آسیہ بی بی کو رہا کر دیا گیا ہے ۔ پورے ملک میں شدید احتجاج

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
سب سے پہلے آپ اس قانون کی تاریخ دیکھیں کہ کب اور کیسے یہ پاکستان کے قوانین میں شامل ہوا۔ اور دنیا کے کون کون سے ممالک میں یہ قانون موجود ہے۔ پھر بات کریں کہ اسے کس کے لیئے قانون میں داخل کیا گیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ توہین مذہب کے قوانین کن ملکوں میں موجود ہیں اور ان کی سزا کیا ہے
ربط

ان تمام ملکوں میں یہ قانون ملا نے ہی بنوایا تھا اور اقلیتوں کو دبانے کے لیئے ہی بنا تھا۔۔؟؟ اگر دنیا بھر میں یہ قانون موجود ہے تو صرف پاکستان میں اعتراض کیوں اگر کوئی اور ایجنڈا ہے تو وہ بھی سامنے آنا چاہیئے ۔ مثلا قادیان نوازی ، یا منکرین حدیث کے دلوں کو ٹھنڈک ، یا پھر اس قانون کے بہانے اپنی مسلم دشمنی کی یاوہ گوئی کا موقع۔۔؟؟؟

قانون ہے اور رہے گا ۔ ان شاء اللہ کسی کا باپ بھی اسے پاکستان کے قانون سے خارج نہیں کروا سکتا۔
عدالتیں بے گناہوں کو چھوڑیں اور غلط الزام لگانے والوں کو قانون کے مطابق سزا دیں لیکن اس معاملے میں بہانے بازیاں نہیں چلیں گی۔
پاکستان کی افواج، ملکی املاک ، عوام پر تشدد کی کسی طرح بھی اجازت نہیں دی جا سکتی، جیسے ہر مذہبی موضوع پر منکرین حدیث چھلانگ مار کر چلے آتے ہیں اور اپنے اندر کی غلاظت نکالنا شروع کر دیتے ہیں یا قادیانی اور لبرلز پاکستان کے خلاف بکواس شروع کر دیتے ہیں اسی طرح مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے دوران بھی کچھ گندی مکھیاں گندی اور پلید حرکتیں کرتی ہیں ان گھٹیا حرکتوں کا ذمہ دار کسی بھی مذہبی جماعت کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ سوشل میڈیا پر سالوں پرانی دیگر مواقع کی ویڈیو کلپس کو موجودہ احتجاج کے نام سے پیش کر کے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح اعلان ہے کہ شر پسند عناصر کو ثبوت کے ساتھ گرفتار کریں، جان و مال کو خطرہ ہو تو براہ راست گولی مار دیں لیکن اسلام اور اسلام پسندوں کے خلاف اپنے اندرونی خبث کا اظہار اپنے اندر ہی رکھیں کہ جوابی حملے آپ سے برداشت نہیں ہونگے پھر آپ لوگ پناہ بھی قرآن و حدیث کے پیچھے ہوکر ہی طلب کریں گے اور ہمیں ان کی حرمت کا پاس ہے آپ ایک طرف انکو تسلیم کرنے سے انکاری ہوتے ہو دوسری طرف انہی کی مثالیں دے کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہو۔ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے

فیصل بھائی سخت سے سخت مؤقف بھی مناسب الفاظ میں دیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر فرد کی رائے اسی سوچ کے مطابق ہو جو آپ کے ذہن میں ہو۔ اپنی رائے مضبوط انداز میں پیش کیجیے، اسے دلائل سے مزین کیجیے، مگر دوسروں کو نامناسب القابات سے مخاطب کرنے سے گریز کیجیے۔ جزاک اللہ خیر۔

بحث برائے بحث اور ایک دوسرے کو لعن طعن کبھی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوا کرتے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ویسے میرا ذاتی خیال (جو غلط بهی ہو سکتا ہے) ہے کہ دیہاتوں میں ایسے مواقع پر جذباتی پن کا مظاہرہ زیادہ کیا جاتا ہے
معذرت کے ساتھ۔۔۔ فیصل آباد، لاہور، پنڈی دیہات نہیں ہیں۔ کبھی آپ نے سنا ہے کہ دوردراز کسی گاؤں میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ یہ نام نہاد مظاہرین کثیر مقدار میں بڑے شہروں ہی میں پائے جاتے ہیں اور ان کی عمریں طویل ہوتی ہیں۔
 
عاصیہ ملعونہ کے عدالتی فیصلے کا تجزیاتی مطالعہ
تحریر :- ڈاکٹر حافظ محمد زبیر (فون نمبر موجود ہے)

قصہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ تھانہ ننکانہ صاحب کی حدود میں محمد ادریس صاحب کا فالسے کا ایک کھیت ہے جس میں خواتین فالسے چننے کا کام کرتی ہیں۔ آسیہ مسیح ، معافیہ بیبی اور اسماء بیبی بھی اس کھیت میں کام کرتی ہیں جو کہ دونوں بہنیں بھی ہیں۔ کام کے دوران آسیہ مسیح نے انہیں پانی پلانا چاہا تو انہوں نے ایک عیسائی کے ہاتھوں پانی پینے سے انکار کر دیا۔ جس سے تلخ کلامی ہوئی اور جھگڑے کی فضا بن گئی۔ اب الزام یہ ہے کہ اس تلخ کلامی میں آسیہ مسیح نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم اور قرآن مجید کی شان میں گستاخی کی ہے۔ دونوں مسلمان بہنوں نے اس بات کی اطلاع مقامی امام قاری سلام صاحب کو اور گاؤں کے دیگر افراد کو دی ۔ اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کا اجتماع ہوا کہ جس میں آسیہ مسیح پیش ہوئی اور اس نے عوامی اجتماع میں گستاخی کے الزام کا اقرار کیا۔

اس کے نتیجے میں مقامی تھانے میں ایف آئی آر کاٹی گئی ۔ ننکانہ صاحب کی مقامی سیشن کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بعد آسیہ مسیح کو قانون کے مطابق سزائے موت تجویز کی ۔ آسیہ مسیح نے ہائی کورٹ میں اپیل کی ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ آسیہ مسیح نے سپریم کورٹ میں اپیل کی ۔ سپریم کورٹ نے دونوں ماتحت عدالتوں کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آسیہ مسیح کو اس الزام سے بری قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ۵۷ صفحات پر مشتمل ہے کہ جس کے شروع کے ۳۳ صفحات چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کے ہیں اور بقیہ کے ۲۴ صفحات جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب کے ہیں۔ شروع کے ۱۵ صفحات میں فاضل جج ثاقب نثار صاحب نے کتاب و سنت کی روشنی میں توہین رسالت کی سزا موت کی تاکید و تصویب فرمائی ہے کہ اس جرم کی یہی سزا ہے اور یہی ہونی چاہیئے۔

آسیہ مسیح کا بیان

سب سے پہلے اگر ہم آسیہ مسیح کے بیان کا جائزہ لیں تو اس نے اپنے بیان میں اپنا دفاع کچھ یوں کیا ہے کہ اس وقوعے کے عدالتی گواہان جو کہ سات ہیں آپس میں ملے ہوئے تھے حتی کہ پولیس بھی استغاثہ سے ملی ہوئی تھی لیکن ان سب کے آپس میں ملے ہونے کی جو وجوہات ملزمہ بیان کرتی ہے وہ ناقابل سمجھ ہیں ۔ سب سے پہلے تو آسیہ مسیح کا کہنا ہے کہ دونوں بہنوں معافیہ بی بی اور اسماء بی بی نے مجھ پر گستاخی کا الزام اس لیئے لگایا کہ : ۔۔ کیونکہ ان دونوں کو میرے ساتھ جھگڑے اور سخت الفاظ کے تبادلے کی وجہ سے بے عزتی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔۔۔۔ (عدالتی فیصلہ ص-۲۲)۔۔ یہ تو معقول وجہ ہو سکتی ہے۔

لیکن اب قاری سلام صاحب بھی آسیہ مسیح کے خلاف گواہی کیوں دے رہے ہیں ، اس کا جواب آسیہ کے بیان میں کچھ یوں ہے ۔۔۔۔۔قاری سلام / شکایت گزار بھی مقدمے میں اپنا مفاد رکھتا ہے کیونکہ یہ دونوں خواتین اس کی زوجہ سے قرآن پڑھتی رہی ہیں (ص۲۲) اب قاری صاحب کی بیوی سے قرآن پڑھنا یہ کوئی معقول وجہ ہے کہ قاری صاحب اس معاملے میں ان دو خواتین کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔۔۔؟؟؟؟


پھر پولیس کے بارے میں ان خاتون کا صرف دعویٰ ہے کہ وہ بھی استغاثہ سے ملی ہوئی تھی لیکن پولیس کے ملنے کی کوئی معقول وجہ بیان نہیں کی گئی۔ آسیہ مسیح کے الفاظ ہیں :- ۔۔۔ لیکن چونکہ پولیس بھی شکایت گزار سے ملی ہوئی تھی اس لیئے پولیس نے مجھے اس مقدمے میں غلط طور پر پھنسایا ۔۔۔(ایضا ص-۲۲)

