ایک تازہ غزل آپ سب کے نام


آپ سب کی محبتوں کی نظر ایک غزل پیش کر رہا ہوں ہوں۔
غزل

تو نہیں جب سے ہم سفر میرا
رہ گزر ہے نہ ہے شجر میرا

کون دے گا مجھے یہاں دستار
ہر کوئی چاہتا ہے سر میرا

تیرے جانے سے کچھ نہیں ہو تا
مجھ پہ ہونے لگا اثر میرا

ہر کوئی تھا سراب میں کھویا
دیکھتا کون واں ہنر میرا

اجنبی شہر اجنبی گلیاں
کوئی دیوار ہے نہ در میرا

میں بھی جاذب عجب مسافر ہوں
ساتھ چلتا ہے میرے گھر میرا​
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھے اشعار نکالے ہیں سلمان صاحب!

مطلع تھوڑا سا "ڈھیلا" ہے، اگر دوبارہ کہہ سکیں بالخصوص مصرعِ ثانی تو چار چاند لگ جائیں غزل کو!

تیرے جانے سے کچھ نہیں ہو تا
مجھ پہ ہونے لگا اثر میرا

میں بھی جاذب عجب مسافر ہوں
ساتھ چلتا ہے میرے، گھر میرا

یہ دونوں بہت اچھے اشعار ہیں، بہت خوب!

یہ شعر بیت الغزل ہوتا، فصیح و بلیغ ہوتا میری نظر میں، اگر 'واں' کی محدود "محفل" کی بجائے "یاں" کی وسیع و عریض "دنیا" ہوتا کہ "سراب" اگلی دنیا بن جاتا:

ہر کوئی تھا سراب میں کھویا
دیکھتا کون واں ہنر میرا

مجموعی طور پر اچھی غزل ہے!

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بھئی وارث، مطلع ڈھیلا ہی نہیں، اس غزل پر دھبہ ہے۔۔ اس کو تو دوبارہ کہیں سلیمان۔
باقی غزل اچھی ہے میں وارث سے بھی متفق ہوں باقی اشعار کے بارے میں۔
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے جاذب بھیا ۔ وا ہ ، مجھے بابا جانی اور وارث صاحب کی بات سے اتفاق ہے ۔
مطلع میں کام کیا جاسکتا ہے ، ( میرے خیال میں) مصرع ثانی خوب ہے اس پر اچھا سا مصرع لگا لیں۔

میں بھی جاذب عجب مسافر ہوں
ساتھ چلتا ہے میرے گھر میرا

واہ خانہ بدوشی کی خوب تشریح ہے ۔واہ

کون دے گا مجھے یہاں دستار
ہر کوئی چاہتا ہے سر میرا

علامتی شعر ہے ۔ دستار اور سر کے تلازمے نے اسے کہیں کا کہیں پہنچا دیا ہے ۔ بہت خوب واہ۔
سدا خوش رہیں جناب ۔ اللہ کرے مشقِ سخن زورِ‌قلم تیز۔
والسلام
 
Top