اپریل فول !!!

ساقی۔

محفلین
34rvzp4.gif

.............................................................................................





.................................................................................................


وکیپیڈیا سے


اپریل فول دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے اور بیوقوف بنانے کا تہوار ہے۔ اسکا خاص دن اپریل کی پہلی تاریخ ہے۔ یہ یورپ سے شروع ہوا اور اب ساری دنیا میں مقبول ہے۔ 1508 سے 1539 کے ولندیزی اور فرانسیسی ذرائع ملتے ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مغربی یورپ کے ان علاقوں میں یہ تہوار تھا۔ برطانیہ میں اٹھارویں صدی کے شروع میں اس کا عام رواج ہوا۔

۔ دراصل سولہویں صدی کے آخر تک یعنی 1564 تک نیا سال مارچ کے آخر میں شروع ہوتا تھا۔ نئے سال کی آمد پر لوگ تحائف کا تبادلہ کرتے تھے۔ فرانس کے بادشاہ نے جب کیلنڈر کی تبدیلی کا حکم دیا کہ نیا سال مارچ کی بجائے جنوری سے شروع ہوا کرے تو غیر ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو اس تبدیلی کا علم نہ ہو سکا اور وہ بدستور یکم اپریل کو ہی نئے سال کی تقریبات مناتے رہے اور باہم تحائف کا تبادلہ بھی جاری رہا۔ اسی بنا پر ان لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا جنھیں اس تبدیلی کا علم تھا۔ اور انھیں اپریل فول کے طنزیہ نام سے پکارنے لگے۔ آہستہ آہستہ یہ روایت بن گیا اور اب دنیا بھر میں یہ دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے لیکن اپریل فول کا کسی بھی لحاظ سے مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔

آج بھی ایرانی کیلنڈر کے مطابق نیا سال 21 مارچ سے شروع ہوتا ہے. سال کے پہلے دن ایران میں نوروز کا تہوار منایا جاتا ہے جو ایرانیوں کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے حالانکہ اسکی کوئ مذہبی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ محض سردیوں کے رخصت ہونے اور بہار کے آنے کی خوشی میں منایا جاتا تھا کیونکہ سردیوں میں نہ کوئ فصل اگتی تھی نہ مویشیوں کے لیئے چارہ دستیاب ہوتا تھا۔ ایرانی کیلنڈر ایک زمانے تک یورپ میں بھی رائج رہا تھا۔ علم نجوم اور برج کے بارہ مہینے دراصل ایرانی مہینوں کے ہی پرانے نام ہیں اور عین ان ہی تاریخوں پہ شروع اور ختم ہوتے ہیں۔ لیپ کے سال ایرانی کیلنڈر کے آخری مہینے کے آخر میں ایک دن کا اضافہ کیا جاتا ہے اور برجوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ انگریزی کلنڈر میں لیپ کا اضافی دن سال کے شروع یا آخر کی بجائے مارچ سے پہلے ہوتا ہے تاکہ ایرانی کیلنڈر سے فرق کم سے کم رہے۔


.........................................................................................................



معاشرتی برائیاں، اپریل فول

April fool کے بارے مختلف روایات مشہور ہیں جن میں سے دو درج ذیل ہیں :

اپریل لاطینی زبان کے لفظ اپریلس Aprilis یا اپرائر Aprire سے ماخوذ ہے ، جس کا مطلب ہے پھولوں کا کھلنا ، کونپلیں پھوٹنا ، قدیم رومی قوم موسم بہار کی آمد پر شراب کے دیوتا کی پرستش کرتی اور اسے خوش کرنے کے لیے لوگ شراب پی کر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ۔ یہ جھوٹ رفتہ رفتہ اپریل فول کا ایک اہم حصہ بلکہ غالب حصہ بن گیا ۔

انسائیکلوپیڈیا انٹرنیشنل کے مطابق مغربی ممالک میں یکم اپریل کو عملی مذاق کا دن قرار دیا جاتا ہے ۔ اس دن ہر طرح کی نازیبا حرکات کی چھوٹ ہوتی ہے ، اور جھوٹے مذاق کا سہارا لے کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔

افسوس صد افسوس ! یہ فضول اور فول رسم مسلم معاشرے کا ایک اور لازم حصہ بن چکی ہے ، اور مسلمان اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کی تباہی و بربادی پر خوشی کا دن مناتے ہیں ۔ اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو Fool بنا بنا کر ان کو مصیبت و پریشانی میں ڈالتے ہیں ۔
اپریل فول کی دردناک حقیقت :

جب عیسائی افواج نے اسپین کو فتح کیا ، تو اس وقت اسپین کی زمین پر مسلمانوں کا اتنا خون بہایا گیا کہ فاتح فوج کے گھوڑے جب گلیوں سے گزرتے تھے ، تو ان کی ٹانگیں گھٹنوں تک مسلمانوں کے خون میں ڈوبی ہوتی تھیں ۔ جب قابض افواج کو یقین ہو گیا کہ اب اسپین میں کوئی بھی مسلمان زندہ نہیں بچا ہے تو انہوں نے گرفتار مسلمان فرمان روا کو یہ موقع دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ واپس مراکش چلا جائے ، جہاں سے اس کے آباؤ اجداد آئے تھے ۔ قابض فوج غرناطہ سے کوئی بیس کلومیٹر دور ایک پہاڑی پر اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی ۔

جب عیسائی افواج مسلمان حکم رانوں کو اپنے ملک سے نکال چکیں تو پھر حکومتی جاسوس گلی گلی گھومتے رہے کہ کوئی مسلمان نظر آئے تو اسے شہید کر دیا جائے ، جو مسلمان زندہ بچ گئے وہ اپنے علاقے چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں جا بسے ، اور وہاں جا کر اپنے گلوں میں صلیبیں ڈال لیں اور عیسائی نام رکھ لیے ۔ اب بظاہر اسپین میں کوئی بھی مسلمان نظر نہیں آ رہا تھا ، مگر اب بھی عیسائیوں کو یقین تھا کہ سارے مسلمان قتل نہیں ہوئے کچھ چھپ کر اور اپنی شناخت چھپا کر زندہ ہیں ۔ اب مسلمانوں کو باہر نکالنے کی تراکیب سوچی جانے لگیں اور پھر ایک منصوبہ بنایا گیا ۔ پورے ملک میں اعلان ہوا کہ یکم اپریل کو تمام مسلمان غرناطہ میں اکٹھے ہو جائیں ، تا کہ انہیں ان ممالک میں بھیج دیا جائے جہاں وہ جانا چاہیں ۔ اب چونکہ ملک میں امن قائم ہو چکا تھا ، اور مسلمانوں کو خود ظاہر ہونے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوا ۔ مارچ کے پورے مہینے اعلانات ہوتے رہے ۔ الحمراءکے نزدیک بڑے بڑے میدانوں میں خیمے نصب کر دئیے گئے ، جہاز آ کر بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتے رہے ، مسلمانوں کو ہر طریقے سے یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ جب مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ اب ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہو گا تو وہ سب غرناطہ میں اکٹھے ہونا شروع ہوئے ۔ اس طرح حکومت نے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کر لیا اور ان کی بڑی خاطر مدارات کی ۔


