محترم
ظہیراحمدظہیر کے انٹرویو سے بحفاظت واپسی پر انتظامی کمیٹی نے ہمیں مبارک باد اور نیک خواہشات کا سندیسہ بھیجا، اور ساتھ ہی بتایا کہ ایک اور انٹرویو بھی ہمارے ذمہ لگا دیا گیا ہے۔ اور اس دفعہ انٹرویو کرنا ہو گا ذہانت کے الیکشن کی تازہ ترین فاتح
مریم افتخار کا۔
ہم نے کمیٹی سے پوچھا کہ کیا ڈرامہ چوراسی یا چاہت فتح علی کی آپشنز موجود ہیں؟ اس پہ کمیٹی والوں نے بتایا کہ مریم صاحبہ کا انٹرویو سوالنمبر ایک کی مانند ہے، جو کہ لازمی ہوتا ہے۔ اس لئے باتیں چھوڑیئے اور جلد از جلد انٹرویو کا اہتمام کیجئے۔
پس ہم نے برقی قاصد کے ذریعے مریم افتخار صاحبہ سے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں اپنے دفتری اوقات میں سے ہی انٹرویو کے لئے کچھ وقت عنایت کر دیا۔ ہم نے سوالات کی بابت
عبداللہ محمد صاحب سے بھی رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ میں فون پر آپ کو متعلقہ سوالات و ہدایات کی کمک بھیجتا رہوں گا۔
مقررہ وقت پر ہم مریم صاحبہ کے آفس پہنچ گئے تو انہوں نے خوشدلی سے استقبال کیا۔۔" آئیے جناب خوش آمدید۔ امید ہے کہ انٹرویو بھی احسن طریقے سے انجام پائے گا اور آج میں اس خاص موقع کے لئے گھر سے کیک بھی بنا کے لائی ہوں، وہ بھی آپ کو چائے کے ساتھ پیش کیا جائے گا"۔
ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ انٹرویو کا آغاز کیسے کریں کہ عبداللہ صاحب کا میسج آیا کہ "استاد جی! کج منہ توں پھُٹو۔ اسیں ومبلڈن دا میچ وی تکنا اے"۔ بس پھر انٹرویو کے آغاز کی کوشش کی ہی تھی کہ مریم صاحبہ نے کہا کہ آپ ذرا ہمارے لئے الیکشن کی دونوں لڑیوں کی تلخیص لکھیں، ہم اتنی دیر تک چائے اور کیک لے کر آتے ہیں۔
اب ہم لگے ان لڑیوں کو "پھرولنے"، جو کہ نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر طویل تھیں۔ نجانے کتنا ہی وقت گزر گیا ہمیں تلخیص کے نوٹس بناتے بناتے، کہ مریم صاحبہ چائے کے ساتھ کیک لے کر آ گئیں۔
کیک کو دیکھ کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی، کہ بلیک فاریسٹ کیک ہمیں بہت پسند تھا۔
ہم: ارے واہ! بلیک فاریسٹ کیک، خوب است
(میسج آیا۔۔ استاد جی کلے کلے نہیں، سادا حصہ شاپر وچ لے کے آنا جے)۔
وہ: ارے نہیں جناب۔ یہ تو پائن ایپل کیک ہے (بس آنچ ذرا تیز رہ گئی تھی شاید)۔
اس کے ساتھ ہی کیک کا ایک بڑا ٹکڑا کاٹ کر پلیٹ ہماری جانب بڑھائی۔ پہلا لقمہ لیتے ہی سارا آفس بقعۂ نور بن گیا۔۔ کہ چودہ کے چودہ طبق دو ہزار واٹ کے بلب کی مانند روشن ہو گئے تھے۔
ہم: اردو محفل پہ مزے مزے کے کھانوں کی باتیں اور یہاں یہ کیک۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
وہ (بات کو الٹ سمجھتے ہوئے): وہ فورم پہ تو ورچوئل باتیں ہوتی ہیں۔ کھانوں کا اصل ذائقہ تو حقیقی زندگی میں پتاچلتا ہے۔
ہم: جی جی وہی تو ( پائن ایپل سے بلیک فاریسٹ کیک بنا کر دکھائے کوئی!)۔
(میسج: سر جی! ساڈا شاپر اوتھے ای چھڈ آیا جے۔ تے نالے سوال وی پُچھو!)۔
ہم: کیا آپ کی وجۂ شہرت سائنس کے حوالے سے ہے؟ (میسج: پائی صاب کسوٹی آلی لڑی دوجی اے)۔
وہ (دانت پیستے ہوئے): کیاصرف ہاں یا ناں میں جواب دے سکتے ہیں؟
ہم: اوہ سوری۔ ہم سوال یہ کرنا چاہ رہے تھے کہ آپ کی سائنسی تحقیق کہاں تک پہنچی؟
وہ (فلسفیانہ اندازمیں): ابھی تو ہم خود کی کھوج لگانے میں مصروف ہیں۔ اس میں کامیابی ہوئی تو تحقیق پہ توجہ مرکوز کریں گے۔
ارے آپ مزید کیک لیجئے نا۔ اور ہمارے منع کرنے کے باوجود پلیٹ میں کیک اور ہماری پریشانی میں یکساں اضافہ ہو گیا۔
(میسج: استاد جی! ہن آرام جے؟)
ہم: آپ حال ہی میں اردو محفل پہ ذہانت کا الیکشن جیتی ہیں تو اس بارے میں اظہارِ خیال کیجئے۔
وہ: میں فقط الیکشن ہی نہیں جیتی، بلکہ اپنی زندگی بھی جیتی ہوں، ہر حال میں جیتی ہوں اور اپنی مرضی سے جیتی ہوں۔ میں تو کہتی ہوں کہ
جس دور میں جینا مشکل ہو، اس دورمیں جینا لازم ہے۔