پھر استغاثہ کے گواہ محمد ادریس کے بارے میں آسیہ مسیح کا کہنا ہے :-۔۔۔ استغاثہ کا گواہ ادریس بھی ایسا گواہ ہے جو مقدمے میں اپنا مفاد رکھتا ہے کیونکہ اس کا متذکرہ بالا خواتین سے قریبی تعلق ہے۔۔۔ ایک تو قریبی تعلق واضح نہیں ہے دوسرے ادریس کا اس وقوعے سے مفاد کیا ہے اس کا بھی ذکر نہیں ہے۔ بہر حال ملزمہ کے بیان میں اس طرح کی عبارتیں یہ واضح کرتی ہیں کہ یہ ملزمہ کا ایک دعویٰ ہے کہ یہ سب آپس میں ملے ہوئے تھے حتیٰ کہ سرکاری پولیس بھی لیکن اس کے پاس اپنے اس دعوے کی کوئی معقول توجیہہ موجود نہیں ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کا فیصلہ

چیف جسٹس صاحب نے اس مقدمے میں آسیہ بی بی کو باعزت بری کرنے کی ایک بنیاد یہ بات بیان کی ہے کہ استغاثہ کے گواہان کے بیانات میں تضاد ہے۔ یہ تضاد انہوں نے دو طرح سے بیان کیا ہے۔ ایک تو ایک ہی گواہ کے مختلف مواقع پر بیانات میں تضاد ہےدوسرا دو گواہوں کے باہمی بیانات میں بھی تضاد ہے



ایک ہی گواہ کے مختلف مواقع پر بیانات میں تضاد کی حقیقت:

ایک ہی گواہ کے متنوع مواقع پر بیانات میں تضاد بیان کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب لکھتے ہیں :۔۔۔ استغاثہ کے گواہان کے بیان میں بہت سے تضادات اور اختلافات ہیں۔ معافیہ بی بی کے ضابطہ فوجداری کے تحت دیئے گئے بیان اور دوران جرح دیئے گئے بیان میں فرق پایا گیا اپنی جرح کے دوران اس نے بتایا کہ عوامی اجتماع میں تقریبا ہزار سے زیادہ لوگ موجود تھے لیکن اس کے سابقہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا ۔ جرح کے دوران اس نے کہا کہ عوامی اجتماع اس کے والد کے گھر پر ہوا تھا جبکہ یہ بات بھی اس کے سابقہ بیان میں شامل نہ تھی۔جرح کے دوران اس نے کہا کہ بہت سے علماء عوامی اجتماع کا حصہ تھے جبکہ یہ بات بھی اس کے سابقہ بیان میں شامل نہ تھی (ایضا-ص۲۴)
معلوم نہیں فاضل جج صاحبان --بیان میں اضافے -- اور --بیان میں تضاد۔۔۔ کے مابین فرق کیوں نہیں کر رہے ؟؟ گواہ کے دونوں بیانات میں فرق اتنا ہی ہے کہ گواہ نے بیان میں ایسا اضافہ کیا ہے جو اس کے پہلے بیان سے متضاد نہیں ہے۔ اسے تضاد کیسے کہہ سکتے ہیں ؟؟ البتہ یہ اضافہ ضرور ہے ۔ اور اضافے کا امکان ہر بیان میں موجود رہتا ہے کہ کوئی بات ایک انسان ایک موقعے پر بیان کرنا بھول گیا لیکن دوسرے موقع پر یہ بیان کر دی تو ایسا کرنا معقول ہے۔

اسی طرح دوسرے گواہ کے بیانات کے باہمی تضاد کو فاضل جج صاحب نے یوں بیان کیا ہے ۔۔۔: اسماء بی بی نے اپنی جرح مےدوران یہ بیان دیا کہ عوامی اجتماع اس کے پڑوسی رانا رزاق کے گھر میں ہوا لیکن اس بات کا ذکر اس کے سابقہ بیان میں نہ تھا۔ جرح کے دوران اس نے کہا کہ عوامی اجتماع میں ہزار سے زائد لوگ شریک تھے لیکن اس بات کا تذکرہ اس کے سابقہ بیان میں نہ تھا ۔۔(ایضا، ص-۲۴) اب اس پر غور کریں تو یہ بھی بیان کا تضاد نہیں بلکہ اضافہ ہی ہے ۔

