آسیہ بی بی کو رہا کر دیا گیا ہے ۔ پورے ملک میں شدید احتجاج

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
شکریہ!!

واٹس ایپ پر بھی کچھ پیغامات موصول ہوئے ہیں جس سے پتا چلا ہے کہ مسلمانوں کے گھڑوں سے پانی پینے پر آسیہ بی بی اور کچھ خواتین کا آپس میں جھگڑا ہو گیا تھا۔ ان خواتین میں سے صرف دو نے گواہی دی ہے۔ عجیب معاملہ ہے۔
ہر کیس کے دو یا زائد ورژن ہوتے ہیں۔ یہ صفائی کی طرف سے پیش کیا گیا ورژن تھا، جسے لبرلز نے شرف قبولیت بخشا۔
 
ایک یا دو سال پہلے کی بات ہے ملائیشیا کی عدالت میں ایک کیس لگا کہ غیر مسلموں کو اپنے خدا کے لیے لفظ اللہ استعمال کرنے سے روکا جائے ، اس وقت بہت سے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ملائشیا کو پاکستان نہ بنائو ، دنیا میں ہماری منفی پہچان کی ایک قسم ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسندی بھی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ جانے آج سورۃ النساء کی یہ آیتِ کریمہ کیوں بار بار یاد آ رہی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ

اے ایمان والو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اُسکے رسول پر اور اُس کتاب پر جو اُس نے اپنے رسول پر اتاری ہے!
 
دوسری پارٹی کا کیا موقف ہے؟؟ ان کا کچھ اور بیان ہے؟؟

54w.jpg
 

ابوعبید

محفلین
اس فیصلے کا سب سے بڑا نقصان جو مجھے نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ بڑی مشکل سے عام عوام اور مولویوں کو اس نکتے پہ لایا گیا تھا کہ جب بھی کوئی گستاخی کا معاملہ ہو تو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے ریاستی اداروں کی مدد لیں تاکہ انصاف کے تقاضےپورے کیے جا سکیں ۔

اس بات سے قطع نظر کہ اس کیس میں آسیہ نے گستاخی کی یا نہیں لیکن اب دوبارہ انہی عناصر کو واپس اسی حالت میں پہنچا دیا گیا ہے جہاں وہ قانون کو ہاتھ میں لینا اپنا فرض اور حق سمجھتے ہیں ۔ اور اس کی ذمہ دار عدلیہ اور حکومت دونوں ہیں ۔

کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ عدلیہ علما کرام سے مشاورت کر لیتی ؟؟ یا انہیں اعتماد میں لیا جاتا ؟؟ حالات شدید خراب ہونے اور ہر جگہ فسادات پھیل جانے کے بعد اس مسئلے کو حل کرنا بہتر ہوتا ہے یا پہلے سے اس کے رد عمل کے بارے میں مشاورت وغیرہ کرنا ؟؟

کیا عدلیہ کو نہیں پتہ تھا کہ اس فیصلے پہ رد عمل کیا ہو گا اس ملک میں جہاں مذہب کو کافی اہمیت دی جاتی ہے ؟؟ جہاں کسی ایک مولوی کے کہنے پہ سادہ لوح عوام اپنا بازو کاٹ کر پیش کر دیتی ہے ؟؟ وہاں ان کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کا انجام کیا ہو سکتا ہے ؟؟

شدت پسند اگر وہ مولوی ہیں جو اس وقت جلاو گھیراو کر رہے ہیں تو عدلیہ اور حکومت کا فیصلہ بھی شدت پسندی پہ مشتمل تھا جہاں 20 یا 25 دن پہلے فیصلہ محفوظ کر کے عین 31 اکتوبر کو ایک گستاخ رسول ﷺ کو رہا کر دیاجاتا ہے جس دن غازی علم دین کو شہید کیا گیا تھا ۔

