اُس نے ہاتھوں میں‌مرے ایسے سما دی آنکھیں

Imran Niazi

محفلین
سلام اساتذہءِ محترم
اُس نے ہاتھوں میں‌مرے ایسے سما دی آنکھیں
جب بھی تھاما ہے قلم میں‌نے بنا دی آنکھیں

وہ بھی کیا راات کہ شب بھر نا اندھیرا دیکھا
شمع بجھنے جو لگی اُس نے جلا دی آنکھیں

لوگ جب وجہِ سخن پوچھنے آئے مجھ سے
میں‌نے چالاکی سے شعروں میں‌چھپا دی آنکھیں

ضبط کی آگ میں‌جل جائیں‌کہ راکھ ہو جائیں
اشک نہ دیکھیں‌مری ضبط کی عادی آنکھیں

ہاں‌خد و خالِ رُخِ یار نہیں‌یاد مگر
جھوٹ کہتے ہیں‌جو کہتے ہیں‌بھلا دی آنکھیں

میں‌تو مشکل سے کیئے بیٹھا تھا قابو خود پہ
یوں ہوا پھر کہ مجھے اُس نے دکھا دی آنکھیں

ہم نے آنکھوں میں‌بسایا رُخِ جاناںلیکن،
ذہن کے سارے دریچوں میں‌سجا دی آنکھیں

دل مرا سادہ و بے رنگ بہت تھا پہلے
اِک مصور نے یہاں‌آکے بنا دی آنکھیں

گل کسی طور میسر نہ ہوئے تو آخر
ہم نے جاناں‌تیرے رستے پہ بچھا دی آنکھیں

 

الف عین

لائبریرین
سانسوں کو تہ و بالا نہ ہونے دو عمران، ایسا بھی کیا!!
پہلی بات تو یہ کہ ’سما دی‘ دکھا دی‘ کے ساتھ واحد قافیہ آنا چاہیے تھا، لیکن یہاں ’آنکھیں‘ ہے، تو پھر ’دی‘ کیوں، ’دیں‘ کیوں نہیں۔
یعنی
گل کسی طور میسر نہ ہوئے تو آخر
ہم نے جاناں‌ترے رستے پہ بچھا دیں آنکھیں (ایک غور کرو، میں نے ’تیرے‘ کو ’ترے‘ سے بدل دیا ہے
لیکن اب سوال رہتا ہے ’عادی‘ قافئے کا۔ یہ ’عادیں‘ نہکیں بنایا جا سکتا ہے کہ ماضی کا فعل نہیں ہے، اسم ہے۔
اس کے علاوہ مطلع میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
اُس نے ہاتھوں میں‌مرے ایسے سما دی آنکھیں
جب بھی تھاما ہے قلم میں‌نے بنا دی آنکھیں
ہاتھوں میں دوسروں کے ذریعے کوئی چیز نہیں‌سمائی جا سکتی۔ کجا یہ کہ آنکھیں ہوں جو سمائی نہیں جا سکتیں!!! مطلع بدل دو، اور وہ ’عادی‘ والا شعر۔ باقی غزل میں ایک دو ال؎فاظ کی تبدیلی کی ضرورتے رہے گی، نہ بھی کرو تو غزل درست ہے اور اچھی ہے۔
 

Imran Niazi

محفلین
سانسوں کو تہ و بالا نہ ہونے دو عمران، ایسا بھی کیا!!
پہلی بات تو یہ کہ ’سما دی‘ دکھا دی‘ کے ساتھ واحد قافیہ آنا چاہیے تھا، لیکن یہاں ’آنکھیں‘ ہے، تو پھر ’دی‘ کیوں، ’دیں‘ کیوں نہیں۔
یعنی
گل کسی طور میسر نہ ہوئے تو آخر
ہم نے جاناں‌ترے رستے پہ بچھا دیں آنکھیں (ایک غور کرو، میں نے ’تیرے‘ کو ’ترے‘ سے بدل دیا ہے
لیکن اب سوال رہتا ہے ’عادی‘ قافئے کا۔ یہ ’عادیں‘ نہکیں بنایا جا سکتا ہے کہ ماضی کا فعل نہیں ہے، اسم ہے۔
اس کے علاوہ مطلع میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
اُس نے ہاتھوں میں‌مرے ایسے سما دی آنکھیں
جب بھی تھاما ہے قلم میں‌نے بنا دی آنکھیں
ہاتھوں میں دوسروں کے ذریعے کوئی چیز نہیں‌سمائی جا سکتی۔ کجا یہ کہ آنکھیں ہوں جو سمائی نہیں جا سکتیں!!! مطلع بدل دو، اور وہ ’عادی‘ والا شعر۔ باقی غزل میں ایک دو ال؎فاظ کی تبدیلی کی ضرورتے رہے گی، نہ بھی کرو تو غزل درست ہے اور اچھی ہے۔

o.k سر میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں مطلع اور شعر کو لکھ لیتا ہوں پھر کہیں‌استعمال و جائیگا،

