حصۂ اول ۔ بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع - تعارف اور اوزان
بڑی بحر ایک دریا کی مانند ہوتی ہے۔ طغیانی میں ہو تو ہر چیز خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے۔ موج میں ہو تو لہریں گنتے جاؤ اور ختم نہ ہوں اور اگر کہیں روانی میں کمی آ جائے تو جگہ جگہ جوہڑ بن جاتے ہیں، 'بڈھے' روای کی طرح۔ اس کے مقابلے میں چھوٹی بحر ایک گنگناتی، لہراتی، بل کھاتی، مچلتی ندی کی طرح ہے۔ اور جیسے کسی دیو ہیکل پہاڑ کی اوٹ سے جھرنا ایک دم آنکھوں کے سامنے خوشنما منظر لیے آجاتا ہے اسی طرح چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی بات دھم سے آنکھوں کو چکا چوند کردیتی ہے اور دماغ بغیر سوچ و بچار میں پڑے فوراً روشن ہو جاتا ہے۔
چھوٹی بحروں میں شاعری کرنا ہر شاعر کا مشغلہ رہا ہے۔ اساتذہ سے لیکر موجودہ عصر تک ہر شاعر نے ان بحروں میں طبع آزمائی کی ہے، اور اصنافِ سخن میں سے غزل کو اس میں خاص امتیاز حاصل ہے۔ تھوڑے اور گنے چنے الفاظ میں غزل کی رنگینیٔ بیاں کو نبھاتے ہوئے دو مصرعوں میں بات مکمل کر دینا بلکہ سامع تک پوری بلاغت سے پہنچا دینا واقعتاً ایک معانی رکھتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چھوٹی بحروں میں کہی ہوئی اچھی غزلیں اردو ادب میں سدا بہار کا مقام رکھتی ہیں اور ان غزلوں کے اشعار اور مصرعے ضرب المثل کا مقام حاصل کرچکے ہیں۔
انہی چھوٹی بحروں میں ایک بحر، بحرِ خفیف ہے۔ بحرِ خفیف ایک مسدس (تین ارکان والی) بحر ہے اور تقریباً تمام مسدس بحریں چھوٹی ہیں کہ ان میں مثمن (چار ارکان والی) بحروں کے مقابلے میں ایک رکن کم ہوتا ہے اور پھر زحافات کا استعمال انہیں مزید مختصر کیے ہی چلا جاتا ہے۔ بحرِ خفیف کی ایک مزاحف شکل ،بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع' کا تعارف اور اس مخصوس بحر میں کہی ہوئی مشہور غزلیات کی ایک فہرست اس مضمون کا مقصود ہے۔
وجۂ تسمیہ
بحرِ خفیف کی وجۂ تسمیہ صاحبِ بحر الفصاحت، مولوی نجم الدین غنی رامپوری نے یہ بیان کی ہے۔
"خفیف کے معنی ہلکے ہیں۔ چونکہ اس بحر کے سب ارکان ہلکے ہیں بسب اس کے کہ دو سبب وتد مجموع کو گھیرے ہوئے ہیں، اس لئے اس بحر کا نام خفیف رکھا ہے۔ اس بحر کو متاخرین شعرائے ریختہ نے سوائے مسدس مزاحف کے اور کسی طرح استعمال نہیں کیا۔"
آخری جملے سے یہ بھی معلومات ملتی ہیں کہ اب سالم حالت میں، مثمن و مسدس و مربع، یہ بحر استعمال نہیں ہوتی اور مزاحف بھی صرف مسدس (یعنی جس بحر کے ایک مصرعے میں تین رکن ہوں) استعمال ہوتی ہے۔
لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ مضمون بحر خفیف کی ایک مسدس مزاحف شکل 'بحر خفیف مسدس مخبون مخذوف مقطوع' کے متعلق ہے اور اسی بحر کے اوزان سے یہاں بحث کی جائے گی۔
بحر خفیف مسدس مخبون مخذوف مقطوع کا وزن 'فاعِلاتن مَفاعِلن فعلن' ہے (فعلن میں ع کے سکون کے ساتھ)۔ اس بحر کا یہ وزن بحر خفیف مسدس سالم الاصل پر زحافات کے استعمال سے حاصل ہوتا ہے، یہ زحافات بحر کے نام میں ہی شامل ہیں یعنی زحافات خبن، حذف اور قطع۔
اس بحر کے وزن میں میں کچھ رعائیتیں اور اجازتیں دی گئی ہیں جس سے اس بحر کا حسن بہت بڑھ جاتا ہے اور ایک ہی بحر میں رہتے ہوئے اپنی مرضی کے اور فصیح سے فصیح تر الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یہ اجازتیں کچھ اسطرح سے ہیں۔