افسوس صد افسوس
 

جاسم محمد

محفلین
پچھلے کچھ سالوں تحریک انصاف نے ہر قسم کے دنگا فساد کو ہوا دی ، مقصد صرف اس وقت کی حکومت کو کمزور کرنا تھا
اپوزیشن کے احتجاج کا مقصد حکومت کمزور کرنا نہیں۔ بلکہ اس سے جائز مطالبات منوانا ہوتا ہے۔ خان صاحب نے جن 4 حلقوں کو لے کر دھرنا دیا تھا۔ وہ آج بھی ن لیگ کے پاس ہیں۔ حلقے کھلوانا ایک جائز مطالبہ تھا۔ اگر لیگی حکومت اسٹے آرڈر کے پیچھے چھپنے کی بجائے یہ مطالبہ مان لیتی تو تحریک انصاف و عمران خان کی اپنی بدنامی ہوتی۔ اور ان کا بیانیہ کہ ن لیگ دھاندلی سے جیتی فلاپ ہو جاتا۔ لیگی حکومت نے خود ہی ہٹ دھرمی دکھا کر خان صاحب کو 126 دن میڈیا پبلسٹی کا موقع فراہم کیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسی چیزوں کا قلع قمع کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ اس کی بلاوجہ تشہیر نہ کی جائے ۔ اور یہاں عزت مآب خود قصیدے پڑھ پڑھ کے سنا رہے ہیں ۔
حضرت یہ لیگی حکومت نہیں ہے جہاں سارےحساس معاملات اندر خانے کر نے کے چکر میں ڈان لیکس ہو جایا کرتے تھے۔ اگر کوئی فسادی ٹولہ ملک کے آرمی چیف، چیف جسٹس اور چیف ایگزیکٹو کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ کھلے عام ان کے قتل پر اُکسا رہا ہے۔ تو اس کو اسی کی زبان میں جواب دینا ضروری ہے۔ تاکہ عوام ان کی باتوں میں آکر اشتعال انگیزی کا شکار نہ ہو۔ بات چھپا دینے سے وہ ختم نہیں ہو جاتی۔ بات کرنے سے ختم ہوتی ہے۔
 

ابوعبید

محفلین
حضرت یہ لیگی حکومت نہیں ہے جہاں سارےحساس معاملات اندر خانے کر نے کے چکر میں ڈان لیکس ہو جایا کرتے تھے۔ اگر کوئی فسادی ٹولہ ملک کے آرمی چیف، چیف جسٹس اور چیف ایگزیکٹو کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ کھلے عام ان کے قتل پر اُکسا رہا ہے۔ تو اس کو اسی کی زبان میں جواب دینا ضروری ہے۔ تاکہ عوام ان کی باتوں میں آکر اشتعال انگیزی کا شکار نہ ہو۔ بات چھپا دینے سے وہ ختم نہیں ہو جاتی۔ بات کرنے سے ختم ہوتی ہے۔

تو جناب سارا دن میڈیا پہ پابندی کیوں لگائے رکھی ہے ؟؟ میڈیا کو بھی کہنے دیں کہ فلاں فلاں جرنیلوں کے خلاف بول رہا ہے اور فلاں نے اسکے خلاف قتل کا فتویٰ دیا ہے ؟؟ دنیا کو بھی پتہ چلے کہ کون کون غداری پہ اترا ہوا ہے ۔ انہیں لائیو کوریج کرنے دیں ۔

اب یہ لطیفہ نہ سنا دیجیے گا کہ میڈیا کو کس نے روکا ہے وہ تو میچور پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں خود ہی کوریج نہیں دے رہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
تو جناب سارا دن میڈیا پہ پابندی کیوں لگائے رکھی ہے
صرف الیکٹرونک میڈیا ہی واحد میڈیا نہیں ہے۔ عوام کی ایک کثیر تعداد سوشل میڈیا پر ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ اور اصل خبر وہیں سے ملتی ہے۔ چاہے وہ اسرائیلی طیارے والی افواہ ہو یا کل ایک فسادی ٹولے کی شدت پسند تقاریر۔
 

جاسم محمد

محفلین
شدت پسند اگر وہ مولوی ہیں جو اس وقت جلاو گھیراو کر رہے ہیں تو عدلیہ اور حکومت کا فیصلہ بھی شدت پسندی پہ مشتمل تھا جہاں 20 یا 25 دن پہلے فیصلہ محفوظ کر کے عین 31 اکتوبر کو ایک گستاخ رسول ﷺ کو رہا کر دیاجاتا ہے جس دن غازی علم دین کو شہید کیا گیا تھا ۔
کیا آپ لوگوں کی آئین و قانون پر دسترس چیف جسٹس پاکستان سے بھی زیادہ ہے؟ اگر گستاخی رسول سے متعلق حتمی فیصلہ جذباتی عوام نے ہی کرنا ہے۔ تو سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں کی کیا ضرورت ہے؟ جائیں ان کو آگ لگا دیں۔

نبی پاک ﷺ کی ناموس پرجان قربان،لیکن کسی کیخلاف کیس نہ بنتا ہو تو کیسےسزا دیں:چیف جسٹس
192366_525_updates.jpg