اسی طرح کا اعتراض فاضل جج صاحب نے تیسرے گواہ پر بھی کیا ہے۔ فاضل جج صاحب لکھتے ہیں ۔۔ قاری محمد سلام نے بھی ایف آئی آر کے لیئے دی گئی اپنی درخواست کے حقائق میں ردوبدل کیا ۔ قاری محمد سلام نے بیان ابتدائی میں کہا کہ معافیہ بی بی اور اسماء بی بی اس کو وقوعے کی اطلاع دینے کے لیئے آئیں تو وہ گاؤں میں کوجود تھا اور اس وقت محمد افضل اور محمد مختار بھی موجود تھے جبکہ اپنی شکایت میں اس نے بیان کیا کہ معافیہ بی بی نے اسے اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کو وقوعے کی اطلاع دی۔۔ (ایضا-ص-۲۴) وہ مزید لکھتے ہیں اس نے مزید بیان دیا کہ اجتماع مختار احمد کے گھر پر ہوا لیکن اس کا ذکر اس کی شکایت میں نہیں تھا (ایضا-ص-۲۴) اب اس تضاد کی حقیقت بھی صرف اتنی ہی ہے کہ یہ اضافہ ہے نہ کہ تضاد۔

مختلف گواہان کے بیانات میں باہمی تضاد کی حقیقت

مختلف گواہان کے بیانات میں باہمی تضاد ات کی بھی کئی ایک مثالیں چیف جسٹس صاحب نے بیان کی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ :- گواہان نے عوامی اجتماع کے وقت اور دورانیئے کے متعلق بھی متضاد بیان دیا۔ ایک گواہ نے کہا کہ جمعہ کے روز بارہ بجے منعقد ہوا اور اس کا دورانیہ پندرہ سے بیس منٹ تک تھا۔ دوسرے نے کہا کہ عوامی اجتماع بارہ بجے دوپہر کو منعقد ہوا اور پندرہ منٹ جاری رہا۔ تیسرے نے بیان دیا کہ گیارہ سے بارہ بجے دوپہر منعقد کیا گیا اور دو ڈھائی گھنٹے جاری رہا ۔۔۔ (ایضا-ص-۲۷) جس طرح سے گواہان کے بیانات میں تضاد نکالا جا رہا ہے یہ ہمیں بہت دلچسپ معلوم ہوا۔

ہمارا یہ کہنا ہے کہ اگر ایک گواہ نے کہا کہ اجتماع پندرہ منٹ جاری رہا اور دوسرے نے کہا کہ پندرہ منٹ تھا تو یہ تضاد ہوگیا۔۔؟؟ کمال ہے البتہ کسی قدر اختلافی بیان اس کو کہا جا سکتا ہے ک

-----TO BE CONTINUED----
 
آخری تدوین:

ابوعبید

محفلین
آج حافظ سعید صاحب بھی احتجاج میں شامل ہونے کی کال دے چکے ہیں اور ابتسام الہی ظہیر جو کہ اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی شامل ہو رہے ہیں ۔ جب کہ مولانا م مفتی منیب الرحمن صاحب بھی احتجاج میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں ۔
باقی واللہ اعلم اب مذاکرات کہاں تک پہنچے ہیں ۔
 

ربیع م

محفلین
بہت سی ویڈیوز اور تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں دکھایا جا رہا ہے کہ انتہائی پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں. ان میں سے بہت سی بعد میں جعلی ثابت ہو رہی ہیں.
میں پچھلے دو دن سے جی ٹی روڈ پر دھرنا دیکھ رہا ہوں مریدکے سے شاہدہ تک کئی بار چکر لگایا ہے جی ٹی روڈ کئی مقامات سے مکمل طور پر بلاک ہے
لیکن اس کے ساتھ ساتھ مظاہرین وہاں موجود گاڑیوں کو متبادل راستے کی جانب رہنمائی بھی کر رہے ہیں دن میں کئی دفعہ ٹریفک ایک جانب سے کھول بھی دی جاتی ہے.
اور یہی کچھ پچھلے دھرنے میں بھی ہوا تھا.
پرتشدد کاروائی کا کوئی واقعہ میری نظر سے نہیں گزرا
ٹائر البتہ کچھ جگہوں پر سڑکوں پر جلائے گئے ہیں.
 
بہت سی ویڈیوز اور تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں دکھایا جا رہا ہے کہ انتہائی پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں. ان میں سے بہت سی بعد میں جعلی ثابت ہو رہی ہیں.
میں پچھلے دو دن سے جی ٹی روڈ پر دھرنا دیکھ رہا ہوں مریدکے سے شاہدہ تک کئی بار چکر لگایا ہے جی ٹی روڈ کئی مقامات سے مکمل طور پر بلاک ہے
لیکن اس کے ساتھ ساتھ مظاہرین وہاں موجود گاڑیوں کو متبادل راستے کی جانب رہنمائی بھی کر رہے ہیں دن میں کئی دفعہ ٹریفک ایک جانب سے کھول بھی دی جاتی ہے.
اور یہی کچھ پچھلے دھرنے میں بھی ہوا تھا.
پرتشدد کاروائی کا کوئی واقعہ میری نظر سے نہیں گزرا
ٹائر البتہ کچھ جگہوں پر سڑکوں پر جلائے گئے ہیں.
اگر آپ کو یاد ہو تو۔۔۔۔ جب ’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘ کی پیشیاں ہوتی تھیں تو ہر پیشی پر اس کی راہ گزر سے بارودی مواد ملا کرتا تھا اور اس کی بابت خبر بھی نیوز چینلز کے بلیٹن میں سارا دن گردش کرتی رہتی تھی۔