یہ کوئی پانچ سوبرس پہلے ، یکم اپریل کا دن تھا ، جب تمام مسلمانوں کو بحری جہاز میں بٹھایا گیا ۔ مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑتے ہوئے بڑی تکلیف ہو رہی تھی مگر اطمینان تھا کہ چلو جان بچ گئی ۔ دوسری جانب عیسائی حکم ران اپنے محلوں میں جشن منانے لگے ۔ جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کیا اور جہاز وہاں سے چل دئیے ۔ ان مسلمانوں میں بوڑھے ، جوان ، خواتین ، بچے اور کئی مریض بھی تھے ۔ جب جہاز سمندر کے عین وسط میں پہنچے ، تو منصوبہ بندی کے تحت انہیں گہرے پانی میں ڈبو دیا گیا ، اور یوں وہ تمام مسلمان سمندر میں ابدی نیند سو گئے ۔

اس کے بعد اسپین بھر میں جشن منایا گیا کہ ہم نے کس طرح اپنے دشمنوں کو بےوقوف بنایا ۔ پھر یہ دن اسپین کی سرحدوں سے نکل کر پورے یورپ میں فتح کا عظیم دن بن گیا ۔ اور اسے انگریزی میں First April Fool کا نام دیا گیا یعنی ” یکم اپریل کے بے وقوف “ آج بھی عیسائی دنیا اس دن کی یاد بڑے اہتمام سے مناتی ہے اور لوگوں کو جھوٹ بول کر بے وقوف بنایا جاتا ہے ۔
اس رسم بد کے درج ذیل نقصانات ہیں :

1 دشمنوں کی خوشی میں شرکت کرنا ۔

2 نفاق میں ڈوب جانا ۔

3 جھوٹ بولنا اور ہلاکت پانا ۔

4 اللہ کی ناراضگی پانا ۔

5 مسلمان بہن بھائیوں کی تباہی و بربادی کی خوشی منانا ۔

6 مسلمان بہن بھائیوں کو مشکل و مصیبت میں ڈالنا ۔

7 دنیا و آخرت میں خسارہ ہی خسارہ تباہی ہی تباہی ہے ۔
 

ساقی۔

محفلین
اپریل فول منانا شرعا ناجائز وحرام اور گناہِ کبیرہ ہے

﴿مفتی﴾ محمد جعفر
دار الإفتاء
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا نندربار

بعض لوگ یکم اپریل کو ”اپریل فول “منا تے ہیں ،جس کی صورت وحقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس دن آدمی بطور فراح ومذاق خوب جھوٹ بول کر اپنے دوستوں،متعلقین اور حکومتی اداروں کو خوف وبے چینی میں مبتلاء کردیتاہے ، مثلاً :کسی کو یہ فون کرنا کہ آپ کے عزیز کا انتقال ہوگیا،کسی خاتون کو یہ فون کرنا کہ آپ کے شوہر نے آپ کو تین طلاق دیدی ،کسی ملازم کو یہ فون کرنا کہ آپ کے ادارہ یا کمپنی نے آپ پر فلاں الزام لگاکر آپ کو سبکدوش کردیا، یا کسی حکومتی ادارہ مثلاً:فائر بریگیڈ اسٹیشن کو یہ فون کرنا کہ فلاں جگہ انتہائی خطرناک آگ لگ گئی اور اس نے سیکڑوں مکانوں اور انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ،وغیرہ۔


ج :اسلامی نقطہٴ نگاہ سے اس طرح کی کذب وغلط بیانی فی نفسہ حرام ہونے ،دوسروں کو خوفوبے چینی میں مبتلاء کرنے ،اکبرِخیانت کو مستلزم ہونے ،کم عقلی وبے وقوفی کو رواج دینے ،ایسی تقلید ِباطل کو عام کرنے ،جونہ اسلامی تعلیمات سے پیداہوئی اور نہ اسلامی ماحول میں پرورش پائی ،اور مسلمانوں کے غیروں کے ساتھ ان کی عاداتِ رذیلہ اور اعمالِ سخیفہ (بےعقلی) میں مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے ناجائز وحرام اور گناہ کبیرہ ہے
(سورة الکہف:الاٰیة ۵) لقولہ تعالیٰ :”ان یقولون الا کذ با“
قال الامام الفخرالدین الرازی فی التفسیر الکبیر تحت قولہ تعالیٰ:(إن یقولون إلا کذبا)فعلمنا أن کل خبرلایطابق المخبر عنہ فہوکذب سواء علم القائل بکونہ مطابقا أولم یعلم۔
(للامام الفخرالدین الرازی:ج۷/ص۴۲۶ التفسیرالکبیر)
ولقولہ تعالیٰ:تعاونوا علی البروالتقویٰ ولاتعاونواعلی الإثم والعدوان،واتقوااللہ إن اللہ شدید العقاب:
(سورة المائدة:الاٰیة،۲)
ولأحادیث النبویة علی صاحبہا الف الف تحیة وّسلام:”ویل للذی یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم،ویل “لہ‘ویل لہ
قولہ ویل لہ :والحاصل ان الکذب حرام ،ولم یرخص الافی مواضع الضرورة ،واما لیضحک الناس فلاضرورة فیہ للکذب بل لا فائدة فیہ،فہٰذ الکذب اشد حرمة فی انواعہ فاستحق الویل۔۱۲۔
(سنن ابی داوٴد:ص۶۸۱،باب التشدید فی الکذب ،، ترمذی شریف:ج۲/ص۵۷،باب ماجاء من تکلم الکلمة لیضحک الناس)
عن عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ قال:حد ثنا اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم انہم کانوا یسیرون مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فنام رجل منہم فانطلق بعضہم الی حبل معہ فاخذہ ففزع فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم :لایحل لمسلم ان یُرَوِّعَ مسلما ۔
(سنن ابی داوٴد:ص۶۸۳،باب من یأخذ الشیٴ من مزاح ، سنن ترمذی:ج۲/ص۳۹،باب ماجاء لایحل لمسلم ان یروع مسلم۔)
عن ابن عباس قال قال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابغض الناس الی اللّٰہ ثلاثة:ملحد فی الحرم،مبتغ فی الاسلام سنة الجاہلیة،و مطلب دم امرء مسلم بغیرحق لیہریق دمہ۔ (رواہ البخاری)
( مشکوة شریف، باب الاعتصام بالکتاب والسنة:ج۱/ص۲۷)
ولقولہ علیہ السلام:من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن ابی داوٴد:کتاب اللباس،باب لباس الشہرة،ج۲/ص ۵۵۹)
واعتبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اکبرالخیانة أن تکذب علی من یثق بک،ویصغ الیک بأذنہ وقلبہ،وأنت تکذب علیہ یقول ”کبرت خیانة أن تحدث أخاک ہوبہ مصدق وأنت لہ بہ کاذب“۔
(“سنن ابی داوٴد:ص۶۷۹،باب فی المعاریض ،کتاب ا لأدب ،فتاویٰ معاصرہ:ج۱/ص۶۳۹،کذبة اول نسیان ”أبریل)
نوٹ:خلاصہٴ کلام یہ کہ جھوٹ ہر دن حرام ہے، کسی دن جھوٹ بولنے اور غلط بیانی کی شرعا اجازت نہیں ہے، مسلمان کا جھوٹ کی ترویج واشاعت اور اس میں تعاون کرنا حرام ہے ۔
 