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار—۔فائل فوٹو

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے مقدمے سے بری کیے جانے کے فیصلے کے بعد ہونے والی تنقید اور احتجاج پر اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ایمان کسی کا کم نہیں ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر جان بھی قربان ہے، لیکن کسی کے خلاف کیس نہ بنتا ہو تو کیسے سزا دیں؟

جسٹس ثاقب نثار نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ میں قائم مقام آئی جی اسلام آباد کے تقرر کی حکومتی درخواست پر سماعت کے دوران دیئے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کسی کے لیے قابل برداشت نہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہیں، لیکن اگر کسی کے خلاف کیس بنتا ہی نہ ہو تو اسے سزا کیسے دیں؟'

ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ 'ایمان کسی کا کم نہیں ہے، ہم صرف مسلمانوں کے قاضی نہیں ہیں'۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'بنچ میں بیٹھے کئی ججز درود شریف پڑھتے رہتے ہیں'۔

آسیہ بی بی کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ 'فیصلہ کلمے سے شروع کیا، جس میں دین کا سارا ذکر بھی کیا ہے'۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'فیصلہ اردو میں اس لیے جاری کیا تاکہ قوم پڑھے

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم نے اللہ کی ذات کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے پہچانا ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں'۔

فیصلے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے احتجاج کے پیش نظر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'ریاست امن و امان کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرے، جیسا کہ رات وزیراعظم نے بھی کہا'۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد کی بناء پر بری کردیا تھا۔

آسیہ بی بی کو بری کیے جانے کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے ہونے والے احتجاج کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں سڑکیں بند ہونے سے ٹریفک کی روانی متاثر ہے۔

گذشتہ روز مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'ججز نے جو فیصلہ دیا ہے وہ آئین کے مطابق ہے، پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے تابع ہے لیکن اس فیصلے پر ججز کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی گئی اور واجب القتل کہا گیا، فیصلے کے بعد بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ فوج کے جنرلز آرمی چیف کے خلاف بغاوت کریں'۔

وزیراعظم نے عوام سے اپیل کہ 'کسی صورت ان عناصر کو خود کو اکسانے نہ دیں، یہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ ملک دشمنی ہے، جس کے ذریعے یہ لوگ اپنا ووٹ بینک بڑھا رہے ہیں'۔

آسیہ بی بی کیس— کب کیا ہوا؟

صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں یہ واقعہ جون 2009 میں پیش آیا، جب فالسے کے کھیتوں میں کام کے دوران دو مسلمان خواتین کا مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جھگڑا ہوا، جس کے بعد آسیہ بی بی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔

بعدازاں آسیہ بی بی کے خلاف ان کے گاؤں کے امام مسجد قاری سلام نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ 5 روز بعد درج کی گئی واقعے کہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ بی بی نے توہین رسالت کا اقرار بھی کیا۔

امام مسجد کے بیان کے مطابق آسیہ بی بی کے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں پنچایت ہوئی جس میں ہزاروں افراد کے شرکت کرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن جس مکان کا ذکر کیا گیا، وہ بمشکل پانچ مرلے کا تھا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد آسیہ بی بی کو گرفتار کرلیا گیا اور بعدازاں ٹرائل کورٹ نے 2010 میں توہین رسالت کے جرم میں 295 سی کے تحت انھیں سزائے موت سنا دی، جسے انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

تاہم لاہور ہائیکورٹ نے اکتوبر 2014 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

جس پر 2014 میں ہی آسیہ بی بی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں۔

ان اپیلوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے رواں ماہ 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، جو 31 اکتوبر کو سنایا گیا اور عدالت عظمیٰ نے آسیہ بی بی کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔
 

فرقان احمد

محفلین
فیصلہ درست ہے یا غلط، اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ دوسری صورت یہی ہے کہ ریاست سے بغاوت کر دی جائے۔ یہی سب کچھ وزیراعظم نے بھی اپنے خطاب میں کہا ہے۔ تاہم، ابھی یہ بات ان کے کہنے کی نہیں تھی۔ اُن کی بے وقت تقریر کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ حکومت کو پہلے مذاکرات کا سہارا لینا چاہیے۔ ہر طرف سے ناکامی کے بعد اس طرح کی تقریر بنتی ہے۔ تاہم، یہاں سوشل میڈیا پر ایک تقریر سن کر توپ چلا دی گئی ہے۔ اب معاملات اتنی آسانی سے نہیں سنبھل سکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہی سب کچھ وزیراعظم نے بھی اپنے خطاب میں کہا ہے۔ تاہم، ابھی یہ بات ان کے کہنے کی نہیں تھی۔ اُن کی بے وقت تقریر کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔
تقریر آرمی چیف سے ملاقات کے بعد ہی کی گئی تھی۔ فوج نے حکومت کا ساتھ دینا کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لیگی حکومت کی طرح ہزار ہزار روپے دے کر معاملہ نبٹانے والا دور گزر گیا۔ یہ لاتوں کے بھوت ہیں۔ باتوں سے نہیں مانیں گے۔
 