گزری کل سے کچھ اس سے ملتا جلتا ہونا شروع ہو چکا ہے۔
 
عاصیہ ملعونہ کے عدالتی فیصلے کا تجزیاتی مطالعہ
تحریر :- ڈاکٹر حافظ محمد زبیر (فون نمبر موجود ہے)

قصہ مختصر الفاظ میں یہ ہے کہ تھانہ ننکانہ صاحب کی حدود میں محمد ادریس صاحب کا فالسے کا ایک کھیت ہے جس میں خواتین فالسے چننے کا کام کرتی ہیں۔ آسیہ مسیح ، معافیہ بیبی اور اسماء بیبی بھی اس کھیت میں کام کرتی ہیں جو کہ دونوں بہنیں بھی ہیں۔ کام کے دوران آسیہ مسیح نے انہیں پانی پلانا چاہا تو انہوں نے ایک عیسائی کے ہاتھوں پانی پینے سے انکار کر دیا۔ جس سے تلخ کلامی ہوئی اور جھگڑے کی فضا بن گئی۔ اب الزام یہ ہے کہ اس تلخ کلامی میں آسیہ مسیح نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم اور قرآن مجید کی شان میں گستاخی کی ہے۔ دونوں مسلمان بہنوں نے اس بات کی اطلاع مقامی امام قاری سلام صاحب کو اور گاؤں کے دیگر افراد کو دی ۔ اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کا اجتماع ہوا کہ جس میں آسیہ مسیح پیش ہوئی اور اس نے عوامی اجتماع میں گستاخی کے الزام کا اقرار کیا۔

اس کے نتیجے میں مقامی تھانے میں ایف آئی آر کاٹی گئی ۔ ننکانہ صاحب کی مقامی سیشن کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بعد آسیہ مسیح کو قانون کے مطابق سزائے موت تجویز کی ۔ آسیہ مسیح نے ہائی کورٹ میں اپیل کی ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ آسیہ مسیح نے سپریم کورٹ میں اپیل کی ۔ سپریم کورٹ نے دونوں ماتحت عدالتوں کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آسیہ مسیح کو اس الزام سے بری قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ۵۷ صفحات پر مشتمل ہے کہ جس کے شروع کے ۳۳ صفحات چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کے ہیں اور بقیہ کے ۲۴ صفحات جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب کے ہیں۔ شروع کے ۱۵ صفحات میں فاضل جج ثاقب نثار صاحب نے کتاب و سنت کی روشنی میں توہین رسالت کی سزا موت کی تاکید و تصویب فرمائی ہے کہ اس جرم کی یہی سزا ہے اور یہی ہونی چاہیئے۔

آسیہ مسیح کا بیان

سب سے پہلے اگر ہم آسیہ مسیح کے بیان کا جائزہ لیں تو اس نے اپنے بیان میں اپنا دفاع کچھ یوں کیا ہے کہ اس وقوعے کے عدالتی گواہان جو کہ سات ہیں آپس میں ملے ہوئے تھے حتی کہ پولیس بھی استغاثہ سے ملی ہوئی تھی لیکن ان سب کے آپس میں ملے ہونے کی جو وجوہات ملزمہ بیان کرتی ہے وہ ناقابل سمجھ ہیں ۔ سب سے پہلے تو آسیہ مسیح کا کہنا ہے کہ دونوں بہنوں معافیہ بی بی اور اسماء بی بی نے مجھ پر گستاخی کا الزام اس لیئے لگایا کہ : ۔۔ کیونکہ ان دونوں کو میرے ساتھ جھگڑے اور سخت الفاظ کے تبادلے کی وجہ سے بے عزتی اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔۔۔۔ (عدالتی فیصلہ ص-۲۲)۔۔ یہ تو معقول وجہ ہو سکتی ہے۔

لیکن اب قاری سلام صاحب بھی آسیہ مسیح کے خلاف گواہی کیوں دے رہے ہیں ، اس کا جواب آسیہ کے بیان میں کچھ یوں ہے ۔۔۔۔۔قاری سلام / شکایت گزار بھی مقدمے میں اپنا مفاد رکھتا ہے کیونکہ یہ دونوں خواتین اس کی زوجہ سے قرآن پڑھتی رہی ہیں (ص۲۲) اب قاری صاحب کی بیوی سے قرآن پڑھنا یہ کوئی معقول وجہ ہے کہ قاری صاحب اس معاملے میں ان دو خواتین کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔۔۔؟؟؟؟


