ایک عورت ایک کہانی

نیلم

محفلین
آج اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ بہت معتبر ہو گئ ہو اور کیوں نا ہو یقیناً ہر عورت ماں بن کر ہی مکمل ہوتی ہے ۔ اُس نے
کاٹ میں لپٹی ہوئی اپنی معصوم بچی کو دیکھا اور خوشی کا سانس لیا ۔ ”ارے تم نے اس کے باپ کو اطلاع دی“
جب پڑوسن خالا نے پوچھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئ رات کی فلائیٹ سے اس کا شوہر واپس آ رہا تھا ۔ مریم بہت خوش
تھی اسکا شوہر بہت اچھا تھا ۔ دنیا کی ہر آسائش اسے میسر تھی ۔ عالیشان گھر، گاڑیاں، نوکر اُس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔
ان گزرے ہوئے دو سالوں میں اس کے شوہر نے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی ۔ اُس کو کبھی بھولے سے بھی اپنا گھر
چھوڑنے کے فیصلے پر پچھتاوا نہیں ہوا تھا ۔ مہران سے اس کی پہلی ملاقات کالج کے ایک فنکشن میں ہوئی تھی ۔ وہ اس سے تین
سال سنئیر تھا ۔ پھر ملاقاتیں بڑھتی گئیں ۔ اس وقت وہ انٹر میں تھی ۔ کو ایجوکیشن میں پڑھنے کے باوجود اس نے کبھی کسی سے
غیر ضروری بات نہیں کی تھی ۔ اس کا کردار صاف شفاف پانی کی طرح تھا اور اس پانی میں ابھرنے والا عکس مہران کا تھا ۔ وہ دل
موہ لینے کا ہنر جانتا تھا ۔ باتوں میں جادو کا سا اثر رکھتا تھا ۔ مریم دھیرے دھیرے ساری احتیاطیں بھول چکی تھی ۔ جب اس نے
مہران سے رشتا بجھوانے کو کہا تو اسکی امی نے صاف انکار کر دیا ۔ دونوں خاندان اسکے حق میں نہیں تھے ۔ مریم بہت پریشان
تھی کبھی دل کی بات ماننے کی سوچتی اور کبھی دماغ کی ۔
جب دونوں گھرانوں کی رضامندی کی کوئی صورت نظر نا آئی تو مہران نے اس پر کورٹ میرج کا ارادہ ظاہر کیا مگر اس نے انکار کر
دیا ۔ کچھ تو وہ رسوائی سے خوفزدہ تھی اور کچھ ماں باپ کی جدائی سہنا اس کے بس میں نا تھا ۔ لیکن بلاآخر جذبات کے بہاؤ کے
سامنے اس کی ایک نا چلی اور اس نے انتہائی قدم اٹھا ہی لیا ۔
مہران نے اسے یقین دلایا کے وہ اسے کوئی طعنے نہیں دے گا اور اسے باعزت طریقے سے گھر لے جائے گا ۔ اور پھر واقعی وہ اپنے وعدے
کا پکا نکلا اور اس نے بھولے سے بھی ماضی کو اس انداز سے نہیں کریدا ۔ وہ ایک اچھا شوہر ثابت ہوا ۔ مریم کے حالات بدلنے لگے ۔
وقت اچھا گزر رہا تھا اس لئے وہ کبھی کبھی سوچتی کے جیسے ہمارے بڑے کہتے ہیں ویسے ہی نتائج نکلنا ضروری نہیں اور اس نے
مہران کو اپنا کر کوئ غلطی نہیں کی ۔
رات سات بجے کی فلائیٹ سے جب مہران پہنچا تو اس نے مسکراتے ہوے اسے مبارک باد دی اور ارادہ ظاہر کیا کے اسکی بچی کا نام
عروج ہونا چائیے تاکے اسے عروج حاصل ہو پھر وہ کچھ سوچ کر گویا ہوا ۔
اور ہاں سنو اسکی تربیت اپنی طرح نا کرنا کل کو طعنے سننے کو نا ملے ۔ مریم کو اپنے اندر چھناکے کی آواز آئی جیسے کچھ ٹوٹ گیا
ہو ۔ اسے آج اپنا آپ مجرم سا محسوس ہونے لگا اور ایک لمحے کے لئے ماں باپ کے چہرے اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے جنھیں
اس نے ناسمجھی میں آ کر ایک شخص کے لئے ٹھکرا دیا تھا جس نے آج ایک بات میں اس کا مان توڑ دیا تھا ۔
والدین کے الفاظ اسکی سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے ”بیٹا انسان کا کردار ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے ۔ کبھی جذبات میں کوئی غلط
قدم نا اٹھانا اور یاد رکھنا سفید دوپٹے پر ذرا سا داغ بھی نمایاں نظر آتا ہے“ ۔
آج اسے محبت کی ساری کہاوتیں ہیچ محسوس ہونے لگی تھیں ۔ اسکے اعتماد کی عمارت دھڑام سے گر چکی تھی ۔ آج اسکی آنکھیں
کھل چکی تھیں مگر دل و دماغ پچھتاوے اور ندامت میں ڈوبے جا رہے تھے ۔
بلند رکھنا نگاہ اپنی، وقار اپنا، شعار اپنا
نا ڈگمگائیں قدم تمھارے، کچھ ایسا رکھنا کردار اپنا
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جو شخص اپنے ماں باپ کا نہیں ہو سکتا وہ کسی اور کا کیا ہوگا۔ اس لڑکے نے بالکل صحیح بات کی۔ گرچہ اس نے خود بھی کوئی اچھی روایت نہ ڈالی تھی۔ اور اولاد اس پر بھی تو جا سکتی ہے۔ کہانی میں موجود خاتون بلاوجہ جذباتی ہو گئی۔ حالانکہ اسکے شوہر نے بھی تو وہی کیا تھا۔
اور جہاں تک تربیت کا تعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ باپ تربیت سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اسکا بھی اتنا ہی عمل دخل ہوتا ہے جتنا ماں کا۔ لیکن ہم لوگ معاشرتی طور پر اس رویے کا شکار ہیں کہ ہر غلطی کا الزام بچے کی ماں کے سر لگا کر الگ ہو جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں اعتماد ٹوٹنے کی طرف۔ اگر اسکا اعتماد اس اک بات سے ٹوٹ گیا تو ایسے اعتماد کا ٹوٹنا بہتر۔ کیا کرنا ایسا اعتماد کا رشتہ جو محض چند لفظوں کی کاٹ بھی برداشت نہ کرسکے۔ اگر اسکے شوہر نے دنیا کی ہر آسائش دے کر اسے اپنی عزت بنا رکھا تھا تو طعنے سننے میں وہ بھی تو برابر کا شریک تھا۔

