ن م راشد اپنے ہونے پر نہ ہونے کا گمان ہونے لگا - ن م راشد

اپنے ہونے پر نہ ہونے کا گمان ہونے لگا
اس سے مل کر ایک احساس زیاں ہونے لگا

درد تھم جائے گا آخر نیند بھی آ جائے گی
رات کا پچھلا پہر بڑھ جواں ہونے لگا

ہم چلے آئے یہاں تک بے محابا شوق میں
رائیگاں سارا سفر تھا یہ گماں ہونے لگا

سوچتے تو بھول جانا اسقدر مشکل نہیں
کام آساں ہے مگر ہم سے کہاں ہونے لگا

کتنے چہرے کتنے موسم کتنے دن بیت گئے
جب کبھی اس بے مروت کا بیاں ہونے لگا

ہم بھی تھک جائیں گے اس بار امانت کے طفیل
آخر شب چاند بھی جھک کر کماں ہونے لگا
ن م راشد
 

مغزل

محفلین
میں اگر غلطی پر نہیں ہوں تو ۔ مجھے یہی معلوم ہے کہ نظر محمد راشد نے غزلیں نہیں‌کہیں ۔نثری نظم پر تجربہ کیا اور ترک کرنے کے بعد، آزاد نظم کو بام عروج تک پہنچایا۔اس غز ل کی بابت جو مجھے علم ہے کہ یہ غزل ن م دانش کی ہے ۔۔ جوکراچی سے نیویارک چلے گئے تھے اور اس کے بعد ان کا کچھ پتہ نہیں‌، بہر کیف اتنا اچھا کلام پیش کرنے پر میری جانب سے مبارکباد، والسلام
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں اگر غلطی پر نہیں ہوں تو ۔ مجھے یہی معلوم ہے کہ نظر محمد راشد نے غزلیں نہیں‌کہیں ۔نثری نظم پر تجربہ کیا اور ترک کرنے کے بعد، آزاد نظم کو بام عروج تک پہنچایا۔اس غز ل کی بابت جو مجھے علم ہے کہ یہ غزل ن م دانش کی ہے ۔۔ جوکراچی سے نیویارک چلے گئے تھے اور اس کے بعد ان کا کچھ پتہ نہیں‌، بہر کیف اتنا اچھا کلام پیش کرنے پر میری جانب سے مبارکباد، والسلام

ن م راشد نے غزلیں بھی کہی تھیں لیکن بہت کم تعداد میں لیکن ان غزلوں کا اتا پتہ کہیں نہیں ملتا۔ ن م راشد نے بہرحال نثری نظم کبھی نہیں کہی ۔ اور یہ غزلیں یقیناً ن م دانش کی ہی ہوں گی۔ شکریہ مغل صاحب!
 

مغزل

محفلین
شکریہ جناب ، میں تو ورطہ ِ حیرت میں تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔ ویسے میرے پاس ثبوت ہیں کہ راشد نے نثری نظم بھی لکھی۔
 

فاتح

لائبریرین
میں اگر غلطی پر نہیں ہوں تو ۔ مجھے یہی معلوم ہے کہ نظر محمد راشد نے غزلیں نہیں‌کہیں ۔نثری نظم پر تجربہ کیا اور ترک کرنے کے بعد، آزاد نظم کو بام عروج تک ۔
ن م راشد نے بہرحال نثری نظم کبھی نہیں کہی ۔
ویسے میرے پاس ثبوت ہیں کہ راشد نے نثری نظم بھی لکھی۔
جی مغل بھائی حاضر کر دیں ثبوت۔ میرا بھی خیال ہے اگر انھوں نے آزاد نظم لکھی ہے تو نثری بھی لکھی ہو گی

پھاڑ کر اپنا گریباں ابھی مجنوں کی طرح
جی میں آتا ہے نکل جائیے ویرانے کو

فرخ صاحب تو سدا کے جھوٹے ہیں۔ ان کی بات پر تو کسی طور اعتبار کیا ہی نہیں جا سکتا مگر کیا کیجیے ن م راشد کے اپنے الفاظ کا جو انہوں‌نے ماہنامہ 'الہام'، دہلی کو مئی 1941 میں اپنے ایک مقالے میں رقم کیے۔ اور یوں لگتا ہے کہ ہمارے اسی دنگل کی منصفی کے لیے تحریر کیے تھے۔;) ملاحظہ ہو:
ان نظموں میں ایک اور نرالی بات آپ کو ملے گی۔ لیکن اب اتنی بھی نرالی نہیں کیونکہ اس قسم کی نظمیں کچھ عرصے سے عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ان نظموں میں بحر تو ہے مگر بحر کے ارکان کسی مصرع میں کم اور کسی میں زیادہ ہیں۔ پھر ارکان کی کمی بیشی میں کوئی خاص ترتیب مد نظر نہیں۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بحر کے مقررہ ارکان کو پورا کرنے کے لیے خوامخواہ کی کھینچا تانی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور مصرع کو کوئی حصہ زائد یا مفلوج نہیں ہونے پاتا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
پھاڑ کر اپنا گریباں ابھی مجنوں کی طرح
جی میں آتا ہے نکل جائیے ویرانے کو