پھر پولیس کے بارے میں ان خاتون کا صرف دعویٰ ہے کہ وہ بھی استغاثہ سے ملی ہوئی تھی لیکن پولیس کے ملنے کی کوئی معقول وجہ بیان نہیں کی گئی۔ آسیہ مسیح کے الفاظ ہیں :- ۔۔۔ لیکن چونکہ پولیس بھی شکایت گزار سے ملی ہوئی تھی اس لیئے پولیس نے مجھے اس مقدمے میں غلط طور پر پھنسایا ۔۔۔(ایضا ص-۲۲)

پھر استغاثہ کے گواہ محمد ادریس کے بارے میں آسیہ مسیح کا کہنا ہے :-۔۔۔ استغاثہ کا گواہ ادریس بھی ایسا گواہ ہے جو مقدمے میں اپنا مفاد رکھتا ہے کیونکہ اس کا متذکرہ بالا خواتین سے قریبی تعلق ہے۔۔۔ ایک تو قریبی تعلق واضح نہیں ہے دوسرے ادریس کا اس وقوعے سے مفاد کیا ہے اس کا بھی ذکر نہیں ہے۔ بہر حال ملزمہ کے بیان میں اس طرح کی عبارتیں یہ واضح کرتی ہیں کہ یہ ملزمہ کا ایک دعویٰ ہے کہ یہ سب آپس میں ملے ہوئے تھے حتیٰ کہ سرکاری پولیس بھی لیکن اس کے پاس اپنے اس دعوے کی کوئی معقول توجیہہ موجود نہیں ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب کا فیصلہ

چیف جسٹس صاحب نے اس مقدمے میں آسیہ بی بی کو باعزت بری کرنے کی ایک بنیاد یہ بات بیان کی ہے کہ استغاثہ کے گواہان کے بیانات میں تضاد ہے۔ یہ تضاد انہوں نے دو طرح سے بیان کیا ہے۔ ایک تو ایک ہی گواہ کے مختلف مواقع پر بیانات میں تضاد ہےدوسرا دو گواہوں کے باہمی بیانات میں بھی تضاد ہے



ایک ہی گواہ کے مختلف مواقع پر بیانات میں تضاد کی حقیقت:

ایک ہی گواہ کے متنوع مواقع پر بیانات میں تضاد بیان کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب لکھتے ہیں :۔۔۔ استغاثہ کے گواہان کے بیان میں بہت سے تضادات اور اختلافات ہیں۔ معافیہ بی بی کے ضابطہ فوجداری کے تحت دیئے گئے بیان اور دوران جرح دیئے گئے بیان میں فرق پایا گیا اپنی جرح کے دوران اس نے بتایا کہ عوامی اجتماع میں تقریبا ہزار سے زیادہ لوگ موجود تھے لیکن اس کے سابقہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا تھا ۔ جرح کے دوران اس نے کہا کہ عوامی اجتماع اس کے والد کے گھر پر ہوا تھا جبکہ یہ بات بھی اس کے سابقہ بیان میں شامل نہ تھی۔جرح کے دوران اس نے کہا کہ بہت سے علماء عوامی اجتماع کا حصہ تھے جبکہ یہ بات بھی اس کے سابقہ بیان میں شامل نہ تھی (ایضا-ص۲۴)
معلوم نہیں فاضل جج صاحبان --بیان میں اضافے -- اور --بیان میں تضاد۔۔۔ کے مابین فرق کیوں نہیں کر رہے ؟؟ گواہ کے دونوں بیانات میں فرق اتنا ہی ہے کہ گواہ نے بیان میں ایسا اضافہ کیا ہے جو اس کے پہلے بیان سے متضاد نہیں ہے۔ اسے تضاد کیسے کہہ سکتے ہیں ؟؟ البتہ یہ اضافہ ضرور ہے ۔ اور اضافے کا امکان ہر بیان میں موجود رہتا ہے کہ کوئی بات ایک انسان ایک موقعے پر بیان کرنا بھول گیا لیکن دوسرے موقع پر یہ بیان کر دی تو ایسا کرنا معقول ہے۔

اسی طرح دوسرے گواہ کے بیانات کے باہمی تضاد کو فاضل جج صاحب نے یوں بیان کیا ہے ۔۔۔: اسماء بی بی نے اپنی جرح مےدوران یہ بیان دیا کہ عوامی اجتماع اس کے پڑوسی رانا رزاق کے گھر میں ہوا لیکن اس بات کا ذکر اس کے سابقہ بیان میں نہ تھا۔ جرح کے دوران اس نے کہا کہ عوامی اجتماع میں ہزار سے زائد لوگ شریک تھے لیکن اس بات کا تذکرہ اس کے سابقہ بیان میں نہ تھا ۔۔(ایضا، ص-۲۴) اب اس پر غور کریں تو یہ بھی بیان کا تضاد نہیں بلکہ اضافہ ہی ہے ۔

