اپنے مسلک سے ہٹ گئے رستے۔۔۔ فضل گلبرگوی

فرحت کیانی

لائبریرین
اپنے مسلک سے ہٹ گئے رستے
راستے سے پلٹ گئے رستے

دیکھ لیں راہروانِ راہِ خرد
کتنی گلیوں میں بٹ گئے رستے

کارواں کو تھی زندگی کی تلاش
اور لاشوں سے پٹ گئے رستے

اہلِ دل جس طرف سے گزرے ہیں
احتراماً سمٹ گئے رستے

اب تو اے دوستو بڑھاؤ قدم
گردوطوفاں سے چھٹ گئے رستے

شوق کو رہنما بنایا تھا
آپ ہی آپ کٹ گئے رستے

فضل یہ کون سُوئے دار چلا
نقشِ پا سے لپٹ گئے رستے

۔۔۔۔فضل گلبرگوی
 

الف عین

لائبریرین
لو یہ دکن کے کون شاعر نکلے ہیں؟ میں نے تو ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔۔ لیکن غزل اچھی ہے۔ فرحت ذرا حوالہ تو دو کہ کہاں پائے جاتے ہیں یہ شاعر؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
لو یہ دکن کے کون شاعر نکلے ہیں؟ میں نے تو ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔۔ لیکن غزل اچھی ہے۔ فرحت ذرا حوالہ تو دو کہ کہاں پائے جاتے ہیں یہ شاعر؟

سر میں نے بھی پہلی بار ہی ان کا کلام پڑھا ہے۔ یہ غزل میں نے 'اردو ڈائجسٹ، مارچ 1971' کے شمارے سے لی ہے۔ انٹرنیٹ پر سرچ کرنے کی کوشش کی لیکن ان شاعر کے بارے میں کوئی حوالہ نہیں مل سکا۔
 
Top