آئی ایم ایف میں جانا نہیں چاہتے تھے، ملک چلانے کیلئے 28 ارب ڈالرز چاہئیں: فواد چوہدری

ق لیگ نے خوب لوٹا قوم کو.

بلدیاتی نظام کا جو نیا ممکنہ نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اگر اس پر عملدرآمد ہوا تو ایک مرتبہ پھر پنجاب میں ق لیگ کی حکومت کے لئے تیار رہیں۔ نئے ضلعی ناظمین کے نظام میں ساری طاقت عملی طور پر چوہدریوں کے ہاتھ ہوگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
آئی ایم ایجنٹ ڈاکٹر عاطف میاں جنہیں اقتصادی مشارتی کونسل سے استعفیٰ دینا پڑا کا اس فیصلہ سے متعلق بیان:
بظاہر لگتا ہے حکومت نے اقتصادی ماہرین کی مشاورت رد کرتے ہوئے یہ فیصلہ لیا ہے۔ جس کا انجام سابقہ حکومتوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔
 

فرقان احمد

محفلین
مشرف دور میں ڈالر کا مستحکم رہنا حکومت کی کامیاب فسکل پالیسی کی بدولت تھا۔ جبکہ اس کے بعد آنے والے جمہوری دور معاشی فراڈ”پمپ اینڈ ڈمپ“ کی عمدہ مثال تھا۔ جہاں ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر مستحکم رکھا جاتا ہے۔ جو بعد میں بہرحال کریش ہوکر ملک کی معیشت کو بحران میں ڈال جاتی ہے۔
تو پھر، کیا خیال ہے؟ آمریت کو ملک پر مسلط کرنے کے بارے میں۔۔۔! امر واقعہ یہ ہے کہ بوٹوں کے سائے تلے پنپتی جمہوریت ہو یا خاکی فرشتے براہ راست آن موجود ہوں، اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔ کوئی بھی حکومت ایسی نہیں گزری ہے، جسے مثالی قرار دیا جا سکے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے ہوتے ہوئے کبھی بھی ملکی معیشت ترقی نہیں کر سکتی۔ کرپشن کا خاتمہ محض ایک نعرہ ہے اور فی الوقت اس نعرے کا سہارا لے کر بعض سیاسی عناصر کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ یہ عناصر کرپٹ ہوں گے تاہم دو باتیں یاد رکھنے کی ہیں؛ ان کو ہم پر عسکریوں نے مسلط کیا تھا اور یہ بھی کہ جب انہوں نے اپنے تئیں مملکت کا نظام چلانے کی کوشش کی تو انہیں اس 'جرم'کی سزا دینے کے لیے مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب جس قدر چاہے نیک نیت ہوں تاہم ان کے سر پر بھی ہمہ وقت ایک ان دیکھی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ ذرا چوں چرا ں کی گئی تو خان صاحب، پرویز الٰہی صاحب اور خالد مقبول صدیقی صاحب سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جب تک عسکریوں کو نواز شریف اور عمران خان ایسے سیاست دان میسر ہیں، ان کی دکان داری چلتی رہے گی۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
تو پھر، کیا خیال ہے؟ آمریت کو ملک پر مسلط کرنے کے بارے میں
خراب جمہوریت کا حل آمریت نہیں بلکہ مزید بہتر جمہوریت ہے۔ سابقہ جمہوری حکومت سے صرف اتنا اختلاف ہے کہ ان کے فائننس منسٹر اسحاق ڈار نے ڈالرکی قدر 5 سال مصنوعی طور پر100 روپے کے آس پاس کیوں رکھی؟ اور جب بھی اوپن یا انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر بڑھتا تو ڈار صاحب کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کر کے اسے واپس لے آتے۔ یعنی عوام کو سابقہ حکومت نے اتنے سال دھوکے اور فریب میں رکھ کر سبز دکھائے کہ معاشی حوالہ سے سب اچھا ہے۔ جبکہ حقیقت میں اس وقت بھی ڈالر کا اصلی ایکسچینج ریٹ 127 روپےکے آس پاس تھا۔
اب چونکہ نئی حکومت ہے اور ماضی کی کرنسی مارکیٹ میں چالبازیوں کا اختتام ہو چکا ہے۔ اس لئے ڈالر مارکیٹ کے عین مطابق اپنی اصل قدر پر واپس آرہا ہے۔ اس پر مخالفین شور مچا رہے ہیں کہ دیکھیں حالیہ حکومت نا اہل ہو گئی۔ ڈالر کی قیمت پر ’’قابو‘‘ نہیں ہے۔ حالانکہ یہ پچھلی نا اہل حکومت کا 5 سالہ ملبہ اس نئی حکومت پرگرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
جی اچھا!
 