اسی طرح کا اعتراض فاضل جج صاحب نے تیسرے گواہ پر بھی کیا ہے۔ فاضل جج صاحب لکھتے ہیں ۔۔ قاری محمد سلام نے بھی ایف آئی آر کے لیئے دی گئی اپنی درخواست کے حقائق میں ردوبدل کیا ۔ قاری محمد سلام نے بیان ابتدائی میں کہا کہ معافیہ بی بی اور اسماء بی بی اس کو وقوعے کی اطلاع دینے کے لیئے آئیں تو وہ گاؤں میں کوجود تھا اور اس وقت محمد افضل اور محمد مختار بھی موجود تھے جبکہ اپنی شکایت میں اس نے بیان کیا کہ معافیہ بی بی نے اسے اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کو وقوعے کی اطلاع دی۔۔ (ایضا-ص-۲۴) وہ مزید لکھتے ہیں اس نے مزید بیان دیا کہ اجتماع مختار احمد کے گھر پر ہوا لیکن اس کا ذکر اس کی شکایت میں نہیں تھا (ایضا-ص-۲۴) اب اس تضاد کی حقیقت بھی صرف اتنی ہی ہے کہ یہ اضافہ ہے نہ کہ تضاد۔

مختلف گواہان کے بیانات میں باہمی تضاد کی حقیقت

مختلف گواہان کے بیانات میں باہمی تضاد ات کی بھی کئی ایک مثالیں چیف جسٹس صاحب نے بیان کی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ :- گواہان نے عوامی اجتماع کے وقت اور دورانیئے کے متعلق بھی متضاد بیان دیا۔ ایک گواہ نے کہا کہ جمعہ کے روز بارہ بجے منعقد ہوا اور اس کا دورانیہ پندرہ سے بیس منٹ تک تھا۔ دوسرے نے کہا کہ عوامی اجتماع بارہ بجے دوپہر کو منعقد ہوا اور پندرہ منٹ جاری رہا۔ تیسرے نے بیان دیا کہ گیارہ سے بارہ بجے دوپہر منعقد کیا گیا اور دو ڈھائی گھنٹے جاری رہا ۔۔۔ (ایضا-ص-۲۷) جس طرح سے گواہان کے بیانات میں تضاد نکالا جا رہا ہے یہ ہمیں بہت دلچسپ معلوم ہوا۔

ہمارا یہ کہنا ہے کہ اگر ایک گواہ نے کہا کہ اجتماع پندرہ منٹ جاری رہا اور دوسرے نے کہا کہ پندرہ منٹ تھا تو یہ تضاد ہوگیا۔۔؟؟ کمال ہے البتہ کسی قدر اختلافی بیان اس کو کہا جا سکتا ہے ک

-----TO BE CONTINUED----


سچ بات یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کا وہ جج جھوٹا ہے جس نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ دونوں عینی ، چشم دید گواہان، عافیہ اور معافیہ بی بی خود پیش نہیں ہوئیں بلکہ شیکسپیرین انگریزی میں اپنا اپنا ڈیپوزیشن جمع کروادیا، سرجی ، آپ کو چیلنج ہے میرا کہ فالسے چننے والی دو خواتین جیسی انگریزی خود سے لکھ کر دکھائیں، اور مجھے بھی ایک اپیل کرنی ہے سپریم کورٹ میں ، آپ برسر عام اس معمولی سی رقم کی ادائیگی کی حامی برسر عام کیجئے ۔۔ پھر ایسے مذہبی جذبات اکسانے والے بیانات داغئے ۔۔۔

ہماری سخت ضرورت ہے کہ مذہبی جذبات اکسانے، زمین میں فساد پھیلانے کے خلاف مناسب قانون سازی کی جائے، اور ایسا کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے۔
 
سابقہ سینیٹر مولانا سمیع الحق نے حکومت کا ساتھ دیا، احتجاج سے انکار کیا، یہود و ہنود کے ایجنٹ ملاؤں نے چاقو مار کرقتل کردیا

ایک قتل اور بھی ہوا ہے، - اردو محفل کے ایڈیٹرون نے اس دھاگے کو جدید مراسلات سے نکال کر رائے عامہ کے اظہار کا قتل کردیا۔
 