ساقی۔

محفلین
کوئی بھی آپ کو اچھی یا بری۔۔۔ مگر جھوٹی خبر سے گمراہ کرسکتا ہے محتاط رہئے گا:

لاہور (اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین01اپریل 2008 ) خبردار آج یکم اپریل ہے۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی آپ کو غلط خبر دیکر پریشان کردے یا پھر آپ کی من پسند خبر دیکر کوئی کھیل کھیلے۔۔۔ اس لئے خیال رکھئے گا۔۔۔ اپریل فول کی ابتداء پندرہ سو آٹھ میں مغربی یورپ کے مختلف حصوں سے شروع ہوئی جس کو پندرہ سو انتالیس میں عروج حاصل ہوا اور اس نے تہوار کی شکل اختیار کرلی۔جس میں لوگ ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ اس عملی مذاق میں لوگ ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے میں حد سے بھی تجاوز کرجاتے ہیں۔ اپریل فول نے اٹھارہویں صدی میں برطانیہ میں قدم رکھا اور پھر یہ جنوبی ایشیا کے لوگوں میں عام ہونے لگا۔نوجوان اپریل فول کو انجوائے کرتے ہیں۔۔۔۔تاہم عام انسانوں کو بے وقوف بنانے کے اس تہوار سے مسلمانوں‌کا کوئی تعلق نہیں‌ہے۔ جبکہ علمائے کرام بھی ایسے ہر مذاق سے روکتے ہیں جس کے ذریعے کسی بھی شخص کی دل آزاری ہو۔
 

ساقی۔

محفلین
ماہ اپریل کی وجہ تسمیہ

اپریل انگریزی سال کا چوتھا مہینہ ہے۔ اس کے تیس دن ہوتے ہيں۔ یہ لفظ قدیم رومی کیلنڈر کے ایک لاطینی لفظ اپریلیس سے مشتق ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رومی کیلنڈر کے ایک لاطینی لفظ اپریر سے مشتق ہو۔ وہ لوگ یہ لفظ موسم بہار کے آغاز پھولوں کے کھلنے اور نئی کونپلیں پھوٹنے کے موسم کے لیے استعمال کرتے تھے۔

فرانس میں سال کی ابتداء جنوری کی بجائے اپریل سے ہوتی تھی۔ 1646ء میں فرانس کے حکمران شارل نہم نے اپریل کی بجائے جنوری سے سال شروع کرنے کا حکم دیا۔

اس کی مزید توجیہات بھی ہيں۔ مثلا یہ کہ موسم بہار کی ابتداء ماہ اپریل سے ہوتی ہے تو رومیوں نے اس مہینے کے پہلے دن کو محبت خوبصورتی کے خدا خوشیوں ہنسی اور خوشی قسمتی کی ملکہ جنہیں وہ فینوز کہتے تھے کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کے لیے مخصوص کر دیا۔

روم میں بیوائيں اور دوشیزائيں فینوز کے عبادت خانہ میں جمع ہو کر اس کے سامنے اپنے جسمانی اور نفسانی عیوب افشاء کر کے اس سے درخواست کیا کرتی تھیں کہ وہ ان کے عیوب کو ان کے خاوندوں کی نظر سے مخفی رکھے اور ان پر ان عیوب کو ظاہر نہ ہونے دے۔ ساکسونی اقوام اس مہینے میں اپنے خداؤں سے دور ہٹ کر خوشی کی تقریبات منعقد کیا کرتی تھیں۔ ایسٹر ان کا ایک قدیم خدا ہے۔ جسے آج کل عیسائيوں کے ہاں عید الفصح کہا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ قدیم زمانہ میں یورپی اقوام کے ہاں ماہ اپریل کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔



اپریل فول کی ابتداء اور اس کی تاريخ

اپریل فول کے بارے میں لوگوں کی آراء مختلف ہیں۔ اور کوئی ایک حتمی رائے معلوم نہیں ہو سکی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ 21 مارچ کو جب دن رات برابر ہوتے ہيں اور موسم بہار کی مناسبت سے تقریبات منعقد ہوتی ہيں۔ جب سے یہ تقریبات شروع ہوئی ہيں اپریل فول کی تاريخ بھی وہيں سے شروع ہوتی ہے۔

بعض کا خیال ہے کہ یہ رسم بد فرانس میں 1564ء میں نیا کیلنڈر جاری ہونے کے بعد یوں شروع ہوئی کہ جو لوگ نئے کیلنڈر کو تسلیم نہ کرتے اور اس کی مخالفت کرتے تھے انہيں طعن و تشنیع اور لوگوں کے استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا اور ان کے ساتھ انتہائی بدسلوکی کی روا رکھی جاتی۔

بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ رسم بت پرستی کے باقی ماندہ آثار میں سے ہے۔ اس کی تاریخ قدیم بت پرستی کی تقریبات سے ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس رسم کا تعلق موسم بہار کے آغاز میں ایک معین تاریخ سے ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض علاقوں میں شکار کا موسم شروع ہونے کے پہلے دنوں میں بالعموم بعض دوسرے علاقوں میں شکار ناپید ہوتا ہے۔ یہی چيز یکم اپریل کو منائے جانے والے "فول" کی بنیاد بن گئی۔

