اور پھر ہوا یوں کہ ہم نے ترقی کر لی

رباب واسطی

محفلین
اور پھر ہوا یوں کہ ہم نے ترقی کر لی۔۔۔۔!!!!
پہلے ماں کی نظریں بتا دیتی تھی کہ غلطی کر رہے ہیں اور سزا ملے گی پھر ہم نے ترقی کر لی اور ماں موم (Mom) بن گئیں اتنی موم ہو گئی کہ اچھے برے کا فرق بتانے کے لیے سختی کرنا بھول گئیں۔۔۔!!!
پہلے شام ہوتے ہی ابو کے آنے کا انتظار ہوتا تھا پھر ہم نے ترقی کر لی اور ابو ڈیڈ(Dad) بن گے اور جنریشن گیپ کے نام پہ یہ رشتہ ہی ڈیڈ(Dead) ہو گیا۔۔۔!!!
پہلے پھوپھو کے آنے پہ بہترین بستر بہترین برتن نکالے جاتے تھے بتایا جاتا تھا یہ ابو کی بہن ہیں تو یہ گھر ان کا بھی ہے پھر ہم نے ترقی کر لی اور پتہ چلا پھوپھو فساد اور فتنہ ہے۔۔۔!!!
پہلے تعلیم حاصل کی جاتی تھی جو عموماً نظر آتی تھی پھر ہم نے ترقی کر لی اور ڈگریاں لینے لگے پر تعلیم کہیں گم ہو گئی۔۔۔!!!
پہلے محلہ کے لوگوں میں آنا جانا تھا روز حثیت کے مطابق کھانا پھل ایک دوسرے کو دیئے جاتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور پڑوسی بھوک سے خودکشی کرنے لگے بچے بیچنے لگے۔۔۔!!!
پہلے عید اور دیگر تہوار ماں باپ اور خاندان میں گزرتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور عید تہوار دوستوں بازاروں میں گزارنے لگے۔۔۔!!!
پہلے شادی بیاہ کے معاملات خاندان کے بڑے طے کرتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور پسند کی شادی کے لئے گھر سے بھاگنے لگے۔۔۔!!!
پہلے شادی شدہ بیٹی کو صبر اور خدمت کی تلقین کی جاتی تھی پھر ہم نے ترقی کر لی اور برانڈڈ سوٹ اور سمارٹ فون افورڈ نہ کرنے والے شوہر سے علیحدگی ہو سکتی ہے۔۔۔!!!
پہلے شوہر سے جھگڑا کرنے والی بیوی رات کو شوہر کی واپسی تک جھگڑا بھول چکی ہوتی تھی پھر ہم نے ترقی کر لی اور چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کی خبریں واٹس ایپ گروپوں میں شیئر ہونے لگی اور جھگڑے طول پکڑتےگئے۔۔۔!!!
پہلے شادی سے پہلے منگیتر سے ملنا غلط تھا پھر ہم نے ترقی کر لی اور انڈرسٹینڈنگ کے لیے بات ہونے لگی۔۔۔!!!
پہلے گھر میں بھی پردہ کرنا سیکھایا جاتا تھا پھر ہم نے ترقی کر لی اور سب کزنز ہو گئے....!!!
پہلے پردے لیے چادریں اور برقعے ہوتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور پردہ نظروں میں آگیا ۔۔۔!!!
پہلے بزرگ گھر کی رونق ہوتے تھے پھر ہم نے ترقی کر لی اور وہ بوجھ بن گئے۔۔۔!!!!
اور پھر ہوا یوں کہ ہم نے ترقی کر لی۔۔۔۔!!!

وٹس ایپ کاپی
 
پہلے جب بچہ روتا تھا تو اسے لوری گنگنا کر بہلایا جاتا تھا اور آج کل روتے ہوئے بچے کو موبائل ایسے تھما دیا جاتا ہے جسے ایمرجنسی وارڈ میں مریض کو آکسیجن کی ضرورت ہو۔
 
پہلے جب کوئی بزرگ گھر یا کمرے میں تشریف لاتے تھے تو ان کے احترام میں باادب کھڑے ہوا جاتا تھا اور اب ان کے احترم میں موبائل کی ہینڈ فری کانوں سے اتاری جاتی ہے ۔
 