بہت شکریہ
 

Imran Niazi

محفلین
سانسوں کو تہ و بالا نہ ہونے دو عمران، ایسا بھی کیا!!
پہلی بات تو یہ کہ ’سما دی‘ دکھا دی‘ کے ساتھ واحد قافیہ آنا چاہیے تھا، لیکن یہاں ’آنکھیں‘ ہے، تو پھر ’دی‘ کیوں، ’دیں‘ کیوں نہیں۔
یعنی
گل کسی طور میسر نہ ہوئے تو آخر
ہم نے جاناں‌ترے رستے پہ بچھا دیں آنکھیں (ایک غور کرو، میں نے ’تیرے‘ کو ’ترے‘ سے بدل دیا ہے
لیکن اب سوال رہتا ہے ’عادی‘ قافئے کا۔ یہ ’عادیں‘ نہکیں بنایا جا سکتا ہے کہ ماضی کا فعل نہیں ہے، اسم ہے۔
اس کے علاوہ مطلع میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
اُس نے ہاتھوں میں‌مرے ایسے سما دی آنکھیں
جب بھی تھاما ہے قلم میں‌نے بنا دی آنکھیں
ہاتھوں میں دوسروں کے ذریعے کوئی چیز نہیں‌سمائی جا سکتی۔ کجا یہ کہ آنکھیں ہوں جو سمائی نہیں جا سکتیں!!! مطلع بدل دو، اور وہ ’عادی‘ والا شعر۔ باقی غزل میں ایک دو ال؎فاظ کی تبدیلی کی ضرورتے رہے گی، نہ بھی کرو تو غزل درست ہے اور اچھی ہے۔

o.k سر میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہوں مطلع کو
اور شعر کو لکھ لیتا ہوں پھر کہیں‌استعمال ہو جائیگا،

بہت شکریہ
 

Imran Niazi

محفلین
سانسوں کو تہ و بالا نہ ہونے دو عمران، ایسا بھی کیا!!
پہلی بات تو یہ کہ ’سما دی‘ دکھا دی‘ کے ساتھ واحد قافیہ آنا چاہیے تھا، لیکن یہاں ’آنکھیں‘ ہے، تو پھر ’دی‘ کیوں، ’دیں‘ کیوں نہیں۔
۔

لیکن سر مجھے اِس طرح سے کچھ مناسب نہیں‌لگ رہی۔
اور ایسے پڑھنے والے کو بھی مشکل ہو گی،
کیونکہ اگر 'دی' بھی پڑھیں تو کچھ بھی عجیب نہیں‌ لگتا لیکن اگر 'دیں‌' پڑھیں تو کچھ مشکل سا لگتا ہے
یہ میرا خیال ہے آپ کی رائے میں‌'دیں' ضروری ہے کہ بس ہو جائے تو ٹھیک ؟؟؟؟/
 

الف عین

لائبریرین
اردو صرف و نحو کا قاعدہ تو یہی ہے، اب پنجابی یا بلوچی یا کہیں اور کچھ اور محاورہ ہو، اس لحاظ سےتم کو پسند ہو تو اور بات ہے۔ گرامر میں تو ’دیں‘ ہی آنا چاہیے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میں‌تو مشکل سے کیئے بیٹھا تھا قابو خود پہ
یوں ہوا پھر کہ مجھے اُس نے دکھا دی آنکھیں
بہت خوب اردو محاورہ کا خوب استعمال کیا ہے لاجواب
 

آبی ٹوکول

محفلین
اُس نے تصور میں میرے یوں سما دیں آنکھیں
جب بھی تھاما ہے قلم میں ‌نے بنا دیں آنکھیں
اگر یوں ہوجائے توووووووو :nailbiting:
 

مغزل

محفلین
میں نے صرف عنوان ہی دیکھا تھا کہ ’’ دی ‘‘ اور ’’ آنکھیں ‘‘ پر کھٹک گیا، سوچا کہ ٹائپو ہوگا مگر غزل دیکھی تو آوے کا آوا ہی دی کے سانچے میں ہے،۔
بابا جانی ، بہت شکریہ آپ نے تفصیل سے بات کی، اب یہ عمران نیازی صاحب پر منحصر ہے کہ ۔ وہ اپنی استعدادِ علمی کی بنیاد پر ’’ دِیں ‘‘ کو ’’ دی ‘‘ ہی روا رکھیں،
بہر کیف ، عمران نیازی صاحب ، رسید حاضر ہے ، کلام پر کیا کہوں کہ خود کو جاہل پاتا ہوں۔ ( ویسے میری رائے بابا جانی کی رائے میں ہی ہے )
 

Imran Niazi

محفلین
میں نے صرف عنوان ہی دیکھا تھا کہ ’’ دی ‘‘ اور ’’ آنکھیں ‘‘ پر کھٹک گیا، سوچا کہ ٹائپو ہوگا مگر غزل دیکھی تو آوے کا آوا ہی دی کے سانچے میں ہے،۔
بابا جانی ، بہت شکریہ آپ نے تفصیل سے بات کی، اب یہ عمران نیازی صاحب پر منحصر ہے کہ ۔ وہ اپنی استعدادِ علمی کی بنیاد پر ’’ دِیں ‘‘ کو ’’ دی ‘‘ ہی روا رکھیں،
بہر کیف ، عمران نیازی صاحب ، رسید حاضر ہے ، کلام پر کیا کہوں کہ خود کو جاہل پاتا ہوں۔ ( ویسے میری رائے بابا جانی کی رائے میں ہی ہے )

تو جناب اگر آپ کی اور اعجاز صاحب کی یہی رائے ہے تو میں تو کہاں نا ماننے کی گستاخی کر سکتا ہوں جی ؟
 
سلام اساتذہءِ محترم


وہ بھی کیا رات کہ شب بھر نا اندھیرا دیکھا
شمع بجھنے جو لگی اُس نے جلا دی آنکھیں

میں‌تو مشکل سے کیئے بیٹھا تھا قابو خود پہ
یوں ہوا پھر کہ مجھے اُس نے دکھا دی آنکھیں

گل کسی طور میسر نہ ہوئے تو آخر
ہم نے جاناں‌تیرے رستے پہ بچھا دی آنکھیں


خوبصورت غزل ہے، مبارک ہو
 
Top