اپریل کی مچھلی

انگریز لوگ اپریل فول کو اپریل کی مچھلی کہتے ہيں۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس دن سورج برج حوت سے دوسرے برج میں داخل ہوتا ہے۔ حوت مچھلی کو کہتے ہيں۔

یا دوسری وجہ یہ ہے کہ لفظ باسون سے تحریف شدہ ہے۔ باسون کا معنی عذاب اور پواژن کا معنی مچھلی ہے۔

اس سے اس عذاب اور تکلیف کی طرف اشارہ ہے جو عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق سیدنا عیسی علیہ السلام کو برداشت کرنا پڑا۔ ان کا خیال ہے کہ یہ واقعہ یکم اپریل کو رونما ہوا تھا۔

احمقوں اور پاگلوں کا دن

انگریز لوگ اپریل کے پہلے دن کو احمقوں اور پاگلوں کا دن کہتے ہيں اس لیے وہ اس دن ایسے ایسے جھوٹ بولتے ہيں جنہيں سننے والا سچ سمجھتا ہے اور پھر وہ اس سے استہزاء کرتے ہيں۔
 

ساقی۔

محفلین
اس کتاب میں غیر مسلم تحوار مثلا بسنت،ویلنٹائن ڈے۔اپریل فول۔یوم مئ اور مزدور دن۔عید کارڈ یا کرسمس کارڈ۔ہیپی نیو ائیر۔جیسے بے حیائی سے بھرپور تحواروں کی حقیقت بیان کی گئی ہے

ڈاون لوڈ یہاں سے کیجیئے






اپریل فول، بھائی کی موت کی غلط خبر نے ایک شخص کی جان لے لی:
اوکاڑہ (اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین01اپریل 2008 ) 70 سالہ شخص بھائی کی موت کی خبر سن کر جاں بحق ہوگیا ، تفصیلات کے مطابق رینالہ خورد کا رہائشی ستر سالہ بوڑھے نواب دین کو اطلاع ملی کہ اس کے بھائی انور کا اوکاڑہ میں ایکسیڈنٹ کے نتیجہ میں انتقال ہوگیاہے ، وہ اوکاڑہ ہسپتال آرہا تھا کہ تحصیل روڈ پر گر پڑا اور جاں بحق ہوگیا بعد میں پتہ چلا کہ کسی منچلے نے اپریل فول کا مذاق کیا تھا ۔


.................................................................................................................



جھوٹ کی سزا ( حصہ اول)
پیارے مدنی منو ! ایک چرواہا ( بکریاں چرانے والا ) جنگل میں بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا اور لوگوں کو تنگ کرنے کے لئے جھوٹ موٹ شور مچاتا، لوگو ! میری مدد کو آؤ، شیر آگیا، شیر آگیا اور میری بھیڑ بکریاں کھا گیا۔ جنگل کے آس پاس کے لوگ ڈنڈے وغیرہ لے کر آتے تو وہاں کوئی شیر نہ ہو گا۔ لوگوں کو دیکھ کر چرواہا ہنستے ہوئے کہتا میں تو مذاق کر رہا تھا، اس نے ایسا کئی مرتبہ کیا اور لوگوں میں اپنا اعتماد کھو بیٹھا۔ آخرکار اللہ عزوجل نے اسے جھوٹ کی سزا دی اور ایک روز سچ مچ کا ایک شیر ادھر آنکلا جس نے اس کی بہت ساری بھیڑ وں کو ہلاک کر دیا اب چرواہا درخت پر چڑھ کر خوب شور مچانے لگا لوگو ! میری مدد کو آؤ، شیر آ گیا، شیر آ گیا، مگر لوگ اسے جھوٹا سمجھ کر قریب نہ آئے اور یوں اس نے اپنے جھوٹ کی سزا پائی۔
پیارے مدنی منو ! جھوٹ بولنا بہت ہی بری بات ہے۔ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اسے کہیں کافروں کی، کہیں منافقوں کی اور کہیں فاسقوں کی صفت قرار دیا ہے لٰہذا ہمیں جھوٹ کی برائی سے دور رہنا چاہیئے کیونکہ جھوٹ بولنا سخت گناہ ہے جیسا کہ
جھوٹ بولنا بڑا گناہ ہے
حدیث پاک میں ہے کہ ایک بار مدینے کے تاجدار، حبیب پروردگار، شفیع روز شمار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تکیہ لگائے جلوہ فرما تھے کہ ارشاد فرمایا، میں تم کو سب گناہوں میں بڑا گناہ بتاتا ہوں۔ اللہ عزوجل کے ساتھ شریک ٹھرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے پھر پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا، جان لو کہ جھوٹی بات سب میں بڑا گناہ ہے۔
پیارے مدنی منو ! ہمیشہ سچ بولئے، جھوٹ سے دور رہئے کیونکہ جھوٹ دوزخ کا راستہ ہے جبکہ سچائی جنت کا راستہ ہے چنانچہ
جھوٹ کا انجام دوزخ ہے
مدینے کے سلطان، رحمت عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے، تم پر سچ بولنا لازم ہے بلاشبہ سچ نیکو کاری کا راستہ بتلاتا ہے اور نیکو کاری یقینًا جنت میں پہنچا دیتی ہے۔ انسان ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کے ہاں صدیق ( بہت سچا*) لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے نہایت ( مکمل ) پرپیز کرو کیونکہ جھوٹ بدکاری کا راستہ بتلاتا ہے اور بدکار یقینًا جہنم میں پہنچا دیتے ہے انسان ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کا ہی ارادہ رکھتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں کزاب ( بہت جھوٹا ) لکھ دیا جاتا ہے۔ ( مسلم )
پیارے مدنی منو ! جھوٹ بولنے والوں کو شیطان اپنے جال میں اس طرح پھنسا لیتا ہے کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے انہیں سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اور ایسے لوگوں سے اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ تعالٰی ولیہ وسلم بھی ناراض ہوتے ہیں انہیں دنیا میں بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا اور آخرت میں بھی رسوائی ان کا مقدر ہوتی ہے جبکہ اچھے بچے ہمیشہ سچ بولتے ہیں لٰہذا ہم سب کو سچ بول کر اچھے بچے بننا چاہیئے۔

سوال*: جھوٹ کسے کہتے ہیں ؟
جواب : حقیقت کے خلاف بات بیان کرنا “ جھوٹ “ کہلاتا ہے۔

سوال: جھوٹ بولنے کا شرعی حکم کیا ہے ؟
جواب : جھوٹ بولنا سخت حرام و کبیرہ گناہ ہے۔

