لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کئی بینک اکاونٹس بند کرتے ہوئے ٹیکس نہ دینے کے الزامات کے تحت بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
متحدہ کے خلاف ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر تحققیات پہلے سے جاری ہیں۔
دریں اثنا برطانوی کراؤن پروسیکیوشن سروس نے باضابطہ طور پر پاکستانی حکام سے ان دو افراد کی تلاش کا کہا ہے جو مبینہ طور پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں برطانیہ کو مطلوب ہیں۔
ایم کیو ایم ان تمام الزامات سے انکار کرتی ہے لیکن الطاف حسین اپنے ایک ٹیلی فونک خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ لندن پولیس نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ الطاف حسین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو کارکن یاد رکھیں کہ ان کا قائد بےگناہ تھا اور بےگناہ ہے۔
ایم کیو ایم کے قانونی ماہر بیرسٹر فروغ نسیم نے بی بی سی کے پرواگرم ’نیوز نائٹ‘ میں پارٹی کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عمران کا قتل پارٹی کے مخالفین کی سازش ہو سکتی ہے۔ یا کوئی رہزنی کی واردات کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
ایم کیو ایم کے خلاف تحقیقات
برطانوی حکام ایم کیوایم کے خلاف تین مختلف تحقیقات کر رہی ہیں۔
پہلا یہ کہ حکام الطاف حسین کی تقریروں کا جائزہ لے رہے جس میں انھوں نے مبینہ طور پر دھمکی آمیز اور اشتعال انگیز باتیں کی تھیں۔اس میں ایک مشکل یہ ہے کہ دفاع کے وکلا الطاف حسین کے تقاریر کے ترجمے کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے خلاف برطانوی حکام منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔گذشتہ دسمبر میں دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جو ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔
سنہ 2012 میں دسمبر میں برطانوی پولیس نےایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر سے 2 لاکھ 50 ہزار پاونڈز مالیت کی مختلف کرنسی قبضے میں لی تھی۔ جون سنہ 2013 میں انھوں نے الطاف حسین کے گھر سے 2 لاکھ 30 ہزار پاؤنڈ قبضے میں لیے تھے۔
پارٹی کے قربیی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ رقم 7 ہزار پاؤنڈ سے کم حصوں میں منتقل کی گئی ہے تو قانون کی کوئی حلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے تاجروں نے حلفیہ بیان لکھ کر دیے ہیں کہ انھوں نے یہ رقم اپنی مرضی سے چندے کے طور پر دی ہے۔
تیسرا یہ کہ برطانوی حکام ایم کیو ایم کے خلاف ٹیکس کی عدم ادائیگی سے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ٹیکس کا بڑا بل ملنے کی توقع ہے جو وہ ادا کرے گی۔
’نیوز نائٹ‘ کی رپورٹ میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں دو پاکستانیوں کو بھی شناخت کیاگیا ہے جو مبینہ طور قتل کی ورادات کے فوراً بعد اسی شام ہیتھرو ایئرپورٹ سے سری لنکا پرواز کر گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق انھیں سری لنکا سے کراچی پہنچنے پر ہوائی اڈے کے رن وے پرگرفتار کیا گیا تھا۔
نیوز نائٹ کے مطابق پاکستانی حکام سے موصول ہونے والی دستاویزات میں ان دنوں کی شناخت محسن علی سید اور محمد کاشف خان کامران کے ناموں سے کی گئی ہے۔
محسن علی سید فروری سنہ دو ہزار دس میں پاکستان سے برطانیہ پہنچے تھے اور جنوبی لندن کے علاقے ٹوٹنگ میں قیام پذیر رہے۔ محمد کاشف خان کامران ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی واردات سے کچھ دن قبل لندن پہنچے۔ ٹیلی فون کے ریکارڈ کے مطابق کاشف خان کامران برطانیہ میں قیام کے دوران مسلسل محسن علی سید کے ساتھ رہے۔
یہ دونوں مطلوب افراد لندن پڑھنے کی غرض سے آئے تھے اور انھوں نے مشرقی لندن کے ایک کالج میں داخلہ لیا تھا۔
نیوز نائٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قواعد و ضوابط کے مطابق لندن کا یہ کالج کسی غیر ملکی طالب علم کی مسلسل غیر حاضری کی صورت میں اس بات کا مجاز ہے کہ وہ فوری طور پر اس کی اطلاع متعلقہ حکام کو کرے۔ لیکن ان دو افراد کی عدم حاضری کے بارے میں کالج نے اٹھارہ ماہ بعد برطانوی حکام کو آگاہ کیا۔
کالج کا کہنا ہے کہ ان سے اس بارے میں وضاحت طلب کی گئی تھی جو انھوں نے دے دی ہے۔ دوسری طرف برطانوی ہوم آفس کا کہنا ہے کہ کالج کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کی جا رہیں۔ التبہ انھوں نے اس بارے میں کچھ کہنے سے انکار کیا کہ آیا کالج نے ان دو طالب علموں کی عدم موجودگی کے بارے میں تاخیر کرکے قواعد اور ضوابط کی خلاف ورزی کی یا نہیں۔