احمد محمد

محفلین
موجودہ صورتِ حال کی عکاسی نہایت عمدہ کی ہے۔ یا یوں کہیئے کہ آپ احباب نےبالکل بجا فرمایا۔

مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسی باتیں تقریباً سبھی کے علم میں ہوتی ہیں اور سبھی لوگ وقتاً فوقتاً اس کا اقرار بھی کرتے ہیں اور مناسب مواقع پر اسکا پرچار ںھی کرتے رہتے ہیں۔ اور پھر سماج کو کوستے ہیں کہ کوئی عمل ہی نہیں کرتا۔

شاید معاشرہ میں اس لیے بہتری نہیں آتی کیونکہ کہ ہم ہر معاملہ میں خود کو استشنیٰ دے کر پہلے ہی مِنہا کر لیتے ہیں اور دوسروں سے عمل کی توقع کرتے ہیں۔
 
موجودہ صورتِ حال کی عکاسی نہایت عمدہ کی ہے۔ یا یوں کہیئے کہ آپ احباب نےبالکل بجا فرمایا۔

مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسی باتیں تقریباً سبھی کے علم میں ہوتی ہیں اور سبھی لوگ وقتاً فوقتاً اس کا اقرار بھی کرتے ہیں اور مناسب مواقع پر اسکا پرچار ںھی کرتے رہتے ہیں۔ اور پھر سماج کو کوستے ہیں کہ کوئی عمل ہی نہیں کرتا۔

شاید معاشرہ میں اس لیے بہتری نہیں آتی کیونکہ کہ ہم ہر معاملہ میں خود کو استشنیٰ دے کر پہلے ہی مِنہا کر لیتے ہیں اور دوسروں سے عمل کی توقع کرتے ہیں۔
بھائی بات دراصل یہ بھی ہے کہ ہم تبلیغ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور اسی تبلیغ پر عمل کرنا ہمارے لیے گویا ایسا ہوتا ہے جیسے چین کا سفر پیدل طے کرنا ۔ ہم نیک کمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اب عمل سے نیکی کمانا مشکل ہے تو زبان کے ذریعے ہی نیکی کمالیں۔
 

احمد محمد

محفلین
بھائی بات دراصل یہ بھی ہے کہ ہم تبلیغ کرنا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور اسی تبلیغ پر عمل کرنا ہمارے لیے گویا ایسا ہوتا ہے جیسے چین کا سفر پیدل طے کرنا ۔ ہم نیک کمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اب عمل سے نیکی کمانا مشکل ہے تو زبان کے ذریعے ہی نیکی کمالیں۔

یہ بھی آپ نے درست فرمایا۔ مگر ہم صرف ادنیٰ درجات ہی کے کیوں متلاشی ہوتے ہیں۔؟

براہِ راست مناسبت تو شاید نہ ہو مگر فیض صاحب کا ایک شعر یاد آگیا۔۔

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو۔۔۔
 
یہ بھی آپ نے درست فرمایا۔ مگر ہم صرف ادنیٰ درجات ہی کے کیوں متلاشی ہوتے ہیں۔؟

براہِ راست مناسبت تو شاید نہ ہو مگر فیض صاحب کا ایک شعر یاد آگیا۔۔

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو۔۔۔
بھائی سائنسدان کہتا ہے کہ دنیا گول ہے تو بات جہاں سے چلی وہاں ہی آگئی ، ہمیں اصلاح سب سے پہلے اپنی ذات گرامی سے شروع کرنی چاہیے ۔ بے شک اصلاح کا راستہ کٹھن اور دشوار گزار تو ہے اگر ہماری مسلسل جہدوجہد سے معاشرہ سدھار نہ بھی سکا تو اتنا ضرور ہوگا کہ ہم ضرور سدھر جائیں گے ،ان شاء اللہ
 

احمد محمد

محفلین
بھائی سائنسدان کہتا ہے کہ دنیا گول ہے تو بات جہاں سے چلی وہاں ہی آگئی ، ہمیں اصلاح سب سے پہلے اپنی ذات گرامی سے شروع کرنی چاہیے ۔ بے شک اصلاح کا راستہ کٹھن اور دشوار گزار تو ہے اگر ہماری مسلسل جہدوجہد سے معاشرہ سدھار نہ بھی سکا تو اتنا ضرور ہوگا کہ ہم ضرور سدھر جائیں گے ،ان شاء اللہ
ان شاء اللّٰہ
 
Top