سوال : قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے جھوٹ بولنے کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے ؟
جواب : قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے جھوٹ بولنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا،
لعنت اللہ علی الکٰذ بین ترجمہ : جھوٹوں پر اللہ عزوجل کی لعنت ہے۔

سوال : سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جھوٹ کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے ؟
جواب : سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جھوٹ بولنا منافق کی علامت قرار دیا ہے۔

سوال : کیا جھوٹ بولنے سے رزق میں کمی آجاتی ہے ؟
جواب : جی ہاں، جھوٹ بولنے سے رزق میں کمی آ جاتی ہے۔

سوال: سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا ؟
جواب: سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا کہ جھوٹ بول کر حضرت آدم علیہ السلام کو گندم کا دانہ کھلایا۔

سوال: کیا جھوٹ بولنے کی طرح جھوٹ لکھنا بھی گناہ ہے ؟
جواب: جی ہاں، جھوٹ بولنے کی طرح جھوٹ لکھنا بھی گناہ ہے۔

سوال: اپریل فول منانا کیسا ہے ؟
جواب: اپریل فول منانا احمقوں اور بیوقوفوں کا طریقہ ہے جو انگریزوں میں رائج ہے کہ یکم اپریل کو لوگوں کو جھوٹی باتیں بتا کر یا جھوٹی خبریں لکھ کر مذاق کیا جاتا ہے جو کہ ناجائز و گناہ ہے لٰہذا ہمیں اس انگریزی طریقہ سے بچنا چاہئے۔
سوال: بعض بچے بات بات پر قسمیں کھاتے ہیں، اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: بات بات پر قسمیں کھانا بُری عادت ہے کیونکہ زیادہ قسمیں کھانا جھوٹا ہونے کی علامت ہے۔

سوال: جھوٹی قسم کھانا کیسا ہے؟
جواب: جھوٹی قسم کھانا ناجائز و گناہ ہے اور شیطان کا کام ہے لٰہذا ہمیں اس گناہ سے بچنا چاہئے۔

سوال: لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹے لطیفے سنانا کیسا ہے؟
جواب: لوگوں کو ہنسانے لے لئے جھوٹے لطیفے سنانا ناجائز و گناہ ہے ان تمام باتوں سے اللہ عزوجل ناراض ہوتا ہے۔ جیسا کہ مدینے کے تاجدار، نبیوں کے سردار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے، ہلاکت ہے اس کے لئے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس کے لئے ہلاکت ہے اس کے لئے ہلاکت ہے۔ ( ابو داؤد - ترمذی )
ایک دوسرے مقام پر پیارے سرکار، محبوب پروردگار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا کہ بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ سے زیادہ ہے۔ ( والعیاذباللہ تعالٰی ) ( بیہقی )

سوال: بعض بچے لطیفے اور جھوٹی کہانی والی کتابیں پڑھتے ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: ایسی کتابیں پڑھنا صحیح نہیں کہ ایسی باتیں بچوں میں غفلت پیدا کرتی ہیں۔

سوال: کیا مذاق میں جھوٹ بول سکتے ہیں؟
جواب: جی نہیں،مذاق میں جھوٹ بولنا بھی حرام و گناہ ہے۔

سوال: بعض والدین بچوں کو ڈرانے کے لئے جھوٹی باتیں کرتے ہیں کہ فلاں چیز آرہی ہے یا بہلانے کے لئے کہتے ہیں کہ ادھر آؤ ہم تمھیں چیز دیں گے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: یہ بھی جھوٹ میں شامل ہے اور حرام و گناہ ہے والدین کو اس گناہ سے بچنا چاہیے۔

سوال: بعض بچے جھوٹے من گھڑت خواب سناتے ہیں ان کے بارے میں کا حکم ہے؟
جواب: جھوٹا خواب بیان کرنا سخت حرام و گناہ ہے ایسے جھوٹوں کو قیامت کے دن دو “ جو “ میں گرہ لگانے کی تکلیف دی جائے گی اور وہ کبھی بھی نہ لگا سکیں گے اور یوں عذاب پاتے رہیں گے۔

سوال: سنا ہے کہ جھوٹ بولنے والے کے منہ سے بدبو نکلتی ہے کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: جی ہاں، جھوٹ بولنے والے کے منہ سے ایسی سخت بدبو نکلتی ہے کہ فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔

سوال: کیا جھوٹ بولنے کا اثر دل پر بھی ہوتا ہے؟
جواب: جی ہاں، جھوٹ بولنے سے دل ( کالا ) سیاہ ہو جاتا ہے لٰہذا جھوٹ بولنے سے مکمل پر ہیز کیجئے۔