1- اس بحر یعنی خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع کو بحر خفیف مسدس کی ہی ایک اور مزاحف صورت 'خفیف مسدس مخبون محذوف' کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس بحر کا وزن 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' ہے (فعِلن میں ع کے کسرے یا زیر کے ساتھ)۔
2- ان دونوں مسدس بحروں یعنی مخبون محذوف مقطوع اور مخبون محذوف کے صدر و ابتدا (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے پہلے رکن اور دوسرے مصرعے کے پہلے رکن) اور عروض و ضروب (یعنی بالترتیب ہر شعر کے پہلے مصرعے کے آخری رکن اور دوسرے مصرعے کے آخری رکن) میں ان اوزان کو جمع کرنے کی اجازت ہے۔
اول۔ صدو ابتدا میں جو اس بحر میں 'فاعلاتن' ہے کو اس رکن کی مخبون شکل یعنی 'فعِلاتن' کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ اور ایک شعر میں دونوں اوزان لا سکتے ہیں۔
دوم۔ عروض و ضروب میں جو اس بحر میں فعلن (عین کے سکون کے ساتھ) ہے کو فعِلن (عین کے کسرہ کے ساتھ) اور ان دونوں کی ہی مسبغ اشکال یعنی فعلان (عین کے سکون کے ساتھ) اور فعِلان (عین کے کسرہ کے ساتھ) کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔
3- حشو (یعنی صدر و ابتدا اور عروض و ضروب کے درمیان آنے والے تمام اراکین) جو اس بحر میں صرف 'مفاعِلن' ہے کو کسی اور رکن کے ساتھ تبدیل نہیں کر سکتے وگرنہ بحر بدل جائے گی۔
اوپر دئے گئے اصولوں کی مدد سے اگر اس بحر میں جمع کئے جانے والے اوازن کی ایک فہرست بنائی جائے تو اس بحر میں تکنیکی طور پر آٹھ اوزان کو ایک ہی غزل میں یا ان میں سے کسی دو کو ایک ہی شعر میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ یہ فہرست کچھ اسطرح سے ہے۔
1- فاعِلاتن مفاعِلن فعلن (فعلن میں عین کے سکون کے ساتھ)
2- فَعِلاتن مفاعِلن فعلن
3- فاعِلاتن مفاعِلن فعلان (فعلان میں عین کے سکون کے ساتھ)
4- فَعِلاتن مفاعِلن فعلان
5- فاعِلاتن مفاعلن فعِلن (فعِلن میں عین کے کسرہ کے ساتھ)
6- فَعِلاتن مفاعلن فعِلن
7- فاعِلاتن مفاعلن فعِلان (فعِلان میں عین کے کسرہ کے ساتھ)
8- فَعِلاتن مفاعِلن فعِلان
یہاں پر ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ کلاسیکی عروض میں اوپر دیئے گئے آٹھوں اوزان کی بحروں کے علیحدہ علیحدہ نام تھے لیکن ان سب کو ایک ہی غزل میں جمع کرنے کی اجازت تھی لیکن جدید فارسی اور اردو عروض میں ان آٹھ اوزان کو تو علیحدہ مانا جاتا ہے اور جمع بھی کر سکتے ہیں لیکن آٹھ بحروں کی بجائے انھیں دو بحریں ہی تصور کیا جاتا ہے کہ عملی لحاظ سے یہ بات بالکل صحیح ہے۔
مختلف اوزان کو جمع کرنے کی امثال اب ہم اوپر دیئے گئے اوزان کو ایک ہی غزل میں جمع کرنے کی دو مثالیں دیکھتے ہیں۔ یوں تو بے شمار غزلیں ہیں جن میں مندرجہ بالا اوزان کو جمع کیا گیا ہے لیکن میں نے اس کیلیے ایک غالب کی اور ایک فیض کی غزل منتخب کی ہے اور دیکھتے ہیں کہ ان دو عظیم شعرا نے کس مہارت کے ساتھ مختلف اوزان کو ایک ہی غزل میں جمع کیا ہے۔
غالب کی غزل کے اشعار
شعرِ غالب نے گُلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز
مصرع اول عروضی متن و وزن نے گُ لے نغ (فاعلاتن) مَ ہو نَ پر (مفاعِلن) دَ ء ساز (فعِلان) یہ فاعلاتن مفاعلن فعِلان اوپر دی گئی فہرست میں وزن نمبر 7 ہے۔
مصرع ثانی عروضی متن و وزن مے ہُ اپنی (فاعلاتن) شکست کی (مفاعلن) آواز (فعلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلان۔ وزن نمبر 3۔
شعرِ غالب تُو اور آرائشِ خمِ کاکُل میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
مصرع اول عروضی متن و وزن تُو اَ را را (فاعلاتن) ء شے خَ مے (مفاعلن) کاکل (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن، وزن نمبر 1۔
شعرِ غالب نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز
مصرع اول عروضی متن و وزن نَ ہِ دل میں (فعلاتن) مرے وُ قَط (مفاعلن) رَ ء خو (فعِلن)۔ فعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 6۔
مصرع ثانی وزن نمبر 3 میں ہے۔
یوں اس غزل میں غالب نے پانچ اوزان جمع کئے ہیں جو کہ اوپر والی فہرست کے مطابق اوزان نمبر 1، 3، 5، 6 اور 7 بنتے ہیں۔
اب فیض احمد احمد فیض کی ایک غزل کے اشعار دیکھتے ہیں۔
شعرِ فیض آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن آے کچ اب (فاعلاتن) ر کچ شرا (مفاعلن) بائے (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 1۔
مصرع ثانی عروضی متن و وزن اس کِ بع دا (فاعلاتن) ء جو عذا (مفاعلن) بائے (فعلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 1۔
شعرِ فیض عمر کے ہر وَرق پہ دل کو نظر تیری مہر و وفا کے باب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن عمر کے ہر (فاعلاتن) ورق پہ دل (مفاعلن) کُ نظر (فعِلن)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلن۔ وزن نمبر 5۔
مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعرِ فیض کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب آج تم یاد بے حساب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن کر رہا تھا (فاعلاتن) غَ مے جہا (مفاعلن) کَ حساب (فعِلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعِلان۔ وزن نمبر 7۔
مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعرِ فیض نہ گئی تیرے غم کی سرداری دل میں یوں روز انقلاب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن نَ گئی تے (فعلاتن) رِ غم کِ سر (مفاعلن) داری (فعلن)۔ فعلاتن مفاعلن فعلن۔ وزن نمبر 2۔
مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعرِ فیض جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام جب بھی ہم خانماں خراب آئے
مصرع اول عروضی متن و وزن جل اٹھے بز (فاعلاتن) مِ غیر کے (مفاعلن) در بام (فعلان)۔ فاعلاتن مفاعلن فعلان۔ وزن نمبر 3۔
مصرع ثانی، وزن نمبر 1 میں ہے۔
اس غزل میں فیض نے مجموعی طور پر پانچ اوزان جمع کئے ہیں جو اوپر والی اوزان کی فہرست کے مطابق وزن نمبر 1، 2، 3، 5 اور 7 ہیں۔
آٹھوں اوزن کی امثال (اوزان کے نمبر اوپر والی فہرست کے مطابق ہیں)
شعر فیض
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
دونوں مصرعے 'فاعلاتن مفاعلن فعلن' میں ہیں (وزن نمبر 1)
شعرِ فیض نہ گئی تیرے غم کی سرداری دل میں یوں روز انقلاب آئے
اس شعر کا پہلا مصرع 'فعِلاتن مفاعلن فعلن' میں ہے (وزن نمبر 2)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعرِ فیض جل اٹھے بزمِ غیر کے در و بام جب بھی ہم خانماں خراب آئے
پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہے (وزن نمبر 3)، دوسرا مصرع وزن نمبر 1 میں ہے۔
شعر مصحفی نہ تو مے لعلِ یار کے مانند نہ گل اس کے عذار کے مانند
دونوں مصرعے 'فعلاتن مفاعلن فعلان' میں ہیں (وزن نمبر 4)۔
شعرِ فیض عمر کے ہر وَرَق پہ دل کو نظر تیری مہر و وفا کے باب آئے
پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 5)۔
شعرِ غالب نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خوں جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گل باز
پہلا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلن' میں ہے (وزن نمبر 6)۔ دوسرا مصرع وزن نمبر 3 میں ہے۔
شعرِ فیض کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب آج تم یاد بے حساب آئے
پہلا مصرع 'فاعلاتن مفاعلن فعِلان' وزن نمبر 7 میں ہے۔
شعرِ داغ غم اٹھانے کے ہیں ہزار طریق کہ زمانے کے ہیں ہزار طریق
دوسرا مصرع 'فعلاتن مفاعلن فعِلان' میں ہے (وزن نمبر 8)۔ پہلا مصرع وزن نمبر 7 میں ہے۔
مشابہت
بحروں میں مشابہت کے حوالے سے محمد حسین آزاد کا آبِ حیات میں تحریر کردہ ایک واقعہ یاد آگیا جو انہوں انشاءاللہ خان انشا کے تذکرے میں بیان کیا ہے۔ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان میں مرزا عظیم بیگ تھے کہ سودا کے دعوٰی شاگردی اور پرانی مشق کے گھمنڈ نے انکا دماغ بہت بلند کر دیا تھا۔ وہ فقط شد بود کا علم رکھتے تھے مگر اپنے تئیں ہندوستان کا صائب کہتے تھے اور خصوصاً ان معرکوں میں سب سے بڑھ کر قدم مارتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک دن میر ماشاءاللہ خاں کے پاس آئے اور غزل سنائی کہ بحر رجز میں تھی مگر ناواقفیت سے کچھ شعر رمل میں جا پڑے تھے۔ سید انشاءاللہ بھی موجود تھے، تاڑ گئے۔ حد سے زیادہ تعریف کی اور اصرار سے کہا کہ مرزا صاحب اسے آپ مشاعرے میں ضرور پڑھیں۔ مدعی کمال کہ مغز سخن سے بے خبر تھا اس نے مشاعرہ عام میں غزل پڑھ دی۔ سید انشاءاللہ نے وہیں تقطیع کی فرمائش کی۔ اس وقت اس غریب پر جو گزری سو گزری مگر سید انشاءاللہ نے اس کے ساتھ سب کو لے ڈالا اور کوئی دم نہ مار سکا۔ بلکہ ایک مخمس بھی پڑھا، جس کا مطلع یہ ہے۔
گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے
بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے"
اس واقعے کا ذکر مولوی نجم الدین غنی نے عیوبِ عروض کے تحت کیا ہے اور شعراء کرام کو متنبہ کیا ہے جو بحریں آپس میں متشابہ ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتیں۔
اور یہ بات ہماری مذکورہ بحر کیلیے بھی حرف بحرف صحیح ہے کہ اس بحر کی مشابہت یوں تو کئی بحروں کے ساتھ ہے لیکن بحر 'رمل مسدس مخبون محذوف مقطوع' کے ساتھ تو حد سے زیادہ متشابہ ہے۔ اس دوسری بحر کا وزن 'فاعلاتن فعِلاتن فعلن' ہے اور اسکے صدر و ابتدا اور عروض و ضروب میں بھی وہی اور اتنے ہی اوزان آ سکتے ہیں جو کہ بحرِ خفیف کے ہیں یعنی اس میں بھی مجموعی طور پر آٹھ اوزان جمع ہو سکتے ہیں لیکن خفیف اور رمل مقطوع میں فرق یہ ہے کہ خفیف کا حشو 'مفاعلن' جب کہ رمل کا حشو 'فعِلاتن' ہے۔ اگر آپ اوپر دیئے گئے آٹھ اوزان کی فہرست دیکھیں تو نوٹ کریں گے کہ ان آٹھ اوزان میں صدر و ابتدا اور عروض و ضروب تو تبدیل ہو رہے ہیں لیکن حشو تبدیل نہیں ہو رہا بعینہ اسی طرح 'رمل' میں حشو 'فعِلاتن' تبدیل نہیں ہوتا اور صدر و ابتدا اور عروض و ضروب وہی ہیں جو 'خفیف' کے ہیں۔
