اوہ تیری خیر

عباس اعوان

محفلین
ملاحظہ ہو:
x2562644_75321982.jpg.pagespeed.ic._W6bFhttnm.jpg

دنیا نیوز: سوموار 22 اگست 2016۔
 
آخری تدوین:

سعادت

تکنیکی معاون
نجانے ہم پاکستانی satire اور حقیقت میں فرق کرنا کب سیکھیں گے…

گوگل کرنے پر وَن‌ٹینمنٹ نامی ایک بلاگ کی پوسٹ ملی ہے جس میں امریکہ کی جانب سے ویزا استثنیٰ پروگرام میں پاکستان کو شامل کیے جانے کے اعلان کا ذکر ہے (پوسٹ کے میٹا‌ڈیٹا کے مطابق اسے ۱۹ جنوری، ۲۰۱۶ کو شائع گیا تھا جبکہ آخری تدوین ۲۰ اگست، ۲۰۱۶ کو ہوئی)۔ وَن‌ٹینمنٹ کے تعارفی صفحے پر جائیں تو پہلی سطر ہی میں لکھا ہے کہ یہ ایک طنزیہ بلاگ ہے۔ تھوڑا سا مزید نیچے جائیں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی تمام خبریں فرضی ہوتی ہیں۔

روزنامہ دنیا کو تو ’صحافت‘ کے اس شاندار نمونے پر کوئی ایوارڈ ملنا چاہیے۔
 

عباس اعوان

محفلین
نجانے ہم پاکستانی satire اور حقیقت میں فرق کرنا کب سیکھیں گے…

گوگل کرنے پر وَن‌ٹینمنٹ نامی ایک بلاگ کی پوسٹ ملی ہے جس میں امریکہ کی جانب سے ویزا استثنیٰ پروگرام میں پاکستان کو شامل کیے جانے کے اعلان کا ذکر ہے (پوسٹ کے میٹا‌ڈیٹا کے مطابق اسے ۱۹ جنوری، ۲۰۱۶ کو شائع گیا تھا جبکہ آخری تدوین ۲۰ اگست، ۲۰۱۶ کو ہوئی)۔ وَن‌ٹینمنٹ کے تعارفی صفحے پر جائیں تو پہلی سطر ہی میں لکھا ہے کہ یہ ایک طنزیہ بلاگ ہے۔ تھوڑا سا مزید نیچے جائیں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی تمام خبریں فرضی ہوتی ہیں۔

روزنامہ دنیا کو تو ’صحافت‘ کے اس شاندار نمونے پر کوئی ایوارڈ ملنا چاہیے۔
روزنامہ ایکسپریس اور روزنامہ جنگ میں بھی یہی خبر ہے۔
ایکسپریس:
1103704004-1.gif


جنگ:

515.gif
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
نجانے ہم پاکستانی satire اور حقیقت میں فرق کرنا کب سیکھیں گے…

گوگل کرنے پر وَن‌ٹینمنٹ نامی ایک بلاگ کی پوسٹ ملی ہے جس میں امریکہ کی جانب سے ویزا استثنیٰ پروگرام میں پاکستان کو شامل کیے جانے کے اعلان کا ذکر ہے (پوسٹ کے میٹا‌ڈیٹا کے مطابق اسے ۱۹ جنوری، ۲۰۱۶ کو شائع گیا تھا جبکہ آخری تدوین ۲۰ اگست، ۲۰۱۶ کو ہوئی)۔ وَن‌ٹینمنٹ کے تعارفی صفحے پر جائیں تو پہلی سطر ہی میں لکھا ہے کہ یہ ایک طنزیہ بلاگ ہے۔ تھوڑا سا مزید نیچے جائیں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی تمام خبریں فرضی ہوتی ہیں۔

روزنامہ دنیا کو تو ’صحافت‘ کے اس شاندار نمونے پر کوئی ایوارڈ ملنا چاہیے۔
اوہ تیری خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔:)
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