ہم: یہ بھی بتائیے کہ آجکل آپ کے کیا مشاغل اور مصروفیات ہیں؟
وہ: آج کل ہماری تمام مصروفیات اور مشاغل اردو محفل کی عیادت باسعادت تک ہی محدود ہیں۔ دم توڑتی محفل سے ذہین ترین ہونے کا انگوٹھا لگوانا ہو، یا ہزاریوں کی مبارک باد کی ہزار ہا لڑیاں بنانا، ہر جگہ مجھے ہی میزبانی کرنی پڑ رہی ہے۔
ہوں سب محفل پہ میں چھائی ہوئی
مستند ہے ہر لڑی میری بنائی ہوئی
(میسج: سر جی! اِک جگت آئی اے، لاواں کہ نہیں؟)
ہم: اردو محفل کی ممکنہ بندش کے بارے میں آپ کے کیا خیال ہیں۔
وہ: غمناک و غیرمتفق و ناپسندیدہ ۔ دیکھیں جی، جو کام ریٹنگ سے ہو سکتا ہو، اس کے لئے الفاظ خرچنا ضروری نہیں۔
ہم: آج کے دن اردو محفل کے اراکین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
وہ: ہم اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہی کہنا چاہیں گے کہ
یاد رکھ کاکا
بیٹری صرف اوساکا
(میسج: پاء جی! گل ود گئی جے۔نسو ایتھوں، فیر نہ کہنا دسیا نہیں سی)۔
ہم: واہ جی واہ، بیٹری کے بارے میں آپ کی برانڈ پلیسمنٹ کو طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ لیکن ایک بائیولوجسٹ اور سخن شناس ہوتے ہوئے بیٹری کی برانڈنگ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
وہ: دیکھیں جناب! بیٹری اور حیاتیات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ان دنوں اگر موبائل کی بیٹری ختم ہو جائے تو آدھی حیات کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جائے۔ اور سخن وری کا بھی بیٹری سے خاص علاقہ ہے کہ دونوں ہی کو چارجر درکار ہوتا ہے، کسی کو پتلی پِن والا اور کسی کو ٹائپ سی۔
ہم: اس بابت بھی روشنی ڈالیئے کہ آپ کی نظر میں زندگی کیا ہے؟ اس کو ایک جملے میں بیان کیجئے ۔
وہ: زندگی اصل میں ایک ایسی کتاب کی مانند ہے جس کا ایک ایک صفحہ ہم خود لکھتے ہیں۔ اس کا دیباچہ ہی احسن انداز سے لکھ دیا جائے تو کتابِ زندگی خوبصورت لگنا شروع ہو جائے۔ دیباچے کے بعد ٹیبل آف کونٹینٹ، لٹریچر ریویو اور گلوسری بھی ضرور لکھنی چاہئے مکمل حوالہ جات کے ساتھ، اسی کے ساتھ انڈیکس بھی مرتب کر کیا جانا چاہئے تا کہ سرچ کرنے میں ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
(گھڑی کی بڑی سوئی کا ایک چکر مکمل۔ ہم پہ غشی کے دورے۔ موبائل پر میسج پہ میسج آ رہے ہیں، لیکن پڑھنے کا یارا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔
(بیان جاری ہے)
آپ اس خطے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، یہاں کا رہن سہن اور تہذیب و تمدن سب سے الگ تھلگ تھا۔ اس فرق کو نہ محمد بن قاسم دور کر سکا، نہ ہی سرسید احمد خان۔ بھگت سنگھ اور سلطان راہی نے اپنی سی کوشش کی، لیکن دونوں تاریک راہوں میں مارے گئے ۔ اس فرق کو کتابیں ہی دور کر سکتی ہیں۔ میں تو کہتی ہوں کہ اگر درست ڈیٹا اینالیسز کر لیا جائے تو ۔۔۔۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(گھڑی کی چھوٹی سوئی کا بھی ایک پورا چکر مکمل۔ ہم پہ نزع کا عالم طاری ہے۔ موبائل کی بیٹری ڈاؤن ہو چکی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(بیان ابھی جاری ہے)
آج کی دنیا بہت بدل چکی ہے (جی ہاں! گول کی جگہ چوکور پہئے آچکے شاید 🫤)۔ اس جہانِ رنگ و بو میں زیست کے اسباب بدل چکے ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں زندگی کی کتاب بھی بدل چکی ہے۔ اب یہ ای بک کی شکل میں بھی آ چکی ہے۔ جیسے ای بک میں سرچ کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ کنٹرول جمع ایف دبا کر مطلوبہ کی ورڈ لکھیں اور اینٹر پریس کر کے من کی مراد پائیں۔ اسی طرح زندگی میں بھی کنٹرول جمع ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
(ایک جملے پر مشتمل بیان ابھی جاری تھا، کہ ہم نے سارا بلیک فاریسٹ کیک کھا کر آتما ہتیا کر لی 😔)۔