اپنے سبکدوش ہونے والے مہربان اور شفیق پروفیسر کے لئے کچھ اشعار

اپنے سبکدوش ہونے والے مہربان اور شفیق پروفیسر کے لئے کچھ اشعار لکھے ہیں ، اصلاح کے لیے پیش کرتا ہوں
وہ ہے شجاعت کا استعارا، بہت نڈر ہے
وہ رہروانِ رہِ صداقت کا راہبر ہے
میں جانتا ہوں وہ ساتھ دے گا تو صرف سچ کا
کسی قِسم کا کوئی سحر اس پہ بے اثر ہے
الجھ پڑا ہے وہ سب سے تنہا، تمہیں خبر کیا
وہ کتنے لوگوں کی زد پہ،کس کس محاذ پر ہے
میں کتنا محفوظ خود کو محسوس کر رہا ہوں
وہ ایک سایہ ہے، سائباں ہے، وہ اک شجر ہے
وہ سنگ ہے تو مسافتوں کا خیال کیسا
میں بے فکر ہوں کہ ساتھ میرے وہ راہبر ہے
وہ بولتا ہے تو دل سے سنتے ہیں سننے والے
کہ اس کی ہر بات، ہر حوالے سے معتبر ہے
اے کاش اس کو کبھی کہیں پہ بتا سکوں میں
ہماری نظروں میں احترام اس کا کس قدر ہے
یہاں وہاں پہ رواں دواں کتنے کارواں ہیں
سبھی مسافر ہیں زندگانی بھی اک سفر ہے
کہاں پہ آئیں گے موڑ رستے میں، کون جانے
کہاں پہ بچھڑے گا کون ہم سے کسے خبر ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
سید صاحب السلام علیکم -

بہت خوب ماشاء الله اچھی کاوش ہے، جس میں آپ کی اپنے استاد کے لیے محبت صاف جھلک رہی ہے -

:مفاعلاتن: تین بار ایک مصرع میں، یہ وزن اردو میں کم مستعمل ہے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ ان اوزان میں غنائیت کم ہے -اس کی بجائے مصرع میں اگر ایک مفاعلاتن کا اضافہ کردیا جائے یعنی فی مصرع مفاعلاتن چار بار تو یہ ایک مترنم بحر ہے جس میں امیر خسرو کی مشہور زمانہ غزل ہے :زحال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں -اور اقبال کی بھی اس بحر میں :زمانہ: نظم ہے جس کے دو اشعار یوں ہیں :


ہوائیں ان کی ،فضائیں ان کی ،سمندر ان کے ،جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر بھنور ہے تقدیر کا بہانہ

ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ


دیکھا آپ نے کہ مصرع میں ایک :مفاعلاتن: بڑھا دینے سے کس قدر مترنم ہو جاتی ہے بحر -


بہر حال آپ کی نظم دیکھتے ہیں :


وہ ہے شجاعت کا استعارا، بہت نڈر ہے
وہ رہروانِ رہِ صداقت کا راہبر ہے
خوب -

میں جانتا ہوں وہ ساتھ دے گا تو صرف سچ کا
کسی قِسم کا کوئی سحر اس پہ بے اثر ہے
دوسرے مصرع کو یوں کر دیں تو قسم اور سحر کے تلفّظ کا مسئلہ حل ہو جائے گا :

کسی طرح کا کوئی فسوں اس پہ بے اثر ہے

الجھ پڑا ہے وہ سب سے تنہا، تمہیں خبر کیا
وہ کتنے لوگوں کی زد پہ،کس کس محاذ پر ہے
واہ -علامت وقف یعنی کوما ہٹا دیں -

میں کتنا محفوظ خود کو محسوس کر رہا ہوں
وہ ایک سایہ ہے، سائباں ہے، وہ اک شجر ہے
خوب -

وہ سنگ ہے تو مسافتوں کا خیال کیسا
میں بے فکر ہوں کہ ساتھ میرے وہ راہبر ہے
جیسا کہ تجویز آئی بے فکر کو مطمئن سے بدل دیں -

وہ بولتا ہے تو دل سے سنتے ہیں سننے والے
کہ اس کی ہر بات، ہر حوالے سے معتبر ہے
خوب -

اے کاش اس کو کبھی کہیں پہ بتا سکوں میں
ہماری نظروں میں احترام اس کا کس قدر ہے
:اے :کو یک حرفی نہیں باندھا جاتا -مصرع یوں بھی کیا جا سکتا ہے :

کبھی تو اے کاش دل کی بات اس سے کہہ سکوں میں

یہاں وہاں پہ رواں دواں کتنے کارواں ہیں
سبھی مسافر ہیں زندگانی بھی اک سفر ہے
پہلا مصرع کچھ کھٹک پیدا کر رہا ہے -اسے یوں بھی کر سکتے ہیں

بصورتِ کارواں یہاں ہم رواں دواں ہیں

کہاں پہ آئیں گے موڑ رستے میں، کون جانے
کہاں پہ بچھڑے گا کون ہم سے کسے خبر ہے
ٹھیک ہے لیکن پہلے مصرع میں :موڑ : میں ابھی تشنگی سی ہے -

ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے -

کہاں پہ ہوں گے ہمارے رستے جدا نہ جانے

سید صاحب ! یہ ہے میری ناقص رائے، ابھی اعجاز صاحب بھی اپنی رائے دیں گے -

لیکن آپ سے التماس ہے کہ ان صلاحوں کی روشنی میں کہ جو آپ کو پسند آئیں اپنی کاوش کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے آخری شکل یہاں ضرور پیش کیا کریں -

الله کرے زور قلم اور زیادہ
 
آخری تدوین:
:اے :کو یک حرفی نہیں باندھا جاتا -مصرع یوں بھی کیا جا سکتا ہے :

کبھی تو اے کاش دل کی بات اس سے کہہ سکوں میں
کبھی تو اے کاش بات دل کی بتاؤں اس کو
کہ میری نظروں میں احترام اس کا کس قدر ہے
یوں کیسا رہے گا؟
 

یاسر شاہ

محفلین
کبھی تو اے کاش بات دل کی بتاؤں اس کو
کہ میری نظروں میں احترام اس کا کس قدر ہے
یوں کیسا رہے گا؟
خوب ہے۔
ہماری راہیں کہاں جدا ہوں گی، کون جانے
کہاں پہ بچھڑے گا کون ہم سے کسے خبر ہے
اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟
اس سے تو ابتدائی شکل ہی بہتر تھی :کہاں پہ: کی تکرار کا لطف بھی تھا ۔
 

الف عین

لائبریرین
عزیزی یاسر شاہ نے احسن طریقے سے اصلاح کر دی ہے
کبھی تو اے کاش بات دل کی بتاؤں اس کو
کہ میری نظروں میں احترام اس کا کس قدر ہے
یوں کیسا رہے گا؟
یہ بہتر ہے
موڑ رستے میں.. والا شعر بھی مجھے قبول ہے، اس میں مجھے 'کون جانے' زیادہ پر لطف لگ رہا ہے
 
Top