ایسی بہت سے سائٹس ہیں جہاں پر عجیب و غریب قسم کی خبریں شائع ہوتی ہیں جسے عام شہری سچ سمجھ لیتا ہے، پھر بھی اگر ایسا ہو تو
"سفری اجازت کے لئے الیکٹرونی سسٹم کے ذریعے اجازت حاصل کرنا ہو گی"
یہ بھی ویزہ ہی ہے، جیسے ترکی وزٹ پر جانے کے لئے ایسا کرنا پڑتا ہے اور اپروول ملنے پر 1 منٹ میں وہ اجازت نامہ/ ویزہ کاپی آپکو میل میں ارسال کر دیتے ہیں اگر نہیں تو رفیوز یا لیٹ رزلٹ پر انتظار فرمائیں۔ امریکہ کے ویزہ پر 2011 سے پہلے تک ویزہ پراسس بہت آسان تھا، صرف دوخواست جمع کروانی پڑتی تھی اور اسی وقت کاؤنٹر پر نام اور وزٹ کی وجہ پوچھنے پر 3 مہینے یا 5 سال کا ویزہ ملتا تھا یا بغیر فیس کے رفیوز کر دیا جاتا تھا، دوسرے ممالک پر ایسا نہیں تھا بےشمار ریکوائرڈ ڈاکومنٹینس مانگے جاتے تھے، طویل انٹرویو اور فیس بھی، ویزہ نہ ملنے پر فیس ضائع ہو جاتی تھی۔

والسلام
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
نجانے ہم پاکستانی satire اور حقیقت میں فرق کرنا کب سیکھیں گے…

گوگل کرنے پر وَن‌ٹینمنٹ نامی ایک بلاگ کی پوسٹ ملی ہے جس میں امریکہ کی جانب سے ویزا استثنیٰ پروگرام میں پاکستان کو شامل کیے جانے کے اعلان کا ذکر ہے (پوسٹ کے میٹا‌ڈیٹا کے مطابق اسے ۱۹ جنوری، ۲۰۱۶ کو شائع گیا تھا جبکہ آخری تدوین ۲۰ اگست، ۲۰۱۶ کو ہوئی)۔ وَن‌ٹینمنٹ کے تعارفی صفحے پر جائیں تو پہلی سطر ہی میں لکھا ہے کہ یہ ایک طنزیہ بلاگ ہے۔ تھوڑا سا مزید نیچے جائیں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی تمام خبریں فرضی ہوتی ہیں۔

روزنامہ دنیا کو تو ’صحافت‘ کے اس شاندار نمونے پر کوئی ایوارڈ ملنا چاہیے۔
متفق، آج صبح ہی ایک دوست نے یہ خبر بھیج کر تصدیق چاہی تھی، میں نے اسے یہی مشورہ دیا کہ بی بی ابھی اپنا بیگ پیک مت کرنا کہ جس اخبار کی خبر ہے، اس کا نام ہی کافی ہے
 

عباس اعوان

محفلین
متفق، آج صبح ہی ایک دوست نے یہ خبر بھیج کر تصدیق چاہی تھی، میں نے اسے یہی مشورہ دیا کہ بی بی ابھی اپنا بیگ پیک مت کرنا کہ جس اخبار کی خبر ہے، اس کا نام ہی کافی ہے
لطف تو یہ ہے کہ باقی اخبارات نے بھی یہی خبر چھاپی ہے۔
:)
 

تجمل حسین

محفلین
جنگ اور ایکسپریس میں خبر کا عنوان بھی ایک۔ ۔ ۔
تم قتل کروہو کہ کرامات کرو ہو
اصل میں صحافی حضرات نے بیک وقت کئی کئی اخبارات کی ممبرشپ حاصل کی ہوتی ہے۔ اس لیے جو خبر ایک اخبار کو بھیجتے ہیں وہی خبر سبھی اخبارات کو بھیج دیتے ہیں۔ یوں بالکل ایک جیسے الفاظ کی خبر زیادہ اخبارات میں شائع ہوجاتی ہے۔ :)
 

عباس اعوان

محفلین
اصل میں صحافی حضرات نے بیک وقت کئی کئی اخبارات کی ممبرشپ حاصل کی ہوتی ہے۔ اس لیے جو خبر ایک اخبار کو بھیجتے ہیں وہی خبر سبھی اخبارات کو بھیج دیتے ہیں۔ یوں بالکل ایک جیسے الفاظ کی خبر زیادہ اخبارات میں شائع ہوجاتی ہے۔ :)
معلوماتی۔
لیکن خبروں کی تصدیق کرنا، صحافی، اور ایڈیٹرز کا کام نہیں ہے ؟
 
Top