جاسم محمد

محفلین
آپ مجھے چھوڑ یں۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عاطف میاں (جن کی اقوام عالم میں میکرو اکانومی فیلڈ کی وجہ سے شہرت ہے) کے اسحاق ڈار اور سابقہ جمہوری حکومت سے متعلق کارنامے پڑھ لیں:
One reason for Pakistan’s poor export performance was Dar’s strange infatuation with keeping the rupee at or below the rate of 100 per US dollar — something he openly acknowledged in December 2013. The rupee exchange rate, like any other price in the economy, is ultimately a function of demand and supply. Dar’s insistence on keeping an overvalued exchange rate disproportionately hurt exports
To make matters worse, the government engaged in an import-led growth strategy by borrowing from abroad to finance large-scale infrastructure projects — the China-Pakistan Economic Corridor (CPEC) being the most prominent example. It is well known that high net borrowing from abroad leads to real exchange rate appreciation which further restricts export growth. All of these elements have combined to generate the current balance of payment crisis. The new government that comes to power must address these issues in order to address the problem of rapid depreciation of the rupee
تحریک انصاف حکومت سے متعلق اکثر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس کے کرتا دھرتا عمران خان توہم پرست ہیں۔ جبکہ سابقہ وزیر خزانہ تو اس سے بھی بڑے نکلے۔ ڈالر کی قیمت 100 روپے مصنوعی طور پر رکھنے سے نہ صرف پاکستانی ایکسپورٹز کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ بلکہ آمدن سے زائد درآمداد بڑھنے پر قومی خزانے کو ٹھیک ٹھاک خسارے کا سامنا بھی ہوا۔ ان تمام اقتصادی، معاشی اور مالی بے قائدگیوں کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر آن پڑی ہے۔ اور اوپر سے حزب اختلاف جو اس کی ذمہ دار ہے، معاشی ریفارمز کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کر رہی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کم و بیش ہر دوسرے تیسرے مراسلے میں آپ ان صاحب کو ناگوار ہی تکلیف دیتے ہیں۔ خیر کوئی تو وجہ رہی ہو گی!
دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔
ملک کی ماکرواکانومی پر کوئی اور اس پایہ کا ایکسپرٹ ہو تو بتائیں۔ ان کو تکلیف دے دیتے ہیں :)
آپریشن سے متعلق ماہر سرجن، بیماری سے متعلق ماہر طب اور معیشت سے متعلق ماہر اقتصادیات سے ہی مدد لی جاتی ہے ۔ باقی آپ زیادہ سمجھدار ہیں۔
 

ربیع م

محفلین
ملک کی ماکرواکانومی پر کوئی اور اس پایہ کا ایکسپرٹ ہو تو بتائیں۔ ان کو تکلیف دے دیتے ہیں :)
آپریشن سے متعلق ماہر سرجن، بیماری سے متعلق ماہر طب اور معیشت سے متعلق ماہر اقتصادیات سے ہی مدد لی جاتی ہے ۔ باقی آپ زیادہ سمجھدار ہیں۔
انھوں نے کون سی چھڑی گھمانی تھی؟جو بقول آپ کے وزیر اطلاعات کے 28 ارب ڈالر کی ضرورت پوری ہو جاتی
 

