ایک لمحہ تیز سفر کا - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
میں بھی ہوں اپنے ایک خواب میں مست

کوئی ہے شیشہ و شراب میں مست
کوئی ہے لذّتِ شباب میں مست
مبتلا ہیں سبھی کہیں نہ کہیں
میں بھی ہوں اپنے ایک خواب میں مست
 

الف عین

لائبریرین
جنگ کے سایے میں جنّتِ ارضی کا خواب

کبھی جامن کی شاخوں میں
کبھی فرشِ زمرّد پر
یہ گل دُم گا رہی ہے راگنی عہدِ محبّت کی
جھلی چٹیل زمینوں سے
غبارِ شام میں اڑتی
صدائیں گھر کو واپس آ رہے مسرور لوگوں کی
افق تک کھیت سرسوں کے
گلاب اور سبز گندم کے
حویلی کے شجر پر شور چڑیوں کے چہکنے کا
عجب حیرانیاں سی ہیں
مکانوں اور مکینوں میں
کہ موسم آ رہا ہے گاؤں کے جنگل مہکنے کا
 

الف عین

لائبریرین
شہر کو تو دیکھنے کو اک تماشا چاہیے

ہے یہ ان کی زندگی کے روگ کا کوئی علاج
ابتدا ہی سے ہے شاید شہر والوں کا مزاج
اپنے ایلیٰ آدمی کو قتل کرنے کا رواج
مارنے کے بعد اس کو دیر تک روتے ہیں وہ
اپنے کردہ جرم سے ایسے رہا ہوتے ہیں وہ
 

الف عین

لائبریرین
بھیروں بہار کا خیال

لاگی لگن گھر گھر
پت جھڑ کی ہے بہار جلے جیا بار بار
آنکھوں میں انتظار
ڈھلے چاند کے پار
لاگی لگن۔۔۔۔۔۔

ائک اجنبی دیار
چلے ہوا سوگوار
دل میں وہم بے شمار
ایک دور کی پکار
آ رہی ہے بار بار
لاگی لگن۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ گزرتے دن ہمارے

نرم بوندوں میں مسلسل بارشوں کے سامنے
آسماں کے نیل میں، کومل سروں کے سامنے
یہ گزرتے دن ہمارے پنچھیوں کے روپ میں
تنگ شاخوں میں کبھی خوابیدگی کی دھوپ میں
ہیں کبھی اوجھل کبھی سکھ کی حدوں کے سامنے
چہچہاتے، گیت گاتے بادلوں کے شہر میں
اک جمالِ بے سکوں کی حسرتوں کے سامنے
سبز میدانوں، بنوں میں، کوہساروں میں کبھی
زرد پتوں میں کبھی، اجلی بہاروں میں کبھی
قید غم میں یا کھلی آزادیوں کے سامنے
 

الف عین

لائبریرین
کوئی زمانہ ہو

کوئی زمانہ ہو کوئی شہر ہو
میں اسی طرح ان سے گزرتا رہتا ہوں
اسی رفتار سے
مضافات کے کچے راستے ہوتے ہیں
اور شام پڑنے کے قریب کا وقت
مجھے کہیں جانا ہے
بس یہی دھیان مجھے رہتا ہے
میرے دور دور تک آشیاں کی طرف لوٹتا پرندہ
کوئی اور راہرو نہیں ہوتا
کوئی زمانہ ہو کوئی شہر ہو
 

الف عین

لائبریرین
اس کے باہر صرف ڈر ہے رات کے ہنگام کا

اس کے باہر صرف ڈر ہے رات کے ہنگام کا
اک دھندلکا صبح کا ہے اک دھندلکا شام کا
اور ان کے درمیاں دن کارِ بے آرام کا
سانس لینے ہی نہیں دیتا یہ وقفہ کام کا
کچھ ذرا فرصت ملے تو یاد آئے یار بھی
اس کی صحبت میں جو تھی وہ ساعت سار بھی
درحدوں پر ہے جو قائم وہ در دلدار بھی
میری ہستی میں بھی آئے ایک دن آرام کا
ایک دھندلی صبح کا اور ایک دھندلی شام کا
 

الف عین

لائبریرین
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
 
Top