پس نوشت: اک اچھی کہانی لائی ہو۔ (y)
 

باباجی

محفلین
یہ ایک بہت بڑا سچ ہے
اور ہمارے ہاں ہر ایک خاندان میں ہوتا ہے
کہ اس طرح کرنے والی لڑکی اور لڑکے کو قبول تو کر لیا جاتا ہے
لیکن بعد میں ان کی اولاد سزا کی ٖحقدار ٹھہرتی ہے
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ماں باپ کو بھی اپنی اولاد کے معاملے میں کچھ لچک رکھنی چاہیئے
 

نیلم

محفلین
جو شخص اپنے ماں باپ کا نہیں ہو سکتا وہ کسی اور کا کیا ہوگا۔ اس لڑکے نے بالکل صحیح بات کی۔ گرچہ اس نے خود بھی کوئی اچھی روایت نہ ڈالی تھی۔ اور اولاد اس پر بھی تو جا سکتی ہے۔ کہانی میں موجود خاتون بلاوجہ جذباتی ہو گئی۔ حالانکہ اسکے شوہر نے بھی تو وہی کیا تھا۔
اور جہاں تک تربیت کا تعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ باپ تربیت سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اسکا بھی اتنا ہی عمل دخل ہوتا ہے جتنا ماں کا۔ لیکن ہم لوگ معاشرتی طور پر اس رویے کا شکار ہیں کہ ہر غلطی کا الزام بچے کی ماں کے سر لگا کر الگ ہو جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں اعتماد ٹوٹنے کی طرف۔ اگر اسکا اعتماد اس اک بات سے ٹوٹ گیا تو ایسے اعتماد کا ٹوٹنا بہتر۔ کیا کرنا ایسا اعتماد کا رشتہ جو محض چند لفظوں کی کاٹ بھی برداشت نہ کرسکے۔ اگر اسکے شوہر نے دنیا کی ہر آسائش دے کر اسے اپنی عزت بنا رکھا تھا تو طعنے سننے میں وہ بھی تو برابر کا شریک تھا۔