ملزموں کی شناخت
’نیوز نائٹ‘ کی رپورٹ میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں دو پاکستانیوں کو بھی شناخت کیاگیا ہے جو مبینہ طور قتل کی ورادات کے فوراً بعد اسی شام ہیتھرو ایئرپورٹ سے سری لنکا پرواز کر گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق انھیں سری لنکا سے کراچی پہنچنے پر ہوائی اڈے کے رن وے پرگرفتار کیا گیا تھا۔
نیوز نائٹ کو حاصل دستاویزات کے مطابق ان دونوں مطلوبہ اشخاص کے ویزا فارموں کی توثیق کراچی کے ایک بزنس مین معظم علی خان نے کی تھی جو سنہ دو ہزار دس میں افتخار حسین سے مسلسل رابطے میں رہے۔ معظم علی خان سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
افتخار حسین خان ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کے بھیتجے ہیں اور انھیں گذشتہ برس کینیڈا سے لندن پہنچنے پر پولیس نے ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر گرفتار کر لیا تھا۔ بعد ازاں ان سے تفتیش کرکے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کے قانونی ماہر بیرسٹر فروغ نسیم نے افتخار حسین کے بارے میں نیوز نائٹ کو بتایا کہ پاکستانی حکام نے انھیں تشدد کانشانہ بنایا جس کی وجہ سے افتخار حسین کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
نیوز نائٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے الطاف حسین کی کراچی میں ٹیلی فون پر کی جانے والی تقریروں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے مبینہ طور پر دھمکی آمیز اور اشتعال انگیز باتیں کی تھیں۔ گذشتہ برس الطاف حسین کی ایک ایسی ہی تقریر پر لندن پولیس کو دس ہزار سے زیادہ شکایات موصول ہوئی تھیں۔
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں الطاف حسین کے گھر اور دفتر پر پولیس کے چھاپوں میں لندن پولیس نے پانچ لاکھ پونڈ کے قریب نقد رقم برآمد کی تھی۔ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں گذشتہ ماہ پولیس نے ایم کیو ایم کے ایک اہم رہنما کو گرفتار کیا تھا۔
اس تفتیش کے سلسلے میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے چار ہزار افراد سے بات چیت کی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/01/140130_fresh_investigations_against_mqm_rk.shtml
متحدہ کے خلاف ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر تحققیات پہلے سے جاری ہیں۔
دریں اثنا برطانوی کراؤن پروسیکیوشن سروس نے باضابطہ طور پر پاکستانی حکام سے ان دو افراد کی تلاش کا کہا ہے جو مبینہ طور پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں برطانیہ کو مطلوب ہیں۔
ایم کیو ایم ان تمام الزامات سے انکار کرتی ہے لیکن الطاف حسین اپنے ایک ٹیلی فونک خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ لندن پولیس نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ الطاف حسین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو کارکن یاد رکھیں کہ ان کا قائد بےگناہ تھا اور بےگناہ ہے۔
ایم کیو ایم کے قانونی ماہر بیرسٹر فروغ نسیم نے بی بی سی کے پرواگرم ’نیوز نائٹ‘ میں پارٹی کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر عمران کا قتل پارٹی کے مخالفین کی سازش ہو سکتی ہے۔ یا کوئی رہزنی کی واردات کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
ایم کیو ایم کے خلاف تحقیقات
برطانوی حکام ایم کیوایم کے خلاف تین مختلف تحقیقات کر رہی ہیں۔
پہلا یہ کہ حکام الطاف حسین کی تقریروں کا جائزہ لے رہے جس میں انھوں نے مبینہ طور پر دھمکی آمیز اور اشتعال انگیز باتیں کی تھیں۔اس میں ایک مشکل یہ ہے کہ دفاع کے وکلا الطاف حسین کے تقاریر کے ترجمے کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے خلاف برطانوی حکام منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی کر رہے ہیں۔گذشتہ دسمبر میں دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جو ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔
سنہ 2012 میں دسمبر میں برطانوی پولیس نےایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر سے 2 لاکھ 50 ہزار پاونڈز مالیت کی مختلف کرنسی قبضے میں لی تھی۔ جون سنہ 2013 میں انھوں نے الطاف حسین کے گھر سے 2 لاکھ 30 ہزار پاؤنڈ قبضے میں لیے تھے۔
پارٹی کے قربیی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ رقم 7 ہزار پاؤنڈ سے کم حصوں میں منتقل کی گئی ہے تو قانون کی کوئی حلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے تاجروں نے حلفیہ بیان لکھ کر دیے ہیں کہ انھوں نے یہ رقم اپنی مرضی سے چندے کے طور پر دی ہے۔
