ایک لمحہ تیز سفر کا - منیر نیازی

الف عین

لائبریرین
حمد





شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
یاد آ کر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
آرزو دیتا ہے دل کو موت کی وقتِ دعا
میری ساری خواہشوں کا یہ صلہ دیتا ہے تو
حد سے بڑھ کر سبز ہو جاتا ہے جب رنگِ زمیں
خاک میں اس نقشِ رنگیں کو مِلا دیتا ہے تو
ماند پڑ جاتی ہے جب اشجار پر ہر روشنی
گھپ اندھیرے جنگلوں میں راستا دیتا ہے تو
دیر تک رکھتا ہے تو ارض و سما کو منتظر
پھر انھیں ویرانیوں میں گُل کھلا دیتا ہے تو
تیز کرتا ہے سفر میں موجِ غم کی یورشیں
بجھتے جاتے شعلۂ دل کو ہوا دیتا ہے تو
اے منیرؔ اس رات کے افلاک پر ہونا ترا
اک حقیقت کو فسانہ سا بنا دیتا ہے تو
 

الف عین

لائبریرین
وصال کی خواہش

کہہ بھی دے اب وہ سب باتیں
جو دل میں پوشیدہ ہیں
سارے روپ دھا دے مجھ کو
جو اب تک نادیدہ ہیں

ایک ہی رات کے تارے ہیں
ہم دونوں اس کو جانتے ہیں
دوری اور مجبوری کیا ہے
اس کو بھی پہچانتے ہیں

کیوں پھر دونوں مل نہیں سکتے
کیوں یہ بندھن ٹوٹا ہے
یا کوئی کھوٹ ہے تیرے دل میں
یا میرا غم جھوٹا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ایک خیال

دنیا سے دور اس کی بھری محفلوں سے دور
بھٹکا ہے دل ہوا کی طرح منزلوں سے دور
اٹھّی ہے موجِ درد کوئی دل کے آس پاس
پھرتی ہے اک صدا سی کہیں ساحلوں سے دور
 

الف عین

لائبریرین
شام، خوف، رنگ


بجلی کڑک کے تیغِ شرر بار سی گری
جیسے گھٹا میں رنگ کی دیوار سی گری
دیکھا نہ جائے گا وہ سماں شام کا منیرؔ
جب بامِ غم سے خوشبو کوئی ہار سی گری
 

الف عین

لائبریرین
خوبصورت خیال


چھوڑو تو چھوٹ جائیں
پکڑو تو ٹوٹ جائیں
صابن کے بلبلے سے
رنگیں آئینے سے
 

الف عین

لائبریرین
مینھ، ہوا اور اجنبی شہر

بارش تھی دیواروں اور کوٹھوں پر
اور گھروں کے گھنے درختوں پر
تند ہوا تھی، چہروں پر، دروازوں پر
اور کالی خالی رستوں پر
روشنیاں تھیں کہیں کہیں
درگاہوں میں یا اونچے سرد مکانوں میں
ہوگا وہ بھی وہیں کہیں
ویرانوں میں یا مرمر کے ایوانوں میں
 

الف عین

لائبریرین
ساتھیوں کی تلاش

کچھ اہنے جیسے لوگ ملیں
ان رنگ برنگے شہروں میں
کوئی اپنی جیسی لہر ملے
ان سانپوں جیسی لہروں میں
کوئی تیز نشیلا زہر ملے
اتنی قسموں کے زہروں میں
ہم بھی نہ گھر سے باہر نکلیں
ان سونی دو پہروں میں
 

الف عین

لائبریرین
دیکھنے والے کی الجھن

سورج میں جو چہرے دیکھے اب ہیں سپنے سمان
اور شعاعوں میں الجھی سی
گیلے گیلے ہونٹوں کی وہ نئی لال مسکان
جیسے کبھی نہ زندہ تھے یہ

چھوٹی چھوٹی اینٹوں والے ٹھنڈے برف مکان
کہاں گئی وہ شام ڈھلے کی
سر سر کرتی تیز ہوا کی دل پر کھچی کمان

اور سپنا جو نیند میں لایا
پوری ادھوری خواہشوں کا
اک درد بھرا طوفان
کیسے کوئی کر سکتا ہے ان سب میں پہچان
 

الف عین

لائبریرین
آدمی

بھولی باتیں یاد نہ آئیں
کیا کیا کوشش کرتا ہے
کون ہے وہ بس اسی سوچ میں
سائے سے بھی ڈرتا ہے
جیسے سکھ کے طوفانوں میں
دکھ کا ریلا پھرتا ہے
ساتھ اپنے جمگھٹا لگا کر
آپ اکیلا پھرتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
گزرگاہ پر تماشا

