اُردو کی سب سے پہلی شاعرہ "چندا"

کاشفی

محفلین
اُردو کی سب سے پہلی شاعرہ (1929ء کی تحریر ہے)
چندا

اُردو کے ساتھ جہاں اور بے اعتنائیاں کی گئیں وہاں یہ ظلم بھی کیا گیا کہ کسی نے کوئی عمدہ اور سنجیدہ تذکرہ اردو شعر کہنے والی عورتوں کا آجتک نہیں لکھا۔ لالہ سری رام نے" خمخانہء جاوید"، مولوی عبدالحئی نے "گلِ رعنا"، مولوی عبدالسلام نے "شعرالہند" اور مختلف اصحاب نے مختلف طریقوں سے انتخابات تذکرے وغیرہ لکھ کر مردوں کی شاعری کی تدریجی ترقی ظاہر کی مگر عورتوں کی شعر گوئی کی طرف کوئی نظر اعتنا نہیں کی گئی۔ گذشتہ پچاس برس کے عرصے میں بعض لوگوں نے اردو فارسی شعر کہنے والی عورتوں کے اکثر تذکرے لکھے مگر اسی پرانی طرز اور اسی قدیم روش پر جدید طریقے سے کسی نے بھی روشنی نہیں ڈالی۔ حال میں نولکشور پریس سے ایک تذکرہ اردو فارسی شعر کہنے والی عورتوں کا شایع ہوا ہے۔ مگر بالکل ناقص اور بیحد غلط سلط۔ ہم نے ڈیڑھ سال کی محنت میں اس کے متعلق کافی مواد جمع کر لیا ہے۔ اور تلاش جاری ہے۔ انشاء اللہ بشرط حیات ایک مستقل تذکرہ شایع کر کے مردوں کے دامن سے بے اعتنائی کے داغ کو مٹانے کی کوشش کروں گا۔

جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے اردو میں سب سے پہلے خاکی دکنی کی بیوی نے شعر کہے ہیں۔ اور دوسری چند عورتوں نے بھی۔ مگر اردو زبان میں دیوان ترتیب دینے کا فخر "ماہ لقابائی چندا" اور صرف چندا کو حاصل ہے۔ چندا کون تھی۔ یہ ایک آسان سوال ہے۔ مگر اس کا تشفی بخش جواب ذرا ٹیڑہی کھیر ہے۔ تقریباَ تمام تذکرے نویسوں نے اس خصوص میں بدحواسیاں کی ہیں۔ کسی نے چندا اور ماہ لقا کو الگ الگ شاعرہ قرار دیا ہے۔ کسی نے کچھ اور بدحواسی کی ہے۔ بہر حال ایک اچھا خاصا مواد اس کے متعلق جمع ہوگیا ہے۔
1847ء میں منشی کریم الدین نے "طبقات الشعراء ہند" لکھی تو انہوں نے غالباَ ہندوستان کو سب سے پہلے چندا کو روشناس کرایا۔ لکھتے ہیں کہ:

چندا: تخلص معشوقہ شیریں شمائل نیکو خصائل محبوبہء بازاری، رقاصہء روشن اندام مہ لقا نام کا ہے ۔ کہتے ہیں کہ یہ حیدر آباد میں نہایت ترفہ تنعم سے ایّام بسر کرتی ہے۔ قریب پانسو آدمی سپاہی اور شاگرد پیشہ وغیرہ کے لازم رکھتی ہے۔ اور عشوہ و ناز سے آدمیوں کو چھین لے جاتی ہے۔ لیکن سر اس کا کسی سے نیچا نہیں ہوتا۔ شعراءدوں مزاج اس کے مداح میں اشعار کہہ کر لیجاتے ہیں۔ جائزات اچھی پائی ہے۔ اور وہ بطور مردوں کے ورزش کرتی ہے۔ گھوڑا دوڑاتی ہے۔ اور تیراندازی اور نیزہ بازی سے میدان میں مشغول ہوتی ہے۔ غرض کہ نہایت ہوشمند پختہ کار نادر العصر اور عجوبہء روزگار ہے۔ اور دیوان اکثر انواع سخن کے رکھتی ہے اور اپنی فکر کے عروسوں کا نظرِ شیر محمد خان ایماں سے گذارتی ہے۔ یہ دوبیت اس کے جو میرے ہاتھ آئیں ہیں لکھتا ہوں صاحبِ دیوان ہے ایک جلد اس کی سرکار کمپنی کے کتب خانہ میں درمیاں انگلینڈ کے موجود ہے۔ یہ کتاب اپنے ناچ میں کپتان ملکم صاحب کو اس نے بطور نذر پہلی اکتوبر 1799ء کو دی تھی۔
(دیکھو طبقات الشعراء ھند منشی عبدالکریم صفحہ 327)

اسی تذکرے میں ماہ لقا حال دیکھئے تو غریب چندا عورت کی بجائے مرد نظر آتی ہے ۔ لکھا ہے کہ:

ماہ لقا: مصنف ایک دیوانِ اردو کا جس کی ایک جلد حیدرآباد کے راجہ چند دلال کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ اور ایک بڑی دلچسپ مثنوی بنام "قصہ خاور شاہ" جو دکنی زبان میں شاہ عالم کے وقت میں تصنیف کی تھی اس میں اس کی مدح اور صوبہ دار کی بھی اور صوبےکی جہاں وہ تصنیف ہوئی ہے۔
(دیکھو صفحہ 136)

دراصل دیوان اور مثنوی دونوں کا تذکرہ کرنے میں غلطی کی ہے مثنوی ایک اور شخص کی ہے جس کے نام کا ایک جزو "ماہ" ضرور ہے مگر ماہ لقا نہیں ۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔)
 

مغزل

محفلین
بہت خوب کاشفی بھائی ۔۔ سلامت رہیں ۔۔ ہوسکے تو مزید کلام بھی عطا کیجے گا۔۔ سلامت رہیں
 
Top