تیسرا یہ کہ برطانوی حکام ایم کیو ایم کے خلاف ٹیکس کی عدم ادائیگی سے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کو ٹیکس کا بڑا بل ملنے کی توقع ہے جو وہ ادا کرے گی۔
’نیوز نائٹ‘ کی رپورٹ میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں دو پاکستانیوں کو بھی شناخت کیاگیا ہے جو مبینہ طور قتل کی ورادات کے فوراً بعد اسی شام ہیتھرو ایئرپورٹ سے سری لنکا پرواز کر گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق انھیں سری لنکا سے کراچی پہنچنے پر ہوائی اڈے کے رن وے پرگرفتار کیا گیا تھا۔
نیوز نائٹ کے مطابق پاکستانی حکام سے موصول ہونے والی دستاویزات میں ان دنوں کی شناخت محسن علی سید اور محمد کاشف خان کامران کے ناموں سے کی گئی ہے۔
محسن علی سید فروری سنہ دو ہزار دس میں پاکستان سے برطانیہ پہنچے تھے اور جنوبی لندن کے علاقے ٹوٹنگ میں قیام پذیر رہے۔ محمد کاشف خان کامران ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی واردات سے کچھ دن قبل لندن پہنچے۔ ٹیلی فون کے ریکارڈ کے مطابق کاشف خان کامران برطانیہ میں قیام کے دوران مسلسل محسن علی سید کے ساتھ رہے۔
یہ دونوں مطلوب افراد لندن پڑھنے کی غرض سے آئے تھے اور انھوں نے مشرقی لندن کے ایک کالج میں داخلہ لیا تھا۔
نیوز نائٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قواعد و ضوابط کے مطابق لندن کا یہ کالج کسی غیر ملکی طالب علم کی مسلسل غیر حاضری کی صورت میں اس بات کا مجاز ہے کہ وہ فوری طور پر اس کی اطلاع متعلقہ حکام کو کرے۔ لیکن ان دو افراد کی عدم حاضری کے بارے میں کالج نے اٹھارہ ماہ بعد برطانوی حکام کو آگاہ کیا۔
کالج کا کہنا ہے کہ ان سے اس بارے میں وضاحت طلب کی گئی تھی جو انھوں نے دے دی ہے۔ دوسری طرف برطانوی ہوم آفس کا کہنا ہے کہ کالج کے خلاف کوئی تحقیقات نہیں کی جا رہیں۔ التبہ انھوں نے اس بارے میں کچھ کہنے سے انکار کیا کہ آیا کالج نے ان دو طالب علموں کی عدم موجودگی کے بارے میں تاخیر کرکے قواعد اور ضوابط کی خلاف ورزی کی یا نہیں۔
ملزموں کی شناخت
’نیوز نائٹ‘ کی رپورٹ میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں دو پاکستانیوں کو بھی شناخت کیاگیا ہے جو مبینہ طور قتل کی ورادات کے فوراً بعد اسی شام ہیتھرو ایئرپورٹ سے سری لنکا پرواز کر گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق انھیں سری لنکا سے کراچی پہنچنے پر ہوائی اڈے کے رن وے پرگرفتار کیا گیا تھا۔
نیوز نائٹ کو حاصل دستاویزات کے مطابق ان دونوں مطلوبہ اشخاص کے ویزا فارموں کی توثیق کراچی کے ایک بزنس مین معظم علی خان نے کی تھی جو سنہ دو ہزار دس میں افتخار حسین سے مسلسل رابطے میں رہے۔ معظم علی خان سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
افتخار حسین خان ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کے بھیتجے ہیں اور انھیں گذشتہ برس کینیڈا سے لندن پہنچنے پر پولیس نے ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر گرفتار کر لیا تھا۔ بعد ازاں ان سے تفتیش کرکے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
ایم کیو ایم کے قانونی ماہر بیرسٹر فروغ نسیم نے افتخار حسین کے بارے میں نیوز نائٹ کو بتایا کہ پاکستانی حکام نے انھیں تشدد کانشانہ بنایا جس کی وجہ سے افتخار حسین کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
نیوز نائٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے الطاف حسین کی کراچی میں ٹیلی فون پر کی جانے والی تقریروں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے مبینہ طور پر دھمکی آمیز اور اشتعال انگیز باتیں کی تھیں۔ گذشتہ برس الطاف حسین کی ایک ایسی ہی تقریر پر لندن پولیس کو دس ہزار سے زیادہ شکایات موصول ہوئی تھیں۔
ڈاکٹر عمران فاروق قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں الطاف حسین کے گھر اور دفتر پر پولیس کے چھاپوں میں لندن پولیس نے پانچ لاکھ پونڈ کے قریب نقد رقم برآمد کی تھی۔ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں گذشتہ ماہ پولیس نے ایم کیو ایم کے ایک اہم رہنما کو گرفتار کیا تھا۔
اس تفتیش کے سلسلے میں لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے چار ہزار افراد سے بات چیت کی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/01/140130_fresh_investigations_against_mqm_rk.shtml