ایک قتل اور بھی ہوا ہے، - اردو محفل کے ایڈیٹرون نے اس دھاگے کو جدید مراسلات سے نکال کر رائے عامہ کے اظہار کا قتل کردیا۔
دھاگہ جہاں اور جیسے تھا، وہاں اور ویسے ہی موجود ہے، جدید مراسلات میں آخری مراسلے کے وقت کی بنیاد پر موجود رہتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آج حافظ سعید صاحب بھی احتجاج میں شامل ہونے کی کال دے چکے ہیں اور ابتسام الہی ظہیر جو کہ اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی شامل ہو رہے ہیں ۔ جب کہ مولانا م مفتی منیب الرحمن صاحب بھی احتجاج میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں ۔
رفتہ رفتہ دین کے سب ٹھیکے دار ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کیلئے اکٹھے ہو رہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے عوامی نمائندگان حتمی فیصلہ کریں کہ 1949 کی قانون ساز اسمبلی نے جو قرار داد مقاصد میں حاکمیت دین کے ٹھیکے داروں کے حوالہ کی تھی۔ اسے واپس عوامی نمائندگان تک منتقل کرنا ہے۔ یا جیسا چل رہے ویسے ہی چلنے دیں۔
 
سابقہ سینیٹر مولانا سمیع الحق نے حکومت کا ساتھ دیا، احتجاج سے انکار کیا، یہود و ہنود کے ایجنٹ ملاؤں نے چاقو مار کرقتل کردیا

ایک قتل اور بھی ہوا ہے، - اردو محفل کے ایڈیٹرون نے اس دھاگے کو جدید مراسلات سے نکال کر رائے عامہ کے اظہار کا قتل کردیا۔
اگر آپ کے پاس اس بات کا ثبوت ہے یا کوئی معروضی وجہ ہے تو یہاں بھی اور پولیس کو بھی پیش کریں اور اگر ایسا نہیں ہے تو اپنا تعارف بطور دروغ گو کروانے کا شکریہ
 
رفتہ رفتہ دین کے سب ٹھیکے دار ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کیلئے اکٹھے ہو رہے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے عوامی نمائندگان حتمی فیصلہ کریں کہ 1949 کی قانون ساز اسمبلی نے جو قرار داد مقاصد میں حاکمیت دین کے ٹھیکے داروں کے حوالہ کی تھی۔ اسے واپس عوامی نمائندگان تک منتقل کرنا ہے۔ یا جیسا چل رہے ویسے ہی چلنے دیں۔
ابھی تو اور بھی نکلیں گے دین کے دشمنوں کے دلوں کے اندر کی خواہشات کے انبار۔ ایک قادیانی کی تعیناتی سے شروع ہونے والا دکھ آسیہ کی رہائی پر احتجاج کے دکھ سے جب ملا تو قرارداد مقاصد کے خلاف یاوہ گوئی پر اتر آیا
 
موضوع سے ہٹنے سے گریز کریں۔ آئینِ پاکستان کو متنازع بنانے سے بھی گریز کیا جائے۔
 

فرقان احمد

محفلین
سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط ہو یا درست، اس سے اختلاف کیا جائے یا اتفاق، تاہم، اسے تسلیم کر کے ہی معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ بات تو قریب قریب طے شدہ ہے کہ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ تو ریورس ہونے سے رہا؛ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ نظرثانی اپیل میں اس فیصلے کے خلاف متعلقہ فریقین مزید دلائل دیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط ہو یا درست، اس سے اختلاف کیا جائے یا اتفاق، تاہم، اسے تسلیم کر کے ہی معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
یہ بنیادی نکتہ ہے۔ انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے کا ہر فیصلہ ماننا عوام و حکومت پر واجب ہے۔ اس کے خلاف بغاوت نہیں کی جا سکتی۔
 
سابقہ سینیٹر مولانا سمیع الحق نے حکومت کا ساتھ دیا، احتجاج سے انکار کیا، یہود و ہنود کے ایجنٹ ملاؤں نے چاقو مار کرقتل کردیا

اگر آپ کے پاس اس بات کا ثبوت ہے یا کوئی معروضی وجہ ہے تو یہاں بھی اور پولیس کو بھی پیش کریں اور اگر ایسا نہیں ہے تو اپنا تعارف بطور دروغ گو کروانے کا شکریہ
۔
کس بات کا ثبوت؟
یہ بھی پڑھئے : ڈان نیوز پر
راولپنڈی: مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملے میں جاں بحق - Pakistan - Dawn News
جب سب دروغ گو لگیں تو اپنے آپ کو دیکھنا ضروری ہے ۔ پہلے ایک اچھی سی ڈیپوزیشن لکھیں اس کوالٹی کی جو فالسہ چننے والی خواتین کی انگریزی جیسی ہو پھر توجہ دیتے ہیں :)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top