فرخ صاحب تو سدا کے جھوٹے ہیں۔ ان کی بات پر تو کسی طور اعتبار کیا ہی نہیں جا سکتا مگر کیا کیجیے ن م راشد کے اپنے الفاظ کا جو انہوں‌نے ماہنامہ 'الہام'، دہلی کو مئی 1941 میں اپنے ایک مقالے میں رقم کیے۔ اور یوں لگتا ہے کہ ہمارے اسی دنگل کی منصفی کے لیے تحریر کیے تھے۔;) ملاحظہ ہو:

شکریہ فاتح صاحب ۔ آپ نے منصفی کا حق ادا کردیا اور میرے جھوٹ کی کھلے عام قلعی کھول دی۔ ;)
 

مغزل

محفلین
پھاڑ کر اپنا گریباں ابھی مجنوں کی طرح
جی میں آتا ہے نکل جائیے ویرانے کو

فرخ صاحب تو سدا کے جھوٹے ہیں۔ ان کی بات پر تو کسی طور اعتبار کیا ہی نہیں جا سکتا مگر کیا کیجیے ن م راشد کے اپنے الفاظ کا جو انہوں‌نے ماہنامہ 'الہام'، دہلی کو مئی 1941 میں اپنے ایک مقالے میں رقم کیے۔ اور یوں لگتا ہے کہ ہمارے اسی دنگل کی منصفی کے لیے تحریر کیے تھے۔;) ملاحظہ ہو:

ان نظموں میں ایک اور نرالی بات آپ کو ملے گی۔ لیکن اب اتنی بھی نرالی نہیں کیونکہ اس قسم کی نظمیں کچھ عرصے سے عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ان نظموں میں بحر تو ہے مگر بحر کے ارکان کسی مصرع میں کم اور کسی میں زیادہ ہیں۔ پھر ارکان کی کمی بیشی میں کوئی خاص ترتیب مد نظر نہیں۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بحر کے مقررہ ارکان کو پورا کرنے کے لیے خوامخواہ کی کھینچا تانی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور مصرع کو کوئی حصہ زائد یا مفلوج نہیں ہونے پاتا۔


قبلہ یہ متن غالباً آزاد نظم کی ذیل میں ہے ۔۔ کیا کہتے ہیں آپ ؟
 

فاتح

لائبریرین
قبلہ یہ متن غالباً آزاد نظم کی ذیل میں ہے ۔۔ کیا کہتے ہیں آپ ؟

آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے​

یقیناً آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ میری مراد ن م راشد کی وہ نثری نظمیں‌ہیں‌جو آپ نے چھپا کر رکھی ہیں۔
تو دکھاؤ صاحب۔۔۔:hurryup:
 

مغزل

محفلین
میرے خیال میں ، آج کل میں سوجھ بوجھ سے عاری ہوتا جارہا ہوں یا شاید اختلاف برائے اختلاف کی راہ پر چل رہا ہوں۔

معروف افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے فن اور شخصیت کے حوالے سے ”ادب ستارہ“ سلسلے کی ایک خصوصی نشست حلقہ اربابِ ذوق اسلام آباد کے تحت اکادمی ادبیات کے رائیٹرز ہاؤس میں منعقد ہوئی جس میں راولپنڈی /اسلام آباد کے شاعروں اور ادیبوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اس خصوصی پروگرام کی صدارت منشایاد نے کی جب کہ مہمان خاص ضیا جالندھری تھے ۔ پروگرام کی ابتداءمیں ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا مضمون پڑھا گیا۔مضمون حلقہ کے سیکرٹری اصغر عابد نے پیش کیا۔ یہ نشست غیر معمولی طوالت اختیار کرگئی اور صاحب شام کے فن وشخصیت پر بھرپور گفتگو ہوئی۔ (رپورٹ : خلیق الرحمان)
ضیاء جالندھری نے حمید شاہد کی تنقید کی کتاب ” ادبی تنازعات“ پر کہا :
میں نثم یا نثری نظم کا حامی نہیں ہوں اور اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ سنانا چاہتا ہوں کہ ایک مرتبہ ن م راشد بھی نثری نظمیں لکھ کر ہمیں پڑھنے کو دیں ۔ ہم متاثر نہ ہوئے تو کہنے لگے کہ ان میں باطنی طور پر ایک ردھم موجود ہے جب میں پڑھوںگا تو آپ کو بھی وہ محسوس ہوجائے گا ۔ ن م راشد نے انہیں پڑھا بھی مگر ہمیں وہ ردھم محسوس نہیں ہو ا۔ بعد میں راشد نے ایسی نظمیں نہ لکھیں ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں ، آج کل میں سوجھ بوجھ سے عاری ہوتا جارہا ہوں یا شاید اختلاف برائے اختلاف کی راہ پر چل رہا ہوں۔