پس نوشت: اک اچھی کہانی لائی ہو۔ (y)


جی بلکل ،،
برابر کی شراکت :D
لڑکی نےغلط کیایادرست یہ ایک الگ کہانی ہے،،،(ظاہر ہے غلط ہی تھا)یہ تو سب کوپتا:)

لیکن یہاں روشنی ڈالنی ہےمردوں کےرویوں پر:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جی بلکل ،،
برابر کی شراکت :D
لڑکی نےغلط کیایادرست یہ ایک الگ کہانی ہے،،،(ظاہر ہے غلط ہی تھا)یہ تو سب کوپتا:)

لیکن یہاں روشنی ڈالنی ہےمردوں کےرویوں پر:)
ڈال تو دی ہے روشنی دونوں کے رویوں پر:cautious: ۔ اب کیا انکو الٹا لٹکا دوں o_O

پس نوشت: رہی سہی کمی باباجی کے تبصرے نے پوری کر دی ہے۔ :applause:
 

نیلم

محفلین
یہ ایک بہت بڑا سچ ہے
اور ہمارے ہاں ہر ایک خاندان میں ہوتا ہے
کہ اس طرح کرنے والی لڑکی اور لڑکے کو قبول تو کر لیا جاتا ہے
لیکن بعد میں ان کی اولاد سزا کی ٖحقدار ٹھہرتی ہے
اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ماں باپ کو بھی اپنی اولاد کے معاملے میں کچھ لچک رکھنی چاہیئے
جی بلکل :)
 

تعبیر

محفلین
جو شخص اپنے ماں باپ کا نہیں ہو سکتا وہ کسی اور کا کیا ہوگا۔ اس لڑکے نے بالکل صحیح بات کی۔ گرچہ اس نے خود بھی کوئی اچھی روایت نہ ڈالی تھی۔ اور اولاد اس پر بھی تو جا سکتی ہے۔ کہانی میں موجود خاتون بلاوجہ جذباتی ہو گئی۔ حالانکہ اسکے شوہر نے بھی تو وہی کیا تھا۔
اور جہاں تک تربیت کا تعلق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ باپ تربیت سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اسکا بھی اتنا ہی عمل دخل ہوتا ہے جتنا ماں کا۔ لیکن ہم لوگ معاشرتی طور پر اس رویے کا شکار ہیں کہ ہر غلطی کا الزام بچے کی ماں کے سر لگا کر الگ ہو جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں اعتماد ٹوٹنے کی طرف۔ اگر اسکا اعتماد اس اک بات سے ٹوٹ گیا تو ایسے اعتماد کا ٹوٹنا بہتر۔ کیا کرنا ایسا اعتماد کا رشتہ جو محض چند لفظوں کی کاٹ بھی برداشت نہ کرسکے۔ اگر اسکے شوہر نے دنیا کی ہر آسائش دے کر اسے اپنی عزت بنا رکھا تھا تو طعنے سننے میں وہ بھی تو برابر کا شریک تھا۔

پس نوشت: اک اچھی کہانی لائی ہو۔ (y)
:confused: o_O :eek:
ہیں! نین سنجیدہ گفتگو بھی کر سکتا ہے کمال ہے :notworthy:
 

فاتح

لائبریرین
کافی کمزور سکرپٹ کی کہانی ہے۔۔۔ جس کے جملے ایک دوسرے ہی کی نفی کر رہے ہیں۔کس کی لکھی ہوئی ہے؟
 

تعبیر

محفلین
ہاہاہاہا نہیں آپا میں گوگل کر کے دیکھ چکا ہوں۔۔۔ اور مجھے خوشی ہے کہ یہ بے سر و پا کہانی نما چیز نیلم کی لکھی ہوئی نہیں ہے۔ :laughing:
اس بے چاری معصوم نے کتنی بار کہا تو ہے کہ وہ نیٹ سے یا پھر فیس بک سے یہ سب مال لاتی ہے :p
 
Top