حضرت یہ لیگی حکومت نہیں ہے جہاں سارےحساس معاملات اندر خانے کر نے کے چکر میں ڈان لیکس ہو جایا کرتے تھے۔ اگر کوئی فسادی ٹولہ ملک کے آرمی چیف، چیف جسٹس اور چیف ایگزیکٹو کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ کھلے عام ان کے قتل پر اُکسا رہا ہے۔ تو اس کو اسی کی زبان میں جواب دینا ضروری ہے۔ تاکہ عوام ان کی باتوں میں آکر اشتعال انگیزی کا شکار نہ ہو۔ بات چھپا دینے سے وہ ختم نہیں ہو جاتی۔ بات کرنے سے ختم ہوتی ہے۔
آپ ختم کر لیں۔
جن دلائل پر کیس ختم کیا گیا ہے پاکستان کے قانون میں ایک بھی کیس نہیں ہے جو ختم نہ ہو۔

ایف آئی آر دیر سے درج ہوئی۔ ۔۔۔ پاکستان میں کوئی ایک ایف آئی آر دکھائیں جو فورا درج ہو جاتی ہو۔ پہلے آپ رپورٹ دیتے ہیں پھر پولیس اس پر تحقیق کرتی ہے پھر جرم کا ہونا طے ہوتا ہے اس کے بعد میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ اور یہی نقطہ اپیل سننے کے لیئے مختلف بنیاد پر رد بھی کیا گیا۔ ایف آئی آر میں نظام کی وجہ سے تاخیر ہوئی ملزمہ کو چھوڑ دیں کیونکہ پلان بن سکتا ہے جبکہ اپیل میں گیارہ دن کی تاخیر ہوئی حرج نہیں کیونکہ معروضی حالات ویسے تھے کہ فورا اپیل نہیں ہو سکتی تھی۔

اب دوسرے نقطے کی طرف آتے ہیں ۔ گواہان کے بیان میں تضاد ہے۔ جی کیا تضاد ہے ایک اجتماع میں وہ موجود لوگوں کی تعداد ایک جیسی بتانے سے قاصر تھے اچھا جی یہ تضاد تھا یا ہر گواہ کی اپنی آبزرویشن اور جرح کے دوران کے معروضی حالات کے نتیجے میں فطری طور پر پیدا ہونے والا فرق۔۔؟؟ فیصلہ کون کرے گا پھر آپ اسی فیصلے میں آگے چلتے ہوئے اسی اجتماع کا واقع ہونا تسلیم بھی کر رہے ہیں اور وہاں موجود لوگوں کی تعداد کو سینکڑوں میں بیان بھی کر رہے ہیں-اب یا تو آپ کی نظر میں وہ اجتماع ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا ۔ فیصلہ میں آپ کے مطابق وہ اجتماع ہوا تھا اسی وجہ سے وہاں کیا جانے والا اعتراف جرم آپ کے لیئے قابل قبول نہیں تھا کیونکہ وہ کسی مجاز اتھارٹی کے سامنے نہیں کیا گیا تھا- اب اس سے آگے چلتے ہیں تھانے میں ایس پی کے سامنے کیا جانے والا اعتراف بھی آپ کو قبول نہ تھا کیونکہ وہ اعتراف بھی مجاز اتھارٹی کے سامنے نہ تھا جبکہ سیشن عدالت میں ملزمہ کا اعتراف بھی قابل قبول نہ تھا کیونکہ آپ کی نظر میں شاید وہ بھی مجاز اتھارٹی نہ تھا-

گواہان کے بیانات میں جو تضادات آپ نے بریت کی وجہ بتائے ہیں وہ تضادات دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ کا ہونا اور اس عورت کا گستاخی کرنا موضوع بحث نہیں ہے بلکہ کوئی ایسا نقطہ پیدا کرنا آپ کا مطمع نظر ہے جس سے مجرمہ کو چھوڑنے کا سبب پیدا کیا جا سکے-

عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملزمہ اور گواہوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا اس لیے موقع پر ملزمہ اور ان گواہوں کی موجودگی توہین رسالت کا جرم ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے ’اس کے علاوہ اس جگہ پر تیس سے پینتیس خواتین موجود تھیں جو اس معاملے میں گواہی کے لیے سامنے نہیں آئیں اور ایک تیسری گواہ بھی بعد میں مقدمے سے الگ ہو گئیں۔ محمد ادریس نے بھی توہین آمیز الفاظ نہیں سنے۔ یہ سب استغاثہ کی کہانی کے متعلق شکوک پیدا کرتا ہے۔‘

واضح ترین مطلب یہ ہوا کہ زید کا بکر سے جھگڑا ہوا اور اس جھگڑے کے چند گھنٹے بعد زید کے سامنے بکر اس کے بھائی کو قتل کر دیتا ہے ایسی صورت میں ملزم کی اور زید کی وہاں موجودگی قتل ثابت کرنے کو کافی نہیں ہے چاہے بکر اس کا اعتراف گاؤں کی پنچایت میں کر بھی لیتا ہے تب بھی قانونا اس کا اعتراف تسلیم نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ مجاز عدالت کے سامنے نہیں ہے اور زید اور بکر کا جھگڑا ہونے کی وجہ سے زید کی گواہی بکر کے خلاف قبول نہیں ہو سکتی اور اگر زید کے ساتھ ایک آدھ آدمی ہی گواہ ہو تو بھی وہ کافی نہ ہوگا کیونکہ قتل تو چوک میں ہوا تھا لہذا سو پچاس لوگوں نے دیکھا ہوگا اور ان میں سے صرف یہ دو لوگ ہی جو آئے سامنے آئے لہذا یہ جھوٹے ہیں - اور ایک اور گواہ جو بعد میں گواہی سے الگ ہو گیا وہ بھی بکر کی بریت کی وجہ ہونا چاہیئے کیونکہ یہ استغاثہ کی کہانی پر شکوک پیدا کرتا ہے-اس کے علاوہ جہاں پر قتل ہوا وہاں کے مالک نے اپنی آنکھوں سے قتل ہوتے نہیں دیکھا لہذا مقدمہ ہی جھوٹا ہے-

تم لوگوں نے اپنا کام کر لیا اب ہم اپنا کام کریں گے ان شاء اللہ ۔ باقی رہی بات پاکستان کی تو ناموس رسالت پر ایک چھوڑ ہزار پاکستان قربان ۔چیف جسٹس کیا وزیر اعظم کیا چیف آف آرمی اسٹاف جو کوئی بھی ناموس رسالت کے شاتمین کا حامی ہوگا جہنم میں جائے
 

ابوعبید

محفلین
آپ ختم کر لیں۔
جن دلائل پر کیس ختم کیا گیا ہے پاکستان کے قانون میں ایک بھی کیس نہیں ہے جو ختم نہ ہو۔

ایف آئی آر دیر سے درج ہوئی۔ ۔۔۔ پاکستان میں کوئی ایک ایف آئی آر دکھائیں جو فورا درج ہو جاتی ہو۔ پہلے آپ رپورٹ دیتے ہیں پھر پولیس اس پر تحقیق کرتی ہے پھر جرم کا ہونا طے ہوتا ہے اس کے بعد میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ اور یہی نقطہ اپیل سننے کے لیئے مختلف بنیاد پر رد بھی کیا گیا۔ ایف آئی آر میں نظام کی وجہ سے تاخیر ہوئی ملزمہ کو چھوڑ دیں کیونکہ پلان بن سکتا ہے جبکہ اپیل میں گیارہ دن کی تاخیر ہوئی حرج نہیں کیونکہ معروضی حالات ویسے تھے کہ فورا اپیل نہیں ہو سکتی تھی۔