معروف افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کے فن اور شخصیت کے حوالے سے ”ادب ستارہ“ سلسلے کی ایک خصوصی نشست حلقہ اربابِ ذوق اسلام آباد کے تحت اکادمی ادبیات کے رائیٹرز ہاؤس میں منعقد ہوئی جس میں راولپنڈی /اسلام آباد کے شاعروں اور ادیبوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ اس خصوصی پروگرام کی صدارت منشایاد نے کی جب کہ مہمان خاص ضیا جالندھری تھے ۔ پروگرام کی ابتداءمیں ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا مضمون پڑھا گیا۔مضمون حلقہ کے سیکرٹری اصغر عابد نے پیش کیا۔ یہ نشست غیر معمولی طوالت اختیار کرگئی اور صاحب شام کے فن وشخصیت پر بھرپور گفتگو ہوئی۔ (رپورٹ : خلیق الرحمان)
ضیاء جالندھری نے حمید شاہد کی تنقید کی کتاب ” ادبی تنازعات“ پر کہا

میں نثم یا نثری نظم کا حامی نہیں ہوں اور اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ سنانا چاہتا ہوں کہ ایک مرتبہ ن م راشد بھی نثری نظمیں لکھ کر ہمیں پڑھنے کو دیں ۔ ہم متاثر نہ ہوئے تو کہنے لگے کہ ان میں باطنی طور پر ایک ردھم موجود ہے جب میں پڑھوںگا تو آپ کو بھی وہ محسوس ہوجائے گا ۔ ن م راشد نے انہیں پڑھا بھی مگر ہمیں وہ ردھم محسوس نہیں ہو ا۔ بعد میں راشد نے ایسی نظمیں نہ لکھیں ۔:

یہ اقتباس یہاں سے نقل کیا گیا ہے۔ واللہ عالم یہ بات درست ہے بھی یا نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میں احباب سے یہ پوچھنا چاہ رہا ہونکہ یہ جو پیاسا صحرا، ن م راشد سے اپنی پیاس بجھا گئے ہیں تو کیا واقعی یہ کلام راشد کا ہے یہ ن م دانش کا، تا کہ ٹیگز وغیرہ صحیح کیے جا سکیں!
 

فرخ منظور

لائبریرین
میں احباب سے یہ پوچھنا چاہ رہا ہونکہ یہ جو پیاسا صحرا، ن م راشد سے اپنی پیاس بجھا گئے ہیں تو کیا واقعی یہ کلام راشد کا ہے یہ ن م دانش کا، تا کہ ٹیگز وغیرہ صحیح کیے جا سکیں!

وارث صاحب اسے ن م دانش کے کھاتے میں ہی ڈالیے۔ کیونکہ جو غزلیں راشد نے لکھی بھی تھیں راشد نے انہیں disown کردیا تھا۔
 

مغزل

محفلین
جی ہاں شکریہ ۔ مجھے راشد کے ہمعصر لوگوں‌سے جو باتیں معلوم ہیں ان کا تحریری ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہوں‌۔ ہاں انہیں کہہ کر لکھوا لوں تو شاید بات بنے ۔ پھر یہ میری ذاتی بحث نہیں ۔ اختلاف ہوسکتا ہے اور نہیں بھی۔ فاروقی صاحب کی ’’ باز گشت و بازیافت ‘‘ سے رجوع کیا جاسکتا ہے ( اگر اس کی صحت تسلیم کی جائے تو ) ورگرنہ میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں ۔

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب اسے ن م دانش کے کھاتے میں ہی ڈالیے۔ کیونکہ جو غزلیں راشد نے لکھی بھی تھیں راشد نے انہیں Disown کردیا تھا۔

شکریہ فرخ صاحب، یہ کلام کو ڈِس اون کرنا ایسے ہی ہے جیسے اولاد کو عاق کرنا، باپ مانے یا نہ مانے، اولاد رہتی اسی کی ہے ;)

میں پیاسا صحرا سے ان غزلیات کے ماخذ کے بارے میں ذپ کر کے پوچھتا ہوں اور پھر انشاءاللہ انکا کچھ کریں گے!


 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب، یہ کلام کو ڈِس اون کرنا ایسے ہی ہے جیسے اولاد کو عاق کرنا، باپ مانے یا نہ مانے، اولاد رہتی اسی کی ہے ;)

میں پیاسا صحرا سے ان غزلیات کے ماخذ کے بارے میں ذپ کر کے پوچھتا ہوں اور پھر انشاءاللہ انکا کچھ کریں گے!



واہ بہت خوب۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔ :)
 
Top