ایک قطعہ

فیضان قیصر

محفلین
پھوڑیئے سر ہی اب یہ پتھر سے
کب تلک کارِ بے مزا کیجے
دل کسی طور بھی نہ بہلے تو
کوئی بتلا ئےگا؟ کہ کیا کیجے؟
 
Top