سوال: جھوٹ بولنے والوں کو آخرت میں کیا سزا ملے گی؟
جواب: ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو خواب میں جھوٹ بولنے والے کی یہ سزا دکھائی گئی کہ اس کو گدی کے بل ( یعنی چت ) لٹایا ہوا تھا اور ایک شخص لوہے کا چمٹا لئے اس پر کھڑا تھا اور وہ ایک طرف سے اس کی بانچھ ( گال ) چمٹے سے پکڑ کر گدی تک چیرتا ہوا لے جاتا ہے اس طرح آنکھ اور ناک کے نتھنے میں چمٹا گھونپ کر چیرتا ہوا گدی تک لے جاتا۔ جب ایک طرف یہ عمل کرتا تو دوسری جانب آ جاتا اور یہی عمل کرتا، اتنی دیر میں پہلی جگہ اصلی حالت میں آجاتی پھر پہلی جگہ کو اسی طرح چیر پھاڑ ڈالتا جھوٹ بولنے والے کو یہ سزا قیامت تک ملتی رہے گی اور قیامت کے عذاب الگ ہے ۔ ( شرح الصدور )
پیارے مدنی منٌو ! دیکھا آپ نے جھوٹ میں کس قدر آفتیں ہیں، اس سے وہ بچے سبق حاصل کریں جو بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں اگر امی جان صبح مدرسہ میں جانے کے لیے اٹھاتی ہیں تو جھوٹا بہانہ کر دیتے ہیں کہ میری طبیعت صحیح نہیں، میرے سر میں درد ہے، میرے پیٹ میں تکلیف ہے۔ اسی طرح جب انہیں مدرسے کا سبق یاد کرنے کو کہا جائے تو جھوٹا عذر پیش کر دیتے ہیں کہ مجھے نیند آرہی ہے، مجھے فلاں تکلیف ہے۔ ایسے ہی جب ایک بچہ دوسرے بچے سے لڑائی جھگڑا کر لے یا کسی کو مارے تو دریافت کرنے پر جھوٹ بول دیتا ہے کہ میں نے تو نہیں مارا ۔ عمومًا والدین اپنے بچوں کو صحت کے لئے نقصان دہ چیزیں کھانے سے منع کرتے ہیں اور محلًہ کے برے لڑکوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بھی منع کرتے ہیں مگر بچے باز نہیں آتے مگر والدین جب معلوم کرتے ہیں تو جھوٹ بول دیتے ہیں۔ یاد رکھئے! جھوٹ بولنے والوں کو اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالکل بھی پسند نہیں فرماتے کیونکہ جھوٹ بولنا کافروں، منافقوں اور فاسقوں کا طریقہ ہے، جھوٹ سب گناہوں میں بڑا گناہ ہے، منافق کی علامت ہے، بدکاری کا راستہ ہے، جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔ اللہ عزوجل نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی، جھوٹ سے نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں، گناہوں میں اضافہ ہوتا ہے، رزق میں کمی واقع ہوتی ہے، دل کالا ہو جاتا ہے، جھوٹ بولنے والے کے منہ سے ایسی سخت بدبو آتی ہے کہ فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے، اور جھوٹ بولنے والے کو آخرت میں ہولناک عذاب دیا جائے گا کہ چمٹے سے اس کی گال، آنکھیں اور ناک چیر پھاڑ دیئے جائیں گے۔
پیارے مدنی منٌو ! جھوٹ کی برائی سے سچے دل سے توبہ کر لیجئے اور آئندہ کبھی بھی کسی سے جھوٹ نہ بولیئے، نہ ہی جھوٹی قسمیں کھائیے، نہ جھوٹے لطیفے سنیں اور سنائیں اور نہ ہی لطیفے اور کہانیوں والی کتابیں پڑھئے، نہ جھوٹے خواب بیان کیجئے اور نہ ہی مذاق میں جھوٹ بولا کیجئے بس ہمیشہ سچ بولئے کیونکہ سچائی جنٌت کا راستہ ہے اور اللہ عزوجل کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ ہے۔
اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل ! ہمیں جھوٹ کی لعنت سے محفوظ و مامون فرما، ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق مرحمت فرما اور ہمیں زبان کی جملہ آفتوں سے بچا۔
 

ساقی۔

محفلین
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

تہوارمنانا ہر قوم اور ہرمذہب میں رائج ہے۔ تہوار کسی ایسی تقریب کا نام ہوتاہے جس میں کسی قوم کو اجتماعی طور اچھے راستے پر چلنے کی ترغیب ملے۔برائیوں کو مٹانے کی فکر تازہ ہوجائے۔ اگر ان دوچیزوں میں سے کوئی بھی چیز کسی تہوار کے منانے میں مقصود نہ ہو تو تہوار کی روح ختم ہوجاتی ہے بلکہ ایسے تہوار کے ذریعے سادہ لوح قوموں کی غلط رہنمائی ہوتی ہے۔معاشرے کی بربادی کا آغاز ہمیشہ چھوٹی برائیوں سے ہوتا ہے ۔کہتے ہیں ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی لیکن ہمیں اہل مغرب کا سارا گند سونا ہی لگتا ہے ۔اور ان کی ہر برائی کو من و عن اسی طر ح اختیار کرنے کی ہم بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔

ہمار ی رگ و پے میں مغرب کی ملحد اور مادی سوچ آہستہ آہستہ داخل ہونے کی وجہ سے ہماری ذہنیت بندروں کی طرح نقالی کی ذہنیت بن چکی ہے۔کیا انہی باتوں کی تقلید کرنے سے ہم اجتماعی ترقی کی طرف گامزن ہوجائیںگے۔

مغربیت کا کینسر مملکت خدادادکے ہرفردمیں بھی سرایت کرچکاہے۔ اور ہم قدم قدم پر مغرب کی نقل کررہے ہیں ۔برصغیر پاک و ہند کی عوام کو انگریز حکومت سے آزاد ہوئے سالوں گزر چکے ہیں لیکن اجتماعی طور پر ہم ساٹھ سال پہلے کی ذہنی غلامانہ زندگی جی رہے ہیںآج بھی من حیث القوم ذہنی طور پر مغرب کے ہی غلام ہیں۔ترقی اور کمال میں کسی کے ساتھ مقابلہ کرنا ب ±ری بات نہیں لیکن کیا روشن خیالی اور ماڈرن ازم ان فضول رسموں ہی کا نام ہے۔؟

اب تواچھی چیزوں کے نام پر بھی جو جشن منائے جارہےں وہ بھی برائی سے ہی شروع ہوتے ہوں اوربرائی پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ہم سائنس و ٹیکنالوجی، علوم و فنون پر دسترس رکھنے کی بجائے لاحاصل بحثوں اور غیر ضرروی کام میں مگن رہے۔ چنانچہ زوال ہمارا مقدر ٹھہرا،اپنی الگ مکمل تہذیب ومعاشرتی نظام ہونے کے باوجود دوسروں کے نقش قدم پر چلنا تباہی کی طرف پیش قدمی ہوتی ہے ۔شاعر مشرق علامہ اقبال نہ صرف پاکستان بلکہ پورے مشرق کے فرزندعظیم او رمغرب کے سب سے بڑے نقادتھے انھوں نے ملت اسلامیہ کے متعلق ایک نصیحت اپنے شعر میں یوںکی ہے۔
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی (صلی اللہ علیہ وسلم)

جھوٹ سے دور رہئے کیونکہ جھوٹ دوزخ کا راستہ ہے جبکہ سچائی جنت کا راستہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔اور کسی مسلمان سے ایسا مذق کرنا جو تکلیف کا باعث بنے شرعاً حرام ہے ۔نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کی تکلیف سے دوسرے محفوظ رہیں ۔

”اپریل فول“ جو دوسروں کے ساتھ عملی مذاق کرنے اور بیوقوف بنانے کا تہوار ہے۔اسکا خاص دن اپریل کی پہلی تاریخ ہے۔ یہ یورپ سے شروع ہوا اور اب ساری دنیا میں مقبول ہے۔ 1508 سے 1539 کے ولندیزی اور فرانسیسی تاریخی ذرائع سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ دن مغربی یورپ کے ان علاقوں میںمنایا جاتا تھا۔برطانیہ میں اٹھارویں صدی کے شروع میں اس کا عام رواج ہوا۔ انگریز کی باقیات میں سے ہے جو ابھی تک رائج ہے اورہم انگریزوں کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یوں یہ دن مشرق کی مخصوص تہذیب پر بھی حملہ ہے۔چند دیگر حوالہ جات کے مطابق یہ تہوار”اپریل فول “دراصل اٹھارویں صدی میں انگریزوں نے ہندوپاک کے مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔اس طرح سے وہ مسلمانوں کو بے وقوف بناتے تھے اور پھر خوب ہنستے تھے۔یہ ان کی ایک تفریح کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔

یوں یہ مغرب کی رسمیں ہیں ۔ جن کوپاکستان کے لوگ اسے اہم دن سمجھ کر مناتے ہیں۔عربی زبان کا یہ قول ہمارے لئے کتنا اہم ہونا چاہئے کہ ” خذماصفا ودع ماکدر“ یعنی اچھی بات کو لے لو اور بری بات کو چھوڑ دو۔ہم اِس پہلو سے ناآشناہیں۔اور ایک غلط ذریعہ سے اپنے آپ کو خوشی اور تسکین پہنچانے کے لئے بعض دفعہ دوسروں کا بہت بڑا نقصان کر دیتے ہیں ۔

ایک بڑا مشہور قول ہے کہ جو قوم دوسروں کے پیچھے پڑ کر اپنی زبان، اپنی تہذیب اور اپنے لوگوں سے نفرت کرتی ہے اس کا زوال عنقریب ہوتا ہے۔ہم نے اس وطن اور آذادی کو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اب ہم اپنی فکری اور عملی زندگی سے اس مملکت خداداد کوپھر سے اسی غلامی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اگرہم نے اپنی روش نہ بدلی تو ترقی کا خواب صرف خواب ہی رہے گا ۔اے اہلیان پاکستان یہ ذہن نشین کرلو کہ،تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ یہ
بسنت ، ویلنٹائن ڈے، اپریل فول، نیو ائرنائٹ اور دیوالی جیسے تہواروں پر پانی کی طرح پیسہ بہانے کو نہیں، بلکہ اقوام کی فتوحات کو گنتی ہے۔
 

ساقی۔

محفلین
باعث زحمت تہوار

میں قوم کی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتی ہوں۔ ماہ اپریل کی آمد کے ساتھ ہی دوسروں کو اپریل فول بنانے کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتاہے جسے ایک معمولی مذاق سمجھا جاتا ہے لیکن یہ معمولی مذاق براہ راست بہت سے لوگوں کو متاثر کرنے کا موجب بنتا ہے۔ اپریل فول کاتصور ہمارے اسلامی معاشرے میں موجود ہے یہ مغرب کی پیداوارہے لیکن رفتہ رفتہ یہ مشرق میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کرتی جا رہی ہے اگرچہ اسلام میں ان فضول رسومات کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بعض لوگ یہ دن مناتے ہیں۔ ایک فضول رسم کے نام پر دوسروں کو بے وقوف بنانا یقیناً ایک نا مناسب فعل ہے اور بحیثیت مسلمان ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ کسی بھی غیر اہم یا فضول رسم کے نام پر دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنیں۔ محض چند لحموں کی تفریح اور اپنے شوق کی تسکین کی خاطر دوسروں کو پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کرنا ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔ یکم اپریل کو اپریل فول کے نام پر دوسروں کو غلط اورغیر اہم اطلاعات و معلومات فراہم کی جاتی ہیں دوسروں کو بے وقوف بنانے کے مختلف حیلے اور بہانے اور طریقے استعمال کئے جاتے ہیں محض مذاق میں دی جانے والی یہ غیر اہم اطلاعات دوسروں کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہیں اور اکثر لوگ متاثر ہو کر اپنے حواس تک کھو بیٹھتے ہیں۔ میری قوم سے اپیل ہے کہ ایسی فضول رسومات جن کی ہمارے مذہب اور معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں انہیں اپنا کر محض کچھ دیر کی تفریح اور شوق کی تسکین کی خاطر دوسروں کی دل آزاری، پریشانی اور زحمت کا سبب نہ بنیں اگرہم دوسروں کی خوشی کا باعث نہیں بن سکتے تو ہمیں دوسروں کو تکلیف بھی نہیں پہنچانا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس فضول رسم کو مزید پھیلنے سے روکیں نیز اس کی حوصلہ شکنی کریں۔ (سیما چوہدری۔ کراچی)
 

ساقی۔

محفلین
لیجیئے صاحبان تحقیق و تلاش آپ کے سامنے ہے . فیصلہ آپ خود کیجیئے .

میرا نظریہ یہ ہے کہ "اپرل فول " ہمیں نہیں منانا چاہیئے . بلکہ اسے چھوڑ کر دنیا آخرت کو بنانا چاہیئے. کیونکہ جھوٹ سے بچ کر ہم اللہ کی ناراضی سے بچ سکتے ہیں.
 

arifkarim

معطل
اپریل فول تو سراسر مغربی تقلید کا نتیجہ ہے۔ خود پاکستان میں ایسے واقعات دیکھیں ہیں کہ جھوٹ بول کر لوگوں کو ڈرایا گیا۔ جسکے نتیجے میں انکو کوئی حادثہ، صدمہ یا موت تک واقع ہو گئی !
 

mfdarvesh

محفلین
شکریہ بہت اچھی تحقیق ہے۔ اسلام نے صرف دو عیدیں ہمیں دیں ہیں باقی سب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے
 

