متقارب مثمن محذوف کے حقیقی ارکان یہ ہیں: فعولن فعولن فعولن فَعَل
کوئی زخم اپنا دِکھایا نہیں
غمِ دل کسی کو سنایا نہیں
ٹھیک۔
گھڑی کو بھی پردہ اُٹھایا نہیں
ہمیں جام اک بھی پلایا نہیں
پردہ اٹھانے اور جام پلانے میں کیا تعلق ہے؟ دو مصرعے جوڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں بس۔
نہیں تیری یادوں پہ کچھ اختیار
بھلا کر بھی تجھ کو بھلایا نہیں
اچھا۔
بہت رنج ہم نے اُٹھائے مگر
کبھی رنج ایسا اُٹھایا نہیں
کیسا؟
دوسرے مصرع میں 'ایسا' ایک اشارہ ہے جس کا مشار الیہ موجود نہیں۔ کوشش کیجیے کہ واضح کر سکیں کس قسم کا رنج نہیں اٹھایا۔
خفا ہو گئے اتنی سی بات پر
ابھی آئینہ تو دِکھایا نہیں
اتنی سی بات؟ کون سی؟
شعر میں اتنا کچھ مقدر ہے کہ قاری اس تک چاہے بھی تو نہیں پہنچ سکتا۔
مقدر اس فقرے یا الفاظ کے مجموعے کو کہتے ہیں جسے شاعر نے شعر میں نظم نہ کیا ہو مگر کسی قدر تامل سے یا معاً وہ ٹکڑا قاری کی نگاہ میں روشن ہو جائے۔ اس کی بہترین مثال غالبؔ کا یہ شعر ہے:
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں !
شعر کی نثر یوں ہو گی:
ان کی بزم میں مجھ تک دورِ جام کب آتا تھا؟ (لیکن اب جو آیا ہے تو کہیں) ساقی نے شراب میں کچھ ملا نہ دیا ہو۔
قوسین میں موجود فقرہ مقدر ہے۔ مگر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شعر میں ایسے قرائن موجود ہیں جو اس کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ یہ بلاغت کی انتہا ہے۔ مگر دوسری انتہا پر تعقیدِ معنوی موجود ہے جس میں مقدرات اس حد تک غالب آ جاتے ہیں کہ شعر سمجھنا محال ہو جاتا ہے۔ بدنامِ زمانہ مثال ملاحظہ ہو:
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
یعنی شہد کی مکھی باغ میں جائے گی تو پھولوں کا رس چوسے گی۔ پھر اسے جمع کرنے کے لیے موم کا چھتا بنائے گی۔ چھتے سے لوگ موم حاصل کر کے شمع بنائیں گے۔ شمع جلے گی تو اس پر پروانہ نازل ہو گا اور جل کر مر جائے گا۔ لہٰذا پروانے کی مرگِ اندوہ ناک کا سدِ باب کیا جائے اور شہد کی مکھی کو باغ میں گھسنے ہی نہ دیا جائے۔ یہ قبیح ترین تعقید ہے جس میں محذوفات کی بھرمار ہے۔
اسی طرح آپ کے شعر میں 'اتنی سی بات' کا پتا نہیں چلتا۔ کوئی قرینہ اس بات پر موجود نہیں کہ کس بات کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ عیب ہے اور اسے بھی تعقید میں شمار کرنا چاہیے۔
ترا مثل کیسےجہاں میں ملے
کوئی اُس نے تجھ سا بنایا نہیں
یہ صرف موزوں کلمات ہیں، شاعری نہیں۔ سادہ ترین لفظوں میں شعر وہ کلامِ موزوں ہے جو حقیقی جذبات کی ترجمانی کرے یا نہ کرے، انھیں انگیخت ضرور کرے۔ آپ کے اس شعر سے میری طبیعت پر کوئی ایسا اثر مرتب نہیں ہوا۔ اس لیے میں اسے صرف مشق قرار دوں گا۔