اک گل تازہ میان قریہ مہتاب تھے

نمرہ

محفلین
اک گل تازہ میان قریہ مہتاب تھے
کیا کہیں ہم آرزو کس کس کی، کس کا خواب تھے
سادگی کے پیرہن میں باندھ رکھتے تھے انھیں
کچھ ارادے پھوٹ پڑنے کو بہت بیتاب تھے
کچھ زمینی بندھنوں میں ماند ہو کر رہ گئے
ہم کہ اپنی اصل میں آتش تھے اور سیماب تھے
خود بخود اک دشت اندر اگ رہا تھا دن بہ دن
میرے گھر کی چار جانب کچھ نئے سیلاب تھے
ہم تو سمجھے تھے شمار اپنا کہیں ہے ہی نہیں
زنگ لگ جانے پہ بھی دنیا کی آب و تاب تھے
ان کی سیاحی کو مجنوں ہی کوئی درکار تھا
کچھ علاقے تھے کہ جو مدت سے زیر آب تھے
قریہ جاں میں سنبھل کر پاؤں رکھتا تھا کوئی
اتنی بے باکی پہ بھی گاہے گہے برفاب تھے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی غزل ہے ، نمرہ!

اک گلِ تازہ میانِ قریۂ مہتاب تھے

مطلع کا مصرعِ اول مبہم ہے ، شاید قافیے کی مجبوری کی وجہ سے۔ اول تو قریۂ مہتاب کی ترکیب غیر معروف ہے ، واضح نہیں ہوتا کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ پھر قریۂ مہتاب میں گلِ تازہ کا ہونا ابہام کو مزید بڑھارہا ہے۔ قریۂ مہتاب کے بجائے اگر قریۂ شاداب کہیں تو ابہام دور ہوسکتا ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اک گل تازہ میان قریہ مہتاب تھے
کیا کہیں ہم آرزو کس کس کی، کس کا خواب تھے
بہت خوب! اچھی غزل ہے ، نمرہ!

اک گلِ تازہ میانِ قریۂ مہتاب تھے

مطلع کا مصرعِ اول مبہم ہے ، شاید قافیے کی مجبوری کی وجہ سے۔ اول تو قریۂ مہتاب کی ترکیب غیر معروف ہے ، واضح نہیں ہوتا کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ پھر قریۂ مہتاب میں گلِ تازہ کا ہونا ابہام کو مزید بڑھارہا ہے۔ قریۂ مہتاب کے بجائے اگر قریۂ شاداب کہیں تو ابہام دور ہوسکتا ہے۔آپ کا کیا خیال ہے؟
قریہء مہتاب اچھی لفظی ترکیب ہے لیکن یہاں اجنبی سے ماحول میں قید لگ رہی ہے کہ اس کے لیے دوسرے مصرعے میں مناسبت نہیں جوڑی گئی ۔اگر اسے اسطرح کہا جائے تو اس ترکیب کو ماحول سے ربط مل جائے اور اجنبیت نہ رہے ۔ (اگر چہ اصلاح سخن نہیں لیکن بس بر سبیل تذکرہ )
روشنی کے دیس میں ہم خوشبؤوں کا خواب تھے ۔

مجنوں والے شعر کے ساتھ زیر آب کے علاوہ کوئی اور پیوستہ ترکیب گھڑی جاسکتی ہے ۔

اسی طرح۔۔۔ آتش تھے اور سیماب تھے ۔۔۔
یہاں ۔اور۔ کا لفظ سپاٹ تاثر سے شعر کی اصل شعریت کا لطف کم کرتا محسوس ہو رہا ہے ۔ غزل کے لحاظ سے اس کا بیان بہتر ہو نا چاہیے۔
ماند ہو جانا کی جگہ ماند پڑ جانا استعمال کیا جائے تو شعر ذرا اور چمک جائے ۔
ہم کہ اپنی اصل میں اک آتشیں سیماب تھے ۔

مجموعی طور پر غزل کی عمومی بنت اچھی اور شستہ ہے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ! بہت اچھی غزل ہے۔
سادگی کے پیرہن میں باندھ رکھتے تھے انھیں
کچھ ارادے پھوٹ پڑنے کو بہت بیتاب تھے

کچھ زمینی بندھنوں میں ماند ہو کر رہ گئے
ہم کہ اپنی اصل میں آتش تھے اور سیماب تھے

خود بخود اک دشت اندر اگ رہا تھا دن بہ دن
میرے گھر کی چار جانب کچھ نئے سیلاب تھے

ان اشعار پر خصوصی داد قبول فرمائیے۔
 
Top