اب دوسرے نقطے کی طرف آتے ہیں ۔ گواہان کے بیان میں تضاد ہے۔ جی کیا تضاد ہے ایک اجتماع میں وہ موجود لوگوں کی تعداد ایک جیسی بتانے سے قاصر تھے اچھا جی یہ تضاد تھا یا ہر گواہ کی اپنی آبزرویشن اور جرح کے دوران کے معروضی حالات کے نتیجے میں فطری طور پر پیدا ہونے والا فرق۔۔؟؟ فیصلہ کون کرے گا پھر آپ اسی فیصلے میں آگے چلتے ہوئے اسی اجتماع کا واقع ہونا تسلیم بھی کر رہے ہیں اور وہاں موجود لوگوں کی تعداد کو سینکڑوں میں بیان بھی کر رہے ہیں-اب یا تو آپ کی نظر میں وہ اجتماع ہوا تھا یا نہیں ہوا تھا ۔ فیصلہ میں آپ کے مطابق وہ اجتماع ہوا تھا اسی وجہ سے وہاں کیا جانے والا اعتراف جرم آپ کے لیئے قابل قبول نہیں تھا کیونکہ وہ کسی مجاز اتھارٹی کے سامنے نہیں کیا گیا تھا- اب اس سے آگے چلتے ہیں تھانے میں ایس پی کے سامنے کیا جانے والا اعتراف بھی آپ کو قبول نہ تھا کیونکہ وہ اعتراف بھی مجاز اتھارٹی کے سامنے نہ تھا جبکہ سیشن عدالت میں ملزمہ کا اعتراف بھی قابل قبول نہ تھا کیونکہ آپ کی نظر میں شاید وہ بھی مجاز اتھارٹی نہ تھا-

گواہان کے بیانات میں جو تضادات آپ نے بریت کی وجہ بتائے ہیں وہ تضادات دیکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ کا ہونا اور اس عورت کا گستاخی کرنا موضوع بحث نہیں ہے بلکہ کوئی ایسا نقطہ پیدا کرنا آپ کا مطمع نظر ہے جس سے مجرمہ کو چھوڑنے کا سبب پیدا کیا جا سکے-

عدالت نے قرار دیا ہے کہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملزمہ اور گواہوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا اس لیے موقع پر ملزمہ اور ان گواہوں کی موجودگی توہین رسالت کا جرم ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے ’اس کے علاوہ اس جگہ پر تیس سے پینتیس خواتین موجود تھیں جو اس معاملے میں گواہی کے لیے سامنے نہیں آئیں اور ایک تیسری گواہ بھی بعد میں مقدمے سے الگ ہو گئیں۔ محمد ادریس نے بھی توہین آمیز الفاظ نہیں سنے۔ یہ سب استغاثہ کی کہانی کے متعلق شکوک پیدا کرتا ہے۔‘

واضح ترین مطلب یہ ہوا کہ زید کا بکر سے جھگڑا ہوا اور اس جھگڑے کے چند گھنٹے بعد زید کے سامنے بکر اس کے بھائی کو قتل کر دیتا ہے ایسی صورت میں ملزم کی اور زید کی وہاں موجودگی قتل ثابت کرنے کو کافی نہیں ہے چاہے بکر اس کا اعتراف گاؤں کی پنچایت میں کر بھی لیتا ہے تب بھی قانونا اس کا اعتراف تسلیم نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ مجاز عدالت کے سامنے نہیں ہے اور زید اور بکر کا جھگڑا ہونے کی وجہ سے زید کی گواہی بکر کے خلاف قبول نہیں ہو سکتی اور اگر زید کے ساتھ ایک آدھ آدمی ہی گواہ ہو تو بھی وہ کافی نہ ہوگا کیونکہ قتل تو چوک میں ہوا تھا لہذا سو پچاس لوگوں نے دیکھا ہوگا اور ان میں سے صرف یہ دو لوگ ہی جو آئے سامنے آئے لہذا یہ جھوٹے ہیں - اور ایک اور گواہ جو بعد میں گواہی سے الگ ہو گیا وہ بھی بکر کی بریت کی وجہ ہونا چاہیئے کیونکہ یہ استغاثہ کی کہانی پر شکوک پیدا کرتا ہے-اس کے علاوہ جہاں پر قتل ہوا وہاں کے مالک نے اپنی آنکھوں سے قتل ہوتے نہیں دیکھا لہذا مقدمہ ہی جھوٹا ہے-

تم لوگوں نے اپنا کام کر لیا اب ہم اپنا کام کریں گے ان شاء اللہ ۔ باقی رہی بات پاکستان کی تو ناموس رسالت پر ایک چھوڑ ہزار پاکستان قربان ۔چیف جسٹس کیا وزیر اعظم کیا چیف آف آرمی اسٹاف جو کوئی بھی ناموس رسالت کے شاتمین کا حامی ہوگا جہنم میں جائے

جس ملک کا چیف جسٹس اپنے ہاتھوں سے شراب پکڑ کر اسے شراب ثابت نہیں کر سکا وہاں ایسے مقدمات پہ صرف انا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top