یہ ایک انتہائی لطیف اور کم فرق ہے، یہ ایسے ہی جیسے آپ کہیں 'دعا یہ ہے' تو یہ بر وزن 'مفاعلن' ہے لیکن اگر کہیں 'یہ دعا ہے' تو یہ 'فعِلاتن' کے وزن پر ہے اور صرف ایک حرف کی جگہ تبدیل کرنے سے بحر بدل جائے گی۔
حصۂ دوم - بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع میں کہی گئی کچھ مشہور غزلیات
اس مضمون کا عنوان "ایک خوبصورت بحر" میرے ذہن میں اس بحر میں کہی گئی مشہور غزلیات کو دیکھ کر آیا تھا۔ اور دوسری بات یہ تھی کہ اس بحر میں کہی گئی غزلیات ہمارے گلوکاروں میں بھی مقبول رہی ہیں اور بعضوں نے تو بہت اچھے انداز میں انہیں گایا ہے۔ انہی غزلیات میں سے کچھ غزلیات نیچے دی جا رہی ہیں۔ فہرست بالکل اور مکمل تاریخی ترتیب سے نہیں ہے لیکن بہرحال زمانے کا میں نے خیال رکھا ہے۔ ایک التزام میں نے یہ کیا ہے کہ ہر غزل کا مطلع دیا ہے اور اسکے ساتھ کچھ مشہور یا اپنی پسند کے اشعار بھی دے دیئے ہیں۔
ولی دکنی دل ہوا ہے مرا خرابِ سخن دیکھ کر حسن بے حجابِ سخن
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن
اے ولی دردِ سر کبھو نہ رہے جب ملے صندل و گلابِ سخن
ولہ خوب رو خوب کام کرتے ہیں یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
دل لجاتے ہیں اے ولی میرا سرو قد جب خرام کرتے ہیں
ولہ عارفاں پر ہمیشہ روشن ہے کہ فنِ عاشقی عجب فن ہے
مجکوں روشن دلاں نے دی ہے خبر کہ سخن کا چراغ روشن ہے
ولہ عشق بے تاب جاں گدازی ہے حسن مشتاقِ دل نوازی ہے
اے ولی عیشِ ظاہری کا سبب جلوۂ شاہدِ مجازی ہے
میر تقی میر یہ بحر میر کی مرغوب ترین بحروں میں سے لگتی ہے کہ میر کے اس بحر میں سو کے قریب غزلیات صرف دیوانِ اول ہی میں ہیں۔
ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر ان نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے
ولہ دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میر بھاری پتھّر ہے کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
ولہ قصد اگر امتحان ہے پیارے اب تلک نیم جان ہے پیارے
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر یہ ہماری زبان ہے پیارے
میر عمداً بھی کوئی مرتا ہے جان ہے تو جہان ہے پیارے
ولہ بار ہا گور دل جھکا لایا اب کی شرطِ وفا بجا لایا
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار عشق کی کون انتہا لایا
اب تو جاتے ہیں بتکدے سے میر پھر ملیں گے اگر خدا لایا
ولہ اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا لہو آتا ہے جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
عشق کو حوصلہ ہے شرط ورنہ بات کا کسو ڈھب نہیں آتا
دور بیٹھا غبارِ میر اس سے عشق بن یہ ادب نہیں آتا
ولہ ہے غزل میر یہ شفائی کی ہم نے بھی طبع آزمائی کی
وصل کے دن کی آرزو ہی رہی شب نہ آخر ہوئی جدائی کی
زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر کس بھروسے پہ آشنائی کی
ولہ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
نہیں آتے کسو کی آنکھوں میں ہو کے عاشق بہت حقیر ہوئے
ولہ عمر بھر ہم رہے شرابی سے دلِ پر خوں کی اک گلابی سے
