ایک لمحہ تیز سفر کا - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
دھوپ میں دو سفید عورتیں

ادھر تھا مندر بھیروں کا
ادھر ہوا تھی راہوں میں
دھوہ تھا شیشہ چاندی کا
چمک گیا جو نگاہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
شبِ ماہ میں سیر کے دوران

ایک مکاں کے دس دروازے
کھلے پڑے ہیں سارے
اندر باہر کوئی نہیں
کوئی چاہے لاکھ پکارے
 

الف عین

لائبریرین
ہونے کا غم کس کو نہیں

ہونے کا غم اسے بھی ہے
اور مجھ کو بھی
کبھی نہ ہونے کا اندیشہ
اسے بھی ہے اور مجھ کو بھی
 

الف عین

لائبریرین
میں جیسا بچپن میں تھا

میں جیسا بچپن میں تھا
اسی طرح اب تک ہوں
کھلے باغ کو دیکھ دیکھ کر
بری طرح حیران
آس پاس مرے کیا ہوتا ہے
اس سب سے انجان
 

الف عین

لائبریرین
اپنے گھر کے صحن میں

دیواروں پر ہری بیل ہے
اس سے اوپر تارے ہیں
سب سے اوپر کھلا آسمان ہے
اور اس کے نظّارے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
خدا کو اپنے ہمزاد کا انتطار


اداس ہے تو بہت خدایا
کوئی نہ تجھ کو سنانے آیا
وہ سُر جو تیرے اجاڑ دل میں
چراغ بن کر چمک رہی ہے

کوئی نہ تجھ کو دِکھانے آیا
عجیب حسنِ مہیب جیسی
خلش جو دل میں کھٹک رہی ہے
 

الف عین

لائبریرین
ایک دھندلا سا خواب


کھچی کمان سی نئ چاند کی
اور س کی کوشبو
آس پاس گہرے رنگوں کا
زہریلا جادو
ایک پیڑ اور ایک سانپ سا
ایک میں اور اک تو
 

الف عین

لائبریرین
ایک لمحہ تیز سفر کا

ایک ربن کسی کی زلفوں کا
بیمار مہک کسی جنگل کی
رنگین جھلک کسی بادل کی

دروازے بڑے مکانوں کے
کچھ پھول کھلے دالانوں کے
کچھ رنگ چھپے ویرانوں کے
فانوس کھلی دکانوں کے

اک لڑی میں اڑتے آتے ہیں
اور واپس مڑتے جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
ایک بہادر کی موت

زخمی دشمن حیرت میں ہے
ایسا بھی ہو سکتا تھا
اس کو شاید خبر نہیں ہے
اب وہ گہری حیرت میں ہے

آسمان پر رب ہے اس کا اور صدائیں یاروں کی
آس پاس شکلیں ہیں اس کے لہولہان سواروں کی
دل میں اس کے خلش ہے کوئی، شاید گئی بہاروں کی
کھیل ذرا ہونی کے دیکھو اور جفا اغیاروں کی

فتح کے بدلے موت ملی اسے گھر سے دور دیاروں میں
 

الف عین

لائبریرین
ایک شہر میں شام

چلی ہوایہں باغوں میں
اڑے ہیں رنگ چراغوں میں
چھپا ہے غم آوازوں میں
کھلے ہوئے دروازوں میں
 

الف عین

لائبریرین
آدھی رات میں ایک نیم وا دریچہ

آدھا چہرہ روشنی میں ہے آدھا کالے پردے میں
ایک آنکھ ہے سورج جیسی ایک ہے کالے پردے میں
بھید نہ اب تک باہر آیا آدھے گِرے نقابوں سے
آنکھ ہمیشہ گھری رہی ظاہر اور چھپے سرابوں سے
 

الف عین

لائبریرین
سیرِ سحرِ آب زارِ بنگال

رخصتِ سرما کی صبح، سرد، نم، سنگین سی
خواب خاموشی کی تہہ میں اک جھلک رنگین سی

بانس کا جنگل، ہوا، پانی پرانی جھیل کا
سبز ڈر پر رنگ جیسے آسماں کے نیل کا

گرتے جاتے شہر دونوں سمت اک انبار میں
کھنچتی جاتی خاکِ میداں ایک ہی رفتار میں

ہلتے جاتے نقش سے کچھ پھیلتی دیوار پر
بجھ کے گرتے حرف سے حدِّ سفر آثار پر

ہر طعف خوشبو ہوا میں، بن میں قربِ آب کی
ایک پر اسرار خواہش دل میں مرگِ آب کی
 

الف عین

لائبریرین
ایک احتمال

شاید وہ ملے انھیں راہوں پر جن راہوں پر چھوڑا تھا اسے
کرنوں کی کلیاں چنتے ہوئے
مری جانب دوڑتے آتے ہوئے
پھر رک کر واپس جاتے ہوئے
شاید وہ موسم اب تک ہو جس موسم میں دیکھا تھا اسے
 