جاسم محمد

محفلین
انھوں نے کون سی چھڑی گھمانی تھی؟جو بقول آپ کے وزیر اطلاعات کے 28 ارب ڈالر کی ضرورت پوری ہو جاتی
ملک کی معیشت جس میں 20 کروڑ لوگ شریک ہوں کو چھڑی گھما کر ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ماہراقتصادیات زیادہ سے زیادہ معیشت کے خدوخال پر تحقیق کر کے بتا سکتا ہے کہ مسئلہ کہاں آرہا ہے۔ یعنی پاکستانی درآمداد، برآمداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ڈالر پچھلے 5 سال مصنوعی طور پر 100 روپے پر ٹارگٹ کیا گیا۔ جس کا ملبہ حالیہ حکومت پرگرنا ناگزیر تھا۔ اوپر سے سی پیک کا جن ہے جسے بوتل میں ڈالنا آسان کام نہیں۔
ایک طرف سابقہ حکومت بیرونی قرضے لیتی ہے۔ دوسری طرف داخلی ٹیکس کلیکشن اور پیداوار نہیں بڑھاتی۔ پھر اس خراب بدحال معیشت کو چمکانے کیلئے ڈالر کی قدر مصنوعی طریقوں سے کم رکھتی ہے۔ ایسے میں ملک ترقی کیسے کرے؟
 

ربیع م

محفلین
ملک کی معیشت جس میں 20 کروڑ لوگ شریک ہوں کو چھڑی گھما کر ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ماہراقتصادیات زیادہ سے زیادہ معیشت کے خدوخال پر تحقیق کر کے بتا سکتا ہے کہ مسئلہ کہاں آرہا ہے۔ یعنی پاکستانی درآمداد، برآمداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ڈالر پچھلے 5 سال مصنوعی طور پر 100 روپے پر ٹارگٹ کیا گیا۔ جس کا ملبہ حالیہ حکومت پرگرنا ناگزیر تھا۔ اوپر سے سی پیک کا جن ہے جسے بوتل میں ڈالنا آسان کام نہیں۔
ایک طرف سابقہ حکومت بیرونی قرضے لیتی ہے۔ دوسری طرف داخلی ٹیکس کلیکشن اور پیداوار نہیں بڑھاتی۔ پھر اس خراب بدحال معیشت کو چمکانے کیلئے ڈالر کی قدر مصنوعی طریقوں سے کم رکھتی ہے۔ ایسے میں ملک ترقی کیسے کرے؟
باہر بیٹھ کر تجزیے کرنے بہت آسان ہیں اور پانچ سال سے پی ٹی آئی یہی کرتی رہی
بس یہی دعوے تھے کہ ہم نے 100دن کا پلان بھی تیار کر رکھا ہے اور ہماری ٹیم بھی مکمل ہے سر پر پڑی تو سمجھ آئی.
 

جاسم محمد

محفلین
بس یہی دعوے تھے کہ ہم نے 100دن کا پلان بھی تیار کر رکھا ہے اور ہماری ٹیم بھی مکمل ہے سر پر پڑی تو سمجھ آئی.
پچھلی حکومتوں کی طرح قرضوں پر قرضے چڑھا کر تمام معاشی مسائل کا "حل" نکالا جا سکتا تھا ۔ البتہ یہ مستقل حل نہیں ہے۔تحریک انصاف حکومت ملک کا معاشی نظام ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔ نہ کہ کچھ عرصہ عوام کو ریلیف دے کر قرضوں کا بوجھ اگلی حکومت پر لادھ کر یہ جا وہ جا۔
سابقہ حکومت کی اقتصادی کارکردگی صرف ایک گراف میں:
3-1532027175.jpg

18 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ جو نئی حکومت کو تحفہ میں ملا ہے۔
 

ربیع م

محفلین
پچھلی حکومتوں کی طرح قرضوں پر قرضے چڑھا کر تمام معاشی مسائل کا "حل" نکالا جا سکتا تھا ۔ البتہ یہ مستقل حل نہیں ہے۔تحریک انصاف حکومت ملک کا معاشی نظام ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔ نہ کہ کچھ عرصہ عوام کو ریلیف دے کر قرضوں کا بوجھ اگلی حکومت پر لادھ کر یہ جا وہ جا۔
سابقہ حکومت کی اقتصادی کارکردگی صرف ایک گراف میں:
3-1532027175.jpg

18 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ جو نئی حکومت کو تحفہ میں ملا ہے۔

اب کیا موجودہ حکومت کو مال غنیمت مل رہا ہے؟ موجودہ حکومت بھی تو قرض ہی لے رہی ہے آئندہ آنے والی حکومتیں بھی یہی بہانہ بنائیں گی.
 