کام تھے عشق میں بہت پر میر ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے
ولہ گل و بلبل بہار میں دیکھا ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا
جن بلاؤں کو میر سنتے تھے ان کو اس روزگار میں دیکھا
ولہ تا بہ مقدور انتظار کیا دل نے پھر زور بے قرار کیا
یہ توہّم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر مذہبِ عشق اختیار کیا
ولہ گل کو محبوب میں قیاس کیا فرق نکلا بہت جو باس کیا
صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی کیا پتنگے نے التماس کیا
ولہ خوب رو سب کی جان ہوتے ہیں آرزوئے جہان ہوتے ہیں
کیا رہا ہے مشاعرے میں اب لوگ کچھ جمع آن ہوتے ہیں
میر و مرزا رفیع و خواجہ میر کتنے اک یہ جوان ہوتے ہیں
ولہ ہو گئی شہر شہر رسوائی اے مری موت تو بھلی آئی
میر جب سے گیا ہے دل تب سے میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی
ولہ رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے دل نے صدمے بڑے اٹھائے تھے
پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
میر صاحب رولا گئے سب کو کل وے تشریف یاں بھی لائے تھے
ولہ کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق حق شناسوں کا ہاں خدا ہے عشق
کوہ کن کیا پہاڑ کاٹے گا پردے میں زور آزما ہے عشق
کون مقصد کو عشق بنِ پہنچا آرزو عشق، مدّعا ہے عشق
خواجہ میر درد جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا تُو ہی آیا نظر، جدھر دیکھا
اُن لبوں نے نہ کی مسیحائی ہم نے سَو سَو طرح سے مر دیکھا
زور عاشق مزاج ہے کوئی درد کو قصّہ مختصر دیکھا
ولہ جگ میں کوئی نہ ٹک ہنسا ہوگا کہ نہ ہنستے میں رو دیا ہوگا
ان نے قصداً بھی میرے نالے کو نہ سنا ہوگا، گر سنا ہوگا
دل زمانے کے ہاتھ سے سالم کوئی ہوگا جو رہ گیا ہوگا
دل بھی اے درد قطرۂ خوں تھا آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا
ولہ ہے غلط گر گُمان میں کچھ ہے تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے آن میں کچھ ہے، آن میں کچھ ہے
اِن دنوں کچھ عجب حال ہے مرا دیکھتا کچھ ہوں، دھیان میں کچھ ہے
انشاءاللہ خاں انشا ضعف آتا ہے، دل کو تھام تو لو بولیو مت، مگر سلام تو لو
انھیں باتوں پہ لوٹتا ہوں میں گالی پھر دے کے میرا نام تو لو
یک نگہ پر بِکے ہے انشا آج مفت میں مول اک غلام تو لو
حیدر علی آتش غیرتِ مہر، رشک ماہ ہو تم خوبصورت ہو، بادشاہ ہو تم
کیوں کر آنکھیں نہ ہم کو دکھلاؤ کیسے خوش چشم، خوش نگاہ ہو تم
غلام ہمدانی مصحفی خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا
جس کو ہم روزِ ہجر سمجھے تھے ماہ تھا یا وہ سال تھا کیا تھا
مصحفی شب جو چپ تُو بیٹھا تھا کیا تجھے کچھ ملال تھا کیا تھا
ولہ یوں تو دنیا میں کیا نہیں ملتا پر دلِ با صفا نہیں ملتا
بت پرستی سے باز آ اے دل بت کے پوجے سے خدا نہیں ملتا
ہو کے روکھا وہ یوں لگا کہنے کیا کرے گا بے، جا نہیں ملتا
ولہ نہ تو مے لعلِ یار کے مانند نہ گل اس کے عذار کے مانند
پھر گئیں ہم سے یار کی آنکھیں گردشِ روزگار کے مانند
تربتِ مصحفی کو دیکھا کل ڈھیر تھا اک مزار کے مانند
