ایک مشاہدہ

ایک مشاہدہ
کبھی کبھی مِری دستک پہ کہیں
چند کلیاں سی ایک چہرے پر ۔ ۔ ۔ ۔
مسکراہٹ کی طرح کھلتی تھیں۔۔۔۔۔
اسکے ہونٹوں کے نرم گوشوں سے
خیر مقدم کے چند لفظوں کی۔ ۔ ۔ ۔
خوشبوئیں چار سو بکھرتی تھیں۔۔۔۔۔۔
جیسے میرے لئیے ہی بکھری ہوں
جیسے میرے ہی من کی باتیں ہوں۔ ۔ ۔ ۔
ان کہی چاہتوں کی باتیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔


آج پھر میری اسی دستک پر
وہی چہرہ گلی میں جھانکا تھا
وہی الفاظ خیر مقدم کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسکے ہونٹوں پہ گرچہ آج بھی تھے
ہاں مگر بے دلی تھی لہجے میں۔ ۔ ۔ ۔
ایک بے نام سی تھکاوٹ تھی۔ ۔ ۔
اور اک رسمی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔۔
آج خوشبو نہیں ہواؤں میں۔ ۔ ۔ ۔
کس قدر حبس ہے فضاؤں میں۔۔۔۔۔


اب وہی در ہے اور وہی میں ہوں۔ ۔ ۔ ۔
سوچتا ہوں کہ کیسے دستک دوں۔۔۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے محمود غزنوی صاحب ،و اہ واہ جیتے رہیں ، اللہ کرے زورِ‌قلم اور زیادہ ، مشق جاری رکھیں ایک دن اپنا آپ دریافت کرلیں گے ،۔ والسلام
 
اچھا خیال ہے، نظم اور اچھی ہوتی اگر سارے مصرعے ایک ہی بحر میں ہوتے۔
شکریہ سر۔ ۔ ۔قادرالکلامی سے محروم ہوں۔ شعر کے اسرار سے محرم نہیں ۔ پرورشِ لوح و قلم تو نہیں ہو سکی۔۔۔ بس جو دل پہ گذرتی تھی رقم کرتا رہا ہوں۔:)
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! اس خوبصورت نظم کی تخلیق پر مبارک باد قبول کیجیے۔
اور ازل سے میرا مسئلہ یہ ہے کہ سخن گسترانہ کیے بغیر بنتی ہی نہیں۔ ذیل کے مصرعوں پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے:
کبھی کبھی مِری دستک پہ کہیں
اسکے ہونٹوں کے حسیں گوشوں سے
آج پھر میری اسی دستک پر​
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ فاتح، تم نے بحر سے خارج مصرعے جمع کر دئے۔ محمود، یہ مصرعے فاعلاتن مفاعلن فعلن میں نہیں ہیں۔ یہ مصرع تو محض "نرم" سے بدلنے پر درست ہو سکتا ہے۔
اس کے ہونٹوں کے نرم گوشوں سے
 
Top