ربیع م

محفلین
اگر تحریک کو مشرف دور کے بعد حکومت ملتی تو حالات یکسر مختلف ہوتے۔
خان صاحب تو 2013 میں حکومت نہ ملنے پر شکر کرتے پائے گئے.
ایسے ہی حامی بندے کو دریا میں دھکا دے کر رفوچکر ہو جاتے ہیں اور دریا میں کودنے والا پوچھتا ہے پہلے منو دسو دھکا کنے دتا.
 

جاسم محمد

محفلین
موجودہ حکومت بھی تو قرض ہی لے رہی ہے
جی بالکل۔ یہ نئی حکومت کی اقتصادی مجبوری ہے کیونکہ پرانی حکومتوں کا لیا گیا قرض ان کا دور حکومت جاتے ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر صورت واپس ادا کرنا ہوتا ہے۔ دوسری صورت قرضوں کی ادائیگی پر اپنے آپ کو دیوالیہ کرنا ہے۔ جس کے بعد ملک کے قومی اثاثے جبرا غیرملکی مالیاتی اداروں کی تحویل میں جا سکتے ہیں۔
حکومت کی قومی مفاد میں اس مجبوری کو مخالفین نے کھیل تماشہ بنا رکھا ہے۔ حالانکہ جہاں حکومت قرض لے گی، وہاں ٹیکس چوروں اورکرپٹ عناصر کو بھی پکڑے گی۔ برآمداد بڑھائے گی۔ ملک میں سرمایہ کاری لے کر آئے گی۔تاکہ خسارہ کم ہو اور بعد میں آنے والی حکومتوں کو مزید قرضے نہ لینے پڑیں۔
 

ربیع م

محفلین
جی بالکل۔ یہ نئی حکومت کی اقتصادی مجبوری ہے کیونکہ پرانی حکومتوں کا لیا گیا قرض ان کا دور حکومت جاتے ختم نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر صورت واپس ادا کرنا ہوتا ہے۔ دوسری صورت قرضوں کی ادائیگی پر اپنے آپ کو دیوالیہ کرنا ہے۔ جس کے بعد ملک کے قومی اثاثے جبرا غیرملکی مالیاتی اداروں کی تحویل میں جا سکتے ہیں۔
حکومت کی قومی مفاد میں اس مجبوری کو مخالفین نے کھیل تماشہ بنا رکھا ہے۔ حالانکہ جہاں حکومت قرض لے گی، وہاں ٹیکس چوروں اورکرپٹ عناصر کو بھی پکڑے گی۔ برآمداد بڑھائے گی۔ ملک میں سرمایہ کاری لے کر آئے گی۔تاکہ خسارہ کم ہو اور بعد میں آنے والی حکومتوں کو مزید قرضے نہ لینے پڑیں۔
اگر اتنی ایماندار حکومت کی یہ مجبوری ہے قرض لینا تو ماضی کی کرپٹ حکومتوں کی بھی یہی مجبوری ہو گی اور مستقبل میں بھی یہی کہہ کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہے گا.
 

جاسم محمد

محفلین
اگر اتنی ایماندار حکومت کی یہ مجبوری ہے قرض لینا تو ماضی کی کرپٹ حکومتوں کی بھی یہی مجبوری ہو گی اور مستقبل میں بھی یہی کہہ کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہے گا.
---------------------------------------------
دوسرے ممالک سے پراڈکٹس جب خرید کر اپنے ملک لائی لاجاتی ہیں تو انہیں امپوٹس کہا جاتا ہے، اور ان تمام اشیا کی ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس ڈالرز ختم ہوجائیں تو وہ کچھ بھی امپورٹ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ پاکستان اس وقت تیل سے لے کر ادویات، ٹیکنالوجی، کنسٹرکشن، پروڈکشن، حتی کہ زرعی پراڈکٹس تک امپورٹ کررہا ہے۔
اسی طرح جب اپنے ملک کی پراڈکٹس بیرون ملک بیچی جائیں تو انہیں ایکسپورٹس کہتے ہیں اور ان کی وصولی بھی ڈالرز میں ہوتی ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل سیکٹر میں اہم ایکسپورٹس رہی ہیں، اس کے علاوہ ہم کسی بھی دوسرے شعبے میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔
امپورٹ کیلئے ادا شدہ ڈالرز اور ایکسپورٹ انکم سے حاصل ہونے والے ڈالرز کے درمیان فرق کو کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ یا آسان الفاظ میں تجارتی خسارہ کہتے ہیں۔
ن لیگ نے جب اپریل 2018 میں اقتدار چھوڑا تو اس وقت پاکستان کا تجارتی خسارہ 15 ارب ڈالرز سے زائد ہوچکا تھاجبکہ زرداری دور جب ختم ہوا تو یہی خسارہ تین ارب ڈالرز ہوا کرتا تھا۔
3-1532027175.jpg