کھلی سڑک ویران پڑی تھی
بہت عجب تھی شام
اونچا قد اور چال نرالی
نظریں خوں آشام
سارے بدن پر مچا ہوا تھا
رنگوں کا کہرام
لال ہونٹ یوں دیک رہے تھے
جیسے لہو کا جام
ایسا ھسن تھا اس لڑکی میں
ٹھٹھک گئے سب لوگ
کیسے خوش خوش چلے تھے گھر کو
لگ گیا کیسا روگ
 

الف عین

لائبریرین
ساحلی شہر میں ایک رات

روشنیاں ہی روشنیاں اور نوح تھکے جہازوں کے
بارش میں جادو کے منظرکھلے ہوئے دروازوں کے
لاکھ جتن سے بھی نہیں مانا
دل کو دِکھایا بیتے دن کے ہنگاموں کا تماشا بھی
شہر ہے سارا پتھر جیسا
میرا بھی دشمن ہے یہ اور اس کے لہو کا پیاسا بھی
میں بھی اپنی سوچ میں گم ہوں
پاگل ہو کر ناچ رہی وہ ہوٹل کی رقّاصہ بھی
 

الف عین

لائبریرین
ساتواں در کھلنے کا سماں

ڈوب چلا ہے زہر میں اس کی آنکھوں کا ہر روپ
دیواروں پر پھیل رہی ہے پھیکی پھیکی دھوپ
سنّاٹا ہے شہر میں جیسے ایسی ہے آواز
اک دروازہ کھلے گا جیسے کوئی پرانا راز
 

الف عین

لائبریرین
حسن میں گناہ کی خواہش

حسن تو بس دو طرح کا خوب لگتا ہے مجھے
آگ میں جلتا ہوا
یا برف میں سویا ہوا
درمیاں میں کچھ نہیں

صرف ہلکا سا اچنبھا، عکس سا اڑتا ہوا
ال خیال انگیز قصّہ اپنی آدھی موت کا
اک الم افزا فسانہ خونِدل کے شوق کا
اک کنارے سے صدا تو تو وہ چلتی جائے گی
دور تک اپنے گنہ پر ہاتھ ملتی جائے گی
 

الف عین

لائبریرین
دشمنوں کے درمیان شام

پھیلتی ہے شام دیکھو ڈوبتا ہے دن عجب
آسماں پر رنگ دیکھو ہو گیا یسا غضب
کھیت ہیں اور ان میں اک روپوش سے دشمن کا شک
سرسراہٹ سانپ کی گندم کی وحشی گر مہک
اک طرف دیوار و در اور جلتی بجھتی بتّیاں
اک طرف سر پر کھڑا یہ موت جیسا آسماں
 

الف عین

لائبریرین
کہسارِ مری میں سردیاں

چاند نکلا بادلوں سے رات گہری ہو گئی
جیسے یہ دنیا خدا کی گونگی بہری ہو گئی
دیکھ کر مجھ کو وہ ناگن اور زہری ہو گئی
جسم ریشم بن گیا، رنگت سنہری ہو گئی
سر کے اوپر شاخ تھی اور اس کے اوپر آسماں
آنکھ اس کی سرخ اور رنگت سنہری ہو گئی

لال پیلی چاندنی برفوں پہ ڈھلتی دیکھنا
بے ثمر اندھی نظر رنگوں سے جلتی دیکھنا
ایک خواہش سو طرح کے رخ بدلتی دیکھنا
 

الف عین

لائبریرین
ڈھاکہ کے بلدا باغات میں تماشا

دور تک جاتی ہوئی پتھر کی کالی سیڑھیاں
اور گہرے لال پتّے پیڑ کے
گھر کو تکتی دو نگاہیں ایک کالے جسم کی
بن کی پوشیدہ جگہوں کی اوٹ سے
دو عجائب گھر کے کمرے ایک خونی داستان
خوبسورت مرد و زن کی انجمن آرائیاں
اپنی حد سے آگے بڑھ کر گرم خوں کی تیزیاں
بے وفائی کی پرانی رسم کے سود و زیاں
چھپ چلیں افلاک پر دیکھو شفق کی سرخیاں
اک پرانی شب کا قصّہ چھیڑ کر
دور تک جاتی ہوئی پتھر کی خالی سیڑیاں
اور گہرے لال پتّے پیڑ کے
 

الف عین

لائبریرین
دھوپ میں ایک غیر آباد شہر کا نظارہ

ایک کنواں تھا بیچ میں اک پیتل کا مور
خالی شہر ڈراؤنا کھڑا تھا چاروں اور
 
Top