ہو جائے۔ اس کی بہترین مثال غالبؔ کا یہ شعر ہے:
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں !​
شعر کی نثر یوں ہو گی:
ان کی بزم میں مجھ تک دورِ جام کب آتا تھا؟ (لیکن اب جو آیا ہے تو کہیں) ساقی نے شراب میں کچھ ملا نہ دیا ہو۔
قوسین میں موجود فقرہ مقدر ہے۔ مگر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شعر میں ایسے قرائن موجود ہیں جو اس کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ یہ بلاغت کی انتہا ہے۔ مگر دوسری انتہا پر تعقیدِ معنوی موجود ہے جس میں مقدرات اس حد تک غالب آ جاتے ہیں کہ شعر سمجھنا محال ہو جاتا ہے۔ بدنامِ زمانہ مثال ملاحظہ ہو:
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا​
یعنی شہد کی مکھی باغ میں جائے گی تو پھولوں کا رس چوسے گی۔ پھر اسے جمع کرنے کے لیے موم کا چھتا بنائے گی۔ چھتے سے لوگ موم حاصل کر کے شمع بنائیں گے۔ شمع جلے گی تو اس پر پروانہ نازل ہو گا اور جل کر مر جائے گا۔ لہٰذا پروانے کی مرگِ اندوہ ناک کا سدِ باب کیا جائے اور شہد کی مکھی کو باغ میں گھسنے ہی نہ دیا جائے۔ یہ قبیح ترین تعقید ہے جس میں محذوفات کی بھرمار ہے۔
اسی طرح آپ کے شعر میں 'اتنی سی بات' کا پتا نہیں چلتا۔ کوئی قرینہ اس بات پر موجود نہیں کہ کس بات کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ عیب ہے اور اسے بھی تعقید میں شمار کرنا چاہیے۔
ترا مثل کیسےجہاں میں ملے
کوئی اُس نے تجھ سا بنایا نہیں
یہ صرف موزوں کلمات ہیں، شاعری نہیں۔ سادہ ترین لفظوں میں شعر وہ کلامِ موزوں ہے جو حقیقی جذبات کی ترجمانی کرے یا نہ کرے، انھیں انگیخت ضرور کرے۔ آپ کے اس شعر سے میری طبیعت پر کوئی ایسا اثر مرتب نہیں ہوا۔ اس لیے میں اسے صرف مشق قرار دوں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
راحیل فاروق سے کچھ اختلافی نوٹ۔
خفا ہو گئے اتنی سی بات پر
ابھی آئینہ تو دِکھایا نہیں
میں اتنی سی بات واضح تو ہے۔ صرف یہ محذوف ہے کہ ’ہم نے کہا کہ آئینہ دکھائیں) اور اس کے قرائن بھی موجود ہیں۔
باقی میں راحیل سے متفق ہوں۔
گھڑی کو بھی پردہ اُٹھایا نہیں
ہمیں جام اک بھی پلایا نہیں
جام اک‘ اچھا نہیں لگ رہا۔ یہاں ’جام کوئی‘ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ دو لختی کا حل تو نکالنا ہی ہو گا۔
 
سر الف عین اور راحیل فاروق
بہت شکریہ آپ کے قیمتی وقت اور اصلاح کا۔ یقیناً میں آپ کی ہر بات سے متفق ہوں۔ سچ پوچھیں تو مجھے ابھی کوشش کے باوجود بھی اس بات کا علم نہیں ہو پاتا کہ مرا شعر حقیقی جذبات کی ترجمانی کر رہا ہے یا نہیں یا وہ پڑھنے والے کی طبیعت پر کچھ اثر چھوڑ رہا ہے یا نہیں۔ شاید کچھ وقت کے بعد علم ہونا شروع ہو جائے۔

سر دیکھیں کہ اشعار کچھ واضح ہوئے ہیں؟


بلایا تو اُس نے ہمیں بزم میں
مگر جام کوئی پلایا نہیں

ہنسی، دل لگی بھول جاتے سبھی
ابھی رنج تم نے اُٹھایا نہیں

فقط اِک گلے سے خفا ہوگئے
(خفا ہو گئے اتنی سی بات پر) یا یہ بھی چل سکتا ہے؟
ابھی آئینہ تو دِکھایا نہیں

ترا مثل کیسےجہاں میں ملے​
کوئی اُس نے تجھ سا بنایا نہیں (یہ شعر نکال دیتا ہوں؟)​
 

الف عین

لائبریرین
ایا تو اُس نے ہمیں بزم میں
مگر جام کوئی پلایا نہیں
کو


بلایا تو محفل میں اس نے ہمیں
مگر جام کوئی پلایا نہیں
زادہ بہتر ہو گا۔


ہنسی، دل لگی بھول جاتے سبھی
بہتر ہو یوں کہا جائے


ہنسی، دل لگی بھول جاتے ہیں سب


فقط اِک گلے سے خفا ہوگئے
اچھا مصرع ہے۔
 
Top