دوسرے الفاظ میں ن لیگ نے ایک طرف پاکستان کی ایکسپورٹس کم کردیں، دوسری طرف امپورٹس بڑھا دیں تاکہ تجارتی خسارہ خطرناک لائن عبور کرجائے اور ملک معاشی دہشتگردی کا شکار ہوجائے۔
جب عمران خان کو حکومت ملی تو اس وقت تک تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالرز ہوچکا تھا یعنی اگر آپ نے اپنی امپورٹس کی ادائیگی کرنا ہے تو آپ کو بیس ارب ڈالرز درکار ہیں۔ اگر اوورسیز پاکستانیوں کا زرمبادلہ استعمال کریں تو پھر بھی دس ارب ڈالرز چاہئیں تاکہ تیل سے لے کر دوسری صنعتی اشیا کی ادائیگی کی جاسکے، ورنہ ملک کا پہیہ جام ہوجائے گا۔
تو آپ کیلئے یہ جاننا زیادہ مشکل نہیں ہوگا کہ امپورٹ بل کیلئے دس ارب ڈالرز کہاں سے حاصل کئے جائیں؟ یا تو دوست ممالک مدد کریں، یا اوورسیز پاکستانی ہُنڈی کی بجائے قانونی طریقے سے رقوم پاکستان بھیجیں، یا پھر عارضی بنیادوں پر قرضہ حاصل کرکے امپورٹ بل ادا کیا جائے۔
یہ ہے وہ بیک گراؤنڈ کہ جس کی وجہ سے حکومت کو شارٹ ٹرم حل کیلئے قرض لینا پڑ رہا ہے۔
لیگیوں کو یہ سوال اپنی قیادت یا اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیئے کہ پچھلے پانچ برسوں میں ن لیگی حکومت نے ملک پر چالیس ارب ڈالرز کے قرض اور بیس ارب ڈالرز کا تجارتی خسارہ کیوں مسلط کیا؟
بقلم خود بابا کوڈا
---------------------------------------------------------
حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس کیوں جانا پڑا ہے؟
نون لیگ کے دور حکومت 2013 سے 2018 تک لیئے گئے قرضے، ن لیگ نے پاکستان کو معاشی لحاظ سے تباہ کیا اور پاکستان کو تباہی کے کنارے پر لا کر کھڑا کر دیا لیکن وزیراعظم عمران خان اب پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور حکومت کا ہر قدم اس ہی مقصد کیلئے ہے۔
43626186_10156111673634527_3947654361882034176_n.jpg

اعداد و شمار کے مطابق 1971 سے لیکر 2013 یعنی 47 سالوں میں ملک کا قرضہ 16000 ارب روپے تھا۔ جو محض اگلے پانچ سالوں میں دوگنا ہوکر 30000 ارب روپے تک جا پہنچا۔
زرداری دور شروع ہونے سے قبل یہ ملک 6000 ارب روپے کا مقروض تھا۔ لیگی حکومت آنے تک یہ تین گنا بڑھ کر 16000 ارب روپے ہو گیا۔ مشرف کے آمرانہ ظالمانہ دور کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے دور میں تجارتی خسارہ مستحکم رہا۔
43544721_10156111676039527_4981345839185133568_n.jpg

جبکہ بڑھتا خسارہ ہماری تجربہ کار جمہوری حکومتیں کے کارنامے ہیں۔ پوری قوم کو جمہوریت مبارک ہو!
 
Top