ساقی۔

محفلین

میاں شاہد

محفلین
اپریل فول : ایک معاشرتی بُرائی


اپریل فول:ایک معاشرتی برائی


حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی



مغرب کی بے سوچے سمجھے تقلید کے شوق نے ہمارے معاشرے میں جن برائیوں کورواج دیا،انہی میں سے ایک رسم ''اپریل فول'' بھی ہے۔اس رسم کے تحت ےکم اپریل کی تاریخ میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکہ دینا اوردھوکہ دے کرکسی کو بے وقوف بنانانہ صرف جائزسمجھا جاتا ہے،بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے،جوشخص جتنی صفائی اور چابکدستی سے دوسرے کو جتنا بڑا دھوکہ دے اُتنا ہی اسے قابل تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اُٹھانے والا سمجھا جاتا ہے۔
یہ مذاق جسے درحقیقت ''بدمذاقی''کہنا چاہئے،نہ جانے کتنے افراد کو بلاوجہ جانی ومالی نقصان پہنچا چکا ہے،بلکہ اسکے نتیجے میں بعض اوقات لوگوں کی جانیں چلی گئی ہیں،کہ انہیں کسی ایسے صدمے کی جھوٹی خبر سنادی گئی جسے سننے کی وہ تاب نہ لاسکے اور زندگی ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ رسم جس کی بنیاد جھوٹ،دھوکہ اور کسی بے گناہ کو بلاوجہ بےوقوف بنانے پر ہے،اخلاقی اعتبار سے توجیسے کچھ ہے ظاہر ہی ہے،لیکن اسکا تاریخی پہلو بھی ان لوگوں کےلئے انتہائی شرمناک ہے جو حضرت عیسیٰ ںکے تقدس پر کسی بھی اعتبار سے ایمان رکھتے ہیں۔
اس رسم کی ابتداء کیسے ہوئی؟اس بارے میں مؤرخین کے بیانات مختلف ہیں۔بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا،اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس(Venus)کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے،وینس کا ترجمہ یونانی زبان میںAphroditeکیا جاتاتھا اور شایداسی یونانی نام سے مشتق کرکے مہینے کا نام اپریل رکھ دیا گیا۔(برٹانیکا،پندرہواں ایڈیشن،ص٢٩٢،ج٨)
لہٰذا بعض مصنفین کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا،اس لئے اس دن کو لوگ جشن مسرت منایا کرتے تھے اور اسی جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جورفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کر گیا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جشن مسرت کے دن لوگ ایک دوسرے کوتحفے دیا کرتے تھے،ایک مرتبہ کسی نے تحفے کے نام پر کوئی مذاق کیاجو بالآخردوسرے لوگوں میں بھی رواج پکڑگیا۔
برٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ٢١ مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں، ان تبدیلیوںکو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ(معاذاللہ)قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بےوقوف بنارہی ہے،لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کوبےوقوف بنانا شروع کردیا۔(برٹانیکا،ص٤٩٦،ج١) یہ بات اب بھی مبہم ہی ہے کہ قدرت کے اس نام نہاد ''مذاق'' کے نتیجے میں یہ رسم چلانے سے ''قدرت''کی پیروی مقصود تھی یااس سے انتقام لینا منظور تھا؟ایک تیسری وجہ انیسویں صدی کی معروف انسائیکلوپیڈیا''لاروس''نے بیان کی ہے اور اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔وہ وجہ یہ ہے کہ دراصل یہودیوں اور عیسائیوں کی بیان کردہ روایات کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایا گیا،موجودہ نام نہاد انجیلوں میںاس واقعے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔لوقا کی انجیل کے الفاظ یہ ہیں''اور جو آدمی اسے(یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو)گرفتارکئے ہوئے تھے،اس کو ٹھٹھے میں اُڑاتے اور مارتے تھے اوراس کی آنکھیں بند کرکے اس کے منہ پر طمانچے مارتے تھے اور اس سے یہ کہ کر پوچھتے تھے کہ نبوت(یعنی الہام)سے بتا کہ کس نے تجھ کومارا؟اور طعنے مار مار کربہت سی اورباتیں اس کے خلاف کہیں''(لوقا٢٢:٣٦تا ٦٥)۔انجیلوں میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودی سرداروں اور فقیہوںکی عدالت عالیہ میں پیش کیا گیا،پھر انہیں پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ انکا فیصلہ وہاں ہوگا،پھر پیلاطس نے انہیں ہیروڈیس کی عدالت میں بھیج دیا اور بالآخرہیروڈیس نے دوبارہ فیصلے کے لئے ان کو پیلاطس ہی کی عدالت میں بھیجا۔لاروس کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیجنے کا مقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اور انہیں تکلیف پہنچانا تھا اور چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کوپیش آیا تھا اس لئے اپریل فول کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعے کی یاد گارہے۔۔۔۔۔۔اگریہ بات درست ہے(لاروس وغیرہ نے اسے بڑے وثوق کے ساتھ درست قرار دیا ہے اور اسکے شواہد پیش کئے ہیں)تو غالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی ہوگی اور اسکا منشاحضرت عیسیٰ علہی السلام کی تضحیک ہوگی،لیکن یہ بات حیرتناک ہے کہ جو رسم یہودیوں نے(معاذاللہ)حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہنسی اُڑانے کے لئے جاری کی،اسے عیسائیوں نے کسطرح ٹھنڈے پیٹوں نہ صرف قبول کرلیابلکہ خود بھی اسے منانے اور رواج دینے میں شریک ہو گئے،اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عیسائی صاحبان اس رسم کی اصلیت سے واقف نہ ہوں اور انہوں نے بے سوچے سمجھے اس پر عمل شروع کردیا ہواور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عیسائیوں کا مزاج و مذاق اس معاملے مں عجیب و غریب ہے،جس صلیب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انکے خیال میں سولی دی گئی بظاہر قاعدے سے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ انکی نگاہ میں قابلِ نفرت ہوتی کہ اس کے ذریعے حضرت مسیح علیہ السلام کو ایسی اذیت دی گئی،لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عیسائی حضرات نے اسے مقدس قرار دینا شروع کر دیااور آج وہ عیسائی مذہب کے تقدس کی سب سے بڑی علامت سمجھی جاتی ہے۔لیکن مندرجہ بالاتفصیل سے یہ بات ضرورواضح ہوتی ہے کہ خواہ اپریل فول کی رسم وینس نامی دیوی کی طرف منسوب ہو،یااسے(معاذاللہ)قدرت کے مذاق کا ردعمل کہا جائے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مذاق اڑانے کی یادگار،ہر صورت میں اس رسم کا رشتہ کسی نہ کسی توہم پرستی یا کسی گستاخانہ نظریئےیا واقعے سے جڑا ہوا ہے اور مسلمانوں کے نقطئہ نظر سے یہ رسم مندرجہ ذیل بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے۔(١) جھوٹ بولنا۔(٢) دھوکہ دینا۔ (٣) دوسرے کو اذیت پہنچانا۔ (٤) ایک ایسے واقعے کی یادگار منانا،جس کی اصل یا تو بت پرستی ہے، یا توہم پرستی ہے، یا پھرایک پیغمبر کے ساتھ گستاخانہ مذاق۔اب مسلمانوں کو خود یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ آیا یہ رسم اس لائق ہے کہ اسے مسلمان معاشروںمیں اپنا کراسے فروغ دیا جائے؟ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ماحول میںاپریل فول منانے کا رواج بہت زیادہ نہیں ہے،لیکن اب بھی ہر سال کچھ نہ کچھ خبریں سننے میں آہی جاتی ہیںکہ بعض لوگوں نے اپریل فول منایا،جولوگ بے سوچے سمجھے اس رسم میں شریک ہوتے ہیں،وہ اگر سنجیدگی سے اس رسم کی حقیقت،اصلیت اور اس کے نتائج پر غور کریں تو انشاء اللہ اس سے پرہیزکی اہمیت تک ضرور پہنچ کر رہیں گے۔
 
Top