جاسمن

لائبریرین
میری نظر میں یتیموں اور بیواؤں کی کسمپرسی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ان کے (بالخصوص خوش حال) عزیز و اقارب ہیں؛ اور پھر اہلِ محلہ و علاقہ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے، آمین۔

آمین!
 

جاسمن

لائبریرین
IMG-20200903-162817.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
20180428-211046.jpg

آپ کی پوسٹ دیکھ کر مجھے لگ بھگ دو سال پہلے بیتا یہ واقعہ یاد آ گیا۔ آج تک نا کبھی کہیں اس کا ذکر کیا تھا نا تصویر پوسٹ کی تھی۔ لیکن پھر اس اجنبی ڈرائیور کا چہرہ یاد آیا تو سوچا تفصیلاً لکھ دیتا ہوں۔



اپریل 2018 کو ایک رات ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ دفتر بند کر کے گھر کو ہوا تو پلازہ کے عین سامنے جی ٹی روڈ پر ایک ہائی ایس مسافر کوچ جو راولپنڈی سے پشاور جا رہی تھی نے سڑک کراس کرتے اس بے زبان کو ٹکر مار دی ۔ آنکھوں کے سامنے اسے ٹکراتے، گرتے اور پھر اٹھ کر لنگڑاتے ہوئے دیکھا۔ پلازے کے ایک چوکیدار اور میں نے ملکر اس کتے کو پکڑ لیا۔جانور شدید تکلیف میں تھا۔ معائنہ کرنے پر اندازہ ہوا کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ ہم دو تین لوگوں نے ملکر اس کے گلے میں چھوٹی سی رسی ڈالی اور پول کے ساتھ باندھ دیا تاکہ دوران علاج یہ تکلیف کی وجہ سے کاٹ نا لے۔ میں واپس پلازے میں آیا اور دفتر کھول کر فرسٹ ایڈ کا جو تھوڑا بہت سامان پڑا تھا وہ لیا۔ نزدیکی اڈے پر موجود ایک ریڑھی والے سے فروٹ کی پیٹی میں استعمال ہونے والی آٹھ دس پھٹیاں لائیں، انھیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا۔ پھر باہر نظر آنے والے زخم پر دوا لگائی اور اوپر لکڑی کے پیس رکھ کر پٹی باندھ دی۔ رات کو اسے وہیں بندھا رہنے دیا تاکہ حرکت کرنے سے کہیں پٹی کھل نا جائے۔ اگلے آٹھ دس دن بھی اسے پلازے کی بیک سائیڈ پر باندھ کے رکھا۔ چھٹے ساتویں دن پلازے کے چوکیدار نے کی اس کی دوبارہ بینڈیج کی۔ دو ہفتے بعد تک یہ معمولی لنگڑاہٹ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اس سارے کاموں کا زیادہ حصہ ہمارے پلازے کے چوکیدار نے سر انجام دیا جبکہ میں ساتھ تھوڑی بہت مدد کرتا رہا۔

لیکن۔۔۔۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ رہی کہ ہائی ایس والے نے اپنی گاڑی روکی اور بھاگ کر واپس ہماری طرف آیا۔ کتے کو تکلیف میں دیکھ کر اس نے مسافروں سے کہا کہ میں فی الحال آگے نہیں جاؤں گا، جسے جلدی ہے وہ کرایہ لے لے اور چلا جائے، میں کچھ دیر ادھر ہی رکوں گا۔ کوئی دس پندرہ منٹ ہم اسے سمجھاتے بجھاتے رہے کہ آپ جائیں، گاڑی میں کافی مسافر ہیں آپ ان کا خیال کریں وہ لیٹ ہو رہے ہیں ہم اس کی دیکھ بھال کر لیں گے۔ لیکن وہ بضد رہا اور بڑی مشکل سے جانے کے لیے راضی ہوا۔ جاتے جاتے اس نے ہمیں ہزار روپے کا نوٹ پکڑانا چاہا کہ اس کو دوا اور دودھ وغیرہ دینا جو ہم نے انکار کر دیا لیکن وہ نوٹ پھینک کر چلا گیا۔

مجھے اس نوجوان پختون ڈرائیور کے چہرے کی پریشانی آج تک نہیں بھولی۔ :)
بہت اعلیٰ چوہدری صاحب۔۔۔۔۔:star2::star2::star2::star2::star2:
 
Top