الف عین

لائبریرین
ایک دوزخی شہر پر بادلوں کی دعا

گرم رنگ پھولوں کا
گرم تھی مہک ان کی
گرم خون آنکھوں میں
]تیز تھی چمک ان کی

سوچتا میں کیا اس کو
اس حسیں کی باتوں کو
دیکھتا میں کیا اس کے
خاک رنگ ہاتھوں کو

خوف تھا تمازت میں
عیشِ شب کی شدّت کا
در کھلا تھا دوزخ کا
لمسِ لب کی حدّت کا

میں جواب کیا دیتا
اس کی ان اداؤں کا
ایک مشہرِ مردہ میں
دور کی نِداؤں کا

سحر زرد باطن میں
پابچ بند اسموں کا
بن گیا تھا جسموں میں
زہر پانچ قسموں کا
 

الف عین

لائبریرین
بے سود سفر کے بعد آرام کا پَل

پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر
پھر وہی خوابِ تمنّا، پھر وہی دیوار و در
بلبلیں، اشجار، گھر، شمس و قمر
خوف میں لذّت کے مسکن جسم پر ان کا اثر
موسموں کے آنے جانے کے وہی دل پر نشاں
سات رنگوں کے علم نیلے فلک تک پر فشاں
صبح دم سونے محلٓے پھیکی پھیکی سہ پہر
پھول گرتے دیکھنا شاخوں سے فرشِ شام پر
خواب اس کے دیکھنا موجود تھا جو بام پر
پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر
 

الف عین

لائبریرین
حرفِ سادہ و رنگیں

اک کلی گلاب کی
کوچۂ چمن میں ہے
یاد ایک خواب کی
شام کے گگن میں ہے
اسم سبز باب کا
پر فریب بن میں ہے
نقش اک شباب کا
سایۂ کہن میں ہے
اکم پکارتی صدا
جبر کے گہن میں ہے
دور دور تک ہوا
کوہ اور دمن میں ہے
 

الف عین

لائبریرین
خزاں زدہ باغ پر بوندا باندی

آمدِ باراں کا سنّاٹا
کبھی کبھی اس سنّاٹے میں ٹوٹ کے گرتے پتّے
دیو آسا اشجار کھڑے ہیں
کہیں کہیں اشجار تلے ویران پرانے رستے

لے کے چلیں آوارہ ہوائیں
ایک نشانی اس کی جو تھی اس کو واپس پہنچانے
آج بہت دن بعد آئی ہے شام یہ چادر تانے
اک وعدہ جو میں نے کیا تھا اس کی یاد دلانے

آج بہت دن بعد ملے تھے گہری پیاس اور پانی
ساحلوں جیسا حسن کسی کا اور میری حیرانی
 

الف عین

لائبریرین
خاکی رنگ کی پریشانی میں خواب

کھوہ کے باہر سبز جھروکا اس کے پیچھے چاند ہے
جس کی صاف کشش کے آگے رنگ زمیں کا ماند ہے
ریز ضیا چہروں پر آئی کیسے بندھن توڑ کے
کیسی دور دراز جگہوں کے دلکش منظر چھوڑ کے
مٹتے بنتے نقش ہزاروں گھٹتی بڑھتی دوریاں
ایک طرف پر وصل کا قصّہ تین طرف مہجوریاں
 

الف عین

لائبریرین
آغازِ زمستاں میں دوبارہ

غروبِ مہر کا منظر گھڑی ہوئی گزرا
بس ایک پل کو نیستاں اسی طرح گزرا
گیاہِ سبز کی خوشبو اسی شمانے کی
اسی طرح کی مسرّت بہار آنے کی
وہی جمالِ در و سقف و بام ہے، میں ہوں
کنارِ رودِ سیہفام شام ہے، میں ہوں
 
Top