میرزا غالب غالب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے انتہائی مختصر سے دیوان میں جتنی مشہور غزلیں ہیں شاید ہی کسی اور شاعر کی ہوں۔ اور یہی معاملہ اس بحر کے ساتھ ہے کہ کل ملا کر کوئی دس کے لگ بھگ غزلیں اس بحر میں ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک، اور ہر غزل کا تقریباً ہر شعر ہی لا جواب ہے۔ غزلوں کے علاوہ کچھ قطعات اور مثنوی 'در صفتِ انبہ' بھی اسی بحر میں ہے۔
درد منّت کشِ دوا نہ ہوا میں نہ اچّھا ہوا، بُرا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو اک تماشا ہوا، گِلا نہ ہوا
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں آج غالب غزل سرا نہ ہوا
ولہ وہ فراق اور وہ وصال کہاں وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
فکرِ دنیا میں سر کھپاتا ہوں میں کہاں اور یہ وبال کہاں
ولہ کوئی امّید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معیّن ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی
ولہ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
ولہ پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے سینہ جویائے زخمِ کاری ہے
پھر اُسی بے وفا پہ مرتے ہیں پھر وہی زندگی ہماری ہے
بے خودی بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ولہ میں انھیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو، جو کچھ ہو کاشکے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا دل بھی، یا رب کئی دیے ہوتے
ولہ پھر اس انداز سے بہار آئی کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے، باد پیمائی
ولہ نے گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز
تُو اور آرائشِ خمِ کاکل میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا میں غریب اور تُو غریب نواز
ولہ ابنِ مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جب توقّع ہی اٹھ گئی غالب کیوں کسی کا گِلا کرے کوئی
ولہ درد ہو دل میں تو دوا کیجے دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب توبہ توبہ، خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی پہلے دل درد آشنا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب کب تک افسوس زیست کا کیجے
مومن خاں مومن اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا رنج، راحت فزا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے، کیا کیا لے کر دل کسی کام کا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومن صنم آخر خدا نہیں ہوتا
ولہ قہر ہے، موت ہے، قضا ہے عشق سچ تو یہ ہے بری بلا ہے عشق
دیکھئے کس جگہ ڈبو دے گا میری کشتی کا نا خدا ہے عشق
آپ مجھ سے نباہیں گے، سچ ہے با وفا حسن، بے وفا ہے عشق
قیس و فرہاد و وامق و مومن مر گئے سب ہی، کیا وبا ہے عشق
ولہ مجھ کو تیرے عتاب نے مارا یا مرے اضطراب نے مارا
مومن از بس ہیں بے شمار گناہ غمِ روزِ حساب نے مارا
ولہ امتحاں کے لئے جفا کب تک التفاتِ ستم نما کب تک
مر چلے اب تو اس صنم سے ملیں مومن اندیشۂ خدا کب تک
ولہ عشق نے یہ کیا خراب ہمیں کہ ہے اپنے سے اجتناب ہمیں
سبحان اللہ! برادرم آپ نے تو موتی پرو دیے ہیں۔ اس خشک مضمون کو اتنی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ مجھے بھی خوش فہمی ہونے لگی ہے اب تو کہ میری بھی سمجھ میں آ رہا ہے۔
واقعی انتہائی عمدہ لکھا ہے۔ بہت شکریہ!